جنگ ہمارے لیے کھیل اور کھیل جنگ

جتنی توقعات (کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کی) اس کالم نگار کی خوش عقیدہ اور خوش فہم قوم اپنی کرکٹ ٹیم سے وابستہ کرتی ہے، اس کی غیر متوقع جیت پر بہت زیادہ خوش اور اس کی متوقع ہار پر بہت زیادہ غم زدہ ہوتی ہے، اگر اس سے آدھی توقعات اپنے ملک کی سیاسی جماعتوں سے وابستہ کرلے تو غالباً ہمارا سیاسی کلچر موجودہ دلدل سے باہر نکل آئے گا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ کرکٹ تو بہرحال ایک کھیل ہے اور کھیل زیادہ سے زیادہ ایک تفریح ہوتا ہے، دُوسری طرف سیاست پر تو ایک قوم کی فلاح و بہبود ہی نہیں، اس کے وجود، اس کے مستقبل، اس کی زندگی موت کا انحصار ہوتا ہے۔ اچھے سیاسی فیصلوں سے قومیں ملک بناتی ہیں (جس طرح ہندوستان میں 1947ء ، میں قیامِ پاکستان کی صورت میں ہوا) اور غلط فیصلوں سے بنے بنائے ملک (خداداد ہونے کے باوجود) ٹوٹ جاتے ہیں (جس طرح 1971 ء میں پاکستان میں اور نوے کی دہائی میں سوویت یونین اور یوگو سلاویہ میں ہوا)۔ 1971 ء سے یاد آیا کہ مشرقی پاکستان میں لڑی جانی والی جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک برطانوی صحافی نے لکھا تھاکہ پاکستانی قوم کی دُنیا بھر میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ چونکہ اس کی فقید المثال ترجیحات ہیں۔ وہ جنگ کو کھیل سمجھتی ہے اور کھیل کو جنگ۔ میرے موجودہ وطن انگلستان کی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی میرے آبائی وطن پاکستان کی کرکٹ ٹیم سے بھی خراب رہی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دُنیا بھر کے ممالک کو انگریزوں نے اپنی زبان کے ساتھ ساتھ اپنا قومی کھیل سکھایا۔ اب ان سے انگریزی سیکھنے والے ان سے زیادہ بلند معیار کے انگریزی ناول لکھتے ہیں اور کرکٹ میں انہیں شکست فاش دیتے ہیں۔ مگر پاکستانیوں کے برعکس انگریز بڑے غیر جذباتی ہیں۔ کامیابی پرُ صرف خوش ہونے اورخوشی سے پاگل ہو جانے اور غل غپاڑہ مچانے اور بھنگڑے ڈالنے اور زندہ باد کے نعرے لگانے میں بڑا فرق ہے۔ اسی طرح شکست پر محض افسوس کرنے اور شدت ِ غم سے نڈھال ہو جانے، اپنے اچھے کھلاڑی کے آئوٹ ہوجانے پر حرکت قلب بند ہو جانے سے مر جانے (جو تقریباً ساٹھ برس قبل مقصود احمدکے 99 رنز پر آئوٹ ہو جانے سے سیالکوٹ میں ہوا)، قومی ٹیم کے خلاف مردہ باد کے نعرے لگانے میں بڑا فرق ہے۔ کتنا مناسب ہوگا کہ جو کچھ برطانوی اخبارات میں کرکٹ کھیل کے ماہر صحافیوں (جن میں برصغیر ہندوستان کے سب سے بڑے سیاسی راہنما سبھاش چندر بوس کے پوتے مہر بوس نمایاں مقام رکھتے ہیں) نے لکھا جو یہاں سڑیل مزاج انگریزوں نے پڑھا اور معمول سے زیادہ شراب نوشی کر کے اپنا غم غلط کیا، اُس کا اُردو ترجمہ پاکستانی اخباروں میں شائع کر دیا جائے چونکہ اُن تحریروں کا برطانیہ اور پاکستان پر یکساں اطلاق ہوتا ہے۔ ہمیں بھی اپنے گریباں میں جھانکنا پڑے گا (صد افسوس کہ انگریز اس فن کے ماہر ہیں اور ہم اس سے بالکل ناواقف)۔ اپنی کرکٹ کو سرکاری گرفت اور سرکاری
مداخلت اور سرکاری سرپرستی سے نجات دلانی پڑے گی۔ فیلڈنگ کرنے والے ہمارے کھلاڑی (جن سے کروڑوں بھولے بھالے معصوم افراد ورلڈ کپ جیتنے کی توقع رکھتے ہیں) اتنے آسان کیچ چھوڑ دیتے ہیں جو کہ برطانیہ کی کائونٹی کرکٹ کا تو کیا ذکر۔ ایک عام کلب کا دوستانہ میچ کھیلنے والے بھی نہیں کرتے (آپ کے کالم نگار نے ساٹھ سالوں میں کوئی کیچ نہیں چھوڑا )۔ یہ گریہ زاری کا مقام نہیں لمحہ فکریہ ہے۔ نالائقی، اقربا پروری اور سفارش کا کینسر ایوان حکومت سے پھیلتا پھیلتا کھیل کے میدان تک بھی جا پہنچاہے۔ آیئے ہم مل کر اس کا تدارک کریں۔ہمارے قومی مسائل حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ دائم المریض قوم رُوبصحت ہو جائے گی۔ دہشت گردی کی وارداتیں قصۂ پارینہ بن جائیں گی۔ مہنگائی اور بے روز گاری بالکل ختم نہیں تو بہت کم ہو جائے گی۔ اگر دُودھ اور شہد کی نہیں توکم از کم پانی کی نہریں تو بہنے لگیں گی۔ ہمارے اُجڑے ہوئے صحن میں چاندنی نہ بھی پھیلی، دھوپ کی جان لیوا تمازت اور تپش گھٹ جائے گی۔ ہماری سرزمین پر ڈرون حملے بند ہو جائیں گے۔ کشکول گدائی پہلی بار ٹوٹے گا۔ کاخِ اُمرا کے درو دیوار ہلنے لگیں گے اور اگر ہم کرکٹ کھیلیں گے تو ہمارے کھلاڑی آسان تو کیا مشکل کیچ بھی پکڑ لیں گے۔ جو کرکٹ بورڈ نسیم اشرف سے لے کر ذکاء اشرف (دونوں کا کرکٹ سے دُور کا بھی واسطہ نہ تھا) کے قبضہ میں رہا ۔ جس ملک کی سیاست میں سیٹھوں کا عمل
دخل ہو اور کرکٹ میں کسی سیٹھی کا اُس کی سیاست عوام دُشمن اور کرکٹ دل شکن ہوگی۔
21 مارچ کو ہفتہ کا دن ہونے کی وجہ سے چھٹی کا دن تھا۔ گذرا ہوا دن (یعنی20 مارچ) اس لحاظ سے یادگار رہے گا کہ برطانیہ میں لوگوں نے سُورج گرہن دیکھا اور اہل پاکستان نے کرکٹ گرہن کو۔ میں برطانیہ کی روایتی بوندا باندی کو نظر انداز کرتے ہوئے ماسکو سے خریدی ہوئی اُونی ٹوپی (جو دُور سے دیکھیں تو لگتا ہے کہ بڑی سی کالی بلی میرے سر پر بیٹھی ہوئی ہے) اوڑھے سیر پر نکلا تو ایک ندی پر بنے ہوئے چوبی پُل پر پارک کے نظارہ سے لطف اندوز ہونے کے لئے رُکا۔ وہاں ایک بنچ پر بیٹھا تو کانوں میں اُس مصرع کی آواز آئی جو میں نے کم از کم ستر برس پہلے سنا تھا۔ وہ مصرع یوں ہے ؎کندن ساٹھ برس کا بوڑھا پل پر بیٹھنے جاتا ہے۔ آواز میرے والد مرحوم کی تھی۔ وہ ڈاکٹر تھے اور صبح و شام ہسپتال آتے جاتے گھر میں ٹہلتے اشعار گا کر بلند آواز میں پڑھنے کا شوق رکھتے تھے۔ میں نے78بہاریںاور خزائیں (جولگتا ہے کہ 156تھیں) دیکھی ہیںمگر پُلوں پر جا کر بیٹھنے کی عادت ہے کہ ہر سال اور پختہ ہوتی جاتی ہے۔ پل پر بیٹھ کر ندی میں بہتے ہوئے پانی کو دیکھ کر گزرا ہوا وقت یاد آنے لگتا ہے۔ آج کا دن بھی ایک پُل کی طرح ہے جو ماضی اور مستقبل کو ملاتا ہے۔ ایک چھوٹا سا پُل خواب اور حقیقت کو آپس میں ملاتا ہے۔ بچپن اورجوانی میں ہر شخص مستقبل کے خواب (اور وہ بھی سہانے) دیکھتا بوڑھا ہو جائے تو اُس کے لئے اُس کا اپنا ماضی خواب بن جاتا ہے۔ جوانی میں خواب رات کو دیکھے جاتے ہیں اور بڑھاپے میں دن کو۔ بوڑھا شخص خود ایک پُل کی طرح ہوتا ہے ۔ پرانی اور نئی نسل کے درمیان۔ سیانی قومیں پل بنانا جانتی ہیں اور اُن کی حفاظت بھی۔ بقول اقبال ؔقصہ جدید و قدیم دلیل کم نظری ہے۔ آپ اپنے ذہن میں جدید اور قدیم کے درمیان ایک اچھا سا پُل (جیسے اقبال نے کہا) بنا لیں تو آپ کو (اقبال کی طرح) چراغ ِراہ اور منزل کے درمیان بنیادی فرق سمجھ آجائے گا۔
زبان فارسی میں بوڑھے شخص کو ضعیف کہتے ہیں اور ضعیف کا لفظی معنی ہے کمزور۔ جوں جوں ضعیفی بڑھتی جائے، کمزوریوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک ایسا لمحہ آتا ہے کہ (بقول انجیل مقدس)مٹی کا بنا ہوا شخص مٹی میں اور روئے زمین پر بکھری ہوئی راکھ میں انسان کی راکھ شامل ہو جاتی ہے۔ پس ماندگان ایک دُوسرے کا غم زدہ منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں (جیسے وسط مارچ میں میرے ساتھ ہوا۔) میرا ایک بھائی افضل باجوہ ایک بڑے سرکاری عہدے سے ریٹائر ہو کر کینیڈا جا کر آباد ہو گیا۔ آباد تو پردیس میں کیا ہونا تھا، بال بچوں کے ساتھ رہنے لگا۔ اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی کرنے پاکستان آیا۔ اچانک شدید بیمار ہوا اور خالق حقیقی سے جا ملا۔ 78 سال پہلے سرگودھا میں پیدا ہونے والا شخض آخراپنے آبائی قبرستان میں دفن ہوا۔ چک نمبر47 شمالی کی مٹی آخر دُور دیس سے آکر واپس اُس میں مل گئی۔ یہ کالم نگار اپنے پڑھنے والوں سے (پنجابی محاورہ کے مطابق) دُکھ سکھ کرتا رہتا ہے۔ اُردو میں اس کا ترجمہ یہ ہوگا کہ میں آپ کواپنے دُکھ سکھ میں شریک کرتا رہتا ہوں۔
بات شروع ہوئی تھی ہفتہ کو قبل دوپہر جنوب مشرقی لندن کے ایک پارک میں سیر اور ندی کے اُوپر بنے ہوئے پل پر بیٹھنے سے اور چلتے چلتے ایک بڑا ذاتی المیہ بیان کرنے تک پہنچی۔ پارک سے دُوسری جانب پرانی (یعنی استعمال شدہ) کتابوں کی دُکان ہے۔ میں اس کا مستقل گاہک ہوں۔ سال دو سال پرُانی کتاب اصل قیمت کے دس فیصد پر مل جاتی ہے۔ یعنی 20 پائونڈ کی کتاب دو پائونڈ میں۔ کتاب کوئی اخبار تو نہیں ہوتی کہ صبح کا اخبار شام تک باسی ہو جاتا ہے اور پڑھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کتب فروش مجھے پہچانتا ہے۔ کبھی کبھار (جب اچھے موڈ میں ہوجو بہت کم ہوتا ہے) چائے پلاتا ہے اور میرے جوتوں کے تسمے کھلے ہوں (ایک بار بے دھیانی میں ایسا ہوا) تو اس کو مضبوطی سے باندھتا ہے۔ اس نے ایک دفعہ جھک کر میرے کھلے تسمے باندھے تو حیرت سے میرا منہ کھلُے کا کھلا رہ گیا۔ کھلے ہوئے تسموں کے تذکرے سے مجھے مرحوم چیف جسٹس ایم آر کیانی یاد آئے۔ جنہوں نے ان کے بارے میں(55 سال پہلے) اُس طرح کی ہمیشہ زندہ رہنے والی بات اپنی (بقیہ صفحہ 13پر)
تقریر میں کہی (لاہور کے ایک کالج کی تقریب میں جس کی صدارت کا شرف مجھے حاصل ہوا)۔ جس طرح پطرس نے اپنے سائیکل، شفیق الرحمن نے انکل رُوفی کی کار، غالبؔ نے اپنے ٹپکتے ہوئے گھر اور رضیہ بانو نے اپنے شوہر جان نثار اختر کے بمبئی سے آنے والے خط کے انتظار کا اپنی کتاب ''زیر لب‘‘ میں ذکر کیا ہے۔
نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کا کالم نگار لندن میں کتابوں کی دُکان سے بمبئی جا پہنچا۔ پھر واپس چلتے ہیں۔ پُرانی کتابوں کے انبار میں مجھے انگلستان کی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سٹراس(Andrew Strauss) کی خود نوشت نظر آئی۔ کتاب دو برس پہلے 20 پائونڈ میں فروخت ہوئی۔ مجھے صرف دو پائونڈ میں مل گئی۔ (جس کا مطلب ہے کہ مزید آٹھ کتابیں خریدنے کی مالی استطاعت)۔ ورق گردانی شروع کی تو نظر صفحہ 241 کے دُوسرے پیراگراف کی آخری چار سطور پر اس طرح جمی کہ میرے سر کو شرم سے جھکا گئی۔ پانچ سال پہلے پاکستان کرکٹ ٹیم کے تین کھلاڑی Spot Fixing کے ذریعے جواریوں کی مدد کرنے اور اُن سے بھاری رقوم وُصول کرنے کے جرم میں پکڑے گئے تھے۔ میں آپ کو اس کے بارے میں زیادہ باتیں بتانے سے قاصر ہوں چونکہ میرا ایک بیرسٹر بیٹا (علی باجوہ) سلمان بٹ کا وکیل صفائی تھا۔ ٹیسٹ میچ (جو زیر عتاب تین کھلاڑیوں کے بغیر کھیلے گئے) ختم ہوئے تو ایک روزہ میچوں کی باری آئی۔ مقامی ٹیم پہلے دو میچ جیت گئی۔ (دُوسرا میچ بمشکل چونکہ پاکستانی ٹیم نے 300 رنز سکور کئے) مگر تیسرا میچ برُی طرح ہار گئی۔ اب ذرا دل تھام کر پڑھیے کہ اس قابل فخر کامیابی پر پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ کے چیئرمین نے اپنی شکستہ صف ٹیم کو شاباش دینے کی بجائے یہ تبصرہ فرمایا کہ اُن کی نظر میں انگلستانی ٹیم کی اتنی برُی شکست کی غالباً یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ اُس نے جواریوں اور سٹے بازوں سے ہارنے کا معاوضہ وُصول کر لیا ہے۔ سٹراسؔ کے الفاظ میں اُس نے کبھی یہ ڈرائونا خواب نہ دیکھا تھا کہ ایک دن اُسے اتنی بے دلی، ذہنی خلجان ،غم و غصہ اور اتنا بڑا جھوٹ بولنے والے کو منہ توڑ جواب نہ دینے پر اپنی بے بسی کے عالم میں کرکٹ میچ کھیلنے کا عذاب برداشت کرنا پڑے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں