حریف ِرازِ محبت مگر در و دیوار

دیوان غالب میں غزلوں کو حروفِ ابجد کے لحاظ سے مرتب کیا گیا ہے۔ 'ر‘ قافیہ سے شروع ہونے والی پہلی غزل کے مقطع میں ایک قیمتی مشورہ دیا گیا ہے جو آپ بھی پلے باندھ لیں ؎
نہ کہہ کسی سے کہ غالبؔ نہیں زمانے میں 
حریفِ رازِ محبت مگر در و دیوار
آج کے کالم کا عنوان مقطع کے دُوسرے مصرع سے مُستعار لیا گیا ہے۔ اسی غزل کے دُوسرے شعر کے مطابق ؎
وفورِ اشک نے کاشانہ کا کیا یہ رنگ
کہ ہو گئے مرے دیوار و در، درو دیوار
دُوسرے الفاظ میں گھر کی کایا پلٹ گئی۔ دروازے دیواریں بن گئیں اور دیواروں نے دروازوں کی شکل اختیار کر لی۔ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ غالب کے وفورِاشک کی کیا وجوہ تھیں؟ قیاس ہے کہ 1857ء میں پڑنے والے غدر (جسے مورخین پہلی جنگ آزادی لکھتے ہیں) میں ہونے والے ہنگامے، قتل و غارت، افراتفری، طوائف الملوکی، انسانی جان کی ارزانی اور بڑے پیمانے پر اُکھاڑ پچھاڑ نے اس عظیم شاعر کو بری طرح متاثر اور پریشان کیا ہوگا۔ وہ آج زندہ ہوتے تو یقیناً پاکستان کے ثقافتی مرکز لاہور میں رہتے اور چاروں طرف نظر دوڑاتے تو کیا دیکھتے؟ گدھے کے گوشت کی فروخت، سانحہ ماڈل ٹائون، سانحہ قصور! ٹیلی ویژن دیکھتے تو لندن سے ایک بڑی سیاسی جماعت کے قائد کا خطاب اور دوبئی سے دوسری بڑی سیاسی جماعت کی مجلسِ عاملہ کے ہونے والے اجلاس کی جھلکیاں! احوالِ وطن سے پریشان ہو کر سر زمین یثرب کی طرف دیکھتے اور دُعا مانگتے کہ کاش! مولا اُنہیں مدینہ بلالیں تاکہ دُنیوی خرابیوں کی تلافی کرنے کے لئے وہ اپنی آخرت سنوارنے کا بندوبست کر سکیں۔
چلیے ہم تصور کرتے ہیں کہ ان کی دل سے مانگی ہوئی دُعا قبول ہونے میں دیر نہ لگی۔ ابھی وہ رخت سفر باندھ رہے تھے، اُن کے اہل و عیال اُن کے گلے میں موتیے کے ہار ڈال رہے تھے کہ کسی نیک بخت نے مشورہ دیا کہ اگر وہ احرام باندھ کر گھر سے روانہ ہوں تو دُگنے ثواب کے مستحق ٹھہرائے جائیںگے۔ غالبؔ نے دل پر پتھر رکھ کر یہ تجویز بھی مان لی۔ شیشہ دیکھنے کی نوبت نہ آئی ورنہ اپنی ہیئت کذائی دیکھ کر غالباً اپنا فیصلہ بدل لینے پر مجبور ہو جاتے۔ ابھی یہ کارروائی جاری تھی کہ سرزمین حجاز سے خبر آئی کہ حرم شریف پر ایک بڑا وزنی کرین گرگیا۔ سینکڑوں حجاج نے ملبے کے نیچے آکر جام شہادت نوش کیا۔ غالبؔ بڑے بدمزہ ہوئے اور احرام اُتارکر اپنی کوٹھڑی میں جا چھپے اور کئی دن بے سُدھ پڑے رہے۔ اپنا پسندیدہ مشروب پی کر اپنی کھوئی ہوئی ہمت بحال کرنے کی بے سُود کوشش کرنے میں شب و روز مصروف ہوگئے۔ ایک دن اچانک خیال آیا کہ شکر ہے، خدا نے میری شرم رکھ لی اور مجھے کعبہ کی زیارت کرنے سے عین وقت پر روک لیا گیا۔ غالبؔ کو اپنی بدمزاجی اور انا پرستی اور ان سے جڑی ہوئی دُوسری خامیوں کا اچھی طرح علم تھا۔ وہ بجا طور پر ڈرتے تھے کہ وہ جان جوکھوں میں ڈال کر اور اتنا لمبا اور کٹھن سفر کر کے اور عمر بھر کی پونجی صرف کر کے خدا کے گھر جا پہنچتے اور دیکھتے کہ درِ کعبہ اُن کے لئے وا نہیں ہوا تو وہ اُلٹے پائوں واپس گھر آجاتے۔ ابھی وہ گھر نہ پہنچنے پاتے کہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن والے یہ خبر اہل وطن اور اہل ایمان کو پہنچادیتے کہ غالبؔ نے خانہ کعبہ جا کر جو حرکت کی وہ کفر کے زمرہ میں آتی ہے۔ تمام مساجد میں متفقہ طور پر مطالبہ کیا جاتا کہ انہیں عبرت ناک سزا دی جائے۔ خیالات کی ندی اس شاعر کوبہاتے بہاتے یہاں تک لائی تھی کہ حج کے ایک رکن کی ادائیگی کے دوران ایک ہزار کے قریب حجاج کی وحشت ناک اور المناک شہادت کی خبریں آنے لگیں۔ یہ سب کچھ غالبؔ کی رفیقۂ حیات کو یہ کہنے سے نہ روک سکا کہ اگر اُنہیں حج کی سعادت نصیب ہوئی تو وہ جمرات نامی کنکریٹ کی بنی ہوئی پتھریلی دیواروں کو شیطان سمجھ کر اُن پر سنگ زنی کی زحمت اُٹھانے کا خطرہ ہر گز مول نہ لیںگی۔ خوش عقیدہ غالبؔ نے اپنی فاقوں کی عادی بیوی سے پوچھا کہ آپ کے پاس کوئی متبادل پروگرام (یعنی پلان بی) بھی ہے یا نہیں؟ بیگم صاحبہ نے تُرت جواب دیا کیوں نہیں۔ میں آپ کو گھر میں ہی چند کنکریاں آہستہ آہستہ مارکر یہ رسم پوری کر لیتی۔ آپ کو کوئی گزند نہ پہنچتا اور میرا حج مکمل ہو جاتا۔ اپنی وفا شعار بیوی کا یہ پروگرام سن کر غالب نے حج کا نام دوبارہ نہ لیا۔ 
کالم شروع ہوا تھا غالب کی ایک غزل میں در و دیوار کے قافیہ سے، چلتا چلتا سرزمین حجاز پہنچا۔ اب وہ واپس مشرق کو آئے گا اور سرزمین چین کا رُخ کرے گا۔ چین اس لئے کہ وہاں کی ایک دیوار آپ کی خصوصی توجہ کی طالب ہے۔ چین کے بادشاہوں کے ایک گھرانہ کا نام منگ(Ming) تھا۔ اُنہوں نے جن کمالات کی وجہ سے ابدی شہرت پائی ،دیوار چین کی تعمیر اُن میں سرفہرست ہے۔ اس دیوار کے ایک حصہ کی تعمیر 1368ء میں شروع ہوئی اور تقریباً تین صدیوںکے بعد 1644ء میں مکمل ہوئی۔ اس کی لمبائی 4000 (کنجوسی سے ناپا جائے تو 3900 ) میل بنتی ہے۔ خلائی سفر کرنے والوں نے اپنی واپسی پر یہ انکشاف کیا کہ اُنہیں خلا سے انسان کی بنائی ہوئی صرف ایک چیز نظر آئی اور وہ تھی دیوار چین ۔ 
اتوار 25 مئی 1993ء کا دن تھا اور دس بجے صبح کا وقت، جب یہ کالم نگار اپنی رفیقۂ حیات کے ساتھ دیوار چین پر چڑھ کر اتنے بلند مقام تک گیا کہ اُسے اس کارنامے پر بطور انعام چین کے محکمہ سیر و سیاحت کی طرف سے سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا۔ ظاہر ہے، یہ سرٹیفکیٹ میرے دارالمطالعہ میں نمایاں طور پر آویزاں کیا گیا ہے،کوئی مہمان اسے دیکھے تو میری دیوار پیمائی پر داد دیئے بغیر بچ کر نہیں جا سکتا۔ مذکورہ سرٹیفکیٹ مفت نہیں ملتا، پانچ امریکی ڈالر دینے پڑتے ہیں۔ زرِ مبادلہ میری بیوی کے پاس تھا اور وہ اس دیوار پر چڑھنے کی بجائے نیچے کھڑے ہوکر اپنے سخت جان اور مہم جو شوہر پر اپنی نیک خواہشات کی بارش اور اس کی حوصلہ افزائی کرتی رہیں۔ میں ایک امریکی سیاح خاتون کا شکر گزار ہوں کہ اُس نے مجھے پانچ ڈالر مرحمت فرمائے۔ میری یہ دلیل کام آئی کہ میرا تعلق جس ملک سے ہے وہ شروع دن سے امریکی حکومت سے ملنے والی خیرات لے کر گزارا کرتا ہے۔ آپ انفرادی سطح پر میری مالی مدد کریں اور پاک امریکہ دوستی کو آگے بڑھائیں۔
برطانیہ کے روزنامہ گارڈین نے 30 جون کو یہ چھوٹی سی خبر شائع کی جو اتفاقاً آج میری نظر سے گزری کہ مذکورہ دیوار کا ایک تہائی حصہ غائب ہو چکا ہے۔ وجوہ کیا ہیں؟ قدرتی فرسُودگی، دیوار کے ساتھ سیاحوں کی چھیڑ چھاڑاور اینٹوں کی چوری۔ گارڈین کے نامہ نگار کے مطابق اصل دیوار کی لمبائی5600 میل سے لے کر 13,000 میل تک تھی۔ اس دیوار کی تعمیر قبل مسیح تیسری صدی میں شروع ہوئی۔ چودہویں اور سترہویں صدی کے درمیان صرف آخری 3900 میل لمبی دیوار بنائی گئی۔ اس تاریخی دیوار سے اینٹیں چرانے والوں کو 5000 یوآن کا جرمانہ، جُرم کے ارتکاب سے نہیں روک سکا۔ چوری کی جانے والی ہر اینٹ 30 یوآن (ساڑھے چار سو روپے) میں فروخت کرنے کا دھندہ جاری ہے۔ یہ کام دُنیا میں پہلی بار نہیں ہوا کہ ایک نسل بڑی مشکل سے جو بناتی ہے، آنے والے نسلیں اُسے اپنی مجرمانہ غفلت سے گرنے دیتی ہے۔ 
آیئے ہم خود اپنی طرف دیکھیں۔ قائداعظم اور اُن کے رفقا اور ہندوستان کے مسلمانوں کی ایک نسل نے دُنیا کی پانچویں بڑی مملکت بنائی۔ صرف ایک چوتھائی صدی گزری اور بعد میں آنے والی نسل نے ملک توڑ دیا۔ صرف ملک ہی نہیں، اس کالم نگار کی طرح لاکھوں کروڑوں محب الوطنوں کا دل بھی۔ میں اُسے آج بھی بنگلہ دیش کی بجائے مشرقی پاکستان کہتا ہوں۔ ہمار آدھا ملک تو گیا مگر وہاں چار پانچ لاکھ لوگ اب بھی مہاجر کیمپوں میں رہتے ہیں جو اپنے آپ کو پاکستانی کہتے ہیں۔ کیا یہ ہمارا، میرا اور آپ کا، ہم سب کا فرض نہیں کہ ہم اُنہیں اپنے پاس بُلالیں تاکہ اُن کے 46 سالوں سے بہتے ہوئے آنسو تھم جائیں اور وہ غالبؔ کی رُوح کو بتا سکیں کہ آخر اُنہیں وہ در و دیوار مل گئے جن کے خواب وہ نسل در نسل دیکھتے چلے آئے تھے۔ کچھ عجب نہیں کہ یہ ایک نیکی ہمارے ہزاروں گناہوں پر غالب آجائے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں