عثمان خالد مرحوم

20 مئی کو ڈیلی ٹیلی گراف کی سب سے بڑی سُرخی یہ تھی ''اُسامہ بن لادن کا سُراغ کس برطانوی جاسوس نے لگایا۔‘‘ مذکورہ بالا خبر میں جس پاکستانی فوجی افسر کو امریکی سی آئی اے کو اُسامہ بن لادن کا اتا پتہ بتانے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا‘ اُس کا نام بریگیڈیئر عثمان خالد تھا۔ میں مرحوم عثمان کو (جنہوںنے پچھلے برس کئی سال کی بیماری کے بعد کینسر کا ناقابل علاج مریض بن کر وفات پائی) کو 32 سالوں سے اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ میرے گھر تو صرف ایک بار آئے مگر لندن میں ہونے والی سماجی اور سیاسی تقریبات میں ہر سال ایک دو بار دوستانہ ملاقات ہو جاتی تھی اور ٹیلی فون پر بھی رابطہ قائم رہتا تھا۔ مرحوم عثمان کی بڑی بہن کا نام ڈاکٹر کنیز فاطمہ یوسف ہے‘ جو پیپلز پارٹی کی نانی سمجھی جاتی ہیں۔ بھٹو صاحب اقتدارمیں آئے تو اُنہوں نے اس خاتون کو اسلام آباد میں قائداعظم یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنا دیا۔ اس سے پہلے وہ راولپنڈی میں خواتین کے ایک کالج کی پرنسپل رہ چکی تھیں اور اس سے پہلے جب کوئٹہ میں پڑھاتی تھیں (غالباً وہاں بھی پرنسپل تھیں) تو وہاں اُن کی ملاقات مرحوم حنیف رامے سے ہوئی اور بار بار ہوئی۔ رامے صاحب ان دنوں اپنے سُسر کے ہاں مقیم تھے۔ شاہین (مسز رامے) اور ناہید کے مرحوم والد ڈاکٹر بشیر کوئٹہ میں میرے والد مرحوم کے ماتحت کام کر چکے تھے‘ اس لئے میں بھی اُن سے متعارف تھا۔ رامے صاحب نے اپنے سُسرال کو نصف سال شرف میزبانی بخشا اور ہر روز گوشہ ٔ تنہائی میں بیٹھ کر ہمہ وقت قرآن پاک اور تفاسیر کا مطالعہ کرتے رہے۔ جب رامے صاحب نے معرفت کے تمام مقامات عبور کر لئے تو کوئٹہ میں اپنی طویل حجرہ نشینی چھوڑ کر لاہور واپس آگئے اور ایک فوجی آمر کی مادرِ ملت کے خلاف انتخابی مہم میں ایوب خان کی پبلسٹی کی منافع بخش ذمہ داری سنبھال لی۔ کوئٹہ میں ڈاکٹر کنیز سے جو رابطہ قائم ہوا وہ آگے چل کر پیپلز پارٹی کے معرض وجود میں آنے کے عمل میں کلیدی اہمیت کا حامل ثابت ہوا۔ جب بھٹو صاحب کو اُن کی چہیتے اور اُن کے اپنے ہاتھوں سے چنے ہوئے نالائق ترین جرنیل ضیاء الحق نے اقتدار سے ہٹا کر خود گدی سنبھال لی تو ڈاکٹر کنیز کو وائس چانسلر کے عہدہ پر توسیع نہ دی گئی۔ ان کے چھوٹے بھائی (عثمان خالد) کی جرنیل کے عہدہ تک ترقی کے امکانات بھی ختم ہو گئے۔ مرحوم عثمان اچھی طرح جانتے تھے کہ اپنی بڑی بہن کی پیپلز پارٹی سے گہری قربت اُن کو فوج میں ترقی کی سیڑھی پر اگلا قدم نہ رکھنے دے گی۔ آپ جانتے ہیں کہ فوج کا دستور یہ ہے کہ یا تو افسر اُوپر جاتا ہے یا باہر جاتا ہے۔ مرحوم عثمان خالد نے یہ پھرتی دکھائی کہ ریٹائرڈ کئے جانے سے قبل (ریٹائرمنٹ نوشتہ دیوار تھی) وہ بال بچوں کو لے کر برطانیہ آگئے۔ فوج سے استعفیٰ دے دیا۔ ضیاء الحق کے فوجی Coupکو خلافِ قانون و آئین قرار دیتے ہوئے برطانیہ میں سیاسی پناہ مانگ لی اور پھر ساری زندگی جلاوطنی اور کسمپرسی میں بسر کر دی۔ وہ رہتے بھی مغربی لندن کے مضافاتی علاقہ Hayes میں تھے جو جغرافیائی طور پر اُن دنوں سلاڈ میں میرے گھر کے بہت قریب تھا۔
ضیاء الحق برسر اقتدار آیا تو اُس نے ارائیں ہونے کے حوالے سے رامے صاحب پر ڈورے ڈالنے اور اُنہیں اپنا سیاسی رفیق بنانے کے لئے ہر ممکن حربے اختیار کئے۔ میرے پیارے اور پرانے دوست راجہ منور احمد، ضیاء الحق کے سب سے قریبی سیاسی شیر تھے اور اس سرکاری حیثیت کی بدولت رہتے بھی راولپنڈی میں پنجاب ہائوس میں تھے۔ صرف وُہی بتا سکتے ہیں کہ مذکورہ بالا دو ہم قبیلہ لوگوں کی دوستی کی بیل آخر کیوں نہ منڈھے چڑھ سکی؟خاص طور پر اُس سیاق و سباق میں کہ دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی۔ آخر کوئی نہ کوئی پرُ اسرار ساقی تو ہوگا جس نے شراب میں کچھ ایسی چیز ملا دی کہ پینے والوں کا نشہ ہرن ہوگیا۔ جب رامے صاحب کے دل میں شک و شبہ نہ رہا کہ ضیاء الحق کے دربار سے اُنہیں بھٹو دور میں شاہی قلعہ کی بے حد اذیت ناک قید بھگتنے اور طرح طرح کے عذاب برداشت کرنے کا کوئی اتنا بڑا انعام نہ ملے گا کہ وہ اُسی طرح ایک دوسرے فوجی آمر کی اردل میں چلے جائیں جس طرح اُنہوں نے پہلے فوجی آمر کی دل و جان سے خدمت کی تھی اور اپنی آخرت برباد کر کے اپنی دُنیا سنواری تھی‘ تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی بیوی کی بہن (ناہید) کی دعوت قبول کرتے ہوئے اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ امریکہ چلے جائیں اور وہاں جا کر کاروبار کریں۔ سرمایہ کہاں سے آیا؟ یہ اس کالم نگار کے علم میں نہیں۔ رامے صاحب کا اکلوتا بیٹا (ابراہیم) امریکہ میں کاروباری سرگرمیوں میں اُن کا دست راست تھا۔وہ چاہے تو اس پر ضرور روشنی ڈالے تاکہ اہل وطن کو پتہ چلے کہ ایک متوسط طبقہ کا فرد (جو وزیراعلیٰ پنجاب بننے سے پہلے معمولی درجہ کا ناشر کتب تھا) امریکہ میں جا کر بزنس کرنے لگا (صفر سے شروع ہو کر) تو سرمایہ کہاں سے آیا؟ رامے صاحب امریکہ جاتے (اور کئی سالوں کے بعد) وہاں سے آتے برطانیہ میں میرے گھر رُکے۔ وہ آئے تو ڈاکٹر کنیز فاطمہ یوسف (جو اُن دنوں اتفاقاً برطانیہ آئی ہوئی تھیں) اُنہیں بھاگم بھاگ ملنے آئیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے چھوٹے بھائی مرحوم عثمان کو بھی بلا لیا۔ مجھے اپنے قارئین کو یہ بتانا کافی مشکل کام لگتا ہے کہ سلاڈ میں میرے گھر میں کھانے کی میز پر جو گفتگو ہوئی اُس میں حصہ لینے والے چار افراد نے کیا حصہ لیا؟اُن پر کیا گزری؟ ڈاکٹر کنیز نے بلاتوقف رامے صاحب کو مشورہ دیا کہ آپ عثمان کا موقف سن کر ہی اپنے سیاسی مستقبل کا نقشہ مرتب کریں۔ بریگیڈیئر صاحب نے شرمائے بغیر رامے صاحب اورمجھے پاکستان کے سیاسی حالات پر ایک گھنٹہ لیکچر دیا۔ ہم دونوں دم بخود تھے۔ رامے صاحب کو ڈاکٹر کنیز کا لحاظ اور مجھے اُن کا۔ مرحوم عثمان (باقی تمام فوجی افسروں کی طرح) کی تعلیم ایف۔اے تک تھی۔ ساری زندگی سپہ گری میں گزری۔ سیاسیات کی ابجد سے واقف نہ تھے۔ آئین کے بارے میں اُن کا علم صفر تھا مگر اُنہوں نے یہ کمال کر دکھایا کہ رامے صاحب اور اُن کے میزبان کو اطفالِ مکتب سمجھا اور جو کچھ بھی کہا اور بے تکان کہا وہ سراسر خرافات تھا۔ جتنی دیر مرحوم عثمان بولتے رہے‘ اُن کی بڑی بہن کے چہرے پر پھیلی ہوئی مسکراہٹ دو مظلوم اور بے بس سامعین کو واشگاف طور پر بتا رہی تھی کہ یہ آپ دنوں کی خوش قسمتی ہے کہ میں نے آپ کو اپنے ذہین و فطین (غالباً نابہ روزگار) بھائی کے فرمودات اور افلاطونی تجزیاتی تبصرے سننے اور اپنی ذہنی سطح کو بلند کرنے کا موقع فراہم کیاہے۔ رامے صاحب نے امریکہ جا کر ایک پیٹرول پمپ خرید لیا۔ اُنہیں گاہکوں کی گاڑیوں میں پٹرول ڈالنے کے درمیان جو وقفہ ملتا تھا اُس میںوہ خطاطی کرتے تھے۔ تصویریں بناتے تھے۔ اُس سنہرے دور کے خواب دیکھتے تھے جب وہ پاکستان کے وزیراعظم بنیں گے۔ میں گذشتہ 32 سالوں میں مرحوم عثمان سے اتنے محفوظ فاصلہ پر رہا کہ اُن کے دل میں میری مزید ذہنی تربیت کرنے کی جو خواہش اتنے سال مچلتی رہی وہ حسرت بن گئی۔
بہن بھائی نے ضیاء الحق کا تختہ اُلٹنے کا یہ نسخہ سوچا کہ پاکستان سے نوجوانوں کو ٹریننگ کیمپ بھیجا جائے جو فوجی تربیت حاصل کر سکیں اور واپس آکر مسلح جدوجہد کے ذریعے فوجی آمریت کو ختم کر دیں۔ ڈاکٹر کنیز (اسلام آباد یونیورسٹی کے حوالہ سے) بہت سے نوجوانوں کو اچھی طرح جانتی تھیں جو اُنہیں اپنا قائد اور راہبر ہونے پر اندھا اور پختہ یقین رکھتے تھے۔ مرحوم عثمان نے معّمرقذافی سے راہ ورسم بڑھائی ۔ لیبیا آنا جانا شروع کیا اور وہاں سے اتنی مالی امداد وصول کر لی کہ برطانیہ میں قذافی کے بچگانہ اور نیم پختہ خیالات کی ترجمانی کا فرض ادا کر سکیں۔ یقینا لیبیا میں پاکستانی نوجوانوں کی تربیت کے منصوبے کی نوک پلک اُنہوں نے سنواری ہوگی۔ اُن کی بہن کے توسط سے نوجوانوں کا ایک ہی گروپ بھیجا جا سکا۔ اُس کا وہاں کیا حشر ہوا اور پھر پاکستان واپسی پر وہ کتنے بڑے عذاب سے گزرے‘ وہ بیان کرنے کے لئے نہ یہ جگہ مناسب ہے اور نہ کافی۔
یہ بات وثوق سے لکھنا ضروری ہے کہ بریگیڈیئر عثمان خالد مرحوم کا اُسامہ بن لادن کے قصہ سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ وہ بھٹو صاحب کی معزولی کے فوراً بعد فوج اور پاکستان دونوں کو چھوڑ چکے تھے۔ میں نے اُنہیں باضمیر‘ بااُصول اور بہادر شخص پایا۔ وہ بکائو مال نہ تھے۔ اُن کی حب الوطنی اُنہیں کرنل قذافی جیسے جنونی کے قریب لے گئی۔ اُن کی سیاسی سُوجھ بوجھ بے حد مشکوک تھی (جو ہر فوجی افسر کی ہوتی ہے اور ہونی چاہئے) مگر اُن کی حب الوطنی اور اعلیٰ ترین اخلاقی اقدار کی پاسداری پر کوئی سوالیہ نشان نہیں لگایا جا سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں