یادگار سفر

پچھلے سال مجھے دو دن کے لئے ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن جانے کا موقع ملا۔ جس دفتری کام کے لئے گیا وہ تو چند گھنٹوں میں مکمل ہو گیا۔ بقیہ ڈیڑھ دن اس شہر میں گھومنے‘ سیر و سیاحت کرنے‘ساحل سمندر (جو اس خوبصورت شہر کو تین طرف سے گھیرے ہوئے ہے) پر افسانوی مخلوق Mermaid (آدھی عورت آدھی مچھلی) کے خوبصورت مجسمہ کو دیکھنے اور دنیا کے غالباً طویل ترین پُل پر سفر کر کے پڑوسی ملک سویڈن کے ساحلی شہر Malmo آنے جانے میں گزرا۔ سمندر پر بنے ہوئے اس پل کی لمبائی آٹھ میل ہے۔ نیلے سمندر پر دُور دُور تک تیرتی ہوئی سفید بادبانی کشتیاں اور اتنے ہی نیلے آسمان پر اُڑتے ہوئے سفید پروں والے آبی پرندے۔ کہیں پڑھا ہوا تھا کہ سمندر کی ہوا میں Ozone نامی گیس زیادہ ہوتی ہے اس لئے وہاں سانس لینا صحت کے لئے مفید ہوتا ہے۔ میں نے اس پل کا طویل سفر گہرے سانس لیتے گزارا۔ اگر میری صحت میں کوئی قابل ذکر تبدیلی آئی بھی تو وہ اتنی زیادہ نہ تھی کہ مجھے محسوس ہوتی یا مجھے دیکھنے والوں کو۔ یہ پُل ڈنمارک کو سویڈن کے جس جنوبی علاقہ سے ملاتا ہے وہ جنگلات سے بھرا ہوا ہے اور وہاں انسانی آبادی بہت کم ہے۔ اور وہ Malmo کے علاوہ کوئی شہر نہیں (جو سویڈن کا تیسرا بڑا شہر ہے) یہ یادگار سفر کرتے وقت مجھے اندازہ نہ تھا کہ سات ماہ بعد اس علاقہ کا جغرافیہ یورپی اخبارات میں شائع ہنے والی ایک دلچسپ خبر میں بیان کیا جائے گا۔ صرف جغرافیہ نہیں بلکہ تاریخ بھی۔
1675 ء کی بات ہے جب ڈنمارک کے ایک بادشاہ کرسچین پنجم نے سویڈن کے جنوبی صوبہ Skane پر چڑھائی کر کے اسے اپنی عسکری برتری کے بل بوتے کی بنا پر اپنے زیر نگیں کر لیا تھا۔ تقریباً340 سال بڑے امن و امان اور مثالی ہمسایوں کی طرح گزرے۔ اب ڈنمارک کی حکومت سارا زور اس بات پر لگا رہی ہے کہ اُسے پل کی دُوسری جانب کے علاقہ کو ،کوپن ہیگن کا حصہ بنا لینے کی اجازت مل جائے۔ ڈنمارک نے باہمی تعاون کا جو نسخہ پیش کیا ہے وہ سویڈن کے لئے کافی کشش رکھتا ہے چونکہ اُس سے دونوں ہمسایوں کو مالی فائدہ پہنچے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس علاقہ کے جو لوگ اس کے لئے ایک ہی لفظ استعمال کرتے ہیں مگر لکھتے ذرا مختلف طریقے سے ہیں اور حروف ابجد کے پہلے حرفO میں لکھنے میں معمولی سے فرق کی وجہ سے بولتے بھی جداگانہ لہجہ میں ہیں۔جب یہ کالم نگار یورپی ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے بھائی چارا اور ناقابل یقین حد تک گہرے تعاون کو دیکھتا ہے تو اُسے وطن عزیز یاد آتا ہے جہاں ہمارے تینوں پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات طرح طرح کی مشکلات اور بحران اور تضادات کا شکار ہیں۔ صوبائی اور لسانی تعصبات کے زہر نے ہماری قومی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ آئین کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے ہم نے آج بھی اُردو کو اپنی سرکاری زبان نہیں بنایا اور دُوسری طرف ایک بڑی سیاسی جماعت نے ہماری قومی زبان کو اُسی طرح اپنی شناخت بنا لیا ہے۔ جو زمین کے معاملہ میں قبضہ گروپ کرتا ہے۔ خواب دیکھنے کے لئے کیمبرج یونیورسٹی میں پڑھنا اورچوہدری رحمت علی (تصور پاکستان کے خالق)ہونا تو ضروری نہیں۔ وہ دن کتنا مبارک دن ہوگا۔ جب بقول اقبالؔ ہم ایک نیا شوالہ تعمیر کریں گے جس میں وسط بنگلہ دیش سے لے کر سری لنکا‘ بھارت‘ پاکستان‘ افغانستان ‘ ایران ‘ترکی اور وسط ایشائی مسلم ریاستوں تک ایک وفاقی مملکت کی شکل اختیار کر لیں گے تاکہ اِن کا شمار بھی دُنیا کے ترقی یافتہ اور پرُ امن ممالک میں ہو سکے۔
ڈنمارک اور سویڈن کو تو صرف ایک پُل ملاتا ہے جس پر کالم نگار نے میزبانوں کی مہمان نوازی سے سفر کا لطف اُٹھایا۔ مندرجہ بالا پڑوسی ممالک میں ‘ہزاروں سالوں پر پھیلی ہوئی تاریخ نے تجارت‘ ثقافت اور سیاست کے اتنے زیادہ پُل بنا رکھے ہیں۔(جو اب زیر استعمال نہ آنے کی وجہ سے آثار قدیمہ بن چکے ہیں) کہ ہمیں صرف ان پُلوں پر سفر کر کے دُوسری جانب اور دُوسری جانب رہنے والوں کو ہماری جانب آنے کے لئے ہمت اور حوصلہ درکار ہوگا۔اس مقولہ (جو کالم نگار کی ذہنی احتراع ہے) کی سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کھیل کا میدان نہ صرف کھلاڑیوں بلکہ کھیل دیکھنے والوں کے ذہن‘ مزاج‘ کردار کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔
میرے سب سے اچھے انگریز دوست گراہم (Graham) (جو میرے ساتھ چار بار پاکستان جاچکا ہے اور وہاں گزارے ہوئے اچھے لمحات کو یاد کر کے ٹھنڈی آہیں بھرتا ہے) کی میزبانی کی بدولت ( جو 20 سالوں کے انتظار کے بعد MCC کا رُکن بنا) لارڈز کی شہرہ آفاق کرکٹ گرائونڈ میں تین ٹیسٹ میچ دیکھے ہیں۔ مقامی کھلاڑی ہویا کوئی مہمان کھلاڑی۔ ان میںسے کوئی بھی وکٹ لے یا چوکا لگائے‘ کرکٹ کا ٹیسٹ میچ دیکھنے والے ایک ہی طرح تالیاں بجاکر داد دیتے ہیں۔ وہ اُچھل کود اور شور شرابہ جو ان دنوں آپ کو ورلڈ کپ کے میچوں کے دوران اپنے ٹیلی ویژن کی سکرین پر نظر آتا ہے‘ اگر آپ اس قسم کے جوش و خروش لارڈز کرکٹ گرائونڈ میں کریں (جو ناقابل تصور ہے) تو یقینا بیک بینی و دوگوش گرائونڈ سے باہر نکالے جائیں گے۔ برسر عام غیر شریفانہ حرکات کے ارتکاب کے جرم میں۔
مندرجہ بالا تمہید کی روشنی میں ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی افغان کرکٹ ٹیم کا ذرا اپنی ٹیم سے مقابلہ کریں۔ وہ نوجوان جنہوں نے جبری جلا وطنی کے دوران مہاجر کیمپوں میں کرکٹ سیکھی۔ ٹینس بال‘ اینٹوں سے بنائی ہوئی وکٹ اور بیٹ کی جگہ چوبی تختی سے کھیل کر۔ غالب ؔنے جب لکھا تھا کہ شوق ہر رنگ میںرقیب سرو ساماں بن کر نکلے گا تو اُس کے وہم و گمان میں نہ ہوگا کہ یہ مصرع ایک دن افغان کرکٹ ٹیم کا سب سے موزوں اور فصیح تعارف بن جائے گا۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ افغان کھلاڑی دُنیا کی بہترین ٹیم سے بھی نہیں ڈرتے۔ نہ بائولنگ کرتے ہوئے اور نہ چوکے چھکے لگاتے ہوئے۔ افغانستان اور انگلستان (آپ نے شاید غور نہیں کیا کہ برطانیہ کا ایک صوبہ سکاٹ لینڈ کرکٹ۔ فٹ بال اور رگبی کے عالمی مقابلوں میں اپنے جداگانہ پرچم تلے حصہ لیتا ہے) کے درمیان ورلڈ کپ کے لئے کرکٹ میچ کھیلا گیا تو ایک برطانوی خاتون اس حد تک افغان ٹیم کی کامیابی کے لئے دعاگو تھی کہ سنڈے ٹائمز میں کرسیٹنا لیم کے تازہ مضمون کا موضوع بنی۔ نام ہے Sarah Fane پیشہ کے اعتبار سے ڈاکٹر اور ایک غیر معروف قصبہ Aldworth کی رہنے والی اُس خاتون نے کرکٹ کو افغانستان کی قومی کھیل بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ افغانی تین صدیوں کے دوران برطانیہ کو تین جنگوں میں شکست دینے کے بعد اب اُن کے خلاف کرکٹ گرائونڈ میں بھی رزم آرائی کے لئے اُترے تو انگریزوں نے حیرت سے اپنے ان پرانے حریفوں کو دیکھا کہ یہ بلائے ناگہانی کہاں سے ٹپک پڑی؟ 51 سالہ خاتون ڈاکٹر اور اس کے جوان بیٹے کے سر پر اس حیرت انگیز واقعہ کے رُونما ہونے کا سہرا باندھا جا سکتا ہے۔ اس ماں بیٹے نے مل کر اوربرطانیہ کے تمام کرکٹ کلبوں سے مدد مانگ کر افغانستان میں کرکٹ کھیلنے کے لئے کنکریٹ وکٹیں بنوائیں اور کھلاڑیوں کو کرکٹ کھیلنے کا ساز و سامان مہیا کیا۔ آپ یقین کریں کہ پانچ سال پہلے افغانستان میںکرکٹ کھیلنے کی ایک گرائونڈ بھی نہ تھی۔ شروع شروع میں کھلاڑیوں کو بلّے نصیب نہ تھے تو اُنہوں نے وہ ڈنڈے استعمال کئے جسے پاکستانی دیہاتی خواتین کی طرح افغان خواتین میلے کپڑوں کو مار مار کر دھلائی اور میل نکالنے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ ایم سی سی (MCC ) قابل صد ستائش ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ کی پرُ زور اپیل پر اُس نے ڈھائی لاکھ پائونڈ خرچ کر کے افغانستان میں کرکٹ کھیلنے کی 52 Pitches بنائیں اور چالیس ہزار بچوں (جن میں لڑکیاں بھی شامل ہیں) کوکرکٹ کھیلناسکھائی۔ افغانستان کی پہلی قومی ٹیم صرف بارہ برس پہلے وجود میںآئی اور اُس نے اپناپہلا بین الاقوامی میچ دو برس پہلے کھیلا۔ آپ جانتے ہوں گے کہ افغان ٹیم نے اس ورلڈ کپ مقابلہ میں سکاٹ لینڈ کو ہرا دیا اور ہر میچ میں وہ شاندار کارکردگی دکھائی جس سے پھر ساری افغان قوم (جس میں کراچی میں رہنے والے لاکھوں پٹھان بہادر بھی شامل ہیں) کا سر فخر سے اُونچا ہو گیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں