فاختہ سے کوئل تک

1952 ء کا ذکر ہے جب میں ڈیرہ غازی خان میں (جہاں میرے مرحوم والد محترم ڈاکٹر اور انگریزوں کے بنائے ہوئے معیاری سول ہسپتال کے افسر اعلیٰ تھے) دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔ 63 سال گزر جانے کے بعد نصاب میں شامل کتاب (سرمایۂ اُردو) میں پڑھے ہوئے اشعار میں سے کئی ابھی تک یاد ہیں۔ زیادہ اشعار بدقسمتی سے بھول چکا ہوں۔ وہ اب میرے شعور کا نہیں بلکہ تحت الشعور کا حصہ ہیں۔ اس لئے پہلے سے بھی زیادہ کارآمد اور کار فرما اور کارساز ہیں۔ مگر پنڈت دیا شنکرنسیم کی ایک نظم کا پہلا مصرع حافظہ کی تختی پر نقش ہو چکاہے :
نسیم جاگو‘ کمر کو باندھو‘ اُٹھائو بستر کہ رات کم ہے
لندن کے جنوب مشرقی علاقہ میں County of Kent کے مضافات میں جس دو سوسال پرانے گھر میں رہتا ہوں وہ درختوں سے گھرا ہوا ہے۔ موسم بہار آجانے سے شاخوں پر سبز پتے اُگ آئے ہیں اوران شاخوںمیں پرندوں نے گھونسلے بنائے ہوئے ہیں۔ وہ ہر روز ہمارے گھر کے صحن میں ناشتہ کرنے آتے ہیں۔ پرندوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے لگتا ہے کہ اب میرے پڑوسی پرندے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی دعوت دینے لگے ہیں کہ اگر اچھا ناشتہ کرنا ہے تو صبح کے وقت تشریف لا ئو اور ایک جلا وطن گھرانہ کی مہمان نوازی سے لطف اند وز ہونے کا نادر موقعہ نہ گنوائو۔ پرندوں کو قدرت نے نہ صرف خوبصورت پروں کی پوشاک پہنائی ہے بلکہ سریلے سروں میں نغمہ سرا ہونے کی صلاحیت بھی بخشی ہے۔ آپ نے غور فرمایا ہوگا کہ پرندوں میں نہ کوئی غلام علی ہے ‘نہ کوئی مہدی حسن اور نہ کوئی ملکہ ترنم مادام نور جہاں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام پرندے ایک ہی معیار کے سُر نکال سکتے ہیں۔ نہ کوئی اچھا نہ کوئی برُا۔ سب برابر۔ کتنی کمال کی مساوات ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ساری اُونچ نیچ انسانوں کو سزا دینے کے لئے اُن کی خصوصیت میں شامل کر دی گئی ہے۔ اب ہم پرندوں اور انسانوں کے موازنہ سے آگے بڑھتے ہیں۔
ہمارے گھر کے صحن میں دانہ چگنے والے پرندے صبح سویرے بڑے مُدھر گیت گاتے ہیں‘ مگر سب سے نمایاں آواز ایک فاختہ کی ہوتی ہے۔ میں اُس خوش بخت اور خوش نصیب خلیل خان کو نہیں جانتا (اور نہ میرے قارئین کے پاس اُس کا شناختی کارڈ ہوگا) جس نے زندگی میں صرف ایک ہی کام کیا اور وہ تھا فاختائوں کو اُڑانا۔ دن بدل گئے اور برا وقت آگیا تو ہمیں یہ خبرملی کہ اب خلیل خان زندگی کے جنجال میں اتنی برُی طرح پھنس گئے ہیں کہ وہ فاختہ اُڑانے کا مشغلہ ترک کر چکے ہیں۔ نہ اُن کے ہاتھ میں جنبش ہے اور نہ آنکھوں میں دم ہے۔ مذکورہ بالا محاورہ ہمیں یہ ہرگز نہیں بتاتا کہ خلیل خان پر کیا گزری کہ وہ اب فاختہ اُڑانے کے فن میں عالمی شہرت حاصل کرنے کے بعد ریٹائر ہو چکے ہیں‘ یا کردیئے گئے ہیں۔ اس محاورہ میں بین السطور یہ لکھا ہوا ہے کہ فاختہ اُڑانے کا مشغلہ خوش حالی اور خوش وقتی کے وقتوں سے تعلق رکھتا تھا اور اب وہ دور گزر چکا ہے۔
لندن میں ہر روز صبح کے وقت جب فاختہ کی کُوگو کُو کی آواز سے جاگنے والا شخص اپریل کے تیسرے ہفتے پاکستان پہنچا‘ وہاں سات یادگار دن گزارنے کے بعد کراچی ڈیفنس کلب سے ایئر پورٹ جانے لگا تو کوئل کی آواز نے اُسے خدا حافظ کہا۔ وُہی کوئل‘ جسے شمشاد بیگم نے اپنے ابد تک زندہ رہنے والے ایک گیت میں مرکزی کردار بنا کر گایا اور امر بنادیا۔میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو ایک کان میں کوئل کی دلگداز آواز آرہی ہے اور دُوسرے کان میں شمشاد بیگم کی وہ آواز جو غالبؔ سن لیتے تو اُس کی شان میں ایک قصیدہ ضرورلکھتے اور اُسے اپنے تیموری ہاتھوں سے آم کھلاتے جو کھانے میں اُنہیں اتنے ہی پسند تھے جس طرح پینے میں اپنا خلافِ شرع مشروب۔
24 اپریل کو پاکستان میں میرا طوفانی دورہ اسلام آباد سے شروع ہوا۔ میں ایک نامور صحافی کا ممنون ہوں کہ وہ کسی پرانے تعارف کے بغیر محض میری دعوت قبول کرتے ہوئے میرے ہوٹل تشریف لائے۔ اپنے بے حد قیمتی وقت میں سے ایک گھنٹہ نکال کر۔ اُنہوں نے ایک بڑے اخبار میں پاکستان کے موجودہ مسائل کا جو حل لکھا ہے وہی ہمارے مسائل کا نسخۂ کیمیاء ہے۔ اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ اب ہمارے صحافی ہمارے معاشرے کے صرف کان اور آنکھیں ہی نہیں بلکہ دل و دماغ بن گئے ہیں اور سیاست دانوں کے ذہنی افلاس سے معرض وجود میں آنے والے فکری ریگستان میں افکارِ تازہ کے پھول کھلاتے ہیں۔
لاہور میں مجھے سہ روزہ قیام کے دوران تحریک عوامی حقوق کے پہلے اجلاس کی صدارت کا اعزاز حاصل ہوا‘ جس میں میرے دائیں جانب پاکستان عوامی تحریک کے معتمد اعلیٰ جناب خرم نواز گنڈا پور اور بائیں جانب جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر فرید پراچہ صاحب تشریف رکھتے تھے ۔ دونوں نے بڑی فکر انگیز۔ متواز ن، مدلل اور دلوں کو موہ لینے والی تقاریر کیں۔ اگلے دن میں فیصل آباد (پرُانے لائل پور) گیا جہاں اپنی بیوہ بہن تسنیم سرفراز کو ملنے کے بعد چیمبر آف کامرس اور فیصل آباد بار کے ارکین سے خطاب کرنے کا موقع ملا۔ وہاں سے سرگودھا گیا تاکہ اپنے بیمار بھائی اسلم باجوہ کی عیادت اور اپنے مرحوم بھائی (افضل باجوہ) کی قبر پر اور جوہرآباد میں اپنی والدہ مرحومہ (نذیر بیگم) اور اپنے چھوٹے بھائی (جاوید باجوہ) کی قبروں پر فاتحہ خوانی کر سکوں۔ مقدس آیات یاد رکھنے میں میری آبائی کمزوری میرے آڑے نہ آسکی۔ چونکہ جناب زاہد بخاری دو دن میرے ہم رکاب رہے اور اُنہوں نے دُعائیں مانگتے وقت مناسب الفاظ استعمال کرنے میں اپنے وہ تمام کمالات دکھائے جس کے لئے اہل سادات کی شہرت اور مہارت صدیوں پرُانی ہے۔ سرگودھا سے میری شناسائی بڑی پرانی ہے۔ میں اُسے اُس وقت سے جانتا ہوں جب وہاں ایک کالج بھی نہ تھا۔ اب گیا تو وہاں ایک شاندار یونیورسٹی جگمگا رہی تھی۔ میں ڈاکٹر حسین احمد پراچہ اور اُن کے رُفقاء کار کا ممنون ہوں کہ اُنہوں نے مجھے اپنی یونیورسٹی سے متعارف کرایا جہاں 30 ہزار طلباء اور طالبات زیر تعلیم ہیںاور اُن میں اکثریت طالبات کی ہے۔ جنہیں میں نے بڑے اعتماد سے یونیورسٹی میں گھومتے ہوئے اور اوقات فرصت میں گھاس کے قطعوں پر بیٹھے گپ شپ کرتے (جو یونیورسٹی تعلیم کا لازمی حصہ ہوتی ہے) دیکھا تو خوشی سے دل بھر گیا اور فخر سے سر اُونچا ہو گیا (وطن عزیز میں مجھے یہ خوشگوار تجربہ شاذو نادر ہی ہوتا ہے) ۔میں لاہور سے کراچی گیا تاکہ اتوار26 اپریل کو لندن واپس آسکوں۔ کراچی میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جناب سعید الزمان صدیقی اور سابق جج جناب وجیہہ الدین احمد نے بہ کمال مہربانی اپنے گھر ملاقات کا موقع دیا۔ شام سمندر کے کنارے گزری اور وہ بھی اشرافیہ کے صدر مقام میں جس کا نام کراچی 'بوٹ کلب‘ ہے۔ میزبان اس کلب کے صدر جناب آفتاب نبی سابق انسپکٹر جنرل پولیس سندھ تھے۔ اُنہوں نے مجھے کراچی میں رہنے والے پندرہ دانشوروں اور بڑے معتبر لوگوں سے تبادلہ خیال کا جو موقع دیا وہ میرے خوابوں کی تعبیر تھا۔ اب ذرا دل تھام کر ایک ایسی بات پڑھیے۔ جس نے میرے بوڑھے دل کو خون کے آنسو رُلا دیا۔ پتہ چلا کہ کراچی میں انسانی حقوق کی سرگرم کارکن سبین نے ماما قدیر اور فرازنہ بلوچ کو اپنے ہمدردوں سے ملانے کے لیے بلایا ہے۔ میں نے اس بے حد قابل احترام خاتون کو یہ بتانے کے لئے کہ میں کراچی آرہا ہوں فون کیاتو معلوم ہوا کہ اپنے دفتر میں ایک اجلاس منعقد کرنے کے بعد وہ اپنی والدہ کے ساتھ گھر واپس آرہی تھیں تو اُنہیں راستے میں گولی مار دی گئی۔ اس قتل کی مذمت دُنیا بھر میں کی گئی ہے‘ برطانوی اخبارات میں بھی ۔ چین ہمارے ملک میں اربوں ڈالروں کی سرمایہ کاری کرے گا تو ہم دونوں کا فائدہ ہوگا مگر ایک بات پلّے باندھ لیجئے۔مصنوعی تنفس سے کسی بیمار شخص یا بیمار معاشرہ کو ہمیشہ کے لئے زندہ نہیں رکھا جا سکتا۔ ہم اُس وقت تک تہذیب اور ترقی‘ امن و انصاف کے دائرہ میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک وہاں کئی ہزار لوگوں کی گمشدگی کا انتہائی خلاف قانون اور خلاف آئین باب ہمیشہ کے لئے بند نہیں کر دیا جاتا۔ جب تک وہاں نوا ب اکبر بگٹی سے لے کر سبین تک۔ مرتضیٰ بھٹو سے لے کر اُس کی بہن بے نظیر بھٹو تک‘ لیاقت علی خان سے لے کر جنرل ضیاء الحق تک‘ درجنوں صحافیوں سے لے کر حکیم محمد سعید تک کو خالصتاً سیاسی وجوہ پر قتل کر دینے کی روایت ختم نہیں ہوتی۔ اب یہ فیصلہ میرے قارئین کریں گے یا آنے والا وقت کرے گا کہ یہ روایت ختم ہوتی ہے یا ہم ختم ہوتے ہیں۔
پس تحریر: میں یونیورسٹی آف سرگودھا اور فیصل آباد چیمبر آف کامرس کا احسان مند ہوں کہ اُن دونوں اداروں نے محض میری دلجوئی اور مہمان نوازی کی خاطر مجھے شیلڈز اور دیگر اعزازات سے نوازا۔ میں اُن کے لئے دُعاگو ہوں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں