آپ اور خلق خدا

آج کے کالم کا عنوان اساتذہ میں سے ایک بڑے شاعر (غالباً آتش) کے ایک زبانِ زد ِعام شعر کے دُوسرے مصرع سے لیا گیا ہے‘ آپ پورا شعر پڑھ لیں تو ہم آگے بڑھیں ؎
سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرافسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
کالم شروع کرتے ہیں ایک پرندے کے تذکرہ سے جس کا سرکاری نام ہے‘Houbara Bustard ۔ یہ ایک قسم کی مرغابی ہے جو رُوس کے برف زاروں کی ناقابل برداشت سردی سے بچنے کے لئے ہزاروں میل کی پرواز کر کے چولستان کے صحرائوں میں پناہ لینے ہر سال آتی ہے۔ کافی عرصہ پہلے بھی اس کالم میں اس پرندے کا اور چولستان میں اس کے عبرتناک حشر کا ذکر کیا جا چکا ہے۔ آج ہم بات کو اور آگے بڑھائیں گے۔اس پرندے کی یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ وہ خلیجی ریاستوں کے شہزادوں کا من بھاتا کھاجا ہے۔جنگلی حیات کے ماہرین نے جن پرندوں کا دُنیا سے نام و نشان مٹ جانے (Threatened Species) کے خطرہ کی گھنٹی بجائی ہے اُن میں یہ پرندہ بھی شامل ہے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے ماہ ستمبر میں اس کے شکار پر پابندی لگائی۔ اکتوبر میں وزارت خارجہ نے نظرثانی کی درخواست اس بنیاد پر دی کہ اگر اس کے شکار پر پابندی لگائی تو خارجہ پالیسی کو سخت نقصان پہنچے گا۔ دُنیا کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ایک ملک کی وزارت خارجہ پوری سنجیدگی سے عدالت عظمیٰ کے سامنے سرکاری موقف پیش کر رہی ہے کہ خلیجی ریاستوں کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات کا انحصار مذکورہ پرندے کے بے تحاشا اور بے حد و حساب شکار کی اجازت پر ہے۔ 
ایں سعادت بزور بازو نیست
اللہ کی شان‘ ہمارے ملک کے عرب امارتوں کے ساتھ اچھے تعلقات سمٹ کر ایک نقطہ پر آگئے ہیں اور وہ ہے حسب سابق شکار اور مزید شکار کی اجازت۔
سائبیریا کی مظلوم مُرغابی کے‘ جسے ان دنوں ننھی سی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں‘ تذکرہ کے بعد ہم ایک بڑی چھلانگ لگا کرجس موضوع کی طرف جا رہے ہیں وہ ہے ہمارے ایٹمی ہتھیار‘ جو ہمارے بہترین اور قریبی دوست بلکہ سرپرست امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ پاکستان نے جوہری ہتھیاروں کا پہلا کامیاب تجربہ کیا تو امریکہ نے ہمیں سزا دینے کے لئے طرح طرح کی پابندیاں عائد کر دیں۔ ایف سولہ طیاروں کی فراہمی روک دی جن کی دُگنی قیمت وہ عرصہ قبل وصول کر چکا تھا۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو کہ جب امریکی دوستوں کی راتوں کی نیند اس فکر میں حرام نہ ہوئی ہو کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی منحوس دن پاکستان پر طالبان کا قبضہ ہو جائے اور ایٹمی ہتھیار اُن کے ہتھے چڑھ جائیں۔ ہماری وزارت خارجہ کے ترجمان کا تسلی دیتے دیتے منہ سوکھ گیا ہے کہ آپ بالکل فکر نہ کریں‘ جو لوگ ایٹمی ہتھیار بنا سکتے ہیں‘ وہ اُن کی بخوبی حفاظت کرنا بھی جانتے ہیں۔ اس مسکین کالم نگار کی طرح میرے قارئین بھی یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے امریکی مائی باپ ہماری تشفیوں سے کس حد تک مطمئن ہوئے؟ کیا اُنہیں ہمارے وعدے وعید پر اعتبار آیا (جو قرین قیاس نہیں لگتا) ۔ 
یہ کالم ضمیر کی آواز ہے اگر باشعور قارئین تک پہنچ جائے تو سمجھ لوں گا کہ مقصد پوراہوگیا۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں زہر ہلاہل کو قند لکھوں۔ مجھے نہ اپنوں کی خفگی کا خوف ہے نہ بیگانوں کی ناخوشی کی پروا۔ اصل بات یہ نہیں کہ ہمارے وزیراعظم اور صدر اوباما کے درمیان ملاقات میں ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کی بات ہوئی تو کیا ہوئی؟ بنیادی سوال یہ ہے کہ وہ ہوئی کیوں؟کیا یہ ہماری عزت نفس اور خودمختاری کی توہین نہیں؟ ایک بار نہیں‘ ان گنت بار ایسا ہوا کہ امریکی حکومت نے ہماری حکومت کے سربراہوں سے توہین آمیز سلوک کیا۔
میرے قارئین معیاری امریکی اخبارات وال سٹریٹ جرنل‘ نیویارک ٹائمزاور انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹریبون وغیرہ اب بآسانی Internet پر پڑھ سکتے ہیں ۔ کیا یہ ناقابل تردید سچائی نہیں کہ صدر اوباما نے ہمارے وزیراعظم کے سامنے بہتر تعلقات کے قیام کے لئے جو کڑی شرائط رکھیں‘ اُن میں ایک بڑی شرط یہ تھی کہ پاکستان میدان جنگ میں توپ خانہ کے ذریعہ چلائے جانے والے چھوٹے ہتھیار نہ بنائے‘جنہیں فوجی سائنس کی زبان میں Tactical کہا جاتا ہے‘ اس لیے کہ ایسے ہتھیار بھارت کے لئے باعث پریشانی ہیں۔ پریشانی بھی اتنی بڑی کہ وہ اُسے پاکستان پر حملہ آور ہونے کی اجازت نہیں دیتی۔ آئیں بائیں شائیں کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ کیا یہ ہمارے میڈیا کا فرض نہیں کہ وہ قوم کو سچ بتائے؟ کیا یہ ہماری سول سوسائٹی کا فرض نہیں کہ وہ امریکہ کے انتہائی غیر دوستانہ رویہ کی بھرپور مذمت کرے؟ کیا ہمارے مذہبی راہنمائوں کی سب سے بڑے مصروفیت کفر کے فتوے جاری کرنے تک محدود رہے گی؟ اُن کی خدمت میں میر تقی میر کی زبان یہی عرض کیا جا سکتا ہے ع
مژگاں تو کھول، شہر کو سیلاب لے گیا
ایک کالم پہلے فوجی افسر رہے‘ اور پھر سفارت کار بنے اور آخر میں قومی اسمبلی کے رُکن۔ یہ تینوں اعزازات اُنہیں اپنی واجبی تعلیم کی وجہ سے نہیں بلکہ خاندانی تعلقات کی برکتوں سے ملے۔ وہ اکثر معقول باتیں لکھتے ہیں ‘ توازن اور مدلل تجزیہ کے ساتھ‘ لیکن وُہ موجودہ داغ داغ اور لُولی لنگڑی جمہوریت سے زیادہ مایوس ہو جائیں تو بین السطور فوجی انقلاب کے استقبال کے لئے اپنے دلائل کی رنگا رنگ جھنڈیاں لگاتے ہیں۔ موصوف نے اپنے ایک حالیہ کالم میں میدان جنگ میں توپوں کے ذریعہ استعمال ہونے والے چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کی پرُ زور مخالفت اور امریکی موقف کی حمایت کی ہے۔ بقول غالب ع
ہوئے تم دوست جس کے‘ دُشمن اُس کا آسماں کیوں ہو
اب آخر میں ایک اُردو اخبار کے ایک بڑے کالم نگار کی نگارشات کو ایک نظر دیکھتے ہیں۔ میں اُن کی تحریر پڑھتا ہوں تو میرا ذہن روشن اور دل باغ باغ ہو جاتا ہے‘ وہ بھی بڑے عوام دوست اور روشن دماغ ہیں مگر علم سیاسیات سے ناواقفیت کی وجہ سے ایک غلطی بار بار کرتے ہیں (جو اکتوبر کے آخر میں پھر کی گئی)وُہ بدقسمتی سے جمہوریت کو پارلیمانی نظام کا لازم و ملزوم سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر عطا الرحمن صاحب نے اُنہیں قائداعظم کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر دکھائی تو فرمایا کہ صرف ایک صفحہ پر مشتمل تحریر کو زیادہ وزن نہیں دیا جا سکتا۔ یہ صاحب صدارتی نظام کو آمریت کی دُوسری شکل اور وفاقیت کی نفی سمجھتے ہیں۔ موصوف کالم نگار شاید یہ نہیں جانتے کہ امریکہ وفاقیت کی بہترین زندہ مثال ہے۔ اگر اتنا پڑھا لکھا شخص بھی یہ کہے تو پھر ہم نیم خواندہ لوگوں کا خدا حافظ۔ ایک نوجوان کالم نگار( خواہ وہ اس دور کا ابوالکلام آزاد ہو) کو عقلِ کل ہونے کا دعویٰ زیب نہیں دیتا۔ اُمید ہے کہ وہ یہ کڑی تنقید پڑھ کر بھی مجھے حسب سابق اپنے گھر کھانے پر بُلانے کی دعوت دینے کی روایت پر قائم رہیں گے۔
آج کا کالم شروع ہوا تھا روس کے برف زاروں میں رہنے والی اور ہمارے ریگستانوں میں پناہ لینے والی مُرغابی سے اور ختم ہوا علم و ادب کی اُفق پر پرواز کرنے والے دودانشوروں پر۔ ہر دو یکساںہمدردی کے مستحق ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں