برطانوی راج کی برکتیں… (قسط دوم)

آج کا کالم گزشتہ سے پیوستہ ہے۔ دُوسری قسط ہونے کی وجہ سے یہ کالم اس دُعا سے شروع کیا جاتا ہے کہ خداوند تعالیٰ اس کالم نگار کے محبوب مورخ William Dalrymple کو لمبی اور بہترین صحت دے‘ تاکہ وہ اپنی حق گوئی اور بے باکی کی قابل صد فخر روایت کو برقرار رکھ سکے۔ انہوں نے برطانوی راج کے تمام شرمناک گوشوں کو بے نقاب کیا‘ وہ رہتے بھارت میں ہیں مگر گُن پاکستان کے گاتے ہیں۔
یقینا آپ کے لئے یہ اطلاع ناقابل یقین ہو گی۔ اُنہوں نے مجھے اعزاز بخشا کہ میرے ساتھ کافی پی اور مجھے بتایا کہ انگریزوں نے ہر براعظم میں جس بڑے پیمانے پر قتل عام کئے‘ وحشت و بربریت کے لحاظ سے ان کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ آسٹریلیا میں آبادکار گوروں کو حکومت لائسنس جاری کرتی تھی کہ وہ مقامی آبادی کے افراد کا جنگلی جانوروں کی طرح شکار کر سکتے ہیں۔ مقامی بدنصیب افراد کو پھندے اور مچان لگا کر پکڑا جاتا اور اُنہیں تشدد کرنے کے بعد زندہ جلا دیا جاتا۔ یہی بے حد شرمناک حکمت عملی اپنائی گئی‘ جزائر غرب الہند (Caribbean) کے Carib قبیلہ کے لئے‘ Canary جزائر کی مقامی آبادی (Guanichl) کے لئے اور امریکہ کے مقامی ریڈ انڈین لوگوں کے لئے جن کی 90 فیصد آبادی ایک صدی کے اندر ہلاک کر دی گئی۔ برطانوی تاجروں نے (سرکاری سرپرستی کی چھتری سے) ڈیڑھ کروڑ سیاہ فاموں کو مغربی افریقہ سے زبردستی اغوا کیا اور پھر غلام بنایا۔ اتنی بڑی تعداد کے قتل عام سے گوروں کے سفید ہاتھوں کا رنگ سُرخ ہو گیا۔ فاضل مورخ نے جو دل ہلا دینے والی داستان افریقہ سے شروع کی‘ وہ دہلی میں 1857ء میں پہلی جنگ آزادی کی ناکامی پر برطانوی افسروں کی جوابی کارروائی پر ختم کی۔ لاکھوں بے گناہ افراد اسی طرح قتل کئے گئے کہ جنگی جرائم کا کوئی قانون اُنہیں احاطۂ تحریر میں نہیں لا سکتا۔ دہلی کی طرح لکھنؤ‘ کانپور اور دُوسرے درجنوں شہر قبرستان بنا دیے گئے۔ یہ کوئی پرانی بات نہیں‘ صرف ڈیڑھ سو برس پرانا قصہ ہے۔ اس سے پہلے دہلی پر نادر شاہی قیامت ٹوٹ چکی تھی۔ لاہور نے بھی اپنی طویل تاریخ میں کئی بڑے دُکھ دیکھے‘ کیونکہ وسط ایشیا سے ہندوستان پر نازل ہونے والا ہر حملہ آور لاہور کو آگ اور خون کے دریا میں نہلائے بغیر دہلی نہیں جاتا تھا۔
میں Tate کی تصویری نمائش میں جن تصویروں کو خاص طور پر دیکھنے گیا‘ اُن میں ایک Francis Hayman کی بنائی ہوئی تصویر اُس تاریخی ملاقات کی منظر کشی کرتی ہے جس کا عنوان ہے: ''پلاسی کی جنگ کے بعد لارڈ کلائیو کی میر جعفر سے ملاقات‘‘ اس کے ساتھ جو بڑی تصویر آویزاں ہے‘ وہ جنرل وولف کی زندگی کے آخری لمحات کا منظر اس طرح دکھاتی ہے کہ لگتا ہے کہ ہم جنرل وولف کو حالت نزع میں دیکھ رہے ہیں اور اُن کے بستر مرگ کے بالکل قریب بیٹھے ہیں۔ 
برطانوی راج نے فنکاروں کو اچھی تصویریں بنانے کا موضوع تو فراہم کر دیا مگر ماسوائے Kipling کے ناول KIM کے‘ E.M. Forster کے ناول A Passage to India اور V.S. Naipaul (جنہوں نے لاہور چھائونی میں رہنے والی میری ایک واقف خاتون سے اُن ڈرامائی حالات میں شادی کی جو صرف بھارتی فلموں میں نظر آتے ہیں) کے کوئی بڑا ناول نگار راج کے موضوع پر اُتنے شاہکار ناول یا کہانی نہ لکھ سکا‘ جس طرح وسط ایشیا پر رُوس کے تسلط نے ٹالسٹائی سے Cossacksجیسے ناول اور Haji Murat (حاجی مراد) نامی کہانی لکھوائی۔
1599ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے قیام سے لے کر 1947ء تک کل ساڑھے تین سو سال بنتے ہیں۔ اس دور میں ادب اور فن کی بہت کم تخلیقات نے جنم لیا۔ ایک کتاب جو خصوصی تذکرہ اور تعریف کی مستحق ہے وہ John Kaye اورGeorge نے مل کر لکھی۔ وہ 1857-58ء میں برٹش راج کے خلاف بغاوت کے موضوع پر چھ جلدوں میں لکھی گئی۔ پاکستان میں یہ کتاب زیادہ معروف نہیں اور آج تک میں نے کسی پاکستانی مورخ سے اس کا حوالہ نہ سنا ہے اور نہ پڑھا ہے۔ تصاویر کی نمائش کا ذکر ایک نہایت جاذب نظر تصویر کے تذکرہ کے بغیر نامکمل رہے گا۔ اس تصویر میں برطانوی راج کا ایک چوٹی کا افسر 1790ء میں مرہٹوں کے قائد (پیشوا) کے ساتھ ایک معاہدہ پر دستخط کرتے دکھایا گیا ہے اور تصویر اس قدر حقیقت کے قریب لگتی ہے کہ جیسے ہم بھی وہاں موجود ہیں اور سارے واقعہ کے چشم دید گواہ ہیں۔ Sir Elijah Impey برطانیہ کے کسی مضافاتی علاقہ میں گمنام جج تھا۔ اُس کی قسمت نے اچانک پلٹا کھایا اور اُسے ہندوستان میں برطانوی راج کا چوٹی کا افسر بنا دیا گیا‘ جہاں اُس نے فنون لطیفہ کی سرپرستی کرنے کے لئے لازوال شہرت پائی۔ کلکتہ میں اُس کا گھر ادب اور سماجی علوم پر تبادلہ خیال کا مرکز بن گیا۔ اُس نے قانون‘ تاریخ‘ سنسکرت اور فارسی کی نایاب کتابوں کو دوبارہ شائع کروایا۔ اُس نے اپنے گھر میں مقامی پرندوں اور جانوروں کی اتنی بڑی تعداد اکٹھی کر لی کہ وہ ایک اچھا خاصا چڑیا گھر بن گیا۔ 1770ء میں اُسے یہ عجب خیال آیا کہ اُس کے چڑیا گھر میں رکھے گئے سب پرندوں اور جانوروں کی تصاویر بنا کر محفوظ کر لی جائیں۔ اُس نے تین آرٹسٹوں کو یہ ذمہ داری سونپی۔ تینوں کا تعلق بہار کے دارالحکومت پٹنہ سے تھا۔ سب سے بڑے آرٹسٹ کا نام شیخ زید دین تھا۔ دُوسرے دونوں فنکار ہوائی داس اور رام داس تھے۔ یہ تینوں مغل دور کی چھوٹی (Miniature) تصویر بنانے کے فن کے ماہر تھے۔ ان تینوں کی بنائی ہوئی تصاویر دیکھ کر منصور کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جو شہنشاہ جہانگیر کا درباری آرٹسٹ تھا اور جانوروں کی تصویریں بنانے میں ید طولیٰ رکھتا تھا۔ 
آج برطانوی حکومت منشیات کی تجارت اور فروخت کو روکنے کے لیے دُنیا بھر میں ہزار جتن کرتی پھرتی ہے‘ مگر اُنیسویں صدی میں ہندوستان میں برٹش راج کے دوران افیون کی کاشت بڑے پیمانے پر کی گئی اور وہ چین کو برآمد کی جاتی تھی۔ جب اہل چین نے افیون خریدنی بند کی اور افیون لانے والے جہازوں کی آمد کو روکنے کے لئے اپنی مزاحمتی کارروائی شروع کی تو برطانوی فوج نے چین پر چڑھائی کر دی اور ایک عرصہ تک افیون اہل چین کو زبردستی فروخت کی اور کھلائی۔
امریکہ خوش نصیب ہے کہ اُس کے پاس نوم چومسکی ہے۔ برطانیہ خوش نصیب ہے کہ اُس کے پاس ابDalrymple ہیں اور اُس سے پہلےEric Hobsbawm ۔ بھارت خوش قسمت ہے کہ اُس کے پاس ارون دھتی رائے اور Pankaj Misra ہیں۔ پاکستان خوش نصیب ہے کہ پہلے اس کے پاس ڈاکٹر اقبال احمد اور حمزہ علوی تھے اور اب عائشہ جلال ہیں۔ مورخ قوم کے قومی حافظے کے امین ہوتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں