خزاں کے موسم میں بہار کے شگوفے

یورپ میں ستمبرکا مہینہ شروع ہو جائے تو سرکاری طور پر موسم گرما کا خاتمہ اور موسم خزاں کا آغاز ہو جاتا ہے۔وادیاں دُھند آلود ہو جاتی ہیں۔ آسمان کا رنگ بدل جاتا ہے۔ سُرمئی بلکہ سیاہی مائل درختوں کے سبز پتے زرد ہو کر گرنے لگتے ہیں۔ موسم زیادہ تر ابر آلود رہتا ہے۔ اِس قسم کی دھیمی بوندا باندی ہونے لگتی ہے جو انگریزی کے سب سے بڑے ادیب شیکسپیئرکے الفاظ میں (جنہیں کالم نگار نے63 سال پہلے پروفیسر مرزا ریاض سے اسلامیہ کالج گوجرانوالہ میں پڑھا تھا) Gentle Rain ( شریفانہ بارش) کے زمرے میں آتی ہے۔ عظیم رومانی شاعر نے موسم خزاں کے لئے Mellowners ( اُردو ترجمہ: رس بھرایا رسیلا) اِسم صفت استعمال کیا ۔ تندو تیز ہوائیں برطانوی جزیرے کو لپیٹ میں لے لیتی ہیں مگربرطانوی کسی بھی کرین کو‘ جو( جا بجا تعمیری کاموں میں مصروف نظر آتی ہیں۔) زمین بوس ہونے اور قیمتی جانوں کا نقصان کرنے میں ہر گز کامیاب نہیں ہونے دیتے۔ انگریز زندگی کے ہر شعبہ میں چھوٹی سے لے کر بڑی اور بہت بڑی مشینری استعمال کرتے ہیں مگر وہ اس کا محفوظ استعمال کرنا بھی جانتے ہیں۔ بارہ ستمبرکو خلاف توقع اور خلاف معمول چمک دار اور خوشگوار دھوپ نکلی۔ میں اہل خانہ کے ساتھ لندن کے وسط میں وسیع و عریض ہائیڈ پارک گیا۔دوپہر کے بارہ بجے تو لائوڈ سپیکر پربارہ الفاظ پر مشتمل وُہ اعلان ہوا جس کا لاکھوں افراد کو کئی دنوں سے شدید انتظار تھا: ''جیریمی کاربین Jeremy Corbyn نے لیبر پارٹی کے قائد کا انتخاب جیت لیا‘‘ ۔ مردوں‘عورتوں‘ بچوں‘ نوجوانوں اور بوڑھوں کے بہت بڑے اجتماع نے خوشی کے نعرے لگائے۔ اتنے زور سے تالیاں بجائیں کہ اُن کے ہاتھ اُن کے چہروں سے زیادہ سُرخ ہو گئے۔ اُن کے بے پناہ خوشی اور جوش و خروش کے مظاہرے کو الفاظ میں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ میرے قارئین صرف اس کا اندازہ ہی کر سکتے ہیں۔ انگریز ہاتھ بھی صرف خاص دوستوں سے ملاتے ہیں اور وہ بھی بڑے رکھ رکھائو اور اہتمام کے ساتھ۔ جولوگ مصافحہ بھی سوچ سمجھ کر کرتے ہوں وہ اگر لپک لپک کر والہانہ انداز میں آپ سے معانقہ کرنے لگیں‘جیسا کہ اس کالم نگار کے معاملہ میں بار بار ہوا‘ تو آپ باور کر لیں کہ ضرور کوئی غیر معمولی خوشی کی بات ہے کہ خوش ہو جانے والوں کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے ہیں۔ اُنہیں اپنے آپ پر قابو نہیں رہایہاں تک کہ اُنہوں نے پاسبانِ عقل کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔ لیبرپارٹی کے نئے لیڈرکی (جو بائیں بازو کے ترقی پسندانہ‘ اشتراکی اور عوام دوست خیالات رکھتے ہیں) کامیابی کی خبر سن کر اُن کے ان گنت مداحوں کا یہی حال ہوا۔ میں نے یہ منظر برطانیہ میں نصف صدی کے قیام میں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ روایت پسند انگریزوں نے میرے کرتے شلوار کا غیر روایتی لباس بھی نظر انداز کر دیا اور ساری توجہ میری دلی مبارکباد وصول کرنے اور مجھے دلی مبارکباد دینے‘ معانقہ کرنے اور (جب جب میری قسمت نے یادری کی) میرا سانولا منہ چومنے پر مرکوز رکھی۔ کامیابی کا یہ جشن پہلے صرف چند سو لوگوں سے شروع ہوا‘ دیکھتے ہی دیکھتے تعداد ہزاروں تک جا پہنچی۔ جشن کے آغاز کے بعد جب لندن کی مرکزی شاہراہ (جس پر کئی بیش قیمت رہائش گاہوں کے مالک پاکستان کے بدعنوان حکمران اور لٹیرے سرمایہ دار ہیں) پر تقریباً تین میل لمبا جلوس نکلا تو تعداد ہزاروں سے بڑھ کر ایک لاکھ تک جاپہنچی۔ حد نگاہ تک لوگ ہی لوگ اور لوگ بھی وہ‘ قرآن پاک کی زبان میں ربّ ذوالجلال کو پسند آنے والے اور انجیل مقدس کی زبان میں زمین کا نمک۔ لاکھوں باضمیر مقامی لوگوں کی طرح یہ کالم نگار بھی عراق اور افغانستان پر برطانیہ کی لیبر حکومت کے جارحانہ حملوں کے خلاف اپنی پرانی (یعنی لیبر پارٹی سے) احتجاجاً مستعفی ہو گیا تھا۔ اتنے سالوں کے بعد ‘ دوسرے بے شمار لوگوں کی طرح میں ‘پھر اپنی پرُانی پارٹی میں شامل ہو گیا ہوں‘ نہ صرف انفرادی طور پر بلکہ باجماعت۔ 
بہار صرف برطانیہ کے ساحلوں تک محدود نہیںرہی‘ وہ پرُتگال میں بھی آئی۔ پرتُگال کے دارالحکومت لزبن میں کمیونسٹ پارٹی کے زیر اہتمام ہونے والا تاریخی عوامی میلہ بھی اُسی دن اور اُس وقت تھا‘ جب مجھے لندن کے ہائیڈ پارک کی طرف کشاں کشاں جانا تھا‘ ورنہ میں وہاں ـضرور جاتا۔ خبر ہے کہ لزبن کے جشن میں دو لاکھ افراد شریک ہوئے۔ پرُتگال سپین کا پڑوسی ہے اور مقابلتاً بہت چھوٹا ملک۔ آبادی صرف ایک کروڑ (یعنی تقریباً لاہور کے برابر) 1492ء میں سپین پر عربوں کی حکومت ختم ہوئی تو اُس کی جگہ الفانسو سوئم کی بادشاہت قائم ہوئی۔ پندرہویں صدی میں پرتگیزی فوج نے ایک طرف لاطینی امریکہ‘ افریقی ممالک اور ہندوستان کے مغربی ساحل (گوا) پراور دُوسری طرف افریقہ اور جنوبی امریکہ پرقبضہ کر لیا۔ اس موضوع پر آج ہی ایک نئی کتاب شائع ہوئی ہے۔ وقت نکال کرپڑھ لوں تو آپ کو اس کا خلاصہ بتائوں گا۔ پرتگال کو جتنی تیزی سے عروج ملا‘ زوال کی رفتار بھی اُتنی ہی تیز تھی۔ پرتگال سولہویں صدی کے آخر تک ہسپانوی سلطنت کے زیر نگین ہو گیا۔ نپولین فرانسیسی جارحیت کا سلسلہ وسیع کرتے کرتے پرُتگال تک جا پہنچا اور 1807ء سے لے کر 1821ء تک پرتگال پر فرانس کا قبضہ رہا۔ 1822ء میں ایک طاقتور خاندان کو پرتگال کا تخت و تاج اتنا راس آیاکہ وہ 1910ء کے عوامی انقلاب تک برسرِ اقتدار رہا۔ اگلے 22 برس بد نظمی اور عدم استحکام میں گزرے۔ نہ عوامی حکومتوں کا ہاتھ باگ پراور نہ پائوںرکاب میں ہوتا تھا‘ اور نہ غیر مقبول اور نالائق فوجی حکومتوں کا۔ اس صورت حال سے Antonio de Oliveire (جو سلازار کے نام سے پہچانا جاتا تھا) 1932ء میں اقتدار پر شب خو ن مارکر پرتگال کے سیاہ و سفید کا آمر مطلق بن بیٹھا اور دائیں بازو کی فسطائی طرز کی حکمرانی کو بندوق کے زور پر اتنے برس چلایا کہ طوالت‘ حماقت اور جہالت کے نئے ریکارڈ قائم ہو گئے۔ 1968ء میں ( یعنی 36 برس بعد) سلازار اتنا بیمار ہو گیا کہ اُسے مجبوراً ریٹائر ہونا پڑا۔ یہ وہ سعادت ہے جو پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل ملک غلام محمد کے حصے میں بھی نہ آئی اور وہ مفلوج ہو جانے کے باوجود اقتدار سے چمٹے رہے۔ اپنی خوبرو امریکی سیکرٹری کی (جو سی آئی اے نے موصوف کو بطور تحفہ دی تھی) انتظامی اور دُوسری صلاحیتوں کے بل بوتے پر ابھی کئی سال سربراہ مملکت رہنے پر بضد تھے کہ اپنے سے بڑے سازشی جنرل سکندر مرزا کے ہاتھوں مات کھا گئے۔( آگے چل کر جنرل سکندر مرزا کا یہی حشر جنرل ایوب خان کے ہاتھوں ہوا) اطلانتک سمندر کے کنارے آباد چھوٹے سے ملک پرتگال میں سخت جان‘ محنتی اور بہادر لوگ رہتے ہیں جو پرُ خطر بحری مہمات کی وجہ سے افسانوی شہرت کے مالک ہیں۔ لاطینی امریکہ کے سارے ممالک ہسپانوی زبان بولتے ہیں‘ ماسوائے سب سے بڑے ملک برازیل کے‘ جہاں پرتگیزی زبان ہی سرکاری اور قومی زبان ہے‘ اس لیے کہ وہاں ایک طویل عرصہ پرُتگال نے حکومت کی تھی۔ یہ باتیں لکھتے وقت مجھے وطن عزیز یاد آیا جہاں چاروں صوبوں کی اپنی اپنی زبانیں ہیں یعنی چار علاقائی زبانیں ۔ قومی زبان اُردو ہے‘ جو سارے ملک میں بولی لکھی اور سمجھی جاتی ہے۔ مگر اُردو سرکاری زبان نہیں بلکہ سرکاری زبان انگریزی ہے‘ جسے اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں بمشکل اٹھارہ ہزار لوگ (کوئی بڑی غلطی کئے بغیر) صحیح بول اور لکھ سکتے ہیں۔ آئین پاکستان کے مطابق اُردو کو سرکاری درجہ دینے کا حکم (جو ہماری تاریخ میں پہلی بار اُردو میں سنایا گیا) جاری کرنے میں68 سال لگادیئے گئے۔اسے کہتے ہیں زود پشیمانی! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں