محسن حامد کی کتاب ، ذکر چوہوں اور کتوں کا

اس کالم کی ابتدا ایک بار پھر نئی کتاب کے ذکر سے کی جاتی ہے۔ مصنف محسن حامد ہیںاورکئی برس لندن اور نیویارک میں گزارنے کے بعد اپنے آبائی شہر لاہور واپس جا کر آباد ہو گئے ہیں۔ وہ ناول نگار ہیں جن کی ادبی کاوشوں کو مغرب میں کافی پذیرائی ملی۔ کتاب کا نام Disconnect and its Civilisation ہے۔کتاب برطانیہ کے معتبر ناشر نے شائع کی، صفحات صرف 188اور قیمت 17 پائونڈ ہے۔ قابل تعریف بات یہ ہے کہ زیر نظر کتاب میں محسن نے امریکہ کی زیرقیادت لڑی جانے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ڈرون حملوں کی کھل کر سخت الفاظ میں مذمت کی ہے جن میں مرنے والوں کی اکثریت بے گناہوں (خصوصاً عورتوں اور بچوں) کی ہوتی ہے۔کتاب سے بات چلتے چلتے برطانیہ کے سب سے تگڑے ہفت روزہ اکانومسٹ تک جاتی ہے جس کے تازہ شمارہ میں پاکستان کے حوالے سے دو باتوں کو بڑی اہمیت دی گئی ہے:
اوّل، حکومت پاکستان پوری کوشش کر رہی ہے کہ اپنا اثر و رُسوخ استعمال کر کے طالبان کو اشرف غنی کی حکومت میں شامل ہونے اور نئے نظام حکومت کا حصہ دار بن جانے پر آمادہ کرے۔ اس جریدے کی رائے میں امن اس خطے کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور طالبان کی افغان حکومت سے مذاکرات پر رضا مندی امن کی کٹھن راہ پر ایک بڑا قدم ہوگا۔ اس سیاق و سباق میں اکانومسٹ نے جنرل راحیل شریف کی سفارتی کوششوں کوسراہا ہے۔
دوّم، اکانومسٹ کے مندرجات کا یہ حصہ پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ حساس اور توجہ طلب ہے۔ اس جریدے کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق بھارت کے 110کے مقابلہ میں پاکستان کے پاس120ایٹمی ہتھیار ہیں۔ پاکستان کے پاس گیارہ خصوصی طیاروں کے علاوہ دو طرح کے میزائل Cruise اورBallistic ہیں جو ایٹمی ہتھیاروںکوان کے نشانوں تک پہنچانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اس جریدے نے تشویش ظاہرکی ہے کہ پاکستان حتف 2 اور حتف 9 کی صورت میں کم تابکاری اور تھوڑے فاصلہ تک مارکرنے والے میزائل بنانے کی صلاحیت حاصل کر سکتا ہے جو میدان جنگ میں دُشمن کی پیش قدمی رُوکنے کی اہلیت رکھتے ہوںگے۔ اس کے مقابلے میں بھارت نے پانچ ہزار میل تک مارکرنے والا اگنیV میزائل تیار کیا ہے جو ایک سے زیادہ ایٹمی ہتھیاروںکو نشانہ بنا سکتا ہے۔ بھارت نے Arihant کے نام سے ایٹمی آبدوز بھی تیار کر لی ہے۔ اس کے بعد تین اور ایٹمی آبدوزیں سمندر میں اُتاری جائیںگی۔
نوے کی دہائی سے پہلے جب مغربی ممالک کی سوویت یونین سے سرد جنگ جاری تھی اور افغانستان میں روسی فوجوں سے لڑنے والے مجاہدین پر امریکی ڈالروں کی بارش کی جاتی تھی، واشنگٹن کے وائٹ ہائوس میں امریکی صدر ان کے لیے سرخ قالین ہی نہیں آنکھیں بھی بچھاتا تھا۔ ان دنوں روس کا جو بھی ادیب (مثلاً سولی نستیباں جسے نوبل ادب انعام سے بھی نوازا گیا) اور سائنس دان (مثلاً سخا رئوف) اشترا کی طرز حکومت (جو خوبیوں کے ساتھ ساتھ بہت بڑی خامیوں کی وجہ سے کرم خوردہ ہوچکا تھا) سے اختلاف کرتا اور اس اختلاف کے اظہار کے لیے آواز بلند کرتا تو اسے مغربی ممالک بڑے پیار سے Dissident(مروجہ نظام سے اتفاق نہ کرنے والاشخص) کہتے تھے اور اسے چھینک بھی آتی تھی تو سارے مغرب میں اس کی بازگشت سنائی دیتی تھی۔ یورپی ممالک ہمیشہ اور بڑی اُونچی آواز میں آزادی اظہارکے بنیادی انسانی حق کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ مگر یقین جانیے کہ یہ سراسر جُھوٹا، جعل سازی سے پُر، گمراہ کن اور منافقت ہے۔ اس کی بہترین مثال یہ ہے کہ چند دن پہلے شمالی انگلستان کے شہر بولٹن میں علم کیمیا کے ایک مسلمان اُستاد جمشید جاویدکو اس جرم میں چھ سال قیدکی سزا دی گئی کہ وہ مشرق وسطیٰ جاکر دولت اسلامی (داعش) کی فوج میں شامل ہوکر جہاد میں حصہ لینے کا ثواب حاصل کرنا چاہتا تھا۔ وہ ابھی پروازکے لیے پرتول رہا تھا اوراُڑنے نہ پایا تھا کہ گرفتارکر لیا گیا۔ جرم یہ ہے کہ وہ اُس جہاد میں حصہ لینا چاہتا تھا جوان دنوں مغربی ممالک اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اور یقیناً بجا طور پر سمجھتے ہیں۔ اس موضوع پر اور بھی لکھنا چاہتا ہوں مگر ڈرتا ہوں کہ آپ کا یہ بزدل اور بوڑھا کالم نگار مغرب دُشمن جہادکی قلمی حمایت کرنے کے جرم میں دھر نہ لیا جائے۔
یہ تو تھا تصویر کا ایک رُخ ، آیئے اب دُوسرا رخ دیکھتے ہیں۔ مغرب میں صرف تاریکی نہیں، روشنی، خوشبو اورانسان دوستی بھی ہے۔ بلجیم کی ایک غیر سرکاری تنظیم Apopo نے لوگوں سے لاکھوں پائونڈ کے عطیات اکٹھے کر کے افریقہ میں بڑے سائزکے چوہوںکو (دُور سے دیکھیں تو بلی کے بچے لگتے ہیں) اس طرح سدھایا ہے کہ وہ زمین میں چھپی بارُودی سرنگیں کھود کر نکال لیں اور من پسند پھل کھانے کی رشوت وُصول کرکے اُنہیں سرنگیں تلف کرنے والوںکے سپردکر دیں۔ آپ جانتے ہیں کہ بدقسمتی سے افریقہ کے بہت سے ممالک (مثلاً انگولا اور موزمبیق) کوکئی کئی سال خانہ جنگی کی آگ نے اپنی لپیٹ میں لیے رکھا اور تباہ و برباد کر دیا۔سینکڑوں میل پر پھیلی ہوئی بہترین زرعی زمین کو لاکھوں بارودی سرنگوں نے ناقابل کاشت بنا دیا۔ ہم عام طور پر چوہوں سے نفرت کرتے ہیں مگر ذرا سوچیے کہ انہی چوہوںکی ایک بھاری بھرکم نسل افریقی عوام کی نظروں میں ہیرو بن گئی ہے۔
کالم شروع ہوا تھا محسن حامدکی ایک اچھی مگر مہنگی کتاب سے،آپ کی اجازت سے میں کالم کو کتوں کے تذکرے پر ختم کروںگا،اس اُمید کے ساتھ کہ مجھے اگلے کالم میں اتنی قلا بازیاں نہ کھانی پڑیں ۔ میرے جن قارئین نے اُردو ادب پڑھا ہے، اُنہوں نے انیسویں صدی کے کلاسیکی ادب میں خواجہ سگ پرست کوگہری دلچسپی سے پڑھا ہوگا۔ امریکہ کی ایک ریاست کانام ہے Vermount ، اُس کے ایک چھوٹے سے خوابیدہ شہرکا نام Duxbury ہے جہاں آوارہ کتے اتنا بڑا عذاب بن گئے کہ وہاں کے لوگوںکو فیض صاحب کی کتوں پر لکھی ہوئی طنزیہ نظم کا انگریزی ترجمہ زبانی یاد ہوگیا۔ شہر کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ اس مصیبت کو ختم کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ایک شخص کو آوارہ کتوںکو پکڑنے اور حفاظتی مقامات پر رکھنے کی ذمہ داری دی جائے۔ اس سرکاری عہدہ کا نام Dog Catcher رکھا گیا۔ طے پایا کہ عہدے دارکو تنخواہ دی جائے گی نہ مراعات اورکوئی ٹرانسپورٹ ۔ جو شخص اپنے شہرکی رضاکارانہ خدمت کرنا چاہتا ہے وہ اس اعزازی عہدے کے لیے اپنا نام پیش کرے۔ درجنوں افراد نے اپنی خدمات پیش کیں مگر ( یہ بات قابل توجہ ہے) سب شہری ٹائون ہال میں اکٹھے ہوئے اور اُنہوں نے خفیہ رائے شماری سے اس عہدے کے لیے موزوں ترین شخص کو چن لیا۔ امریکہ میںشہری اپنے مقامی پولیس افسروں اور عدالتوں کے جج صاحبان کو بھی انتخابات کے ذریعے ان عہدوں پر فائزکرتے ہیں۔ ایک ہم ہیںکہ فوجی حکومت آئے تو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے اور جمہوریت ہزاروں بلدیاتی اداروںکی لہلاتی فصل کی شکل اختیار کر لیتی ہے، جمہوری نظام آجائے تو مقامی حکومتوںکا نام و نشان مٹا دیا جاتا ہے۔ اس آئین شکنی کے خلاف ہماری عدالت عالیہ کی سخت سرزنش کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہوگی۔ ہر وہ بدنصیب چیز جو ہمارے ہتھے چڑھی ہم نے اس کی مٹی پلید کی۔ جو لفظ ہم نے بولا اُسے بے توقیرکیا۔ بھٹو صاحب نے سوشلزم، ضیاء الحق نے اسلام اور غیر فوجی حکومتوں نے جمہوریت کو ذلیل کیا۔ اگر خردکا نام جنوں رکھنے اور جنوںکو خردکے نام سے پکارنا حُسن کی کرشمہ سازی ہے تو ایسے حُسن کو دُور سے سلام ۔ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ منافقوں کو ناپسند کرتا ہے۔ اُنہیں اس جرم کی سخت سزا دیتا ہے اور وہ بھی اِسی جہان میں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں