مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا

یہ فریاد پہلے پہل غالب نے کی تھی کہ مجھے کیا برُا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا۔ بدقسمتی سے خالق پاکستان بھی ایک بار نہیں بلکہ نو بار فوت ہوئے۔ پہلی وفات جسمانی تھی اور وُہ تھی ستمبر 1948 ء میں۔ دُوسری اکتوبر 1958 ء میں (معنوی) جب پہلا مارشل لاء لگا۔ ذرا سوچئے صرف گیارہ سال پہلے ہم انگریز کی غلامی سے آزاد ہوئے اور پہلے عام انتخابات سے چند ہفتے قبل جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی اور وہ جرنیل حکومت پر غاصبانہ طور پر قابض ہو گئے جنہیں قائداعظم نے بڑی سختی سے سرزنش کی تھی کہ وہ سیاسی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت کے مجاز نہیں۔ یہ خالق پاکستان کی پہلی نظریاتی وفات اور گنتی کے اعتبار سے دُوسری وفات تھی۔ تیسری وفات تب ہوئی جب ایوب خان نے خود اپنے بنائے ہوئے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی کی بجائے عنان حکومت جنرل یحییٰ خان کے ہاتھوں میں تھما دی۔ چوتھی وفات کی تاریخ دسمبر1971 ء ہے۔ جب قائداعظم کا بنایا ہوا پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا۔ کیوں ہوا؟ بنگالیوں کے حقوق تسلیم نہ کرنے اوروفاق کے بنیادی اُصولوں کو پامال کرنے اور اندھی طاقت کے بل بوتے پر پاکستان کے سب سے بڑے (آبادی کے لحاظ سے) صوبے کے عوام کو مرکزی حکومت کے ماتحت رکھنے کی ناکام کوشش کی وجہ سے۔ ہمارا دُوسرا آئین ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔ پانچویں وفات اُس وقت ہوئی جب جنرل ضیاء الحق نے تیسرا مارشل لاء نافذ کر دیا۔ چھٹی وفات کی تاریخ وہ ہے جس منحوس دن اسی فوجی آمر نے ایک سابق وزیراعظم کو (جس نے میرٹ اور قابلیت اور سنیارٹی کے معیاروں کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے اُسے فوج کا سپہ سالار بنایا تھا۔) اُس جرم کی پاداش میں تختہ دار پر لٹکایا، جس کا وہ مرتکب ہی نہ ہوا تھا اور اُس سنگین جرم (ملک توڑنے کی سازش میں شرکت) کا استغاثہ میں ذکر تک نہ تھا، جس کے بھٹو صاحب بڑی حد تک ذمہ دار تھے۔ آپ ساتویں وفات کی تاریخ جاننا چاہتے ہیں تو اُس کا جواب سیدھا سادہ ہے۔ جنرل مشرف کے لگائے ہوئے (ہماری تاریخ کے چوتھے) مارشل لاء کی تاریخ۔ عوام کے ووٹوں سے چنی گئی قومی اسمبلی آناً فاناً تحلیل کر دی گئی۔ وزیراعظم کو بزور شمشیر ہٹا دیا گیا اور اُنہیں قید کر کے ایک لمبا عرصہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اگر بحث کی خاطر یہ مان بھی لیا جائے کہ میاں نواز شریف نے چیف آف سٹاف کے ہوائی جہاز کا رُخ موڑنے (اُور نام نہاد ہائی جیکنگ) کا غیر قانونی حکم دیا تھا تو وُہ جرم اپنی سنگینی کے اعتبار سے جنرل مشرف کے جرائم کا عشرعشیربھی نہ تھا ۔ میں اپنے قارئین سے استدعا کروں گا کہ وہ مذکورہ بالا سطور یہ بات ذہن میں رکھ کر پڑھیں کہ ہمارے بدنصیب ملک کی ہر عدالت عالیہ ہر مارشل لاء پر قانونی تو ثیق کی مہر ثبت کرتی رہی۔ یکے بعد دیگرے چار مارشل لاء لگے اور ہر بار سپریم کورٹ نے قانون کی حکمرانی کو پامال کرنے والوں۔ آئین کو اپنے فوجی بوٹوں کے تلے روندنے اور خالقِ پاکستان کی بلند و بالااقدار کی نفی کرنے والوں کو سبز روشنی دکھائی اور غاصبوں کی معاونت کی۔ قائداعظم کی آٹھویں وفات کا قہر اُس وقت ٹوٹا جب مذکورہ بالا فوجی آمر نے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے جج کو نہ صرف غیر قانونی طور پر اُن کے عہدۂ جلیلہ سے ہٹا دیا بلکہ اُنہیں اُن کے گھر میں بال بچوں کے ساتھ قید کر دیا اور طویل عرصہ حبس بے جا میں رکھا اُور اُس دوران سپریم کورٹ اور چاروں صوبوں کی ہائی کورٹس معمول کے مطابق کام کرتی رہیں۔ اس سارے عرصہ میں خالق پاکستان کے نظریات اور اقدار حالت نزع میں رہے۔ میری طرح ہر سال جو ہزاروں افراد کراچی میں مزار قائد پر فاتحہ خوانی کرنے جاتے، اُنہیں خالق پاکستان کی آخری آرام گاہ سے یہ آوازسنائی دیتی۔ مجھے کیا برُا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا۔
1998 ء میں قائداعظم کی زندگی پر جو فلم بنائی گئی تھی اُس کا نام جناح تھا۔ اُس فلم میں جس بے مثال برطانوی اداکار نے قائداعظم کا رُول ادا کیا اُس کا نام کرسٹوفر لی (Christopher Lee) تھا۔ چھ جون کو وہ 93 سال کی لمبی عمر پا کر انتقال کر گیا۔ کرسٹوفر ہمارے پاس اپنے محبوب قائد کی آخری نشانی تھی۔ اب وہ بھی ہم سے دُور چلی گئی۔ نہ قائد رہے نہ اُن کا بنایا ہوا پاکستان اور نہ اُن کا رول ادا کرنے والا صاحب کمال اداکار۔ اب راستے کی دُھول ہے اور ہم ہیں دوستو! یہ سارا تذکرہ کرتے ہوئے میں نے اُن کی پیاری بہن فاطمہ جناح کا ذکر نہ کیا۔ میں نے مرحوم کے ایچ خورشید کی آنکھیں دیکھی ہیں اُور اُنہوں نے ہمارے قائداعظم کی ۔ وُہ قائد کے سیکرٹری اور دست راست رہے اور اُن کی وفات کے بعد مادرِ ملت کے گھر 4 سال اپنی بیوی (ثریا) کے ساتھ رہے ان دونوں نے 1971ء اور 1973ء میں مجھے اور میری بیوی کو دو بار شرف میزبانی بخشا۔ ثریا خالد حسین کی بہن ہیں جو اعلیٰ سرکاری عہدہ چھوڑ کر بلند پایہ صحافی بنے اور چند برس پہلے واشنگٹن میں وفات پائی۔ خالد حسین 1955 ء میں مرے کالج سیالکوٹ میں میرے ہم عصر تھے۔ کئی اچھی اور دلچسپ کتابوں کے مصنف اور باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ آج وہ زندہ ہوتے تو اس اخبار کے قارئین کو میرا یہ سپاٹ اور دیہاتی انداز میں لکھا ہوا کالم پڑھنے کی بجائے ایک ایسی تحریر کے مطالعہ کی خوشی حاصل ہوتی جو ماتمی ہونے کے باوجود اتنی شگفتہ ہوتی کہ آپ زیرلب مسکرا دیتے ۔ میں وُہ ہنر کہاں سے لائوں؟ اگر آپ فارسی نہیں جانتے تو پھر یہ محاور ہ اُردو میں پڑھ لیں۔ گندم نہ ملے تو پھر بھس پر گزار ہ کریں۔ اور خدا کا شکر ادا کریں کہ کچھ تو ہاتھ آیا۔
کرسٹوفر لی کی بیوی نے اُن کی وفات کی خبر چار دن چھپائے رکھی تاکہ سب عزیز و اقربا کو فرداً فرداً اطلاع دے سکیں۔ وہ لندن کے سب سے مہنگے علاقہ Belgaria میں پیدا ہوئے۔ اُن کے باپ کوکثیر رقم ورثہ میں ملی اور فوج میں کرنل کا عہدہ مگر بدقسمتی سے جوا کھیلنے کی ناقابل اصلاح عادت نے اُن کی ازدواجی زندگی کو تباہ کر دیا۔ والدہ اٹلی کے ایک نواب Marqvis re Sarano کی بیٹی تھی۔ کرسٹوفر کو اپنا دراز قد (چھ فٹ چار انچ) اپنے نانا اور پڑنانا سے ورثہ میں ملا۔ قائداعظم کی طرح وہ بھی دُبلے پتلے (SLim ) اور چہرے میں ہڈیاں نمایاں تھیں، جسے انگریزی میں (Gaunt) لکھتے ہیں۔ کرسٹو فر لی 75 برس پہلے بھی جانے پہچانے اداکار تھے۔ وہ برطانیہ کے چند بہترین اور مہنگے ترین سکولوں میں سے ایک (Weuington College) میں پڑھے۔ اُنہوں نے سینکڑوں فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اُنہیں جو رُول بھی دیا گیا۔ اُنہوں نے اس میں جان ڈال دی۔ وہ برطانیہ کی فارن سروس میں شامل ہو کر سفارت کار بننا چاہتے تھے مگر اتفاقاً اداکاری کی طلسماتی دُنیا میں داخل ہوئے اور بام عروج تک پہنچے۔ یہ آج کی نہیں، برسوں پرانی بات ہے۔ وہ کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ برطانیہ میں ڈھب کی فلمیں نہ ملیں تو وہ فرانس، جرمنی ، اٹلی اورسپین کی فلمی دُنیا کے آسمانوں پر ستارہ بن کر چمکے۔ یہ خوبی بھی کسی اور اداکار کے حصہ میں نہ آئی۔
روزنامہ گارڈین میں کرسٹو فر پر تعزیتی مضمون شائع ہوا۔ وہ Alex Hamilton نے لکھا۔ یہ وُہی شخص ہے جس نے 1977ء میں اُن کی سوانح عمری لکھی تھی، جس کا نام Tall Dark and Grue some تھا آخری لفظ کا معنی ہے خوفناک۔ وجہ تسمیہ یہ ہے کہ کرسٹوفر ڈرائونی فلموں میں رُسوائے زمانہ فرضی کردار Dracula (معصوم نوجوان لڑکیوں کا خون اُس کا محبوب مشروب تھا) کا رول ادا کیا تھا۔ایک طرح کا بدنام کردار ادا کرنے کی وجہ سے مشہور ہوئے اور ایک خوفناک کردار سے وابستگی کرسٹوفر کے لئے اتنا بڑا عذاب ثابت ہوئی کہ جب حکومت پاکستان کو اس بات کا پتہ چلا تو اُس نے جناح نامی فلم کی مالی امداد سے ہاتھ روک لیا۔ حکومت تو ایک طرف رہی، اتنے لوگ کرسٹوفر کی جان کے دشمن بن گئے کہ فلم پروڈیوسر کو کرسٹوفر کے لئے 24 گھنٹے باڈی گارڈ رکھنے پڑے۔ فلم کے پروڈیوسر جمیل دہلوی تھے، جن کے قابل صد احترام والد جناب ایس کے دہلوی فرانس میں ہمارے سفیر رہ چکے تھے۔اُنہوں نے پیرس کی سب سے شاندار شاہراہ (شانزے لیزے) پر اپنابے حد قیمتی گھر پاکستان کو بطور تحفہ دے دیا۔ فلم کی نمائش ختم ہوئی تو ایک نہایت غیر خوشگوار اور تکلیف دہ جھگڑا شروع ہو گیا۔ جمیل دہلوی اور اکبر ایس احمد کے درمیان (جو اُس وقت برطانیہ میں ہمارے سفیر تھے)۔ جمیل صاحب الزام لگاتے تھے کہ اکبر صاحب اُن کے حصہ کے پچاس ہزار پائونڈ کھا گئے (جھگڑا صرف اتنی رقم کا تھا)۔ میں نے اکبر صاحب کو یاد دلایا کہ وہ خود تو میری طرح متوسط طبقہ کے فرد نہیں مگر اُن کی بیوی (زینت) ایک بادشاہ کی بیٹی ہیں۔ آپ اتنی چھوٹی رقم دے کر یہ تنازعہ ختم کریں اور ہر قیمت پر جمیل دہلوی کی شکایت دُور کریں۔ بدقسمتی سے میری طرح کے اور دوستوں کی مداخلت اپنی نیک نیتی کے باوجود ناکام رہی۔ آخر وُہی ہواجس کا خطرہ تھا۔ اکبر صاحب کی سفارت جاتی رہی اور اُنہیں برطانیہ چھوڑنا پڑا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں