شکستہ پر کبوتر اور۔۔۔۔۔

یہ کالم نگار اپنے قارئین سے سات سمندر پارکے فاصلے پر نصف صدی سے مقیم ہے مگر سوتے جاگتے اپنے ہم وطنوں کے بارے میں سوچتا ہے۔ان کی خوشی اور خوشحالی کی دُعائیں مانگتا ہے۔ان کے حالات کی بہتری کے لئے ٹھوس اور قابل عمل تجاویز مرتب کرتا رہتا ہے، چاہے کوئی سُنے یا نہ سُنے۔۔۔۔۔صدا بصحرا، نقار خانہ میں طوطی کی آواز! وسط اگست میں ایک دفتری کام کے لئے ایک دن کے لئے دبئی جانا پڑا۔تفتیش کرنے پر پتا چلا کہ اگر ڈھائی گھنٹے کا مزید ہوائی سفرکیا جائے،ایئرلائن کو20 پائونڈ(صرف تین ہزار روپے) مزید ادا کئے جائیں تو میں لاہور جا سکتا ہوں۔ نعمت غیر مترقبہ ایسی ایک اچھی پیشکش جو ہر حال میں قبول کر لینی چاہئے تھی؛ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔لاہور میں چار یادگار دن گزارے۔ میں گورنر پنجاب کا شکرگزار ہوں کہ اُنہوں نے نہ صرف اچھی چائے پلائی بلکہ میری فریاد بھی بڑی توجہ سے سنی۔ ایک مسیحی نوجوان کو پولیس نے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا۔اُس کی بیوہ ماںکو مسلسل جھوٹی تسلیاں دیں اور پھراُسے ایک جعلی پولیس مقابلہ میں چارگولیاں مارکر قتل کر دیا گیا۔ 
میرا ہرگز یہ ارادہ نہیں کہ لاہورکا سفر نامہ لکھوں۔صرف اتنا لکھوںگا کہ 14اگست کی صبح تین کام کئے۔میانی صاحب میں اپنی وفا شعار اور خدمت گزار بیوی کے والدین، بزرگوں اور رشتہ داروںکی قبروں،مزارِ اقبال اور داتا صاحب فاتحہ خوانی کرکے واپسی پر ایک جگہ دیکھا کہ کبوتر برائے فروخت تھے۔میں نے پانچ سو روپے دے کر دو بڑے خوبصورت کبوتر خریدے اوراُنہیں ہوا میں اُچھالا کہ اُڑ جائیں۔کبوتر پھڑ پھڑا کر قریب ہی زمین پر بیٹھ گئے تو ان کی پرواز کرنے کی صلاحیت سے محرومی پرکوئی شک نہ رہا۔ان کبوتروںکی قوت پرواز یقیناً ان کبوتروں سے بالکل مختلف تھی جو صدیوں قبل ملکہ نور جہاں نے اَُڑائے تھے، ایک نادانستہ اور دُوسرا جان بوجھ کر۔ دوکبوتر اُڑانے کا انعام ہندوستان کے تاج و تخت کی صورت میں ملا۔ایک میں تھا کہ اُسی شہر میں چند صدیوں بعد کبوتراُڑانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا مگر بے چارے کبوتروںکے پرکاٹ دیئے گئے تھے۔ یہ دیکھ کر میں گھبرایا، لینے کے دینے پڑگئے۔ بڑا خطرہ یہ تھا کہ کبوتر چلتی ہوئی گاڑیوں کے سیلاب میں کچلے نہ جائیں یا کسی بلی کا ناشتہ نہ بن جائیں۔ بہت سے اجنبی لوگ میری مدد کو دوڑے اورکبوتر پکڑکر پھر میرے حوالے کر دیئے۔ میں نے دیکھا کہ دو برقعہ پوش لڑکیاں بھی اس تماشے سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔ میں نے اُن کے پاس جا کر اپنی بپتا سنائی اور دونوںکبوتر اُن کے حوالے کر دیئے تاکہ وہ داتا صاحب کے مزارکے اندر جا کر اُنہیںکسی محفوظ جگہ پہنچا دیں۔میں ان اجنبی لڑکیوں کا ممنون ہوںکہ وہ یہ فرض ادا کرنے پر تیار ہوگئیں۔شکر ہے کبوتر پیش از وقت موت سے محفوظ رہے۔مجھے اس کی کوئی پروا نہیں کہ مجھے ان کبوتروںکو پنجرے سے رہا کرانے کا کوئی ثواب ملتا ہے یا نہیں۔دل کو جو خوشی ملی بیان نہیں کی جا سکتی۔اس واقعے نے مجھے یہ سمجھنے میں مدد دی کہ آج سے 68 سال پہلے ہمیں بھی آزادی دی گئی، غلامی کی زنجیریںکاٹ دی گئیں۔قائداعظم کے مبارک ہاتھوںکروڑوں لوگوںکو آزادی جیسی دُنیا کی سب سے بڑی نعمت ملی۔ 14اگست1947ء کو قائد اعظم نے ہمیں اسی طرح پنجرے سے نکال کر آزاد فضائوں میں اُڑانا چاہا جس طرح 14اگست 2015ء کو اس وطن کے ایک ادنیٰ شہری نے دو سفید کبوتر پنجرے سے نکال کر اُڑانے کے جتن کئے۔قائداعظم کی طرح میں بھی ناکام رہا۔دونوںکی ناکامی کی وجہ ایک ہی تھی۔۔۔۔۔ قوم ہو یا کبوتر،اس کے پرکاٹ دیئے جائیں تو وہ قوت پرواز سے محروم ہوجاتے ہیں۔ پھڑ پھڑا تو سکتے ہیں، اُڑ نہیں سکتے۔ 
اگست کے شروع میں سانحہ قصورکی دل ہلا دینے والی تفصیلات منظر عام پرآئیں تو پتا چلا کہ آنے والا یوم آزادی کس قدر بے معنی،کھوکھلااور اسم بامسمیٰ ہونے سے عاری ہوگا۔آئیے ہم مل کر سوچیں کہ ہم رعایاکو عوام میںکس طرح تبدیل کریں۔کونسی تدابیر اختیار کریں کہ سانحہ ماڈل ٹائون رونما ہو نہ سانحہ قصور۔ ہم پرندوںکی طرح اُڑانے والے پر اور پودوںکی طرح سرسبز برگ و بار نکالیں توکیونکر؟بقول اقبالؔ غلامی کے طویل دور میں قوموں کی سرشت بدل جاتی ہے۔ایک ہی فضا میں پروازکرنے کے باوجود کرگس اور شاہین کا جہان ایک جیسا نہیں رہتا۔اقبال کی رائے میں شاہین بچہ ہر لحاظ سے ہونہاراور نک سک سے درست تھا مگر اُسے زاغ(کوے)کی صحبت خراب کرگئی۔ یقیناً وہ جانتے تھے کہ صدیوںکی غلامی کے بعد شاہین بچہ خود ہی کوا بن گیا۔وہ چیونٹی کی طرح خاک راہ میں رزق ڈھونڈنے لگا۔اُس کی خودی بھی خاک میں مل کر پامال ہو گئی۔ راز کھلا کہ قومیں انقلابی جدوجہد سے آزاد ہوتی ہیں۔آگ کے دریا سے گزرتی ہیں۔جدوجہدکی بھٹی میںکندن بننے کا عمل مکمل ہوتا ہے۔ ہم68 برسوں سے پھڑ پھڑا رہے ہیں۔نہ جانے عالم غیب سے وہ برُقع پوش لوگ کب نمودار ہوںگے جو ہمیںکسی ایسے محفوظ مقام پر پہنچائیںگے جہاں ہم اپنے اُڑانے والے پروںکے اُگ آنے تک خیر خیریت سے رہ سکیں۔
شاعر مشرق نے لکھا: منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں۔ اقبال نے بکمال مہربانی ہمارے کمزور ذہنوں پر زیادہ زور نہیں ڈالا اور خودہی بتا دیا کہ یہ منزل کیوں کٹھن ہے؟ وجوہات دو ہیں۔۔۔۔۔آئین نو سے ڈرنا اورطرزکہن پہ اُڑنا۔اگر ہم یہ ڈرنے اور اَڑنے والی روش ترک کر دیں تو ان بلندیوںکی طرف بآسانی پروازکر سکیں گے جس کا خواب جمال الدین افغانی، عبیداللہ سندھی، حسرت موہانی، چوہدری رحمت علی، اقبال اور قائداعظم نے اپنے اپنے انداز میں دیکھا تھا۔ پاکستان اس لئے ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے گا کہ دل توڑ دینے والے تمام تر سانحوںکے باوجود اس کے کروڑوں عوام 14 اگست کے دن اُس جوش و خروش سے جشن مناتے ہیں جس کی دُنیا میں مثال نہیں ملتی۔ اتنے زیادہ لوگوں کا اتنے بڑے پیمانے پر جشن منانے کا صرف ایک مطلب ہے کہ ہماری اُمیدوںکا چراغ روشن ہے۔ وہ ڈالی جو فصل خزاں میں شجر سے ٹوٹ گئی تھی(بقول اقبال) ہوائے بہار چلے گی تو پھر ہری ہو جائے گی۔ سیاہ بادل چھٹ جائیںگے تو چاند نکلے گا۔ ہر سُو چاندنی ہوگی تو ہمارے ہاں خوشی اور خوشحالی کا دور دورہ ہوگا۔ یہ ہے وہ اُمید جس کا اعلان 14 اگست کو ہرگھرکی چھت پہ لہرانے والا پرچم کر رہا تھا۔ چھ ہزارمیل دُور سے آنے والے مسافر نے وطن عزیز میں ان پرچموںکو دیکھا، بار بار دیکھا تو اُس کی بوڑھی آنکھوں سے خوشی کے آنسو بہہ نکلے۔ 
آنکھ یونہی بدنام ہوتی ہے، دل رنجیدہ ہو تو سینے کے نہاں خانے میں اپنا غبار نکال لیتا ہے، رُسوائی آنکھ کے حصہ میں آتی ہے۔ یہی حال میرا ہوا اور ہر 14اگست کو ہوتا ہے۔ 
اقبال نے خدا سے مخاطب ہونے کے لئے اُردوکی بجائے زیاہ تر فارسی زبان استعمال کی۔ غالباً وہ سمجھتے تھے کہ وہ اپنا مافی الضمیر فارسی میں زیادہ اچھی طرح بیان کر سکیں گے۔ ایک جگہ خدا کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تونے رات بنائی، میں نے چراغ بنا لیا تاکہ اُس کی روشنی سے اندھیرے پر غالب آجائوں۔اگر وہ اپنا موقف غیر شاعرانہ طور پرآگے بڑھاتے تو یہ بھی لکھتے کہ تونے دریا بنائے، میں نے اُن سے نہریں نکال لیں۔ نہروں کی تعمیرکی تاریخ بڑی پرانی ہے اور اُس تاریخ سے واقفیت ہمارے ذہنوں پر انسانی ہمت کا رُعب ڈالتی ہے۔ یہ نہر چاہے عباسی بادشاہ ہارون الرشید کی بیوی زبیدہ کے حکم کی تعمیل کے طور پر نکالی گئی ہو یا نہر سویز ہو یا پانامہ نہر۔ نہروں کا فقید المثال جال بیسیویں صدی کے شروع میں انگریزوں نے پنجاب میں بچھایا اور ایک وسیع قطعہ اراضی کو بہترین زرعی زمین میں تبدیل کر دیا۔ یہ تبدیلی آنے سے پہلے وسطی پنجاب میں دریائوںکے درمیانی علاقہ کو بارکہا جاتا تھا جن میں سب سے زیادہ خوبصورت اور یاد رہنے والا نام ساندل بار تھا۔ وقت گزرا تو نہ ساندل رہا نہ بار اور نہ ان علاقوں کوآباد کرنے والے جوآباد کارکہلاتے تھے۔مقامی آبادی کو حقارت سے جانگلی کہتے تھے۔ مقامی لوگوں میں سب سے قابل ذکر کھرل قبیلہ ہے جس نے انگریزوں کے خلاف بڑی بہادری سے کئی سال مسلح جدوجہد کی اور ہماری تاریخ کا ایک بے حد روشن اور قابل فخر باب رقم کیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں