برطانوی راج کی برکتیں (قسط اوّل)

جو لوگ میرے ہم عصر ہیں اور اُنہوں نے آزادی سے پہلے سکولوں میں تعلیم حاصل کی (افسوس کہ اب اُن کی تعداد زیادہ نہیں رہی جس سے مجھے تنہائی کا احساس ہوتا ہے) وہ اگر اپنے حافظہ پر زور ڈالیں تو اُنہیں ضرور یاد آئے گا کہ اُس وقت نصاب میں ایک مضمون کا مطالعہ لازمی ہوتا تھا اور مضمون کا عنوان ہوتا تھا ''راج کی برکتیں‘‘۔ مضمون لکھنے والے ہمیشہ انگریز کے خطاب یافتہ (شمس العلماء‘ خان بہادر (اور ہندو ہو تو رائے بہادر) ) افراد ہوتے تھے۔ برکتوں کی فہرست کافی لمبی ہوتی تھی۔ مثلاً امن و امان کا قیام‘ اچھی حکمرانی‘ نظامِ انصاف‘ اور جنوبی پنجاب اور بعض دوسرے صوبوں کو نہروں کی کھدائی سے قابل کاشت بنا دینا‘ ریلوے کا جال بچھا دینا‘ تعلیم اور علاج کی معیاری سہولیات کی فراہمی‘ نہ اقربا پروری نہ رشوت ستانی‘ یعنی انگریز اپنی ساری رعایا کو ایک آنکھ سے دیکھتا تھا۔ مُغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد تقریباً ایک صدی تک ہندوستان بدترین افراتفری‘ لاقانونیت اور طوائف الملوکی (صرف محاورتاً نہیں بلکہ لفظاً) کا شکار رہا۔ اس ملبہ پر برطانوی راج کی جو نئی عمارت تعمیر کی گئی وہ ایک چھوٹی نہیں بلکہ سب سے بڑی نعمت بن کر اُبھری۔ درہ خیبر سے لے کر مالا بار کے ساحل تک‘ راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ 
انگریز حکمرانوںکو تو ایک طرف رہنے دیں کہ وہ اپنی زندگی میں ہندوستان کو آزاد کرنے کا تصور بھی نہ کر سکتے تھے۔ آزادی ٔ ہند سے صرف بارہ سال قبل (دُوسری جنگ کے شروع ہونے سے پہلے) ہندوستان کے صرف دو سیاسی رہنما اتنا انقلابی ذہن رکھتے تھے کہ صرف انہوں نے برطانوی راج سے مکمل آزادی کا نعرہ بلند کیا‘ ان راہنمائوں کے نام تھے‘ سبھاش چندر بوس (لوگ انہیں پیارسے نیتا جی کہتے تھے) اور ہمارے اپنے مولانا حسرت موہانی (ایک درویش صفت‘ بااُصول اور بہادر سیاستدان)۔
چند صدیاں قبل انگریز تاجروں نے مغربی افریقہ سے لاکھوں افراد کو غلام بنا کر جزائر غرب الہند لے جا کر وہاں گنے کی کاشت اور چینی بنانے کا وسیع کاروبار شروع کیا۔ ان تجارتی کمپنیوں میں سب سے بڑا نام Tate and Lyle کا ہے۔ ان کی اجارہ داری کا یہ حال ہے کہ صدیاں گزر جانے کے بعد آج بھی برطانیہ کی ہر دُکان پر سب سے زیادہ اسی کمپنی کی چینی فروخت ہوتی ہے۔ ایک سو سال قبل اس کمپنی کے باذوق ڈائریکٹروں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بے حد و حساب منافع کا ایک حصہ لندن میں ایک بڑی آرٹ گیلری بنانے پر صرف کر دیں گے۔ یہ ہے دریائے ٹیمز کے کنارے ایک خوبصورت عمارت کے باہر Tate Gallery کا بورڈ لگنے کا پس منظر۔ ان دنوں وہاں جن تصاویر کی نمائش ہو رہی ہے اُن کا موضوع دو صدیوں پر پھیلا ہوا برطانوی راج ہے۔ خوش قسمتی سے جب میں نمائش دیکھنے گیا‘ تو وہاں آخری مغل بادشاہ (بہادر شاہ ظفر) اور انگریزوں کی پہلی افغان جنگ پر بڑی دلچسپ اور عمدہ کتاب (Return of a king) کے شہرہ آفاق مصنف William Dalrymple سے ملاقات ہو گئی۔ وہ امریکہ کی Princeton University میں جزوقتی پڑھاتے ہیں مگر زیادہ وقت دہلی کے مضافات میں ایک فارم ہائوس میں (اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ) گزارتے ہیں۔ اس کالم نگار کا لاہور سے تعلق 60 سال پرانا ہے‘ مگر لگتا ہے کہ فاضل مصنف لاہور کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ اور اس کا ذکر (ہر لاہور ی کے مقابلے میں) زیادہ محبت‘ گرم جوشی اور احترام سے کرتے ہیں۔
مجھے یہ مان لینے میں کوئی تامل نہیں کہ اگر مذکورہ بالا عالم فاضل شخص کی اتفاقیہ رفاقت نصیب نہ ہوتی تو میں نمائش کا بڑا سطحی مشاہدہ کرتا۔ وہ قدم قدم پر میرے (بے حد مختصر اور معمولی) علم میں گراں قدر اضافہ کرتے رہے۔ نمائش اس قدر اہم نہیں تھی جتنا کہ مجھے نمائش دکھانے والا۔ میں جانتا ہوں کہ یورپ کے پاس جدید ترین اسلحہ اور اربوں کھربوں ڈالروں کے انبار ہیں مگر میں اپنے پیارے قارئین کو یہ یاد کرانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا کہ یورپ کی بالادستی میں مندرجہ ذیل عناصر نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ (1) علم اور عقل کی فراوانی۔ (2) تمام علوم پر مکمل دسترس۔ (3) ایک ایسا سماجی نظام اور ایسی کلچر جس کی بنیاد انفرادی آزادی‘ قانون کی حکمرانی‘ عدل و انصاف اور مساوات پر رکھی گئی ہو (4) روشن دماغی‘ انسان دوستی اور ہر قسم کے تعصبات کے خلاف نہ ختم ہونے والی جنگ۔ 
اب آئیےTate گیلری کی نمائش کو بھی ایک نظر دیکھ لیں۔ جو تین تصاویر آپ کے قدم پکڑ لیتی ہیں اُن کا تعلق انگریزوں کی افغانستان میں لڑی جانے والی جنگوں (اور اُن میں عبرت ناک شکستوں) سے ہے۔ پہلی تصویر کا عنوان ہے۔ The Remnants of An Army مصورہ کا نام ہے Elizabeth Butler ‘ کمال کی تصویر ہے‘ چار سو سال پرانی‘ دوڑنا تو کجا‘ چلنے سے قاصر گھوڑا اور اس پر ایک نڈھال سوار۔ 1842ء میں برطانوی فوج کابل سے پسپا ہوئی تو صرف ایک سپاہی زندہ بچا جسے افغان حریت پسندوں نے اس لیے زندہ واپس جانے دیا کہ وہ جا کر بتا سکے کہ باقی فوج کا کیا حشر ہوا۔ یہ تصویر اس پسپائی کی منظر کشی کرتی ہے۔
دوسری تصویر کا عنوان ہے: The Last Stand of 44th Foot Guards at Gundermuck عنوان سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ تصویر کس منظر کی ہو گی۔ گنتی کے برطانوی فوج کے سپاہی جو اپنی مزاحمت کے اس مرحلہ پر ہیں جہاں وہ جلد افغانیوں کے آگے ہتھیار ڈال دیں گے یا اپنے ساتھیوں کی طرح موت کے گھاٹ اُتر جائیں گے۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ غیر ملکی حملہ آور کسی ہمدردی کے مستحق نہیں ہوتے۔ مگر اس تصویر نے میرے بوڑھے دل میں تصویر
میں نظر آنے والے بدنصیب گورا افواج کے سپاہیوں کے لیے رحم کا جذبہ بیدار کر دیا۔ آپ ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں کہ ہندوستان پر دو سو سالوں پر محیط برطانوی راج کے موضوع پر بنی ہوئی تصاویر (Paintings) کی بڑی تعداد لندن کی بجائے کلکتہ کے وکٹوریہ میموریل عجائب گھر میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ بیسوی صدی کے شروع میں بڑے پیمانہ پر تصویر کشی کا سہرا لارڈ کرزن (برطانوی راج کے نمائندہ اور وائسرائے) کے سر باندھا جا سکتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ یہ تحریر پڑھ کر کلکتہ کا رخت سفر باندھ لیں۔ غالبؔ کے سامنے کسی نے کلکتہ کا نام لیا تو اُنہیں یوں لگا کہ کسی نے اُن کے سینے پر ایک تیر چلایا ہو۔ آپ مذکورہ عجائب گھر کی حالت زار دیکھیں گے تو آپ کا بھی وہ حال ہو گا جو غالب کا ہوا تھا۔ وجوہ البتہ مختلف ہوں گی۔ غالب اپنی پنشن لگوانے کلکتہ (جو اس وقت برطانوی راج کا دارالحکومت تھا) گئے تو اس کے حسن پر دل و جان سے فدا ہو گئے۔ آپ عجائب گھر میں شہرۂ آفاق اور بے مثال تصاویر دیکھنے جائیں گے تو آپ کو یہ صدمہ اُٹھانا پڑے گا کہ مغربی بنگال کی ممتا بینرجی جیسی عمدہ خاتون کے وزیر اعلیٰ ہونے کے باوجود تصویروں پر سفید خونخوار چیونیٹوں کی ایک فوج کی یلغار ہو رہی ہے۔ چمگادڑوں اور جنگلی کبوتروں نے وہاں مستقل ڈیرے ڈال لیے ہیں‘ جو کسی توقف یا تکلیف کے بغیر تصاویر پر اپنے فضلہ کی بارش کرتے رہتے ہیں۔ آخری خبریں آنے تک راج کے آخری گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن کی تصویر پر بیٹ کے نشانوں کی کل تعداد 93 تک جا پہنچی ہے۔ (مائونٹ بیٹن کے جرائم کو دیکھا جائے تو یہ تعداد بہت کم لگتی ہے) ثابت ہوا کہ کبوتر چاہے جنگلی ہوں‘ مردم شناسی کی خوبی بدرجہ اُتم رکھتے ہیں۔ کاش قائد اعظم مائونٹ بیٹن کی دیانت داری پر اعتبار کرنے کی بجائے کلکتہ کے جنگلی کبوتروں کی طرف رُجوع فرماتے تو وہ انہیں مولوی فضل الحق (جو بنگال کے شیر کہلاتے تھے) خواجہ ناظم الدین (ڈھاکہ کے نواب خاندان کے چشم و چراغ) اور حسین شہید سہروردی (جو1947 میں متحدہ بنگال کو آزاد ملک بنوانا چاہتے تھے) سے بہتر مشورہ دیتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں