دمشق ہاتھ سے جن کے ہوا ہے ویرانہ

شاعرمشرق و مغرب کے کلام کا تیسرا مجموعہ شائع ہوا تو اُس کا نام ضربِ کلیم رکھا گیا ۔ اس نام کے نیچے لکھا ہوا ہے۔ ''یعنی ۔ اعلانِ جنگ دورِ حاضر کے خلاف‘‘۔ اس شعری مجموعہ کے ایک حصہ کا نام ہے۔ ''ادبیات، فنون لطیفہ‘‘ اور اُس حصہ کی پانچویں نظم کانام ''پیرس کی مسجد‘‘ ہے جو صرف تین اشعار پر مشتمل ہے۔ اُس کا آپ آخری شعر پڑھ لیں ؎
یہ بت کدہ انہی غارت گروں کی ہے تعمیر 
دمشق ہاتھ سے جن کے ہوا ہے ویرانہ
اقبال کو شکایت یہ تھی اور یہ بہت بڑی شکایت تھی کہ فرنگی کرشمہ بازوں نے رُوح بت خانہ کو تنِ حرم میں چھپا دیا ہے اوریہ وہ غارت گر ہیں جو دمشق کو ویران کر چکے ہیں۔ اقبال کا اشارہ سلطنت عثمانیہ ختم کر کے شام کو ایک کٹھ پتلی ''آزاد‘‘ ملک بنانے اور پھر اُس پر فرانسیسی قبضہ کی طرف تھا۔ اس سامراجی قبضہ کی پردہ پوشی کے لئے League of Nations Mandate کی اصطلاح گھڑی گئی۔ تقریباً ایک صدی گزر گئی۔ مگر دُنیا کے قدیم اور کمال کے شہر دمشق کو ویرانہ میں تبدیل کرنے کا المناک سانحہ بدستور رُونما ہو رہا ہے۔ شہر وُہی مگر ویرانی ہزاروں گنا زیادہ اور ویران کرنے والوں کی تعداد میں چار گنااضافہ۔ سرفہرست تو شام کا غاصب اور بے حد غیر مقبول اور ناپسندیدہ صدر بشارالاسد (جو بمشکل ایک چوتھائی رقبہ کو محکوم رکھنے کے باوجود سارے شام کا صدر تسلیم کئے جانے کا خواہش مند ہے۔) دُوسرے تین غارت گروں کے نام ہیں‘ روس‘ ایران اور حزب اللہ۔ روس نے افغانستان میں اور امریکہ نے ویت نام میں اپنی عبرتناک شکستوں سے سبق نہیں سیکھے۔ حال ہی میں روس نے شام میں اپنی فضائیہ کے ذریعہ بڑے پیمانے پر زبردست بمباری شروع کر دی ہے۔ دس برس پہلے امریکہ نے افغانستان اور عراق کو اپنی فوجی جارحیت کا نشانہ بنایا اور لاکھوں بے گناہ افراد کے قتل عام کے سنگین جرم کا ارتکاب کیا۔
اقبال نے 18 اگست 1935 ء کو ابی سینیا (جدید ایتھوپیا) کے عنوان سے بہت اچھی نظم لکھی جس میں ہر شعر تین مصرعوں پر مشتمل ہے۔ آپ دُوسرا شعر پڑھ لیں ؎
غارت گری جہاں میں ہے اقوام کی معاش
ہر گرگ کو ہے برئہ معصوم کی تلاش
اقبال نے یورپی ممالک (جن میں روس بھی شامل ہے) کولاشوں پر پلنے والے گدھوں سے مشابہت دی۔ مشرق بعید میں سو جوتے اور سو پیاز کھانے کے بعد اب یورپی ممالک نے مشرق وُسطیٰ پر اپنے خونیں پنجے دوبار گاڑ دیئے ہیں۔ امریکی ڈرون حملوں سے لے کر رُوسی بحریہ کے چلائے جانے والے میزائل (قدرت کی شان ملاحظہ فرمایئے کہ دو میزائل اس جنگ میں روس کے حلیف ایران پر جا گرے)۔ ابھی کل کی بات ہے جب میں ایک بعد دوپہر ڈنگا سنگھ مینشن والے شیزان میں اپنے ایک دیرینہ دوست (جناب نذیر ناجی) کے ساتھ کافی پی رہا تھا۔ اُس دن ایران میں امام خمینی کی تہران میں آمد کے ساتھ انقلاب ایران اپنے نکتہ عروج تک پہنچا تھا۔ امریکی پٹھو شاہ ایران اس طرح جان بچا کر بھاگا کہ اُس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ذہن مائوف ۔ ماتمی کیفیت اور ہاتھ میں ایران کی مٹھی بھر مٹی۔ اس صورت حال پر ہم دونوں دوست کس قدر خوش تھے وہ بیان نہیں کیاجا سکتا۔ یہ بات ہمارے وہم و گمان میں نہ تھی کہ امام خمینی جیسے عظیم اور قابل فخر انقلابی راہنما کا بنایا ہوا نیا ایران آگے چل کراسی شیطان امریکہ اور پھر اتنے ہی بڑے شیطان رُوس کا اتحادی بن جائے گا۔ تاکہ امریکہ دُشمن انقلابی قوتوں کو فوجی طاقت کے بے رحمانہ استعمال سے کچل دے۔ (یا کچلنے کے کارخیر میں اپنا حصہ ڈال سکے) اسے کہتے ہیں تاریخ کی ستم ظریفی اور تاریخ سے بڑھ کر نہ کوئی ستم گر ہو سکتا ہے اور نہ کوئی بڑا ظریف۔
جنوب مشرقی افریقہ کے ایک بڑے ملک کا نام Mozambique ہے جو جنوب مغربی افریقہ کے دُوسرے ملک انگولا کی طرح صدیوں پرتگیزی نو آبادی رہا۔ ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں افریقہ کے عوام سفید فاموں کی غلامی سے آزاد ہوئے تو موزمبیق بھی ایک تاریک دُور سے نکلا مگر آسمان سے گر کر کھجور میں اٹکنے والا معاملہ ہوا۔ بلکہ انگریزی محاورہ کے مطابق تلنے والے برتن سے باہر نکل کر آگ میں گرنے کے مترادف ۔ قبائل کے درمیان خانہ جنگی شروع ہوئی جو کئی سال جاری رہی۔ جنگیں تو شروع ہو کر ایک دن ختم ہو جاتی ہیں مگر اس ملک کی یہ بڑی بدنصیبی کہ فریقین نے ملک کے چپہ چپہ پر زیرزمین بارودی سرنگیں بچھا دیں۔ پندرہ سالوںتک جان جوکھوں میں ڈال کر ناقابل بیان محنت اور مشقت کے بعد پونے دو لاکھ بارودی سرنگوں کا سراغ لگا کر اُنہیں بیکار بنایا جا چکا ہے۔ اب ایک وسیع علاقہ لوگوں کی آمد و رفت کے لئے محفوظ بنادیا گیاہے۔ شاید میرے قارئین کو یاد ہو کہ آنجہانی شہزادی ڈیانا کو زیادہ نیک نامی اس وجہ سے ملی تھی کہ وہ بارودی سرنگیں صاف کرنے کی مہم کی سرپرست بن کر خطرناک علاقوں کا خود دورہ کرتی تھیں۔ کتنے دُکھ کی بات ہے کہ آج بھی ساٹھ مُلکوں میں زمین میں دبی ہوئی بارودی سرنگوں سے ہلاک یا شدید زخمی ہو جانے والوں کی سالانہ تعداد چار ہزار تک جاتی ہے۔
گزر جانے والی اتوار کو خلاف معمول دُھوپ نکلی تو میں ایک چھوٹی سی ندی کے کنارے سیر کرنے اور لکڑی کے پرانے پل پر بیٹھنے نکلا۔ ایک زرعی فارم میں بڑی رونق دیکھی تو میں بھی کشاں کشاں وہاں جا پہنچا۔ زرعی پیداوار کا مقابلہ ہو رہا تھا۔ جب میں وہاں پہنچا تو سبزیوں کا مقابلہ ختم ہو چکا تھا۔ لیکن مجھے اپنی آنکھوں پر اعتبار نہ آتا تھا کہ میرے سامنے جو دیوہیکل کدو پڑے ہیں وہ مصنوعی نہیں۔ اصلی ہیں۔ ہر کدو انفرادی طور پر ہمارے ہاں کے درجنوں تربوزوں سے بھی بڑا تھا۔ میں نے مقابلہ جیتنے والے کو مبارک باد دی۔ خوش و خرم کاشتکار اور اُس کے بیوی بچوں اور اُن کے آگے پیروں میں دم ہلاتے ہوئے خونخوار مگر شاندار کتے اور اُس کے اُگائے ہوئے بہت بڑے کدو کے ساتھ اہتمام سے تصویر اُتروا ئی۔میرے'' گرائیں‘‘ کاشتکار نے مجھے یقین دلایا کہ وہ برطانیہ کے ملک گیر مقابلہ میں ہر گز کامیاب نہ ہوگا چونکہ وہاں اُس کے بھی اُستاد اپنے کمالات دکھائیں گے۔ چھان بین پر پتہ چلا کہ پچھلے سال جس زمیندار نے چاندی کا تمغہ حاصل کیا اُس کے اُگائے ہوئے کدو کا وزن 371 کلو گرام تھا۔ اُسے فورک لفٹ (Fork Lift) کی مدد سے اُٹھایا گیا۔ سونے کا تمغہ جس زمیندار کو ملا‘ اس کا اُگایا ہوا کدو اتنا بڑا تھا کہ ٹرک نما وین سے اُتارا نہ جا سکا۔ یہ مسئلہ کوئی حل نہ کر سکا کہ آخر یہ وین میں رکھا کس طرح گیا؟ میں نے صرف تصاویر دیکھیں‘ وہی مجھے دہشت زدہ کرنے کے لئے کافی تھیں چونکہ کدو ایک چھوٹی کار کے سائز سے بڑا اور وزن میں زیادہ تھا۔ یہ تھے ایک صنعتی ملک کے کاشتکاروں کے کارنامے یہ کالم اقبال کے شعر سے شروع ہوا تھا۔ ختم بھی ایک شعر کے نثری بیانیہ پر ہوگا۔ 
میر سپاہ لائق فائق نہیں (یعنی نالائق ہے)
لشکرصف شکستہ ہے اور ہماری کمان سے جو تیر نکلااُس کا ہدف نامعلوم ہے۔ دُوسرے الفاظمیں ہم بڑے بڑے کدو اُگائیں یا نہ اُگائیں۔ زیادہ فرق نہیں پڑتا۔فرق اس سے پڑتا ہے کہ آزاد کشمیر میں دس سال پہلے ہماری حالت اتنی دگر گوں ہے کہ قابل رحم ہے۔زلزلہ میں گرنے والے سکولوں کی کل تعداد 20 ہزار سے زیادہ تھی۔ اُن میں صرف آدھے دوبارہ تعمیر کئے گئے ہیں۔ دس ہزار مسمار ہو جانے والے سکولوں کے بچے آج بھی کھلے آسمان تلے بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔ اُنہیں بیٹھنے کیلئے ٹاٹ بھی میسر نہیں۔ وہ ٹاٹ جن پر اس کالم نگار نے پرائمری درجہ کی تعلیم چار سال تک بیٹھ کر حاصل کی۔ صرف اس نیم خواندہ کالم نگار نے نہیںبلکہ طبعی سائنس کا سب سے بڑا انعام (نوبل) حاصل کرنے والے ڈاکٹر عبدالسلام نے بھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں