بین الاقوامی قانونی کانفرنس

لندن میں 28 مارچ کی شام اس لحاظ سے غیر معمولی تھی کہ شہر کے مرکزی ‘مہنگے‘ بانکے سجیلے اور طرح دار علاقہMayfair کے (جو امریکی سفارت خانہ کی وجہ سے امریکہ مخالف مظاہرین کی پسندیدہ جگہ ہے) ایک شاندار ہوٹل کی ڈیوڑھی میں بڑے حروف میں یہ عبارت سب کی توجہ کا مرکز تھی ''بین الاقوامی قانونی کانفرنس‘‘ بین الاقوامی کا دراصل مطلب تھا ''برطانیہ اور پاکستان ‘‘شرکاء کون تھے؟ ڈھائی سو کے قریب برٹش پاکستانی وُکلا اور پاکستان سے آئے ہوئے چار نامور وُکلا‘ جناب ایس ایم ظفر‘ جناب علی احمد کُرد‘ جناب حامد خان اور ڈاکٹر خالد رانجھا۔ مگر سب سے خاص بات یہ تھی کہ ریٹائرڈ چیف جسٹس جناب سعید الزمان صدیقی بھی پاکستان سے آنے والے معزز مہمانوں میں شامل تھے۔ اُن کی وہی حیثیت تھی جو شادی کی تقریب میں دولہا کی ہوتی ہے۔ وہ سٹیج پر تشریف لائے تو تمام لوگوں نے اُٹھ کر داد و تحسین دی۔ اگر اُن پر پھول برسائے جاتے تو اُن پھولوں کی عزت افزائی ہوتی جنہیں سعید الزمان صدیقی صاحب کے جسم کو چھونے کا شرف حاصل ہوتا۔ جنرل مشرف کے بنائے ہوئے غیر قانونی احکامات کی تعمیل سے انکار اور مسخ شدہ آئین پر حلف اُٹھانے سے معذرت نے اُنہیں اور سپریم کورٹ کے پانچ اور جج صاحبان کواُصول پسندی کی زندہ علامت بنا دیا ہے۔ وہ ہمارے قومی ضمیر کی آواز اوربہترین انسانی قدروں کا مجسمہ ہیں۔ اُنہوں نے مستعفیـ ہو کر وہ قابل فخر روایت قائم کی کہ اُن کے جانشین جسٹس افتخار محمد چوہدری کے لئے جنرل مشرف کا حکم نہ مانتے ہوئے مستعفی ہونے سے انکار کر کے قابل صد احترام پیش روچھ جج صاحبان کے نقش قدم پر چلنا آسان ہوگیا۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ اُن کے ساتھ ایسے وُکلا بیٹھے تھے جن میں سے ایک جنرل ایوب کا وزیر قانون اور دُوسرا جنرل مشرف کا وزیر قانون رہ چکا ہے۔ آپ نے غور فرمایا؟ غیر قانونی حکومت کا وزیرقانون! جب کہ قانون اور فوجی آمریت ایک دُوسرے کے متضاد ہیں۔ 
بہرحال برطانیہ میں پریکٹس کرنے والے پاکستانی وُکلا (جن میں بڑی اکثریت نوجوانوں کی تھی) خوش ہو گئے کہ منتظمین نے یہ کمال کر دکھایا کہ پاکستان کے چوٹی کے چار وکیل صاحبان اور سابق چیف جسٹس کو اس تقریب کو یاد گار بنانے کے لئے ہزاروں میل کے فاصلہ اور اُن کی بے پناہ مصروفیات کے باوجود کھینچ لائے۔ برطانیہ میں یہ رواج اور دستور ہے کہ کھانا پہلے اور تقاریر بعد میں‘ یعنی اوّل طعام ‘بعد کلام ‘مگر جوپاکستانی تقریبات برطانیہ میں منعقد ہوتی ہیں ان کے منتظمین اس خطرہ کے پیش نظر کہ مہمان کھانا کھانے کے بعد بھاگ جائیں گے‘احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہر گز نہیں بھولتے۔ 28 مارچ کو بھی ایسا ہی ہوا۔ چاروں نامور وُکلا صاحبان اور جسٹس سعید الزمان صدیقی صاحب نے تو بڑے جچے تلے الفاظ میں پانچ پانچ منٹ تقریر کی مگر پھر ایک فلاحی تنظیم کے کرتا دھرتا کو اظہار خیال اور اپنے نیک کام کے تعارف کے لئے بلایا گیا۔ اُنہوں نے اس موقع سے پورا فائدہ اُٹھایا اور سامعین کی اتنی دیر سمع خراشی کی کہ جب میرے ساتھ بیٹھی ہوئی میری ایک بہو نے مجھے نیند سے جگاتے ہوئے کہ ابا !آپ اُن کی توجہ گھڑی کی طرف کیوں نہیں دلاتے؟ تو میں نے کہا کہ اگرنوبت انہیں کیلنڈر دکھانے کی نہ آئی تو خدا کا شکر ادا کرنا۔
بہت عرصہ قبل میں نے ایک انگریز مسلمان خاتونChristine Baker کا اپنے کالم میں ذکر کیا تھا۔ وہ ایک دلچسپ اور خوب فروخت ہونے والی خود نوشت کی مصنفہ ہیں جس کا نام ہے:From MTV to Mecca ۔اُنہوں نے موسیقی کے اس چینل کی نشریات کو سالہا سال پیش کر کے نام کمایا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد چمک دمک کی دُنیا سے کنارہ کش ہو گئیں۔ الفاظ کی مناسب ادائیگی کے فن پر عبور رکھتی ہیں۔ اُنہوں نے اس تقریب کی نظامت کی اور اتنی شگفتگی ‘زندہ دلی اور پیشہ ورانہ مہارت سے کی کہ میلہ لوٹ لیا۔ ادھیڑ عمر (جب اعضا اُدھڑنا شروع ہو جاتے ہیں)کی دہلیز پر پائوں رکھ رہی ہیں مگر اب بھی اتنی دلکش شخصیت کی مالکہ ہیں کہ جناب ایس ایم ظفر نے (اپنی بیگم صاحبہ کی موجودگی سے نہ ڈرتے ہوئے) اپنی تقریر میں قانون کی حکمرانی کے موضوع کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس خاتون کے حُسن صورت اور سیرت کی اتنے والہانہ انداز میں تعریف کی کہ سب لوگوں نے (جن میں اُن کی اعلیٰ ظرف اور بُردبار بیگم بھی شامل تھیں) ان کی تائید میں پُر زور تالیاں بجائیں۔ کرسٹین کی نظامت سے وہ شام جگمگا اُٹھی۔
اب آتے ہیں تقریروں کی طرف۔ برطانیہ میں پاکستانی وکیلوں کے قبیلہ کے سردار جناب صبغت اللہ قادری ہیں۔ (میری طرح ان کے پرانے دوست اُنہیں پیارے سے شبلی کہتے ہیں)۔ اُنہوں نے ہم سب کی طرف سے مہمانوں کو خیر مقدم کہا اور اُن سے اپیل کی کہ وُہ فوجی عدالتوں (اُن کی نظر میں غیر قانونی ) کے خلاف آواز بلند کریں۔ حسب توقع ڈاکٹر خالد رانجھا اور جناب ایس ایم ظفر (دو فوجی آمروں کے دو وزراء قانون) نے دبی زبان میں (برطانیہ اور اہل برطانیہ کا لحاظ کرتے ہوئے) فوجی عدالتوں کے قیام کی حمایت کی۔ اُن کے خیال میں ایسی عدالتیں ہمارے لئے نہ باعث اطمینان ہو سکتی ہیں اور نہ قابل فخر مگر ہمارے زمینی حقائق کے پیش نظر اُن کا قیام ایک ناگزیر مجبوری بن گیا ہے۔ دونوں مقررین کا لہجہ اتنا معذرت خواہانہ اور ندامت سے شرابور تھا کہ سامعین ادب اور آداب ِمیزبانی کے پیش نظر بالکل خاموش رہے اور یہ سوچتے رہے کہ ع
ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگ گراں اور 
آکسفورڈ کا پڑھا ہوا رچرڈ بیرسٹر بنا تو اُسے عملی تربیت حاصل کرنے کے تکلیف دہ اور صبر آزما عمل کے دوران ایک دن کے لئے میرا شاگرد بھی بننا پڑا۔ یہ رُبع صدی پہلے کی بات ہے۔ دس سال کی وکالت کے دوران رچرڈ کی قابلیت کے جوہر کھلے تو اُسے جج بنا دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہمارا دوستانہ رشتہ معطل اور میری بیوی کے ہاتھوں پکا ہوا پلائو اور آلو گوشت اور دُوسرے تیسرے ماہ اچھے کھانے کی نعمت سے موصوف کی محرومی۔ اس سال کے شروع میں پندرہ برس جج رہنے کے بعد رچرڈ نے رٹیائرمنٹ لے لی تاکہ چند اچھی کتابیں لکھ سکے۔ ہماری دوستی کا ٹوٹا ہوا رشتہ پھر بحال ہو گیا۔ جس عدالت میں رچرڈ جج تھا اُس میں نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے اور میرے بیرسٹر بچوں کو کئی بار پیش ہونا پڑا ‘مگر رچرڈ نے طوطا چشمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارا کبھی لحاظ نہ کیا۔ ہمارے خلاف فیصلہ سنانے سے پہلے ہمارے موکل کو مبارکباد دیتا تھا کہ اُس کی ترجمانی کتنا اچھا وکیل کر رہا ہے، مگر وکیل کی قابلیت موکل کے موقف کی کمزوری کی تلافی نہیں کر سکتی اس لئے اپیل نامنظور۔ یہ سن کر میں (مناسب وقت آنے پر)رچرڈ کی ہڈیاں توڑنے کے پروگرام بنانا شروع کر دیتا تھا۔ جونہی رچرڈ ریٹائرڈ ہوا‘ سب سے پہلے مجھے ملنے آیا اورروایتی پنجابیوں کی طرح کہا کہ کہا سُنا معاف۔ اس تقریب میں رچرڈ بھی موجود تھا۔ پاکستانی کھانوں کا شوق اُسے کشاں کشاں لے آیا مگر افسوس کہ تقریروں کا سلسلہ دراز سے دراز ہوتا گیا۔ روزہ رکھنے کے عادی مسلمانوںکے برعکس رچرڈ کے لئے بھوک کا مقابلہ کرنا ممکن نہ رہا اور وہ کھانا کھائے بغیر چلا گیا۔ جاتے ہوئے مجھے یہ خوش خبری سنا گیا کہ وہ جلد ہی ہمارے گھر پہلے کی طرح کھانا کھانے (رسمی دعوت کے تکلف کے بغیر) کے لیے وقت نکالے گا۔
یہ کالم ختم ہوگا علی احمد کرد کی ولولہ انگیز تقریر کے تذکرہ پر۔ تقریر کیا تھی لگتا تھا کہ ایک آتش فشاں پہاڑ پھٹ پڑا۔ بھولے بسرے وقتوں کی یاد تازہ ہوگئی۔ انگریزی میں اسے Vintage کہتے ہیں۔ اس کا ترجمہ یوں کیا جا سکتا ہے: پرُانے وقتوں کی بہترین اور یادگار اور نمائندہ پیشکش۔ کفّار (میں پیارے انگریزوں کو کہتا ہوں) یہ لفظ پرُانی انگریزی شراب کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ لگتا ہے کہ کرد صاحب سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں کہ قانون کی حکمرانی کے لئے وُکلا کی نئی تحریک کی قیادت کریں۔ دوران تقریر اُنہیں خیال آیا کہ وہ اپنے بے شمار مداحوں کو وُکلا تحریک کے پہلے فقید المثال عہد ساز اور تاریخی دھرنے کی عبرتناک شکست کے بارے میں کیا بتائیں؟وکلا تحریک کے قائد کے ذلت آمیز اور شرمناک Climb Down (پسپائی۔ ہتھیار ڈالنے اور میدان جنگ سے بُزدلانہ فرار) کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے۔ ع
یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا
اس بوڑھے کالم نگار کے دل میں اُمید کا چھوٹا سا چراغ ٹمٹماتا ہے کہ راکھ کے ڈھیر میں کوئی نہ کوئی چنگاری تو ابھی زندہ سلامت ہوگی‘ جو شاید پھر کبھی بھڑک اُٹھے اور ہمارے اُجڑے ہوئے صحن میں اُجالا کر دے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں