سُلطان صلاح الدین اور قائداعظم

ماہ جولائی میںجن دو شخصیات پر کتابیں شائع ہوئی ہیں اُن پر تبصرہ کرنے سے پہلے میں آپ کو اُن دو تصاویر کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جو سات جولائی کو برطانیہ کے سب سے محترم اور موقر روزنامہ گارڈین کے صفحہ نمبر14 اور صفحہ نمبر20 پر شائع ہوئیں۔ میں نے غیر معمولی دلچسپی، خوشی اور حیرت سے دیکھیں اور دیکھتا رہا۔ لندن میں ایک مصروف وکیل کے مشقت آمیز دن کا اس سے اچھا آغاز اور کیا ہو سکتا تھا۔ شام کو گھر آیا تو پھر اخبار کھول کر ان دونوں تصاویر کو دیر تک دیکھتا رہا۔ سونے سے پہلے ان دونوں کو کاٹ کر اپنے ایک بوسیدہ البم میں سنبھال کر رکھ لیا۔ اب آپ کے دل میں یہ گدگدی ہو رہی ہوگی کہ آخر ان تصاویر (اور وُہ بھی ایک روزنامہ میں شائع ہونے والی تصاویر) میں کون سی خاص بات تھی کہ دیکھنے والا یہ کہنے پر مجبور ہو گیا ع 
آنکھیں میری، باقی اُن کا
دونوں تصاویرمیرے شہر لاہور کی تھیں۔ ایک تصویر میں ایک بے حد پیاری سانولی سلونی اور غالباًمسیحی بچی (عمر انداز اً پانچ سال) ایک ایسے نلکے سے اپنی ہتھیلیوں (نستعلیق اُردو میں اوک) کوپیالہ بنا کر پانی پی رہی تھی، جو حال ہی میں غریب بستیوں میں صاف پانی کی فراہمی کیلئے بڑی تعداد میں لگائے گئے ہیں۔ یہ تصویر دیکھ کر میرے ذہن میں 70 سال پرُانی یادوں کے نقوش اُبھر آئے۔ جب بھی سیالکوٹ میں اپنے آبائی گائوں جانے کا اتفاق ہوتا تھا۔ کنوئیں سے نکلنے والی آبشار سے اسی طرح پانی پیا جاتا تھا یا پیا جا سکتا تھا۔ آدھا پانی منہ میں اور آدھا چھینٹوں کی صورت میں قمیض پر۔ صاف، ٹھنڈا اور مٹی کی سوندھی خوشبو میں رچا ہوا پانی۔ یہ تصویر عارف علی نے اُتاری اور اُنہوں نے عالمی مقام رکھنے والی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے ذریعہ دُنیا بھر کے اخبارات تک پہنچائی۔ اب ہم دُوسری تصویر پر نظر ڈالتے ہیں۔ لاہور کی ایک ایسی فیکٹری کا منظر جہاں ایک محنت کش نے اپنے کندھوں پر ایک لمبے بانس پر پانچ پانچ فٹ لمبی سویاں لٹکائی ہوئی ہیں اور وہ دُھوپ میں سکھانے کے لئے باہر لے جائی جا رہی ہیں۔ یہ تصویر محسن رضا نے اُتاری اور دُنیا کی سب سے بڑی خبر رساں ایجنسی رائٹر کے ذریعہ عالمی اخبارات تک پہنچائی۔ گارڈین نے تعارفاً لکھا کہ سویاں ماہ رمضان میں کھائی جاتی ہیں۔ اگر آپ کے کالم نگار سے رُجو ع کیا جاتا تو میں یہ سطور لکھنے والے کو بتاتا کہ وطن عزیز میں (میں وثوق سے پنجاب کے بارے میں لکھ سکتا ہوں) عید الفطر پر ناشتہ میں سویاں کھائی جاتی ہیں۔ سویاں کھانا بھی ایک ٹیڑھی کھیرہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں بچپن اور لڑکپن میں عید کے موقع پر سویّاں کھانے کے مشکل کام سے فارغ ہو کر نئی قمیض پہنتا تھا۔ میرے لئے دونوں عیدیں اپنے دامن میں سخت آزمائشیں لاتی تھیں۔ چھوٹی عید پر پلیٹ میں پڑی ہوئی ضدی اور ہٹ دھرم سویوں کو منہ تک پہنچانا اور بڑی عید پر گھر میں کئی ماہ بڑی محبت او رچائو سے پالے ہوئے مینڈھے یا بکرے کا گوشت کھانے کی ناکام کوشش کرنا۔ اُن لاکھوں کروڑوں بچوں سے میری دلی ہمدردی کا رشتہ سال میں اِن دو مبارک موقع پر قائم ہو جاتا ہے جو ان کڑی آزمائشوں سے ہر سال نبرد آزما ہوتے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ میں( وکیل ہونے کے باوجود )اپنے بچپن کو سُہانا کہنے اور اُس کی جھوٹی تعریفیں کرنے کا اخلاقی جرم نہیں کر سکتا۔ میں نہ ادیب ہوں اور نہ مصور۔ نہ انشاء پرداز اور نہ شاعر۔ سیدھے سادے الفاظ میں صرف یہ لکھ سکتا ہوں کہ دونوں تصاویر کمال کی ہیں اور اس قابل ہیں کہ سنبھال کر رکھ لی جائیں تاکہ آئندہ نسلیں بھی دیکھیں اور عش عش کریں۔ 
اب میں آپ کی توجہ اس کالم کے عنوان کی طرف دلاتا ہوں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی اور قائداعظم محمد علی جناح پر جو دو کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ اُن دونوں کتابوں میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے تعصب اور تنگ نظری سے آگے بڑھ کر حقائق کو مسخ کرنا اور ڈھٹائی سے جھوٹ بولنا۔ دونوں زرد صحافت کی بدترین مثال ہیں۔ دونوں کتابوں کے مصنفین ابوجہل کے قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب سے شاخ ہاشمی پھر برگ و بَر پیدا کرنے لگی ہے (جس کا اقبال نے خواب دیکھا تھا۔ دھندلا سا خواب) اُس دن سے اہل مغرب نے مسلمانوں کے خلاف ایک نئی صلیبی جنگ شروع کر دی ہے۔ میدان جنگ میں گولہ باری کی جاتی ہے۔ ڈرون حملوں سے میزائل داغے جاتے ہیں۔ افغانستان اور عراق پر بلا جواز جارحانہ حملے اور لاکھوں بے گناہوں (جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہوتے ہیں) کا قتل عام۔ علمی اور ذہنی سطح پر اِسی شد و مد سے مغربی رائے عامہ کو مسلمانوں اور اُن کے مشاہیر سے بدظن کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ مغربی دُنیا کی قیادت بھی کتابیں پڑھنے والے ممتاز طبقہ (Elite class) کے پاس ہے۔ اس کے ذہن میں ہمارے خلاف نفرت کا زہر ہر روز، ہر ہفتہ، ہر ماہ اور ہر سال بھرا جاتا ہے۔ تازہ ترین مثال مذکورہ بالا دونوں کتابیں ہیں۔ اگر آپ اپنے خون کا درجہ حرارت اتنا بلند کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کھولنے لگے تو پھر آپ یہ کتابیں منگوا کر ضرور پڑھ لیجئے گا۔ لیکن اپنے کالم نگار کو معاف رکھیں۔ ان کی ورق گردانی کے بعد میں نے مناسب سمجھا کہ اپنے ہاتھ دھو لوں اور آنکھوں کو عرق گلاب سے صاف کروں۔ 
یونان کی اساطیر (Mythology) میں جن کرداروں کو غیر معمولی خوبیوں کا مالک (Hero) بیان کیا گیا ہے، اُس کے مطابق ہماری تاریخ نے سلطان صلاح الدین ایوبی سے چل کر قائداعظم تک کا سفر طے کیا۔ صلاح الدین پر کتاب John Aman نے لکھی اور Bantam Press نے شائع کی۔ 1187ء میں Hatton کے مقام پر ایک عظیم فتح حاصل کرنے کے بعد مغربی غنڈے حملہ آوروں کے سربراہReynold of Chatillon کا سر صلاح الدین نے خود اپنے ہاتھوں سے اُس کے زخمی دھڑسے کاٹ کر جدا کیا چونکہ اس بدمعاش نے ایک ایسی خاتون کو (اُس کا مال اسباب لوٹ کر) قتل کیا تھا جو باپردہ تھی اور حج کا سفر کر رہی تھی اور صلاح الدین کی بہن تھی۔ مگر سلطان صلاح الدین ایوبی نے کبھی کسی جنگی قیدی کو قتل نہ کیا۔ اُس نے اپنے دُشمنوں پر رحمدلی اور فیاضی کی بارش کر دی۔ اگر وہ سارے قیدیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیتے تو بخش دیئے جانے والے یورپی سپاہی کبھی اگلی صلیبی جنگ کے لئے دوبارہ صف آرا نہ ہو سکتے تھے۔ میرے قارئین جانتے ہوں گے کہ صلاح الدین نسلاً عرب نہیں تھا بلکہ کرد تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ دورِ حاضر میں اُس کا کردوں کی نظر میں وہی بلند مقام ہے جو اُزبکستان کے رہنے والوں کے لئے امیر تیمور کا۔ کتاب لکھنے والے نے ACRE کے محاصرہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ رچرڈ (جسے مغربی مصنف شیر دل لکھتے ہیں) نے یروشلم کی حفاظت کرنے والے 2600 عرب سپاہیوں (جو شکست کے بعد قیدی بنائے گئے تھے) کے قتل عام کا یہ جواز پیش کیا ہے کہ یہ صلاح الدین کی بربریت کا ردّ عمل تھا۔ صلاح الدین نے صلیبی جنگ کرنے والوں سے ان کی صلیب چھین لی۔ اسے True cross کہا جاتا تھا۔ لکڑی، سونے اور چاندی سے بنی ہوئی جسے میدانِ جنگ میں پادری اُٹھا کر فوج کے آگے چلتے تھے۔ صلاح الدین کے بیٹے نے یہ صلیب بغداد میں خلیفہ وقت کو بھجوا دی تھی۔ سالوں بعد یروشلم کے بہادر محافظوں اور یورپی حملہ آوروں کے درمیان جب صلح کا معاہدہ لکھا گیا تو اس خون آلود صلیب کی بازیابی بھی شرائط میں شامل تھی۔ اس کی ڈھنڈیاپڑی۔ چار سُو تلاش ہوئی مگر بے سُود۔ آخری اطلاعات آنے تک یہ پتہ نہیں چلا کہ اس کا کیا حشر ہوا؟ جب بانس ہی نہ رہا تو بانسری کس طرح بجے گی؟ 
نصید ہجاری (Nisid Hajari) نامی شخص (جو ایک تیسرے درجے کا صحافی ہے) نے تقسیم ہند پر جو کتاب لکھی ہے اُس کا نام ہے Midnight's Furies: The Deadly Legacy of India's Partition لگتا ہے کہ بھارتی حکومت نے ممتاز اور قابل احترام بھارتی سیاست دان اور محقق جسونت سنگھ کی کتاب میں بیان کردہ سچے موقف کی نفی کے لئے یہ کتاب بھارتی مورخوں سے لکھوائی اور بیرون ملک بھاری رقم دے کر چھپوائی۔ جو ادارہ (Houghton Miffin Harcourt ) کتاب کا ناشر ہے اُس نے آج تک جنوبی ایشیاء پر ایک بھی کتاب پہلے شائع نہیں کی۔ پھر یہ کیوں کی؟ مذکورہ بالا کتاب میں تقسیم ہند کے ''المیہ ـ‘‘ کا سو فیصد ذمہ دار قائداعظم کو ٹھہرایا گیا ہے۔ مصنف نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ محمد علی جناح مزاجاً اتنے تلخ، ناخوش، بیزار، جھگڑالو اور غیر لچک دار تھے کہ وہ ہر سمجھوتہ کو مسترد کر دیتے تھے چاہے وہ کتنا منصفانہ ہو۔ مصنف نے قائداعظم کے خلاف توہین آمیز کلمات لکھتے ہوئے جواہر لال نہرو کی کھلے دل سے تعریف کی ہے۔ کتاب میں ایک غیرمصدقہ واقعہ کو بطور سند پیش کیا گیا ہے کہ قائداعظم اپنے آپ کو خوشامدیوں کے ایک گروپ(کسی بھی اورکتاب میں اس کا اشارہ نہیں ملتا) کے حصار میں رکھنا پسند کرتے تھے۔ بے حد مشکوک اور قابل مذمت کتاب کی اشاعت کے بعد اُس کی کیا پذیرائی ہوگی؟ وہ وقت بتائے گا۔ فی الحال ہماری دل آزاری کا اور عقل سلیم کی توہین کا نیا بندوبست بازار میں آگیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں