رفو کا زیادہ کام

اُردو شاعری کے اساتذہ کی فہرست بنائی جائے تو اس میں میر تقی میر، سودا، غالب، آتش اور انیس کے ساتھ مصحفی کا نام آتا ہے۔ مجھے اُن کا ایک ہی شعر یاد ہے جو آج کے کالم کے حوالہ سے موزوں ہے ؎ 
مصحفیؔ ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
اکتوبر کے آخر میں سو گھنٹوں کے لیے پاکستان گیا تو میری بیوی اور تین بیٹیاں بھی ساتھ تھیں۔ چاروں بیبیاں بڑے ذوق و شوق سے لاہور کے قلعہ کی سیر کو گئیں تو یقیناً کچھ ذہنی صدموں کے لیے تو ضرور تیار ہوںگی مگر اُنہیں ہرگز اندازہ نہ تھا کہ وہاں جو تکلیف دہ اور دل دُکھانے والے مناظر دیکھنے پڑیںگے وہ اُن کے بدترین خدشات کو سچ ثابت کر دیںگے۔ دیواروں کے نقش و نگار کے اُوپر وحشیانہ انداز میں کھینچی ہوئی لکیروں کا جال بچھا تھا۔ اس چنگیزی عمل کو انگریزی میں Graffiti کہتے ہیں۔ اُردو میں اس کا متبادل لفظ اس لیے موجود نہیں کہ آج تک اُردو بولنے والے اس قسم کی مجرمانہ اور قابل نفرت حرکت کے مرتکب نہیں ہوئے۔ الفاظ، ضرورت اور استعمال سے جنم لیتے ہیں۔ جو قوم لسی نہیں پیتی اُس کی زبان میں لسی کا لفظ نہیں ہوگا۔ گرافیٹی کے لفظ نے اُس معاشرہ میں جنم لیا جہاں اس کے استعمال کی ضرورت پیش آئی۔ جب اہل مشرق عمارتوں کا نقش و نگار بگاڑنے کے گھٹیا اور ذلیل فن سے نا واقف ہیں تو وہ اس فعل بد کے لیے لفظ کیوں بنائیں؟ گرافیٹی اہل مغرب کو مبارک ہو جو آج کل مشرق وسطیٰ کا حلیہ بگاڑنے میں مصروف ہیں۔ ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے کہ گرافیٹی کا لفظ مغرب میں مروج ہے مگر اس کا بھرپور مظاہرہ لاہورکے تاریخی قلعہ کے در و دیوار پر کیا گیا ہے۔ ایک زمانے میں ابرارالحق نے لہک لہک کر نہ صرف ایک عامیانہ بلکہ مخرب الاخلاق اور نقص امن پیدا کرنے والا گیت گایا تھا جس کا اُردو ترجمہ ہے: ''بلو کے گھر کس کس نے جانا ہے؟ جو جانا چاہتے ہیں وہ ٹکٹ خریدیں اور قطار میں کھڑے ہو جائیں‘‘۔ آپ شاہی قلعہ کی چاہے کتنی چھوٹی سیر کریں، آپ کو اس فرضی 'بلو‘ کا نام کئی جگہ کندہ کیا ہوا نظر آئے گا۔ 'بلو‘ کا اختر شیرانی کی رومانی شاعری میں اُن کی فرضی محبوبہ سلمٰی کے ساتھ بڑا سخت مقابلہ ہے۔ لگتا ہے اُس پر عاشق ہونے والے نوجوانوں کی تعداد سب سے زیاہ ہے۔ وثوق سے نہیں کہا جا سکتاکہ 'نادیہ‘ نامی لڑکی کو کبھی شاہی قلعہ جانے کا اتفاق ہوا ہوگا، اگر جاتی تو وہ اتنے زیادہ عشاق (اور وہ بھی اپنے محبت بھرے پیغامات تیز دھار چاقو سے دیواروں پر کندہ کرنے والوں) کی تعداد دیکھ کر خوشی اور غرور سے پھولی نہ سماتی۔ 
یہ سطور پڑھ کر آپ ضرور سوچتے ہوںگے کہ شاید شاہی قلعہ کا کوئی نگہبان ہے نہ محافظ۔ آپ کا اندازہ بالکل غلط ہے۔ وہاں درجنوں چوکیدار (یا سکیورٹی افسر) متعین ہیں۔ ان کی آنکھوں کے سامنے نقش و نگار کے اُوپر طرح طرح کی واہیات باتیں، خاکے، عشقیہ اشعار وغیرہ کندہ کیے جاتے ہیں مگر وہ بے بس ہیں، مجرم بچوں اور نوجوانوں کو گرفتار کرنا تو در کنار،ان کا ہاتھ بھی نہیں روک سکتے۔ صد افسوس کہ عوام کی اکثریت شاہی قلعہ کی عالمی سطح کی اہمیت سے ہر گز واقف نہیں بلکہ وہ اُسے ایک تفریح گاہ سمجھتی ہے، محض پکنک منانے کی جگہ۔ یورپ میں لاہور قلعہ کے معیار اور اہمیت کے تاریخی مقامات میں اُن کی حفاظت پر مامور لوگوں کی تعداد شاہی قلعے کے محافظوں سے دس گنا زیادہ ہوتی ہے اور اختیارات سوگنا زیادہ۔ 
شاہی قلعہ کے بے بس و لاچار محافظوں کی مجال نہیں کہ وہ سرکاری افسر وں اور سیاست دانوں کے بچوں کو مجرمانہ سرگرمیوں سے روک سکیں۔ وہ صرف سیٹی بجا کر اُن کی شوقیہ کارروائی کے رنگ میں بھنگ ڈال سکتے ہیں۔ اُردو محاورے کے مطابق نقار خانہ میں طوطی کی آواز نہیں سنی جاسکتی۔ یہی حال لاہور قلعہ میں سیٹی بجانے والے محافظوں کا ہے۔کوئی دھیان نہیں دیتا۔ کیا ہمارے محکمہ آثار قدیمہ کا یہ فرض نہیں ہے کہ وہ اپنے محافظوں کو تادیبی اختیارات کے تیز دانتوں کی سپلائی بافراط کرے تاکہ وہ ہمارے اس انمول تاریخی سرمایے (جو اقوام متحدہ کی تہذیبی سرمایے کی فہرست میں شامل ہے) کی اتنی اچھی حفاظت کر سکیں کہ اُس پر کوئی آنچ نہ آئے۔ ابھی خدا کا شکر ہے کہ شیش محل میں داخلے کے لیے 500 روپے کا ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے، اس لیے وہ آوارہ مزاج لوگوں کی دست برُد سے محفوظ ہے۔ جو صاحب بھی محکمہ آثار قدیمہ کے سربراہ اورشاہی قلعہ اور ہماری تمام تاریخی عمارات کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں‘ ادھر بھی توجہ فرمائیں۔ ان کی ذمہ داری لاہور پر ایک بہت اچھی کتاب (جو میرے بچوں نے ساڑھے سات ہزار روپے میں خریدی) لکھوانے پر ختم نہیں ہو جاتی۔ میرا غصہ ٹھنڈا ہو جائے تو میں اُن صاحب کو تلاش کر کے انہیں فون کروں گا تاکہ اُنہیں اپنی فریاد سنائوںاور احتجاج کروں کہ اُن کے ہوتے ہوئے ہمارے آثار قدیمہ کی یہ بے حرُمتی اور پامالی کیوں ہو رہی ہے۔ میں شاعر ہوتا تو ایک ہجو لکھتا۔ اب آپ بتائیں کہ میں کیا کروں؟ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیںکیا!
میرے بچوں نے مجھے مندرجہ بالا دُکھ بھری داستان رُندھی ہوئی اور غمناک آواز میں سنائی جو میں نے اپنے قارئین کے سامنے من و عن بیان کر دی ہے۔ میرے قارئین احتجاج میں میرا ساتھ دیں گے تو ہم تاریخی سرمایے کو مزید غارت گری سے بچا سکتے ہیں۔ جس قسم کی غارت گری کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے اُس کے لیے انگریزی زبان میں Vandalism کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ چوتھی اور پانچویں صدی میں جرمن نسل (اچھی بات ہے کہ میری پسندیدہ اور سگھڑ جرمن بہو یہ سطور نہ پڑھ سکے گی) کے ایک وحشی قبیلہ نے سپین، اٹلی اور شمالی افریقہ کو تاخت و تاراج کیا تھا اوراس وجہ سے ابدی رسوائی کی کالک اپنے منحوس چہروں پر ملی تھی کہ اس قبیلے کے افراد نہ صرف دوسرے قبائل کے لوگوں کو بے تحاشا قتل کرنے کو اپنا مشغلہ سمجھتے تھے بلکہ وہ کتابوں، فن پاروں اور فنون لطیفہ سے کسی بھی قسم کا تعلق رکھنے والی ہر چیزکو بڑے اہتمام اور توجہ سے تباہ و برباد کرتے تھے۔ لاہور قلعہ کو اس دور کے Vandals سے بچائیے۔ 
وطن عزیز میں میرے 100 گھنٹے کس طرح گزرے؟ کراچی میں جناب آفتاب نبی صاحب ایک بار پھر میرے میزبان بنے۔ یہ اُن کی کرم فرمائی ہے۔ اُن کی دعوت پر چالیس سے زیادہ دانشور مجھے ملنے اور میری غیر رسمی تقریر سننے آئے۔ اُمید رکھتا ہوں کہ اُنہوں نے میری گزارشات پر غور فرمایا ہوگا۔ اُن میں سے اکثر دو ماہ پہلے کراچی Boat Club میں اس تقریرکا پہلا حصہ سن چکے تھے۔ پھر بھی غالباً میزبان (جو سابق انسپکٹر جنرل پولیس ہیں) کے ڈر سے مجھے دوبارہ ملنے کا خطرہ مول لے لیا۔ 
لاہور میں کتابیں خریدنے اور دھوپ سینکنے سے جو وقت بچا، وہ دو اجلاس لے گئے۔ ایک جناب زاہد بخاری کی نظامت میں قومی مجلس مشاورت کا ایوان اقبال میں اجلاس تھا جہاں میں نے اپنا یہ موقف پیش کیا کہ قومی مسائل صرف قومی اتفاق رائے سے حل ہو سکتے ہیں اور یہ کام تمام سیاسی جماعتوں کے عوام دوست رہنمائوںاور سول سوسائٹی کو مل کر کرنا ہوگا۔ دُوسرا اجلاس فاطمہ قمر اور اُن کے بہادر ساتھیوں نے اْردو کو سرکاری زبان منوانے کے لیے اُسی جگہ منعقد کیا۔ افسوس کہ میں دیر سے پہنچا مگر اس کا فائدہ یہ ہوا کہ سامعین میری تقریر سننے اور میں جناب پرویز رشید کی تقریرکا زیادہ حصہ سننے سے بچ گیا۔ ڈاکٹر مجاہد منصوری کی بے حد اچھی اور جامع تقریرکے بعد کسی اور تقریرکی ضرورت تھی نہ گنجائش۔ حیرت ہے کہ وزیراطلاعات یہ نہیں جانتے تھے کہ بھارتی وزیراعظم کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ہندی تقریر کرنے سے کسی نے نہ روکا اور نہ اُنہیں کسی سے اجازت لینے کی ضرورت پیش آئی۔ غالباً وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ کسی بھی مغربی ملک میں اُن کا کوئی ہم منصب نہیں ہوتا۔ شاہ کی مصاحبی پر اترانا اُنہیں زیب نہیں دیتا۔ پھر بھی وہ خوش نصیب ہیں کہ (غالب کے برعکس) شہر میں اُن کی آبرو کا بھرم قائم ہے۔ خداوند تعالیٰ سب کی عزت محفوظ رکھیں (خصوصاً جب اُس کا ایک حقیر بندہ وزیر بن جائے۔)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں