غالبؔ اور شہزادے کے خطوط

غالبـؔ نے ہمیں ڈرتے ڈرتے بتایا تھا کہ وہ جب اس جہان فانی سے کوچ کر جائیں گے تو اُن کے گھر سے حسینوں کے (اور وہ بھی چند) خطوط برآمد ہوں گے۔ اشارتاً بتایا گیا تھا کہ اس فضول کام میں اُن کے پس ماندگان اپنا زیادہ وقت برباد نہ کریں۔ شاید چند تصاویر بتاں بھی مل جائیں تو بونس (اضافی فائدہ) سمجھیں مگر کسی مالی فائدہ کی توقع نہ رکھیں۔ کئی سال پرانی بات ہے کہ میں اپنے پیرو مرشد خواجہ نظام الدین ؒ کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لئے گیا۔ راستہ میں غالبؔکی قبر دیکھی تو قدم وُہیں جم گئے۔ کافی دیر قبر کی پائنتی سر جُھکائے بیٹھا رہا۔ اُن کے لکھ ہوئے بہت سے بُھولے بسرے اشعار یاد آئے مگرسب سے زیادہ وہ غزل جس کا ایک مصرع یہ ہے۔ع
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
یہ بیان کرنے کے لئے کہ غالب کے بعد ہم پر کیا گزری۔ الطاف حسین حالیؔ‘ علامہ اقبالؔ‘ فیض ؔیا فرازؔ میں سے ایک ہونا ضروری ہے مگر افسوس کہ اس دن اُن کی قبر کی پائنتی پر بیٹھنے والا شخص ان میں سے ایک بھی نہیں تھا۔ وہ محسوس تو بہت کچھ کر سکتا ہے مگر بیان نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ میرا نطق میری زبان کے بوسے لینے کے اعزازسے محروم رہا۔(میں صرف یہی کر سکتا ہوں کہ ہر حلقہ زنجیر پر اپنی زبان رکھ دُوں اور حضرت موسیٰ کی طرح رب العزت سے دُعا مانگوں کہ وہ میری زبان پر پڑے ہوئے قُفل کو توڑ دے اور اگر لکھوں تو میری تحریر کو تازگی اور شُگُفتگی۔ فصاحت اور بلاغت عطا فرمائے ۔ تقریر کے میدان میں یہ دُعا بہادر یار جنگ اور عطاء اللہ شاہ بخاری کی قبول ہوئی۔ تحریر میں واصف علی واصف ،دائود رہبر اورابوالکلام آزاد کی اور (میرے عہد میں) مختار مسعود کی ان دونوں میدانوں میں‘ ملکہ برطانیہ کا سب سے بڑا بیٹا اور ولی عہد پرنس چارلس نہ صرف سماجی موضوعات پر رائے رکھتا ہے بلکہ وزراء اور وزرائے اعظم کو خط لکھ کر اپنی رائے دو ٹوک الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ اب وُہ خطوط شائع ہو گئے ہیں اور ہر محفل میں موضوع بحث بن رہے ہیں۔ یہ خطوط خفیہ فائلوں میں رکھے گئے تھے مگر روزنامہ گارڈین نے نو سال کی طویل قانونی جنگ کے بعد اُنہیں شائع کر دیا ہے۔
برطانیہ میں میری زندگی کے 18 سال لندن کے مضافات میں ہیتھرو ایئر پورٹ کے قریب جس صنعتی شہر میں گزرے اُس کا نام Sloughہے۔ میں اور میری بیوی وہاں ایک کالج میں 1975 ء میں پڑھانے گئے اور جب تک ہمارے چھ کے چھ بچے وہاں کے بہترین گرائمر سکول (جہاں داخلہ کے لئے گیارہ سال کی عمر میں بچوں کو مقابلہ کا تحریری امتحان پاس کرنا ہوتا ہے) میں تعلیم مکمل کر کے لندن یونیورسٹی نہ چلے گئے۔لندن کی خیرہ کن روشنیوں کی مقناطیسی کشش ہمیں نقل مکانی پر آمادہ نہ کر سکی۔ سلائو میں اس طویل قیام کے دوران میں اکثر پاس بہتے ہوئے دریائے ٹیمز کے کنارے کنارے چار پانچ میل کا فاصلہ طے کر کے اُس تاریخی مقام تک جاتا تھا جس کا نام Runnymede ہے۔ وہاں صرف دریا اپنا رُخ نہیں موڑتا بلکہ برطانوی تاریخ نے بھی اک نئے رُخ کی طرف مڑ گئی۔1215 ء میں (آج سے آٹھ سو برس پہلے) وہاں بادشاہ وقت اور اُس کی سلطنت پرراج کرنے والے نوابوں اور مہاراجوں (مقامی لُغت میں Barons ) کے درمیان ایک ضخیم معاہدہ طے پایا۔Magna Carta کے نام سے۔ انسانی حقوق کی طویل شاہراہ پر پہلا سنگ میل میثاق مدینہ ہے۔ دُوسرا میگنا کارٹا (1215)ہے۔ تیسرا اعلان‘ انقلاب فرانس(1789 ء)‘ چوتھا امریکی آئین میں پہلی چودہ ترمیموں کے ذریعہ اضافہ۔ پانچواں اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا اعلانیہ (1945 ء)‘ چھٹا اقوام متحدہ کے مرتب کردہ انسانوں کے سیاسی حقوق کے بارے میں بین الاقوامی معاہدہ اور ساتواں انسانی حقوق کی حفاظت کے لئے یورپی ممالک کی کنونشن میں طے شدہ معاہدہ۔ انسانی حقوق کی عمارت ان سات پائیدار اور ناقابل شکست ستونوں پر کھڑی ہے۔ وہ صرف ستون ہی نہیں۔ روشنی کے مینار بھی ہیں۔
Runnymede جانا ہو تو مجھے کار کا سہارا لیناپڑتا تھا۔ پیدل سیر کرنا ہوتی تھی( جو ہفتہ وار معمول تھا) تو میں سلائو سے ونڈسر ایک گھنٹہ میں پہنچ جاتا تھا۔ وہاں ایک گھنٹہ گزار کر خراماں خراماں گھر واپس۔ ونڈسر دُنیا بھر میں دو باتوں کے لئے مشہور ہے۔ ایک تو وہاں شاہی خاندان کا ذاتی اور آبائی محل ہے۔ لندن کے وسط میں بکنگھم پیلس برطانوی بادشاہوں کی سرکاری رہائش گاہ ہے۔ یہ محل لارڈ بکنگھم کی ذاتی ملکیت تھی۔ وہ بے اولاد تھا اور اُس کے اپنے بھائیوں کے تعلقات اتنے اچھے نہ تھے کہ وہ اپنی وصیت میں اُنہیں اس محل کا تحفہ دے جاتا۔ اُس کو یہ بھی پتا تھا کہ لندن میں بادشاہ کے زیر استعمال کوئی محل نہیںاور اُسے دو گھنٹے لمبا سفر طے کر کے ونڈسر سے لندن آنا پڑتا تھا تاکہ سرکاری تقریبات میں شریک ہوسکے۔ لارڈ بکنگھم نے برطانوی حکومت کو محل کا تحفہ دے دیا۔ ونڈسر کی شہرت کی دُوسری وجہ یہ ہے کہ Eaton نامی ایک قصبہ سے جڑا ہوا ہے جہاں برطانیہ کا سب سے مشہور اور مہنگا پبلک سکول ہے۔ جہاں آج بھی دُنیا بھر کے ارب پتی لوگوں اور سربراہان مملکت کے بادشاہوں (چھوٹے ہوں یا بڑے) کے بچے اٹھارہ برس کی عمر تک تعلیم پاتے ہیں اور اسی سکول کے بورڈنگ ہائوس میں رہتے ہیں۔ پرانی انگریزی میں ابتدائی تعلیم کے مکتب کو کالج اور اعلیٰ تعلیم کے ادارہ کو سکول کہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی اٹین کالج لکھتے ہیں اور لندن سکول آف اکنامکس (جو لندن یونیورسٹی کا اُتنا ہی مشہور ادارہ ہے جتنا سکول آف اورینٹل اینڈ افریقین سٹڈیز) ۔ اسی کی دہائی کے آخر میں‘ میں نے ایک پاکستانی اداکارہ کی یہ دوستانہ مدد کی کہ اُس کے بچے کچھے سرمایہ کو اُس کے حریص خاوندکی دست بُرد سے بچانے کے لئے اُسے ونڈسر اس طرح گھر خریدنے کا طریقہ بتایا کہ اُس کے خاوند کو مرتے دم تک (وہ پچھلے سال لاہور میں قتل کر دیئے گئے) یہ پتہ نہ چلا کہ وہ جس گھر کا کرایہ دیتے ہیں۔ اُن کی بیوی ہی اُس کی اصل مالکہ ہے۔ ان دنوں کی بات ہے کہ میں سلائو سے سیر کرتے کرتے‘ جب ونڈسر میں دریائے ٹیمز پر بنے ہوئے ایک پُل تک پہنچ کر وہاں بینچ پر بیٹھ جاتا تو وہ ریٹائرڈ اداکارہ بھی میرے ساتھ دُکھ سکھ (دُکھ زیادہ اور سُکھ کم) کرنے وہاں آجاتی تھیں۔ دوستی کا لحاظ کرتے ہوئے میں اُن کے خالصتاً پنجابی رقص پر کوئی تبصرہ نہ کرتا اور نہ اب کروں گا۔ اُس عفیفہ کے ہنگامہ خیز گرد و غبار اُڑا دینے والے رقص جو نور جہاں کے گیتوں پر فلمائے جاتے تھے‘ اُن کی شہرت کا باعث بنے۔ مسرت نذیر کی دیکھا دیکھی اس خاتون کو گانے کا شوق چرایا اور ونڈسرمیں دریا کے پل پر رکھے ہوئے صدیوں پرُانے زنگ آلود بینچ پر بیٹھے ہوئے کالم نگار کو تختہ مشق بنایا جاتا تھا۔ افسوس کہ اُن کی آواز گانے کے لئے بالکل موزوں نہ تھی اور میں لحاظاً سچ بولنے قاصر رہتا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میں بار بار یہ عذاب سہتا رہا۔ میں نے ایک دفعہ ہمت کر کے یہ قانونی نکتہ اُٹھایا کہ نور جہاں نے اپنے گانے میں نہر کے پل پر آکر ملاقات کی تجویز پیش کی تھی اور آپ ہیں کہ مجھے دریا کے پل پر ملنے آتی ہیں مگر اُنہوں نے اس فضول اعتراض کو سنا اَن سُنا کر دیا۔ گانے کے درمیان اُنہیں اپنے خاوند (جو اِن دنوں زندہ سلامت تھے) کی مزید زیادتیاں یاد آجاتیں تو وہ گانا بند کر کے رونا شروع کر دیتیں۔ میں نے بچائو کی یہ صورت دیکھی تو اُنہیں وقفوں کے دوران اُن پر توڑے گئے ظلم و ستم یاد کراتا‘ تاکہ وہ موسیقی کی بجائے گریہ زاری کی طرف متوجہ ہو جائیں اور ایک بے گناہ پر رحم کھائیں۔ میں یہ سطور اس لئے بے دھڑک لکھ رہا ہوں کہ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جس بی بی نے زندگی میں کوئی اخبار نہیں پڑھا (صرف اپنی تصاویر دیکھی ہیں) وہ یہ کالم بھی نہ پڑھیں گی۔ اگر آپ کی اتفاقاً اُن سے ملاقات ہو جائے تو میری نیک تمنائیں اُن تک ضرور پہنچا دیں مگر اس کالم میں لکھی ہوئی سچی باتیں ہر گز نہ دہرائیں۔ یاد رکھیں کہ دل شکنی گناہ کے زمرہ میں آتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں