ممتا اور کاملہ

مما ‘ممتا بینرجی کا ہی نام ہے۔ وہ بھارتی صوبہ(بنگال) کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ ہیں۔اور دوسری خاتون کا پورا نام عیلایا کاملہ شمسی ہے۔ انگریزی کی وہ نامور ادیبہ جو کراچی میں پلی بڑھیں۔ وہاں تعلیم حاصل کی۔ بہت اچھے ناول (انگریزی زبان میں) لکھے۔ بڑا نام کمایا اور اب لندن میں رہتی ہیں۔ جہاں ان دنوں (اگست کے پہلے ہفتہ کا ذکر ہے ) ممتا بینر جی آئی ہوئی ہیں۔ ان دونوں نامور خواتین کا باہم ملاقات کا کوئی امکان نہیں‘ مگر آج ان دونوں کا اس کالم میں تذکرہ ہوگا۔ کالم چھپ جائے گا تو کالم نگار اسے ان دونوں کو ای میل کر دے گا۔ وہ پڑھیں یا نہ پڑھیں ان کی مرضی۔ ممتا تو بنگالی ہیں۔ کاملہ اپنے کراچی سے تعلق کی وجہ سے اُردو ضرور جانتی ہوں گی۔ میں نے ان دونوں کی قلمی دوستی کی ابتدا کر دی ہے۔ کتنا اچھا ہوتا کہ میں ان دونوں کو اپنے ساتھ وسطی لندن کے سب سے مہنگے ریستوران RITZ میں کافی پینے کی دعوت دیتا (شدید مالی نقصان بخوشی برداشت کرتا) اور وہ دونوں بیبیاں اسے شاید قبول بھی کر لیتیں۔ دوبارہ لکھتا ہوں کہ یہ کتنا اچھا ہوتا۔ میں چاہے جتنا بڑا ادیب ہوتا‘ غالب ؔکے مقابلہ کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا جو (باقی خوبیوں کے علاوہ) اس وجہ سے بھی منفرد مقام رکھتے تھے کہ نکتہ طرازی کے ماہر تھے اور (ان کے اپنے الفاظ میں)ع
وہ ہر ایک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا توکیا ہوتا
بھارت اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ دہلی میں اروند کمار کجری وال کی حکومت ہے اور بنگال میں ممتا بینرجی کی۔ سفید سوتی ساڑھی اور لکڑی کی کھڑائوں پہنے وہ اپنے گھر میں ایک تصویر بنا رہی تھیں کہ فون آیا کہ وہ انتخاب جیت گئی ہیں اور گورنر اُنہیں وزیراعلیٰ کا حلف اُٹھانے کے لئے بلانے والا ہے۔ اُن کی عمر کا زیادہ حصہ مصوری کی تعلیم دیتے گزرا۔ اب بھی کلکتہ میں اپنے پرانے مکان میں رہتی ہیں۔ دفتر جانا ہو تو سرکاری سواری کی بجائے عام لوگوں والی بس میں کھڑے ہو کر یا رکشا میں سفر کرتی ہیں۔ نہ ٹھاٹھ نہ باٹھ‘ نہ کوئی دُھوم دھڑکا‘ نہ ہٹو بچو کا شور۔ ہر قسم کی سرکاری مراعات کو حرام سمجھتی ہیں۔ اسے کہتے ہیں عوام کی خادمہ۔ ملکہ برطانیہ نے انہیں اپنے محل میں ایک بعد دوپہر چائے پینے کے لئے بلایا مگر میزبانی کے فرائض اُن کے بیٹے پرنس اینڈریو نے سرانجام دیئے‘ کیونکہ وہ برطانوی برآمدات کے فروغ میں بہت بھاگ دوڑ کرتے ہیں۔ ممتا ایک تجارتی وفد کے سربراہ کی حیثیت سے برطانیہ آئیں اور یہاں اُن کے بارے میں ماسوائے روزنامہ گارڈین کے کسی اور اخبار میں ایک سطر بھی شائع نہ ہوئی۔ اُن کے برطانیہ آنے کا اصل مقصد مغربی لندن کے بڑے مہنگے علاقہ Hamstead میں وہ مکان خریدنا تھا‘ جہاں 1912ء میں مشہور بنگالی شاعراور ادیب رابندر ناتھ ٹیگور رہتے تھے۔ کاش کہ وہ اس سے آدھی دلچسپی ٹیگور سے زیادہ بڑے شاعر نذر الاسلام میں لیتیں۔ ساٹھ سالہ بنگالی خاتون نے تیز تیز قدموں سے لندن کے پارکوں کی خوب سیر کی مگر کسی شخص نے ایک بار بھی اُنہیں مڑ کر نہ دیکھا۔ کسی کو وہم و گمان نہ تھاکہ ایک عام گھریلو خاتون کے حلیہ والی بی بی مغربی بنگال کے جس صوبہ کی وزیراعلیٰ ہیں اُس کی آبادی نو کروڑ ہے (جب کہ برطانیہ کی کل آبادی ساڑھے پانچ کروڑ) ممتا کو سب لوگ اپنائیت سے دیدی کہے ہیں (جس کا اُردو رجمہ بڑی آپا ہے)۔ جیوتی باسو کی سربراہی میں کمیونسٹوں نے مغربی بنگال میں لمبی حکومت کرنے کا ریکارڈ قائم کیا‘ یعنی 25 برس کے لگ بھگ۔ 2005 ء میں ایک گمنام خاتون نے ایک نئی سیاسی جماعت بنائی‘ نام رکھا Trana Nool (کا مطلب : گھاس کی جڑوں کی طرح زمین سے اور زمین پر رہنے والوں سے جڑی ہوئی) کانگریس اور صرف دو سال بعد 2011 ء میں مارکسی جماعت کو انتخابات میں اس طرح شکست دی کہ لوگوں کو ابھی تک اس معجزہ پر نہ اعتبار آتا ہے اور نہ سمجھ آتی ہے کہ ایسا ہوا تو کیسے؟
ممتا لندن میں جہاں بھی گئیں (اور وہ بہت سی جگہ گئیں) اُنہوں نے ایک ارادہ بار بار ظاہر کیا ہے کہ وہ کلکتہ کو مشرق کا لندن‘ جیسا دیدہ زیب اور دلکش اور دلفریب شہر بنا کر دم لیں گی۔ آپ جانتے ہوں گے کہ جس طرح اب بھارت میں مدراس کو چنائی‘ بمبئی کو ممبئی لکھا جاتا ہے اُس طرح اب کلکتہ‘کولکتہ بن گیا ہے۔ غالب کے سامنے کسی ہم نشین نے کلکتہ کا نام لیا تھا تو اُنہوں نے اپنے ایک شعر میں اپنا رد عمل یوں ظاہر کیا‘ع
اک تیر میرے سینے پر مارا کہ ہائے ہائے 
اگر وہ ممتا کے ہم عصر ہوتے اور اُسے ملنے میں کامیاب ہو جاتے (جو آپ کا کالم نگار وقت کی کمی کی وجہ سے نہ کر سکا) تو اغلب امکان ہے کہ وہ اس کی شان میں بھی اُس طرح کا قصیدہ لکھتے جو وہ اودھ کے راجوں مہاراجوں سے وظیفہ حاصل کرنے کی خاطر لکھنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتے تھے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو غالب ؔدور حاضر کے قصیدہ گو کالم نگاروں کے پیش رو تھے۔ کلکتہ اور لندن میں تاریخی رشتہ ہے جو سترہویں صدی میں اُس وقت قائم ہوا جب انگریز حملہ آوروں نے کلکتہ میں اپنی تجارتی کوٹھی بنائی۔ دونوں شہر دریائوں کے کنارے آباد ہیں۔ لندن کی پہچان دریائے ٹیمز ہے اور کلکتہ کی ہگلی جو دریائے برہم پتر کے ڈیلٹا کا نام ہے۔ 1911 ء میں انگریز دارالحکومت دہلی لے گئے تو کلکتہ کا زوال شروع ہو گیا‘ جہاں اب ڈیڑھ کروڑ لوگ رہتے ہیں۔ کلکتہ انگریزوں کے بنائے ہوئے کلبوں کے لئے بے مثال شہرت کا مالک ہے۔ آپ یہ نام پڑھ لیں۔ صاحب بہادروں کے بنائے کلب کا نام آپ کوانگریزی میں پڑھنے کی زحمت اُٹھانی ہوگی۔ The Bengal, The Calcutta, The Royal Calcutta Golf, The Tolly Gunje, The Lathes, The Saturom ۔ برطانوی راج کے خاتمہ تک تو مذکورہ بالا کلبوں میں کسی مقامی شخص کو داخلہ کی اجازت نہ تھی۔ اب وہاں کالے صاحبوں کا قبضہ ہے جو انگریزی میں گفتگو کرتے ہیں۔ سکاٹ لینڈ میں کشید کردہ وسکی بھی پیتے ہیں۔ گہرے رنگ کے سوٹ پہنتے ہیں اور کالی بوٹائی لگاتے ہیں۔ مشہور بنگالی ادیب امیت چوہدری کو ایک بار اس طرح کے کلب سے اس جرم کی پاداش میں نکالا گیا کہ اُن کی قمیض کا ڈیزائن غیر رواجی تھا۔ اس سے مجھے یاد آیا کہ 25 برس پہلے میں برطانوی پارلیمنٹ کے ممتاز رُکن لارڈ Aveburyکو لے کر ارشد سیٹھی (نجم سیٹھی کے کزن اور 51 سال پہلے ایچی سن کالج میں میرے شاگرد) کی طرف سے لاہور کے پنجاب کلب میں دیئے گئے استقبالیہ میں گیا تودربان نے دروازے پر رُوک لیا کہ آپ جب تک قمیض شلوار کی بجائے پتلون قمیض پہن کر اور ٹائی لگا کر نہ آئیں گے‘ آپ اندر نہیں جا سکتے۔ میرا ارادہ اس حکم کی تعمیل نہ کرنے کا تھا مگر معزز مہمان اور معزز میزبان کی دلجوئی کی خاطر ایک پینڈو (اور وہ بھی ایک جاٹ) کو اپنی مونچھ نیچے کرنا پڑی۔
آپ کے کالم نگار کو سب سے زیادہ چھ چیزیں اچھی لگتی ہیں‘ جو دل کو لبھاتی ہیں۔ وہ ہیں پنجابی اور سندھی صوفیانہ شاعری۔ موسیقی‘ رقص‘ جھیل یا ندی کے کنارے سیر‘ سیاسی سرگرمیاں اور کرکٹ‘ مگر جس کا ذکر سب سے آخر میں کیا وہ سب سے زیادہ۔ یہی وجہ ہے کہ جن دنوں (1964 ء میں ) ایچی سن کالج میں پڑھاتا تھا توہر شام طالب علموں کے ساتھ اُن سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ کرکٹ کھیلتا۔ (ایک سابق طالب علم کا نام عمران خان ہے) برطانیہ پڑھانے آیا تو سماجی علوم کم پڑھائے اور کرکٹ زیادہ کھیلی۔ جب بھی اپنی سٹاف ٹیم کی طرف سے میچ کھیلتا تھا تو بمشکل ایک وکٹ حاصل کرتا تھا اور دوچار سے زیادہ رن کبھی نہ بنا سکا۔ مگر بھلا ہو میرے ہر کپتان کا جو ہمیشہ ایک ایسے کھلاڑی (اُس کی کارکردگی سے قطع نظر)کو گیارہواں کھلاڑی بناتا تھا جسے بارہواں ہوناچاہئے تھا۔ 
میں اپنے ایک کالم میں Peter O Bornk کا ذکر کر چکا ہوں جس نے پاکستانی کرکٹ پر نہایت شاندار اور مبالغہ آمیز تعریفوں سے بھرپور کتاب لکھی ہے۔ میرے قارئین کو اب پتہ چل گیا ہوگا کہ میں ان کا اتنا بڑا مداح کیوں ہوں۔ آج تک جتنے بھی کھیل ایجا د ہوئے ہیں اُن میں سب سے بلند مقام کرکٹ کا ہے چونکہ وہ انسانی زندگی سے سب سے زیادہ مماثلت رکھتی ہے۔ کرکٹ کی طرح ہم زندگی میں مشکل کیچ پکڑ لیتے ہیں اور آسان کیچ چھوڑ دیتے ہیں۔ کالم ختم ہونے کو ہے اور بات دُور نکل گئی۔ کاملہ شمسی کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہوگی۔ نہایت اچھے انگریزی ناول لکھ کر اُنہوں نے اپنی اور مادرِ وطن کی دھاک بٹھا دی۔ یہ اعزاز پہلے شہرئہ آفاق پارسی ادیبہ لاہور کی رہنے والی Bapsi Sidhwa کو حاصل تھا۔ کاملہ کا مضمون گارڈین نے یکم اگست کو اپنے ادارتی صفحہ پر شائع کیا جس میں اُنہوں نے بڑی تفصیل سے اور فصاحت و بلاغت سے بیان کیا کہ کس طرح کرکٹ کے کھیل کے انتظامی اداروں کے اربوں روپوں کے مالک ہو جانے اور ہر سال کروڑوں اربوں کمانے کی اہلیت حاصل کر لینے سے کرکٹ بطور کھیل غریب اور مفلس ہوگئی۔ بے تحاشا دولت صرف رُوحانی قدروں کی دشمن نہیں‘ جمالیاتی شان اور حُسن کی بھی ہے اور کرکٹ سے بڑھ کر کونسی انسانی سرگرمی زیادہ خوبصورت ہو سکتی ہے؟ وہ موسیقی‘ رقص‘ ذہانت‘ ہمت‘ حوصلہ‘ قوت‘ حُسن ترتیب اور تنظیم کا مجموعہ اور لاثانی اظہار ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں