آم کی لسی‘ دخانی جہاز اور …

کالم بعد میں پڑھیں۔ آم کی لسّی پہلے نوش فرمائیں۔ مگر وہ کیوں؟ 21 مئی کے روزنامہ گارڈین (لندن) کے G2 سیکشن کے صفحہ نمبر14 پر خصوصی نامہ نگار برائے خوراک نے لسّی کی بالعموم اور آم کے اضافہ سے بنی ہوئی لسّی کی بالخصوص تعریف کی ہے۔ تعریف کا لفظ تو کمزور لگتا ہے۔ یہ تو ایک قصیدہ ہے جو لسّی کی شان میں اور اس کے گونا گوں طبی فوائد پر لکھا گیا۔ مغرب نے نہ صرف ہم پر اپنی بدیسی زبان مسلّط کی ہے‘ ہماری تہذیب اور ہماری ثقافت کا حُلیہ بگاڑ دیا ہے‘ بلکہ ہمیں ذہنی طور پر اتنا اپاہج‘ مغرور اور بے وقوف بنا دیا ہے کہ ہم اس کے کھانوں اور مشروبات کے استعمال کو ماڈرن ہو جانے اور ترقی یافتہ بن جانے کے لئے ضروری اقدامات سمجھتے ہیں۔ یہ ہوتی ہے بندرکی خصوصی پہچان۔ دُوسروں کی نقل کرنا اور اپنی شخصیت کی نفی کرنا۔ قیام پاکستان سے پہلے (اور قیام کے بعد بھی دس پندرہ سالوں تک) ہم شہری ہوں یا دیہاتی۔ گرمیوں میں کون سے مشروبات سے اپنی پیاس بجھاتے تھے؟ اگر آپ کو یاد نہ ہو یا آپ کو پتہ نہ ہو تو میں گنواتاہوں۔ سب سے مقبول تو لسّی تھی۔ پھر لیموں کی بنی ہوئی شکنجبین (جسے پنجابی میں شکونجی کہتے ہیں)‘ پھر شکر کا شربت اور اگر آپ خوش نصیب ہوں تو جو کے بنے ہوے ستُّو۔ اور اگر ان میں سے ایک بھی نعمت نہ ملے تو پھر صاف مگر ٹھنڈا پانی۔ اب بدقسمتی کا یہ حال ہے کہ وطن عزیز میں پینے کے صاف پانی کا ملنا بھی محال ہو گیا ہے۔ جوئے شیر کی کھدائی جوئے آب کی فراہمی سے آسان ہو گئی ہے۔ متوسط اور امیر طبقہ کے افراد بوتلوں میں بند معدنی پانی پیتے ہیں اور غریب جراثیموں اور زہریلے مادوں سے بھرپور پانی جو ولایت میں جانوروں کو پلانا بھی جرم ہے۔ اپنے مہلک اثرات کی وجہ سے۔ ایک عام شہری جو پانی پیتا ہے وہ اپنے آپ پر خود کش حملہ کرنے کے مترادف ہے۔ یہ پانی بے شمار بیماریوں کا سرچشمہ ہے ۔
غالبؔ کا زمانہ تھا تو کانٹوں کی زبان سُوکھ گئی تھی‘اور دعا مانگتے تھے کہ کوئی آبلہ پا وادیٔ پرُ خار میں آوے اور اُن کی پیاس بجھائے۔ ہمارا ترقی یافتہ دور آیا تو ہماری زبان پیاس کی شدت سے سُوکھ کر کانٹا بن گئی۔ صحرائے تھر میں رہنے والے اہل وطن کا حال دیکھ لیں۔ پہلے ناچنے والے مورمر گئے اور پھر اِن کا رقص دیکھنے والے انسان۔ جنگل میںرہنے والے لوگ تو جنگل میں ناچنے والے موروں کا رقص صدیوں سے دیکھتے آئے ہیں۔ شہروں میں بنائے گئے عالی شان دفاتر میں سرکاری عہدوں پر متمکن لوگوں نے ایسی حکمت عملی مرتب کی اور اتنے اچھے فیصلے کئے کہ نہ بانس رہا اور نہ بانسری بج سکی۔ اب تھر میں ایک اور طرح کا رقص ہوتا ہے۔ وہ ہے ملک الموت کا۔ مگر جائے واردات سے شہر اتنی دُور ہیں کہ وہاں اس رقص کی تھاپ سنائی نہیں دیتی۔ یوں بھی شہروں کو طرح طرح کے سیکنڈل اور اُن سے پیدا ہونے والے شور شرابے نے اس طرح اپنی گرفت میں لے رکھا ہے کہ اور کچھ سنائی نہیں دیتا اور خاص طور پر تب جب عوامی نمائندے بہرے ہوں۔ سماعت کے عذاب سے فارغ۔ تان اُس بات پر ٹوٹتی ہے جہاں سے یہ تذکرہ شروع ہوا تھا۔ پینے کا صاف پانی مفقود ہے۔ ہم گندے پانی کو یخ ٹھنڈا کر کے پینے کا تکلف کیوں کریں۔ ''کفار‘‘ کا ایک عرصہ سے صاف پانی پی پی کر جی بھر گیا تو وہ لسی کی طرف متوجہ ہوئے اور لسّی بھی وہ جس میں آم کی آمیزش ہو۔ وہ یہ شوق بھی پورا کر لیں۔ وہ نہیں جانتے کہ اُن کی آخرت کتنی خراب ہے۔ ہم ''مومنین‘‘ ہی جنت میں جائیں گے اور وہاں حوض کوثر صاف (اور یقینا ٹھنڈا اور خوشبودار) پانی غٹ غٹ پئیں گے۔ جی بھر کر پئیں گے۔ اس چار روزہ دُنیا میں صاف پانی نہ ملا، تو کوئی پرواہ نہیں، ہم لسّی پینے کی حسرت دل میں لے کر جنت کی حوروں کے پاس پہنچ جائیں گے تو وہ ہمیں بہترین مشروبات با افراط اور با اصرار پلائیں گی۔ یہی اُن کا فرض منصبی ہے۔ بقول اقبالؔ کافر کی یہ پہچان ہے کہ وہ آفاق میں گم ہے۔ (اور صاف پانی پیتا ہے)۔ جب کہ ہماری (یعنی مومنوں ) کی پہچان یہ ہے کہ آفاق ہمارے دل و دماغ میں گم ہیں۔ اب آپ بتایئے کہ مومن ساری توجہ صاف پانی پینے اور پلانے کو دے یا اپنی آخرت سنوارنے کو۔ جواب اتنا آسان ہے کہ اپنے ذہین قارئین کو بتانے کی ضرورت نہیں۔
عرصہ ہوا کہ اس کالم میں کسی نئی کتاب کا تذکرہ نہیں ہوا۔ آج ضرور ہوگا۔ اس ماہ شائع ہونے والی ایک ایسی کتاب پر نظر پڑھی (پڑھنے کی باری نہ جانے کب آئے گی)جس کا میری اپنی زندگی سے بھی تعلق ہے۔ مصنف کا نام ہے Clive Davis اور کتاب کا نام Steam Boats on the Indus (دریائے سندھ میں چلنے والے دُخانی جہاز)۔ آکسفو رڈ یونیورسٹی نے یہ کتاب شائع کی اور 360 صفحات کی کتاب کی قیمت76 پائونڈ (یعنی بارہ ہزار ایک سو ساٹھ روپے) مقرر کی۔صاف ظاہر ہے کہ ناشرین نہیں چاہتے کہ میری طرح کا مزدور خریدے اور پڑھے۔ کتابوں کی دُکانوں میں کھڑا کھڑا ورق گردانی کرے یا اپنی مقامی لائبریری کے توسط سے منگوائے (جو یہ کام ہمیشہ بخوشی مستعدی سے کرتی ہیں)۔
آپ جانتے ہیں کہ اُنیسویں صدی میں برطانوی راج کی توسیع میں بھاپ سے چلنے والے انجن نے کلیدی کردار ادا کیا۔ دُخانی جہازوں نے سمندروں کو فتح کر لینے کے بعد دریائے سندھ کے معاملہ میں انگریز حکمرانوں کو اپنی انجینئرنگ اور صنعتی ترقی پر بڑا گھمنڈ تھا۔ اُن کے بنائے ہوئے بڑے بڑے دُخانی جہازوں کا دریائے سندھ میں تیرتی ہوئی مسکین چوبی کشتیوں سے کیا مقابلہ؟ ممولہ اور شہباز کی لڑائی والا معاملہ تھا۔(بشرطیکہ ممولہ کا اقبال ؔسے کوئی واسطہ نہ ہو جو اُسے شہباز پر پل پڑنے اور اُسے شکست دینے کی پٹی پڑھانے کی ساری عمر کوشش کرتے رہے)۔ کتاب کا موضوع وُہ 40 برس (1830ء سے1870 ء) ہیں، جب انگریز سرمایہ داروں نے دریا ئے سندھ میں بھاپ سے چلنے والے جہازوں کو متعارف کرانے پر دو ملین (20 لاکھ) پائونڈ ڈبو دیئے۔ دریائے سندھ زندہ باد کا نعرہ لگانا چاہئے چونکہ اُس نے انگریز حکمرانوں کے دُخانی جہازوں کے ذریعہ سفر اور بار برداری کے منصوبوں کو برُی طرح ناکام بنا دیا۔ پرانی اور لکڑی کی بنی ہوئی اور پھڑ پھڑاتے ہوئے بادبانوں سے چلنے والی کشتیاں اور ان کے ملاح دریائے سندھ کے رموز جہاز رانی سے بخوبی واقف تھے۔ اُنہوں نے میدان (آبی گزرگاہ) مار لیا۔ دریائے سندھ نے شیشہ گرانِ فرنگ (یا برطانیہ کے دخانی جہازبنانے والوں ) کا احسان اُٹھانے سے اتنے دو ٹوک انداز میں انکار کر دیا کہ انگریزسرمایہ دار بتدریج اس مہم جوئی سے ہاتھ کھینچنے لگے۔ جب دریائے سندھ کے کنارے پر رہنے والے قبائل قومی حمیت کے امتحان میں فیل ہو گئے تو قدرت نے سامراجی حکمرانوں کے آگے ڈٹ جانے اور اُن کا غرور خاک میں ملانے (پانی میں ڈبو دینے) کا تاریخی فرض دریائے سندھ کو سونپ دیا۔ دریائے سندھ اس امتحان میں سُرخرو رہا۔ کتنے لُطف کی بات ہے کہ 1965 ء کی پاک بھارت جنگ میں لاہور پر حملہ ہوا تو ایک گمنام مُعمولی سی نہر (جس کا نام غالباً بی آر بی تھا) نے بھارتی جارحانہ حملہ کو اُس وقت تک روکے رکھا، جب تک عزیز بھٹی شہید وہاں اپنی کمپنی کے ساتھ لاہور کا دفاع کرنے نہ پہنچ گئے۔
1946ء تک دریائے سندھ میں چلنے و الے برطانوی دُخانی جہازوں کی تعداد گھٹتے گھٹتے ایک رہ گئی، جومظفر گڑھ کے ایک پتن سے چلتا تھا اور مسافروں کو چھ گھنٹے کے تکلیف دہ سفر کے بعد ڈیرہ غازی خان کے پتن پر پہنچاتا تھا۔ میرے والد مرحوم جو 1935ء میں کنگ ایڈورڈ کالج میں پانچ سال پڑھ کر ڈاکٹر بنے، 1939ء سے 1941ء تک تونسہ شریف میں سول ہسپتال کے انچارج تھے۔ اُن کا تبادلہ نارووال ہوا۔ (جہاں میں نے ایک درخت کے نیچے ٹاٹ پر بیٹھ کرپہلی سے چوتھی جماعت تک کی تعلیم حاصل کی)۔ تونسہ شریف سے ہم ایک خستہ حال بس پر ڈیرہ غازی روانہ ہوئے۔ (ہم سے مُراد والدین اور چار سال سے کم عمر دو بچے) جنگ کا زمانہ تھا۔ پٹرول صرف فوجی گاڑیاں استعمال کرتی تھیں۔ عام مسافروں کے لئے چلنے والی ہر بس بھاپ سے چلتی تھی۔ آپ کو شاید یہ پڑھ کر یقین نہ آئے کہ ہر بس کے پیچھے (چھت تک لے جانے والی سیڑھی کے قریب) ایک بڑا سلنڈر لگا ہوتا تھا۔ جس میں کوئلے دہکتے تھے جو پانی کو بھاپ میں تبدیل کرتے تھے اور بھاپ بس کو چلاتی تھی۔ رفتار بمشکل پندرہ بیس میل فی گھنٹہ ۔ایک اچھا سائیکل سوار اس بس سے باآسانی آگے نکل سکتا تھا۔ تونسہ شریف سے ڈیرہ غازی خان میںدریائے سندھ کے پتن تک پہنچنے میں بارہ گھنٹے لگ گئے۔ (جتنی دیر میں اب میں لندن سے دُنیا کی دُوسری طرف ٹوکیو پہنچ جاتا ہوں) رات کسی خیمہ میں گزری۔ صبح ایک سٹیمر(Steamer) پر دریائے سندھ عبور کرنے کی مہم شروع ہوئی۔ یہ دُخانی جہازپیچ و خم کھاتا ہوا بعد دوپہر دوسری جانب ساحل پر لنگر انداز ہوا۔ اس تاریخی اور یادگار سفر کے دوران آپ کے کالم نگار (عمر چار برس) کی اُس گھرانہ سے مختصر ملاقات ہوئی جس کے سربراہ ایک ڈاکٹر تھے اور وہ میرے والد مرحوم کی جگہ سنبھالنے تونسہ شریف جا رہے تھے۔ اس گھرانہ میں ایک چودہ سالہ لڑکی تھی۔ دراز قد اور دلکش اور مسکراتی ہوئی۔ اُس کا خوبصورت ناک نقشہ ابھی تک ذہن میں محفوظ ہے۔ 21 سال گزر گئے میری شادی ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ میرے سسر صاحب کی کزن ہیں۔ نام ہے مسز انیس افتخار۔ لاہور کالج فار ویمن میں ایم۔ اے انگریزی کی طالبات کو پڑھا کر ریٹائر ہوئیں۔ اُمید ہے کہ وہ یہ سطور پڑھیں گی تو اُنہیں74 سال پہلے کا دریائی سفر اور سٹیمرپر ہونے والی ملاقات یاد آجائے گی۔ اب ڈیرہ غازی خان سے مظفر گڑھ تک جانا ہو تو آپ صرف دس منٹ میں ایک شاندار پل پر سفر کر کے یہ مرحلہ طے کر لیتے ہیں ۔ آخر دریائے سندھ بھی فتح ہو گیا،مگر اپنے بھائی بندوں کے ہاتھوں۔ آخر دریائے سندھ ہمارا ہے اور ہم اُس کے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں