پاکستان میں گزارے چار دنوں کی رُوداد

یہ سطور 16 فروری کو لکھی جا رہی ہیں جو اگلے ہفتے بروز منگل شائع ہوںگی۔ چھ ہزار میل کے طویل فاصلے کی وجہ سے یہ کالم اشاعت سے کم از کم ایک ہفتہ پہلے لکھا جاتا ہے۔ اُمید ہے کہ میرے قارئین کواس کے باسی ہو جانے کا کبھی احساس نہ ہوا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے دُوسرے (اور زیادہ اچھے) کالم نگاروں کے برعکس میں پوری کوشش کرتا ہوںکہ اُن خبروں پر تبصرہ کرنے سے احترازکروں جن کے بارے میں پڑھ پڑھ اور سُن سُن کر میرے قارئین کا سر پہلے ہی چکرا رہا ہوگا۔ میرا منصب یہ ہرگز نہیں کہ میں آپ کے ہاتھ اسپرین کی طرف بڑھنے اوردرد سرکا مداوا کرنے پر مائل کروں۔ یہ کالم نگار اپنے آپ کو بجا طور پر خوش قسمت سمجھے گا اگر میرے قارئین اس کالم کو دلچسپ، معلومات افزا اور شگفتہ سمجھ کر پڑھتے ہیں اور وہ بھی ہر منگل کو ناغہ کیے بغیر۔ یقین جانیے کہ مجھے یہ سطور لکھتے وقت ہمیشہ یہی لگتا ہے کہ میں اتنے گہرے سمندروں اوراُونچے پہاڑوں پر پھیلے ہوئے ہزاروں میل کے فاصلے کے باوجود آپ کے سامنے بیٹھا ہوں اورآپ سے باتیں کر رہا ہوں۔ 
ہفتہ پہلے میں واقعتاً آپ میں سے چند ایک کے ساتھ بالمشافہ ہم کلام تھا۔ 5 فروری کی شب اپنی رفیقہ حیات اور بڑے بیٹے (جو پندرہ برس کی کامیاب وکالت سے ریٹائر ہو کر اب پیانو بجاکر زیادہ اچھا وقت گزارتا ہے)کے ساتھ پی آئی اے کی پرواز پر روانہ ہوا۔ اگلے دن صبح کو لاہور پہنچا تو سُہانی دھوپ دیکھ کر دل خوش ہوگیا۔ چاردن کے مختصر اور مصروف قیام کے دوران بہت سے کام کیے جن میں سے پانچ قابل ذکر ہیں۔ (1) مسلسل تین شامیں شادی کی تین تقریبات میں شریک ہوکر عزیز واقربا سے ملاقات ۔ ہماری سماجی بدنظمی کا یہ عالم ہے کہ اگر سرکاری حکم کے مطابق ہال کی بتیاں دس بجے نہ بجھائی جاتیں تو پہلے کی طرح بارات نصف شب کو آتی۔ (2) جوہر ٹائون، لاہور میں ہونے والی کتابوںکی بین الاقوامی نمائش میں 40کلو وزنی اور بہت اچھی کتابوں کی خریداری ۔ (3) لاہور ہائی کورٹ میں وُکلا کے اجلاس میں شرکت کے باوجود ہائی کورٹ بارکی انتخابی مہم سے دُور رہنے کے فیصلے پر ثابت قدم رہا۔ اس احتجاجی بائیکاٹ کی وجہ یہ تھی کہ برطانیہ میں بارکے انتخابات گزشتہ چھ سو سال میں نہیں ہوئے۔ تمام عہدے دار بلا مقابلہ منتخب ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے برعکس، یہاں ہم عہدے داروں کے پیچھے بھاگتے ہیں تاکہ اُنہیں یہ خدمت رضاکارانہ طو رپرکرنے اور پیشہ ورانہ مصروفیات میں ہمارے لیے وقت نکالنے پرآمادہ کر سکیں۔ برطانیہ میں انتخابی مقابلے کو بارکے وقارکے منافی سمجھا جاتا ہے۔(4) عوام دوستوں، سیاسی کارکنوں، دانشوروں اور محنت کشوں کے اجلاس میں شریک ہونااس لیے غیر معمولی خوشی کا باعث بنا کہ گذشتہ 25برسوں میں ہونے والے اَن گنت اجلاس محض نشستند،گفتند، برخاستندکا تکلیف دہ تجربہ دُہراتے تھے۔ مجھے خوشی سے زیادہ حیرت ہوئی کہ 7 فروری کے مبارک دن متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیاکہ ''تحریک عوامی حقوق‘‘ کے نام سے کام شروع کیا جائے جس کا مقصد آئین کے مکمل اور یکساں نفاذکے یک نکاتی ایجنڈے پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنا اور رائے عامہ کو ہموارکرنا ہوگا۔(5) لاہورکا ذکر خور و نوش کے تذکرے کے بغیر ہرگز ممکن نہیں۔ ایک صحافی دوست نے اپنے نئے اور بہت خوبصورت گھر شرف مہمانی بخشا اورگلابی رنگ کی شاندارکشمیری چائے پلائی جس کی مثال دے کر میں اپنے انگریز دوستوں میں احساس کمتری پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کرتا ہوں۔ایک شام بچ گئی جو لاہورکے جم خانہ میں گزری۔ ذوالفقار علی بھٹو کا اقتدار اپنے عروج پر تھا تو ایک وکیل (جو ساہیوال کے سابق ڈپٹی کمشنر تھے) نے 'پنجاب پنچ‘ کے نام سے ہفت روزہ شائع کر کے ان کی آمریت کو للکارا اورکئی ماہ قید بامشقت بھگتی۔ جیل میں اُن قیدیوں نے مروّتاً اُن کی چکی چلائی جنہیں یہ موصوف چند سال پہلے بطور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سزا دے کر جیل بھیج چکے تھے۔ مجرموںکا یہ ٹولہ جیل میں اُنہیں صاحب کہہ کر بڑی عزت سے پکارتا تھا۔ میرے اس مرحوم اور پیارے دوست کا نام مظفر قادر تھا۔ اُن کی ایک بیٹی اور داماد برطانیہ سے آنے والے تین مہمانوں کی میزبان تھے۔ جم خانہ میں جو دو تین گھنٹے گزرے وہ ناقابل فراموش تھے۔ وہاں کا عملہ مجھے کوئی بڑا افسر سمجھ کر جُھک جُھک کر سلام کرتا تھا۔ برطانیہ میں نہ میں کورنش بجا لاتا ہوں اور نہ ہی کوئی شخص میرے ماتحت ہے جو مجھے جھک کر سلام کرے۔ جم خانہ میں گزرے ہوئے لمحات میں آپ کا یہ کالم نگار محنت کش عوام (جن سے عمر بھرکا تعلق اُس کا سرمایہ حیات ہے) سے عارضی طور پرکٹ کر اشرافیہ کا حصہ بنا رہا۔ یوں محسوس ہوتا تھاکہ میں کسی ڈرامہ میں اداکاری کے جوہر دکھا رہا ہوں۔ جم خانہ میں حکمران طبقہ کے جو لوگ میرے ہم پیالہ و ہم نوالہ تھے،اُنہیں وہم وگمان نہ ہوگا کہ اُس شام ان کی صفوں میں اُن کا طبقاتی مخالف براجمان ہے جو سارا وقت یہ سوچ رہا ہے کہ مَر مَرکی سلوں سے ناخوشی کب اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی؟ مٹی کا نیا حرم کب بنے گا؟ اور وہ بنائے گاکون؟ آپ جانتے ہیں کہ دہلی میں تو عام آدمی پارٹی اقتدار پر قابض ہوگئی ہے، مگر ایک فارسی محاورے کے مطابق ہمارے لیے ابھی دلی دُور ہے۔ یہ تو تھی دماغ کی بات۔ دل کہتا ہے کہ دلی اتنی دُور بھی نہیں، معجزہ رُونما ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ جانتا ہوں کہ (بقول فیض) اب ہمیں رسم دُعا یاد نہیں رہی، لیکن میں اپنے قارئین کی خدمت میں درخواست توکر سکتا ہوں کہ وہ میرے ساتھ مل کر دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھائیں۔ 
سو سال پہلے برطانوی راج کے خلاف رزم آرا سیاسی جماعت کا نام (ولبھ بھائی پٹیل کی)کانگرس کی بجائے (سبھاش چندر بوس کی) عام آدمی پارٹی ہوتا تو قائداعظم کو پاکستان بنانے کا مطالبہ کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ تنگ نظر ہندو مہاسبھائی ذہنیت نے پہلے تقسیم ہند میں ڈنڈی ماری اور آزادی کے صرف 24 سال بعد پاکستان کے حکمرانوں کی فسطائی ذہنیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو توڑ ڈالا۔ بدقسمتی سے دونوں بار ملک ٹوٹ جانے کا عمل لاکھوں بے گناہوں کے قتل عام کا باعث بنا۔کئی برساتیں آکر گزرگئیں، مگر خون کے دھبے ہیںکہ دُھل جانے کا نام نہیں لیتے۔
میں برطانیہ سے کسی بھی ملک جائوں تو میرے اندر سویا ہوا مستنصر حسین تارڑ جاگ اٹھتا ہے اور میں آپ کو دُور دیس کے قصے، جو میری پوری کوشش کے باوجود (تارڑکے سفر ناموں جتنے رنگین نہیں ہوتے اور نہ ہو سکتے ہیں) سُنانے سے باز نہیں آتا۔ اپنے ہر غیر ملکی سفرکے دوران مجھے یوں لگتا ہے کہ میں اپنے قارئین کا گشتی سفیر ہوں، یعنی ع آنکھیں میری باقی اُن کا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ میں جو کچھ دیکھوں اُس کی مختصر رپورٹ اپنے قارئین تک ضرور پہنچائوں، رپورٹ بھی ایسی جو بلا کم وکاست ہو، ہمارے لیے باعث فکر ہو اور ہم اُس سے کوئی مفید نتیجہ اخذکر سکیں۔ اس بار میرا ارادہ تھا کہ گورنر ہائوس چودھری محمد سرور سے ملنے اورکافی پینے جائوں ۔ شو مئی قسمت کہ وہ میرے جانے سے چند روز پہلے مستعفی ہوکر برطانیہ چلے آئے۔ میں یہاں اُنہیں اس لیے نہ مل سکا کہ خود چار دن کے لیے پاکستان چلاگیا۔ جب پاکستان سے واپس آیا توآنکھ مچولی کا یہ کھیل ایک قدم اورآگے بڑھا اور وہ یوںکہ سرور صاحب برطانیہ سے پاکستان چلے گئے۔ یوں ملاقات کی خواہش دل میں رہ گئی۔ میں ان سے تو بات نہ کرسکا، آپ کے کان میں سرگوشی کئے دیتا ہوں۔ میرے خیال میں بہتر ہوتا کہ چودھری محمد سرور ایک سیاسی جماعت (اُس کی خوبیوں اور خامیوں سے قطع نظر) میں شامل ہونے کے بجائے عوام دوستوں کے ترجمان اور قوم کے ضمیرکی آواز بن کر ساری قوم کی قیادت کرتے۔ اس وقت ہمیں سب سے زیادہ ضرورت قومی اتفاق رائے کی ہے اور یہ تاریخی کردار صرف چودھری محمد سرور (یا ایک اور چودھری جن کا نام افتخار محمد ہے) ادا کر سکتے تھے۔ چیف جسٹس کی طرح گورنر بھی سرکاری ملازم ہوتا ہے جو ملازمت چھوڑنے کے دو سال تک سیاسی عہدہ نہیں لے سکتا۔
کالم کا عنوان ہے یورپ کی ڈائری مگر آج کے اس کالم کا عنوان پاکستان میں گزارے سوگھنٹے ہیں۔ اُمید رکھتا ہوںکہ دُنیا اخبارکے فاضل مدیر میرے کالم کے عنوان اور مندرجات کے درمیان تفاوت کو درگزر فرمائیں گے اور میرے اہل وطن کو احوال وطن ایک جلا وطن کی اُداس آنکھوں سے دکھانے کی اجازت دے دیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں