جھیل میں کنول

29 اکتوبر1981ء کا ذکر ہے جب ایک گمنام عوام دوست امریکی نے چین، جرمنی، سوویت یونین اور فرانس کے صدر اور برطانیہ کے وزیراعظم کو وہ خط لکھے جو تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان خطوط میں ان رہنمائوں پر زور دیا گیا تھا کہ وہ دفاعی اخراجات کم کریں، تخفیف اسلحہ پرتوجہ دیں، امن عالم کے لئے ٹھوس اور موثر قدم اُٹھائیں، ماحول کی حفاظت کریں، بنی نوع انسان کو ہر قسم کی زہریلی گیس سے بچائیں، مضر صحت مصنوعات کی پیداوار پر پابندی لگائیں اور تحمل ، برداشت، بقائے باہم، احترام ِآدم جیسی اعلیٰ اقدار کو فروغ دیں۔ یہ خطوط امریکہ کی ایک دیہاتی ریاست کے چھوٹے سے قصبہ برنگٹن (Burlington) سے سپرد ڈاک کئے گئے ۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ہر مکتوب الیہ نے ان خطوط کا وہی حشر کیا ہوگا جو غالبؔ کا محبوب اُس کے محبت بھرے ناموں کا کرتا تھا، مگر غالبؔ یہ جانتے ہوئے کہ محبوب نے اُن کا خط پڑھ بھی لیا تو جواب میں کیا لکھے گا،اپنا اگلا خط پہلے ہی قلمبند کر لیتے تھے تاکہ نامہ برکو انتظارکی زحمت نہ اُٹھانی پڑے۔
مذکورہ خطوط کا سفر امریکہ کے ایک قصبہ سے شروع ہوا اور ختم پانچ بڑی طاقتوں کے سربراہوں کے دفاتر میں پڑے ہوئی ردی کی ٹوکری میں ہوا۔ مکتوب نگارامریکی کانگریس کے سب سے پرانے اورآزاد رُکن 73سالہ برنی سینڈرز تھا۔ وہ اب میدان میں اُترے ہیں کہ ڈیموکریٹک پارٹی سے (جس میں وہ حال ہی میں شامل ہوئے ہیں) امریکی صدارتی انتخاب کے لئے اُمیدوار بن سکیں۔ پارٹی کے اندر اُن کا مقابلہ ہلیری کلنٹن سے ہوگا۔ امریکہ کے طول و عرض میں ڈیموکریٹک پارٹی کے لاکھوں ارکان بذریعہ رائے شماری اپنا اُمیدوار چُنیں گے۔ یہ عمل اگلے سال فروری سے شروع ہو گا اور ہر امیدوار کے کروڑوں اربوں ڈالر خرچ ہوں گے۔ برنی پچاس سال سے ایک ہی راگ الاپ رہا ہے، ایک ہی ڈھول بجا رہا ہے کہ امریکہ میں عوام دوست اصلاحات کی جائیں۔ نصف صدی کے بعد لگتا ہے کہ اس بہادر،باضمیر اور بااُصول شخص کی آواز سنی جاری ہے۔ وہ ایک امریکی ریاست ورمائونٹ کے سب سے بڑے شہر کے میئر رہ چکے ہیں اور اب وہ ایوان بالا (سینیٹ) کے رُکن ہیں۔ اُن کی 1926ء میں لکھی گئی ایک خشک اور نیند آور خود نوشت طاق نسیاں کی زینت بنی رہی جو اب یکایک تیزی سے مقبولیت کی سیڑھی پر چڑھ کر بلیک مارکیٹ میں ڈھائی سو ڈالر میں فروخت ہو رہی ہے۔ برنی اپنی ریاست میں (سوشلسٹ خیالات اور اُن کے کھلم کھلا اظہار کے باوجود) گزشتہ انتخاب میں 71 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ امریکی سیاست پر دائیں بازو کی رجعت پسندی اور عوام دُشمن نظریات کی اتنی بڑی چھاپ اور ہمہ گیر قبضہ کے ماحول میں سے جو شخص لبرل ، روشن دماغ اور انسان دوست ہو اُسے بائیں بازو کا خطر ناک شر پسند سمجھا جاتا ہے۔ قارئین کے لیے شاید یہ اندازہ کرنا مشکل ہوگا کہ امریکہ میں اتنے ترقی پسندانہ خیالات رکھنا کتنا مشکل ہے؟ برنی اپنے خیالات کو چھپانے کی بجائے نہ صرف اُن کا برملا اظہار کرتے ہیں بلکہ الیکشن میں حصہ لیتے ہیں اور بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتے ہیں۔ یہ حیرت انگیز سیاسی معجزہ صرف ایک امریکی ریاست(ورمائونٹ) میں رُونما ہوا۔ برنی کو ووٹ دینے والوں پر خدائے برتر کی رحمتیں نازل ہوں کہ اُنہوں نے سرمایہ داری نظام کے جانے پہچانے بت شکن کو 71 فیصد ووٹ دے کر امریکی سینیٹ کا رُکن منتخب کیا۔ خوش قسمتی کی بات ہے کہ 525 ارکان کانگرس میں خاتون سینیٹر ایلزبتھ ، برنی کی ہم خیال ہیں۔ وہ شمال مشرقی امریکی ریاست میسی چیوسٹس کی نمائندگی کرتی ہیں۔ کانگریس کے 423 ارکان میں صرف ان دو ارکان کے ضمیر نے اُنہیں حکم اذاں دیا ہے۔ وہ دونوں یہ فرض بخوبی نبھا رہے ہیں۔ میں جب بھی امریکہ گیا ان دونوں کے لئے لندن سے پھول، رحیم یار خان میں جناب صلاح الدین عباسی کے باغ سے منگوائے ہوئے دُنیا کے سب سے عمدہ آم، کوہ قاف سے حاصل کئے گئے عطریات، صحرائے عرب کی موسیقی کی سی ڈی، سندھ کی اجرک، بلوچستان کے مرمریں مجسمے، پختون خوا سے خوشحال خان کی مغل حملہ آوروں کے خلاف لکھی گئی اور پتھر پر کندہ پشتو نظم، سرائیکی علاقہ میں بجائی جانے والی بانسری اور بہت کچھ لے جائوں گا اور اپنے ان نظریاتی دوستوں کی خدمت میں پیش کروں گا۔ قبول کر لئے گئے تو میرے لئے اور میرے قارئین کے لئے باعث عزت و شرف ہوں گے۔ 
برنی نے صدارتی انتخاب میں حصہ لیتے وقت اپنی تقریر میں کہا کہ اگر امریکی حکومت نے ارب پتی سرمایہ داروں کی اجارہ داریوں، استحصال اور لوٹ مارکا موثر سدباب نہ کیا تو وہ امریکہ کوتباہ کر دیںگے۔ کروڑوں لوگوں کی خوشحالی کے لئے زہر قاتل ثابت ہوںگے، عالمی امن کو پارہ پارہ کر دیں گے۔ وہ نہ صرف امریکی عوام کے وسیع تر مفادات کی نفی کرتے ہیں بلکہ دُنیا بھر میں اربوں انسانوں کو غربت کے خوفناک چنگل سے نکالنے میں سب سے بڑی رُکاوٹ بھی ہیں۔
برنی 1941ء میں نیو یارک میں پیدا ہوئے۔ باپ پولینڈ سے ہجرت کر کے آیا تھا جو عمر بھرمحنت مزدوری (بیشتر گھر گھر جا کر پینٹ فروشی) کر کے بال بچے پالتا رہا۔ برنی کا 80 سالہ بڑا بھائی آکسفورڈ میں رہتا ہے اور تحفظ ماحول کے لئے بنائی جانے والی سیاسی جماعت Green کا فعال رُکن ہے۔ آپ یہ پڑھ کر یقیناً حیران نہ ہوںگے کہ اس کی جماعت کا برطانوی پارلیمنٹ میں صرف ایک رُکن ہے۔
یہ بات تو شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ برنی ڈیمو کریٹک پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے میں ہر گز کامیاب نہ ہوں گے مگر اُن کی پُرجوش مہم کا یہ فائدہ ہوگا کہ ہلیری کلنٹن اپنے منشور کو زیادہ عوام دوست اور ترقی پسندانہ بنانے پر مجبور ہو جائیںگی۔ برنی نے اپنی زندگی بطور محنت کش شروع کی۔ وہ بڑھئی کا کام کرتے رہے ۔ برنی نے لبرٹی یونین کے امیدوار بن کر یکے بعد دیگرے چارانتخابات میں حصہ لیا اور ہمیشہ ناکام رہے، مگر وہ اپنے انتہائی غیر معتدل نظریات پر سختی سے قائم رہے اور ایک انچ بھی پسپا نہ ہوئے یہاں تک کہ وہ ایک دن ایک بڑا اہم الیکشن جیت گئے۔ 
اب اُن کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ وہ جہاں بھی تقریر کرنے جاتے ہیں ہال کھچا کھچ بھرا ہوتا ہے۔ سامعین اپنی کرسیوں پر بیٹھنے کے بجائے اُن کا دل گرمانے اور ذہن روشن کرنے والی تقریر کھڑے ہوکر سنتے اورداد دیتے ہیں،وہ اُن کی تائید میں زور زور سے تالیاں بجا کر ایسا غل غپاڑہ کرتے ہیں کہ امریکہ میں یہ منظر چشمِ فلک نے اس سے پہلے نہیں دیکھا ہوگا۔ 
برنی نے اپنا انتخابی فنڈ اکٹھا کرنے کا اعلان کیا تو پہلے ہی دن عام شہریوں کے کم آمدنی والوں اور گھریلو خواتین نے تھوڑی تھوڑی رقم کا عطیہ دے کر پندرہ لاکھ ڈالر اکٹھے کر لئے۔ ظاہر ہے کہ وہ آگے چل کر ہلیری کلنٹن کے اربوں ڈالر کے فنڈ کا عشر عشیر بھی نہ ہوںگے (میرے سو پائونڈ کے مجوزہ عطیہ کے باوجود) مگر یہ ویسا ہی مقابلہ کہا جا سکتا ہے جسے انجیل میں کم عمر حضرات دائود علیہ السلام اور اُن کے مدمقابل اپنے وقت کے سب سے بڑے پہلوان Goliath کے درمیان لڑائی کو بڑے ڈرامائی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
وہ امریکی نظام جو ملک سے باہر ویت نام سے لے کر افغانستان اور عراق میں لاکھوں بیگناہ انسانوں کے قتل عام کے سنگین ترین جرائم کا مرتکب ہوتا ہے، مصر کے جمہوری طور پر چنے گئے صدر مرسی کو سزائے موت دلواتا ہے، چلی میں عوام کے محبوب رہنما ایاندے کو گولیوں کی بوچھاڑ سے قتل کرواتا ہے، وہ اپنے ملک کے اندر بھی نہ ختم ہونے والے قتل عام کا براہ راست ذمہ دار ہے۔ اس کی آخری قسط گرجا گھر میں ایک سفید نسل پرست جنوبی نوجوان کے ہاتھوں بے ناہ سیاہ فاموں (جو خشوع و خضوع سے عبادت کر رہے تھے) کے قتل کا المناک واقعہ ہے۔ آئے دن امریکہ سے یہ خبر آتی ہے کہ سفید فام پولیس افسروں کے ایک سیاہ فام نوجوان کو محض شک و شبہ کی بنیاد پر اس طرح گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا جس طرح لوگ جنگل میں جانوروں کا شکار کرتے ہیں۔ کالم لکھنے سے پہلے میں نے اس کا عنوان تجویز کیا تھا''جھیل میں کنول‘‘ ، کنول سے مُراد برنی اور ان جیسے دُوسرے نیک طینت اور عوام دوست افراد ہیں۔ کالم ختم ہونے کو ہے تو مجھے احساس ہوا کہ میں نے عنوان غلط لکھا ہے۔ جھیل کے بجائے جوہڑ لکھنا چاہیے تھا اور جوہڑ بھی وہ جو گدلے پانی کے بجائے بیگناہوں کے خون سے بھرا ہوا ہو۔ ہم دیکھیں گے... لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے کہ اس جوہڑ میں کسی مبارک دن پھر کنول تیرتے نظر آئیں گے اور ان پھولوں کی برکت سے جوہڑ دیکھتے ہی دیکھے جھیل بن جائے گا۔ اقبال، فیض، فراز اور حبیب جالب نے ہمیں اسی روشن دن کے طلوع ہونے کا یقین دلایا ہے۔ صرف ان شعرا نے ہی نہیں بلکہ رب ذوالجلال نے بھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں