اُجڑے ہوئے شہر میں اندھیرا

آج کا کالم سبین کے نام۔ ایرانی طلباء کے نام جن کا نوحہ فیض صاحب نے لکھا۔ الطاف حسین حالی نے غالب کا جو یادگار مرثیہ لکھا وہ مرثیہ نگاری کے فن کی معراج ہے (انیس اور دبیر سے معذرت کے ساتھ) آج کا کالم روزن برگ کے اس جوڑے کے نام جسے سوویت یونین کو (بلا معاوضہ)ایٹمی راز دینے کے جرم میں سزائے موت دی گئی۔ آج کا کالم پاکستان کے اُن صحافیوں کے نام جو سچ بولنے کے جرم میں شہید کر دیئے گئے۔ اگر تمام شہدا کے نام لکھے جائیں تو یہ کالم ہی نہیں اس اخبار کا سارا صفحہ بھر جائے گا۔ حالی کے مذکورہ بالا مرثیہ کا ایک شعر پڑھ لیں۔ سمجھ لیں کہ یہ شعر سبین کے لئے بھی لکھا گیا۔
ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
شہر میں اک چراغ تھا نہ رہا
مرحومہ سبین جیسے بہادر اور حق گو اور بے خوف لوگ شہید ہوتے رہیں گے اور آپ کا کالم نگار اُن کے مرثیے لکھتا رہے گا۔ میری بوڑھی آنکھوں میں تو اتنے آنسو نہیں کہ وہ ہر نئے المیہ پر اشک باری کر سکیں۔
24 اپریل کو سبین کراچی کی ایک شاہراہ پر شہید کر دی گئی مگر امریکہ سے لے کر ہر یورپی ملک میں (خصوصاً برطانیہ میں) اس کی قابل فخراور قابل تقلید زندگی پر تعزیتی مضامین شائع ہوئے۔ یکم مئی کو دُنیا کے ایک کثیرالاشاعت ہفت روزہ اکانومسٹ نے (جو بدقسمتی سے سرمایہ کاری اور سامراجی تسلط کا حامی ہے مگربڑی دیانتداری سے اس کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کا علمبردار بھی ہے) اپنے تازہ شمارے کا ایک پورا صفحہ پاکستان کی اس بہادر بیٹی کے تعارف‘ تعریف اور تعزیت کے لئے وقف کر دیا۔
سبین کو کراچی کی ایک شاہراہ پر دو موٹر سائیکل سواروں کی گولیوں کی بوچھاڑ نے شہید کر دیا مگر صف ماتم ہے کہ کراچی سے لندن تک بچھ گئی۔ ظاہر ہے کہ جس بدنصیب ملک میں آج تک یہ پتہ نہیں چلا کہ لیاقت علی خان‘ ضیاء الحق‘ مرتضیٰ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو کس نے قتل کیا‘ وہاں بے چاری ایک سیدھی سادی معصوم 40 سالہ خاتون کسی گنتی میں شمار نہیں ہوگی؟ یہ کالم نگار جنات کے انسانی زندگی میں عمل دخل کوقعطاً نہیں مانتامگر پاکستان میں قتل کی کامیاب وارداتوں کا نہ ختم ہونے والے سلسلے پر دلخراش خبریں پڑھ کر مجھے اب یہ یقین ہونے لگا ہے کہ جن بھوت اور کوئی کام کریں یا نہ کریں‘ پاکستان میں ناپسندیدہ افراد کوقتل کرنے کے فن میں مہارت رکھتے ہیں۔ سبین کو قتل کرنے والا بھی ضرور غیر مرئی چھلاوہ ہوگا کہ وہ جائے واردات سے اس طرح غائب ہو گیا کہ نہ نام و نشان‘ نہ پتہ‘ نہ سراغ۔ اب آپ بتایئے کہ جب اتنے سنگین جرائم کا ارتکاب جنات کرنے لگیں تو پولیس کسے پکڑے؟ کسے گرفتار کرے؟ قتل کے جرم کے ارتکاب میں کس پر مقدمہ چلائے؟ عدالت کس کو سزا دے؟
آپ کو علم ہوگا کہ طالبان نے اس جرم سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ ہماری آئی ایس آئی نے پولیس کو ہر ممکن تعاون کی پیشکش کی ہے۔ ہمارے وزیراعظم کو اس قتل سے سخت صدمہ پہنچا ہے اُنہوں نے پولیس کو حکم دیا ہے کہ وہ قاتلوں کو تین دن کے اندر پکڑ لیں۔ پولیس نے کہا ہے کہ وہ پہلے ہی تفتیش میں مصروف ہے۔ لیکن یہ حکم دھرا رہ جائے گا اور پولیس ہفتوں، مہینوں، بلکہ برسوں میں بھی سبین کے اصل قاتلوں کا سُراغ نہیں لگا سکے گی۔ اُردو کے کلاسیکی ادب میں کسی شاعر نے (روایتی عشقیہ شاعری میں عشاق کا ہلاک ہوجانا یا کر دیا جانا بالکل ایک قدرتی امر ہوتا تھا) اپنی محبوبہ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ سوال کیا تھا۔ع
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
سنگ دل محبوب نے کیا جواب دیا‘ وہ ہم نہیں جانتے۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ہمارے تمام خفیہ جاسوس ادارے‘ ہماری پولیس‘ ہماری سی آئی ڈی ‘سب سبین کے قتل کے بارے میں کیا واقعی لاعلم ہیں جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں؟ جو لوگ سالہا سال اصرار کرتے رہے کہ بے نظیر بھٹو اپنی کار کے چھت کے آہنی لیور سے سر ٹکرا جانے کی وجہ سے ہلاک ہو گئیں وہ اتنے ہی وثوق سے سرکاری اعلان جاری کر سکتے ہیں کہ سبین یا تو قدرتی اسباب (مثلاً حرکت قلب بند ہو جانے) سے یا ٹریفک کے حادثہ میں ہلاک ہو گئیں۔ حادثہ کا شکار ہونے والے بھی شدید زخمی ہو جاتے ہیںاور خون سے لت پت۔ یہ کون سی انوکھی بات ہوئی کہ اچانک اُن کی کار کے سامنے ایک موٹر سائیکل آگیا۔ رحمدل اور نیک دل خاتون کی کار اس موٹر سائیکل سوار کو بچانے کی کوشش میں کھمبے سے جا ٹکرائی‘ حادثہ اتنا سنگین تھا کہ وہ موقع پر ہلاک ہو گئیں۔ رہا گولیوں کا چلنا تو ایک غلط فہمی کی وجہ سے یہ غلط خبر اُڑی۔ جائے حادثہ کے قریب بچے پٹاخے چلا رہے تھے جن کی آواز اتنی اونچی تھی کہ گمان گزرا کہ گولی چلی۔ نہ سبین پر حملہ ہوا نہ اُنہیں گولیاں ماری گئیں۔ اس کے علاوہ آپ کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ زندگی موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر سبین کے زندگی کے دن پورے ہو چکے تھے تو اُنہیں 24 اپریل کو اس فانی دُنیا سے جانا ہی تھا۔
اکانومسٹ کی رائے میں سبین صرف نادان ہی نہیں‘ پاگل بھی تھی جو (بقول انیسؔ) اندھیری رات میں اپنے ہاتھ پر چراغ رکھ کر تند و تیز ہوا کے سامنے چل نکلی‘ جان کی پروا کئے بغیر۔ وہ ہر احتجاجی تحریک کا حصہ ہوتی تھی‘ وہ سراپا احتجاج تھی‘ نہ دوپٹہ نہ حجاب‘ سر پر مردوں کی طرح چھوٹے بال‘ سیاہ فریم کی عینک کے پیچھے دو مسکراتی ہوئی ذہین شرارتی آنکھیں‘ ہونٹوں پر بچگانہ معصوم مسکراہٹ‘ موسیقی کی دل دادہ ۔ ایک عمارت کی دُوسری منزل پر اس کا جو اڈہ تھا وہ T2F کے نام سے مشہور تھا۔ وہ بیک وقت چائے خانہ‘ کتب خانہ اور ڈراموں کا تھیٹرتھا۔ یہ اُس کے خواب کی تعبیر تھی کہ کراچی میں لاہور کی طرح پاک ٹی ہائوس بنایا جائے۔ سبین کے قتل سے کراچی کے ادیب اور فنکار بے آسرا‘ بے گھر اور یتیم ہو گئے۔ دانشوروں کا مرکز محور نہ رہا۔ سبین صرف میری نہیں۔ ''تخریب پسند‘‘ پاکستانیوں کی نئی نسل کی وہ بیٹی تھی جو ایک روشن اور آنے والے دور کی علامت تھی۔ ایک پھول تھا جو مسل دیا گیا۔ ایک نغمہ تھا جو اُس کا ماتم کرنے والوں کی سسکیوں میں تبدیل ہو گیا۔ سبین کی والدہ فائرنگ سے شدید زخمی ہو گئیں۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اُن کے دل پر کیا گزری ہوگی؟ اُنہوں نے اپنی پیاری بچی کو برسوں جس گود میں پالا پوسا‘ اب اُسی گود میں اُن کی بیٹی کا زخموں سے چور بے جان جسم گرا پڑا تھا ۔ یہ کالم فیض صاحب کے مرثیہ سے شروع ہوا تھا۔ اُسی پر ختم کرتے ہیں۔ روزن برگ جوڑے کی شہادت پر اُن کی نظم کا عنوان ہے۔ ''ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘‘۔ آپ وہ نظم وقت نکال کر پڑھ لیں گے تو سمجھیں کہ آپ نے سبین اور اُس قبیلہ کے سارے افراد کا نوحہ پڑھ لیا۔ ''دست ِ صبا‘‘ میں فیض صاحب نے ایرانی طلباء (جو امن اور آزادی کی جدوجہد میں کام آئے) کے نام جو نظم لکھی اُس کے شروع کے اشعار سبین کی نذرکرنا چاہتا ہوں ؎
یہ کون سخی ہیں
جن کے لہو کی
اشرفیاں‘ چھن چھن‘ چھن چھن
دھرتی کے پیہم
کشکول میں ڈھلتی جاتی ہیں
کشکول کو بھرتی جاتی ہیں
سبین صرف ایک بہادر‘ بااُصول‘ باضمیر اور بے خوف لڑکی کا نام نہیں تھا‘ وہ ایک نظریہ تھی جو کبھی نہیں مرتا‘ وہ ایک علامت تھی جو کبھی نہ مٹے گی‘ وہ ایک پرچم تھی جو ہمیشہ لہراتا رہے گا۔ وہ ایک احتجاجی تحریک تھی جسے کوئی ظالم اور آمر آج تک نہ کچل سکا ہے نہ ڈرا سکا ہے‘ نہ خرید سکا ہے‘ سبین شہید ہو کر ہماری تاریخ کا حصہ بن گئی‘ درخشاں‘ معطر اور سدا بہار کا حصہ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں