دو مسافروں کی راہ تمام ہوئی

جون اور جولائی میرے لئے دوستوں کی وفات کا صدمہ لائے۔ ایک دوست عالمی شہرت کا مالک، دُوسرا گم نام۔ پہلا ادیب، افسانہ نگار، ناول نگاراور مکتوب نگار؛ دُوسرا ذہنی طور پر ترقی پسند، عوام دوست اورکامیاب بزنس مین۔ پہلا طبعاً کم گو، خلوت پسند، رگ رگ میں درویشی، دل میں مال وزر کی خواہش نہ انعام و اکرام کی چاہت اور جس نے زندگی بھر کسی کو سلام کیا نہ کروایا۔ بھارت کا تیسرے درجے کا گویا اپنے نام کے ساتھ اداس لکھتا ہے؛ حالانکہ یہ تو محمد خان کے نام کا حصہ ہونا چاہئے تھا جو ادبی مجبوریوںکی وجہ سے معنوی طور پر عبداللہ حسین بنا تو اپنے عہد کی نسلوں کی اُداسی کے موضوع پر وہ ناول لکھا جو اردو ادب کے ان پانچ بڑے ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔۔۔۔۔ ٹیڑھی لکیر (عصمت چغتائی)، خدا کی بستی (شوکت صدیقی)، آگ کا دریا (قرۃ العین حیدر)،خدا کی بستی (انتظار حسین)۔۔۔۔دوسرے نے برطانیہ کے ایک گائوں میں پنسار کی دکان سے کاروبار شروع کیا اور رُبع صدی کے اندر کیمبرج میں ایک کامیاب ریستوران چلانے کے ساتھ مراکش میں کپڑے بننے کی فیکٹری خریدلی۔ ہر ماہ کا آدھا حصہ خوشگواردھوپ اور اٹلانٹک کے نرم و گرم ریتلے ساحلوں پر گزارتا۔۔۔۔ نام تھا محمد جمیل۔ مراکش میں ایک دن طبیعت مضمحل ہوئی، وہاں کے ایک اچھے ہسپتال میں داخل کئے گئے مگر رات کی تاریکی کا فائدہ اُٹھاکر فرا ر ہوگیا۔ اسے پتا چل گیا تھا کہ بلاوا آگیا۔ پردیس میں خالقِ حقیقی کے پاس جانے کا مطلب تھا اہل و عیال کو پریشان کرنا؛چنانچہ آدھی رات کو گرتے پڑتے کیمبرج میں اپنے گھر جا پہنچے۔ بیوی بچے سوگئے تھے اس لئے خود ایمبولینس بلائی۔ دن طلوع ہوا تو زندگی کا سُورج غروب ہوگیا۔ایک زندہ دل، خوش طبع، ہنسنے ہنسانے والا اورمیرے ساتھ احتجاجی مظاہروں میں سالہا سال شریک ہونے والا شخص ایک لمحے کے اندر دُنیاوی جھمیلوں سے آزاد ہوگیا۔ 
میں نے 1974ء میں برمنگھم سے لندن تک احتجاجی جلوس (بھارت میں نوے ہزار پاکستانی قیدیوں کی رہائی کے لئے ) نکالا تو جمیل نے20 ساتھیوںکو اس نیک کام میں حصہ لینے کی پاداش میں گرفتار ہونے والے دستے میں شامل کر دیا۔ ایک ہفتے پر پھیلے 120میل لمبے مارچ کے دوران ہمارے آدھے ساتھی جمیل کی قید سے نظر بچا کر بھاگ جانے میں کامیاب رہے۔ جولائی میں آدھی رات کوکیمبرج سے زاہدہ باجوہ کی آواز سالوں بعد سنائی دی تو اُن کے ایک جملہ میں دی جانے والی المناک خبر نے وہ رشتہ آناً فاناً ختم کر دیا جو 1972ء سے قائم تھا۔ جمیل کا جسد خاکی اُس جگہ سپرد خاک کیاگیا جہاں نظریۂ پاکستان کو پہلے پہل پیش کرنے والے چودھری رحمت علی مرحوم دفن ہیں۔16اگست کو جمیل کے بھائی سرفراز نے اس خوبصورت گائوں Saffron Walden میں اُس کے چہلم کااہتمام کیا ہے جس کا تذکرہ سٹالن کی بیٹی سوتیلانا کے حوالے سے پہلے ایک کالم میں کیا جا چکا ہے۔ پاکستان میں چھ دن اور دبئی میں ایک دن گزارنے کے بعد 16اگست کی صبح لندن ایئر پورٹ پہنچوںگا اور وہاں سے سیدھا جمیل کے لئے دُعا مغفرت کرنے والوں میں شریک ہو جائوںگا۔
آپ کے اس کالم نگارکا احتجاجی جوش و خروش تو عمر گزارنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا ہے مگر میں دُوسرا جمیل کہاں سے لائوں؟ میرے مقابلے میں اقبال ؒ کتنے خوش قسمت تھے کہ اُنہوں نے ہمیں یہ خوش خبری سنائی کہ وہ دن گئے جب وہ انجمن میں تنہا تھے۔ میں مڑکر دیکھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ میرے جو تھوڑے بہت جمیل جیسے رازدان اور ہم خیال تھے اُن کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے اور اس حساب سے انجمن میں تنہائی کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔ اس عالم میں اقبال کی رُوح یہ کہہ کر میرا حوصلہ بڑھاتی ہے کہ میرا دل شکستہ ہوا تو کیا ہوا، یہ شکستگی اُسے آئینہ سازکی نگاہ میں عزیز سے عزیز تر بنا دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اقبالؒ نے اپنے دل کو طرح طرح کے صدموں سے بچا کر نہ رکھا۔ 
عبداللہ حسین کے قلمی نام سے مشہور ہونے والے شخص سے بھی میرا تعلق خاطر بھی 1972ء میں قائم ہوا۔ وہ مغربی لندن میں ہیتھرو ایئر پورٹ کے قریب Isle Worth نامی قصبے میں اکیلے رہتے تھے۔ میں باغی شاعرہ فہمیدہ ریاض کا احسان مند ہوں کہ اُنہوں نے تعارف کروایا۔ میں ہر سال شمالی انگلستان سے بس میں ڈیڑھ دو سو میل کا سفرکرکے عبداللہ حسین کی دعوت پر اُن کے ساتھ ایک دن گزارنے آتا تھا۔ وہ بڑی عالمانہ گفتگو کرتے تھے۔ اپنی تصنیفات کا بُھولے سے بھی ذکر نہ کرتے۔ ایک نیم خواندہ مہمان کی خاطر تواضع کے لئے کھانا بڑے اہتمام سے خود پکاتے تھے۔ سارا دن اُن کے گھر میں کوئی اور شخص نہ آتا اور نہ کسی کا ٹیلی فون۔ وہ مجھے اس قسم کے سادھو لگتے جس کا نقشہ خوشی محمد ناظر نے اپنی شاہکار نظم ''جوگی‘‘ میں کھینچا ہے۔ ''جوگی‘‘ لکھنے والے کا تعلق گجرات کے ایک قصبہ ہریاں والا سے تھا اور میں جس جوگی کو کئی بار ملا وہ بھی گجرات میں پیدا ہوا، وہیں پلا بڑھا، ایک غیر ادبی ماحول میں وہ پھول کھلا کہ زمیندار کالج اپنے اس سابق طالب علم پر جتنا فخر کرے کم ہوگا۔ 
میں پاکستان کے سب سے اچھے اخباروںکے محترم کالم نگاروںکا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اُنہوں نے ''اداس نسلیں‘‘ کے مصنف کی وفات پر تعزیتی مضامین لکھے اور بہت اچھے لکھے مگر میں بصد ادب اُن پر تین اعتراضات درج کرانا چاہتا ہوں ۔ اوّل، اُنہوں نے عبداللہ حسین کے دُوسرے اچھے ناول ''نادار لوگ‘‘ کو نظر اندازکر دیا جس کے بارے میں فاضل مصنف نے پہلے صفحے پر لکھا کہ اس کتاب کی تصنیف میں مزدورکسان پارٹی کے صدر غلام نبی کلو، بھٹہ مزدُور اتحاد کے اسلم شاہ کے علاوہ دو تاریخ دانوں احمد سلیم اور کے کے عزیز نے اُن کی مدد کی۔ دوم، کسی بھی کالم نگار نے قارئین کو یہ نہ بتایا کہ ستر کی دہائی سے وہ ایک بڑے صدمے سے دوچار ہوئے اور وہ تھا اُن کی ازدواجی زندگی کا بڑا تکلیف دہ خاتمہ۔انہوں نے دوبارہ شادی نہ کی اور ساری محفل آرائی کے باوجود شدید اُداسی، دل گرفتگی اور تنہائی کے شکار رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہیں پرانے شاعروں میں میرتقی میر اچھے لگتے تھے اور جدید شعرا میں ناصر کاظمی۔ سوم، ایک بچے نے میرے دورکے سب سے بڑے سائنس دانStephen Hawking سے پوچھا کہ ہم سب ماضی کو یاد رکھتے ہیں، ہم اپنے مستقبل کوکیوں یاد نہیں رکھتے؟ عبداللہ حسین نے اپنی مذکورہ ایک تصنیف بچے کے اس قول پر ختم کی: جون 1996ء میں مکمل کی جانے والی 807 صفحات کی کتاب سات سال میں مکمل ہوئی اورآخری صفحے پر لکھا گیا ''جاری ہے‘‘۔ ایک غیر معمولی ذہین آدمی کے خیالات اور تصورات کی ندی تو سدا بہار تھی، بہتی رہی۔ تخلیقی کام جاری رکھنے کے لئے جس آبیاری کی ضرورت تھی وہ بھی ہو تی رہی مگر ذاتی زندگی کے اُلجھے ہوئے مسائل سے جنم لینے والی اُداسی اُن سے دوسرا کمال کا ناول لکھوانے میں آڑے آئی۔ وہ برطانیہ میں رضا کارانہ جلاوطنی کے چند سال گزارنے کے بعد پاکستان واپس چلے گئے۔ میری بدقسمتی کہ ان سے رابطہ معطل ہوگیا۔ ہزاروں میل سے اُن کی وفات کی خبر آئی تو یوں لگا وہ بھولا بسرا رشتہ پھر قائم ہوگیا ہے۔ دُعا گو ہوں کہ جن دو دوستوں کی راہ تمام ہوئی، رب ذوالجلال اُن کی روحوںکو ابدی سکون عطا فرمائیں۔ عبداللہ حسین کے قارئین اور جمیل کے پس ماندگان انہیں ہمیشہ یاد رکھیں۔ جب تک ہمارے دلوں میں اُن کی یادوں کا چراغ جلتا رہے گا وہ زندہ رہیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں