پرندوں اور شخصیات کا نوحہ

اس کالم میں کتابوں، درختوں، پرندوں، ندیوں، جگنوئوں، تتلیوں اور بین السطور میرے خوابوں اور خیالوں کا ذکر ہوتا رہتا ہے۔ نصف صدی قبل اس کالم نگار نے اپنے آپ کو رضا کارانہ جلاوطنی کی سزا دے دی۔ نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اپنی خدمت گزار اور وفا شعار بیوی اور تین معصوم بچوں کو بھی۔ اب آتے ہیں کالم کے عنوان کی طرف۔ پرندے چاہے ہزاروں لاکھوں ہوں اُن بے چاروںکی نامور افراد کے سامنے کیا حیثیت ہے، پھر بھی اُن سے میری گہری محبت متقاضی ہے کہ میںآج کا کالم اُن کے تذکرہ سے شروع کروں۔
اُڑتے ہوئے خوبصورت صراحی دار گردنوں والے سیاہ رنگ کے پرندوں کا انگریزی میں نامCrane ہے (اس کا قریب ترین ترجمہ سارس ہوگا۔) دہلی میں مقیم مسیح رحمان نے ان کی اتنی اچھی تصویر اُتاری کہ لندن کے روزنامہ گارڈین میں نمایاں طور پر شائع ہوئی۔ تبت کے پہاڑوں کا دامن ان پرندوں کا مسکن ہے۔ موسم سرما میں جب درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بہت نیچے چلا جاتا ہے تو وہ ہجرت پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ایک عرصہ سے وہ شمال مشرقی بھارت میں پناہ گزین ہوتے آئے ہیں۔ اب نئی مصیبت یہ آئی ہے کہ بھارت وہاں پن بجلی پیدا کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ پرندے بھارت کی شمال مشرقی ریاست ارون چل پردیش میں سرما کے دن گزارنے آئیں تو وہاں بدھ مذہب کے 45 ہزار مونپا (Monpa) نامی قبیلے کے پیروکار ان کی آمدکا بے تابی سے انتظار کرتے ہیں چونکہ ان کے عقیدے کے مطابق ان پرندوںکی آمد اُن کے لئے نیک شگون ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ان پرندوںکا ویتنام میں نام و نشان مٹ چکا ہے۔ اب وہ صرف جنوبی چین، شمال مشرقی بھارت اور بھوٹان اور سب سے زیادہ اپنے آبائی وطن تبت میں پائے جاتے ہیں۔ مجوزہ ہائیڈرو الیکٹرک منصوبہ کی تعمیر پر نہ صرف مذکورہ قبیلے بلکہ تحفظ جنگلی حیات کے علمبرداروں نے بھی احتجاج کیا، مگر بے سُود۔ میرے قارئین ضرور جانتے ہوںگے کہ صحرائے چولستان میں سائبیریا کی سردی سے بھاگ کر پناہ لینے والے پرندوں کا اس سے بھی زیادہ برُا حشر ہوتا ہے۔ میری طرح کا ہر پینڈو جانتا ہے کہ پرُانے زمانے میں جب صحن کی دیوار یا گھر کی منڈیر پر کسی کوّے کی کائیں کائیں سنائی دیتی تو اہل خانہ خوش ہو جاتے کہ ضرور کوئی مہمان آرہا ہے۔ اب زمانہ بدل گیا،کوّے منڈیروں پر بیٹھتے ہیں نہ مہمان آتے ہیں اور اگر بھولے بھٹکے آجائیں تو اُن کی آمد پرگھر والے خوش نہیں ہوتے۔ 
اب ہم آتے ہیں چار نامور افراد کے دورِ جوانی کی طرف جو برطانیہ سے شائع ہونے والے چوٹی کے اخباروں اور رسالوں میں شائع ہوئے اور ایک عالم میں توجہ اور احترام سے پڑھے گئے۔ ایک صاحب ناول نگار تھے، دُوسرے انقلابی راہنما، تیسرے ماہر معاشیات اور چوتھے ڈھول بجانے والے فنکار۔ ناول نگار کا نام عبداللہ حسین تھا۔ برطانیہ کی صحافتی تاریخ میں پہلی بار ایک پاکستانی ادیب کی وفات پر تعزیت نامہ شائع ہوا جو عامر حسین نے لکھا اور بہت اچھا لکھا۔ عبداللہ حسین نے اپنی شہرۂ آفاق ناول کا خود انگریزی میں ترجمہ کیا جو 1999ء میں لندن میں شائع ہوا،مگر اسے زیادہ پذیرائی نہ ملی۔ عبداللہ حسین نے اپنا شاہکار ناول ''اُداس نسلیں‘‘ جس عہد میں لکھا اس میں اردو فکشن کے اُفق پر پانچ بڑے نام چھائے ہوئے تھے۔۔۔۔ قرۃ العین حیدر، انتظار حسین، نثار عزیز بٹ (سرتاج عزیزکی ہمشیرہ) جمیلہ ہاشمی اور خدیجہ مستور(احمد ندیم قاسمی کی منہ بولی بہن۔) فاضل مضمون نگار کی رائے میں عبداللہ حسین دبے لفظوں میں شکایت کرتے تھے کہ انہیں ادبی نقادوں نے اپنی اس توجہ اور تعریف کا مستحق نہیں سمجھا جو قرۃ العین حیدرکے حصے میں آئی۔ اس خاتون نے بھی اپنے شاہکار ناول ''آگ کا دریا‘‘ کا انگریزی میں خود ترجمہ کیا مگر عبداللہ حسین کی کاوشوں کی طرح وہ بھی مغرب میں کوئی ادبی انعام حاصل نہ کر سکا۔ اس تعزیت نامہ کا اختتام اس سطر پر ہوا: ''اُن کے پس ماندگان میں بیوہ، ایک بیٹا اور ایک بیٹی شامل ہیں‘‘۔ اس کالم نگارکو ان تینوں کی موجودگی کا پہلی بار پتا چلا۔ یہ کالم نگار اس قابل صد ستائش مضمون میں صرف تین سطورکا اضافہ کرنا چاہے گا۔۔۔۔ عبداللہ حسین خود زندگی بھر اُداس رہے اور جب دُنیا سے رُخصت ہوئے تو اپنے ان گنت مداحوں کو اُداس کرگئے۔ 
دوسرا تعزیت نامہ اکانومسٹ میں شائع ہوا جس کا موضوع ہے ملا محمد عمر۔ ان کی زندگی میں ایک ہی بار ان کی تصویر اُتاری گئی۔ باریش، بارُعب اور عزم و استقلال کا پیکر چہرہ۔ سر پر کالی پگڑی اور ایک بند آنکھ (جو بینائی سے محروم تھی)۔ بہرحال وہ ہمارے اُن رہنمائوں سے بدرجہا بہتر تھے جو دونوں آنکھوں میں بینائی کی نعمت سے بہرہ ور ہونے کے باوجود نوشتۂ دیوار نہیں پڑھ سکتے۔ امریکی فوج نے اُن کے سرکی قیمت ایک کروڑ ڈالر رکھی تھی۔ وہ 1996ء سے2001 ء تک افغانستان کے امیر (سربراہ) اور تحریک طالبان کے سربراہ رہے۔ مگر یہ سارا عرصہ قندھار میں اپنے سادہ سے نیم پختہ آبائی گھر میں رہے۔ وہ کبھی صحافیوں سے نہ ملے اور جب ملے بمشکل چند جملے کہے۔ 2001 ء میں وہ روپوش ہوگئے اور پھرکبھی منظر عام پر نہ آئے۔ اُن کی بینائی سے محروم آنکھ کے بارے میں مشہور ہے کہ جب وہ بم دھماکہ سے شدید زخمی ہوگئی تو اُنہوں نے باقی ماندہ آنکھ کو خود آپریشن کر کے نکالا، ٹانکے خود لگائے اور مرہم پٹی بھی خود کی۔ جب یہ خبر سنی کہ حملہ آور سوویت افواج پسپا ہو رہی ہیں تو خوشی کے مارے بستر سے فارسی نظم گاتے ہوئے چھلانگ مارکر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اُنہوں نے 1996ء میں طالبان کی قیادت سنبھالی تو تین صندوقوں میں بند اُس جبہ کو نکال کر اوڑھا جو روایتی طور پر حضور ﷺ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اُنہوں نے بچپن بڑی غربت میں گزارا۔ کم عمری میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا تھا۔ اُن کا تعلق ایک مفلوک الحال گل زئی قبیلے سے تھا۔ سعودی عرب سے اُنہیں جو مالی امداد ملتی تھی وہ اسے اپنے سرہانے پڑے ایک بوسیدہ ٹرنک میں رکھتے تھے اورگاہے اُسے کھول کر اپنے ماتحتوں میں رقم بانٹتے تھے۔ اُن کی موت اتنی ہی پرُاسرار رہی جتنی اُن کی زندگی۔ کوئی بھی اُن کے سر کی قیمت وصول کرنے کا حق دار نہ بن سکا۔
تیسرا تعزیت نامہ 29 اگست کو گارڈین میں چھپا۔ موضوع ہے پنجاب کا ایک سکھ جاٹ جس کا نام اجیت سنگھ تھا۔ اُنہوں نے دُنیا کی بہترین یونیورسٹی کیمبرج میں معاشیات پڑھائی۔ اس موضوع پر دو بڑی عمدہ کتابیں لکھیں۔ وہ لاہور میں پیدا ہوئے، باپ جج تھا، ماں کا نام پشپا تھا، سکھوں کے تیسرے گورو امرداس ان کے جد امجد تھے۔ وہ بہترین امریکی یونیورسٹیوں میںپڑھے۔ کیمبرج یونیورسٹی میں 16سال کی تدریس کے بعد وہاں پروفیسر بنا دیئے گئے۔ اُنہوں نے عالمانہ طور پر ثابت کیا کہ رسد اور طلب کے باہمی عمل سے معرض وجود میں آنے والی منڈی کا کلیدی مقام اپنی جگہ مگر اسے مقدس درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ اسے بھی قواعد و ضوابط کا پابند بنانا ضروری ہوگا۔ اُن کی چمکتی آنکھوں، گلابی پگڑی، سیاہ وسفید داڑھی اور عالمانہ مسکراہٹ کو پارکنسن کے موذی مرض نے ان کے ہزاروں شاگردوں، ساتھی اساتذہ، دُنیائے علم و دانش، اُن کی دوسری بیوی اور دو بہنوں (پروین اور رانی) سے ہمیشہ کے لئے چھین لیا۔ 
چوتھا اورآخری تعزیت نامہ کسی ادیب کا ہے نہ کسی سربراہ مملکت کا اور نہ ہی کسی بڑے عالم کا بلکہ یہ ایک فنکار کا ہے جس کی ساری عمر ڈھول بجاتے گزری۔ اس کمال کا ڈھول بجاتے کہ اس کی آواز قریب سے بھی اتنی بھلی لگتی جتنی دور سے۔ فنکار کا نام تھا Doudovu Diyaye Rose ۔ وہ مغربی افریقہ کے ملک سینیگال کے رہنے والے تھے۔ 85 برس عمر پائی۔ چار خوش و خرم بیویوں کے شوہر تھے اور 42 بچوں کے باپ۔ اُنہوں نے فنکاروںکا جو طائفہ بنایا وہ امریکہ سے لے کر یورپی ممالک اور جاپان تک اپنے فن کے یادگار مظاہرے کرتا تھا۔ کئی بڑے مغربی گلوکاروں نے اپنے گانوںکی صدا بندی میں اُن کے ڈھول کی تال کو شامل کیا۔ تقریباً نصف صدی تک وہ افریقی صحرائوں سے لے کر مغربی ممالک تک موسیقی کی دُنیا پر چھائے رہے۔ وہ خود بڑے سلیقہ اورہنر سے ڈھول بجاتے اور دُنیا بھر میں اُن کے نام کا ڈنکا بجتا تھا۔ وہ جہاں بھی گئے اپنا قومی لباس پہنا اور اپنی مادری زبان میں گفتگو کی۔ مسلمان ہونے کے باوجود ان کے عیسائی مذہب کے پیروکاروں سے دوستی کا اتنا گہرا رشتہ تھا کہ افریقہ کے طول و عرض کے گرجا گھروں میں ان کی وفات پر ماتمی گیت گائے گئے اور اُن کی مغفرت کے لئے دعائیں مانگی گئیں۔ وہ سینیگال میں سرکاری اعزازکے ساتھ دفن کئے گئے تو ان کی وصیت کے مطابق اُن کا عمر بھر کا ساتھی ڈھول بھی اُس طرح قبر میں میں اُتارا گیا جس طرح اُتنے ہی بڑے فنکار اُستاد بسم اللہ خان کے ساتھ اُن کی شہنائی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں