سرحدی دیوار کے اُوپر سے تاک جھانک۔۔۔۔(آخری قسط)

بھارت کی ایک گمنام ریاست کے سابق راجہ نے 30 نومبر کو وفات پائی تو برطانوی اخباروں میں جو تعزیت نامے شائع ہوئے اُن کے عنوان تھے: King of Mud, Kind of Rain (بارش کا بادشاہ، گیلی مٹی کا بادشاہ) اخبار پڑھتے پڑھتے عمر بیت گئی مگر اس قسم کی سُرخی دیکھی نہ سنی۔ اب آپ جی کڑا کر کے وفات پانے والے کا نام بھی پڑھ لیں۔۔۔۔براج راج کشتری بیر بار چامُوپتی سنگھ مہا پترا۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ آپ کی عمر چاہے کتنی لمبی ہو آپ نے اتنا انوکھا اور طویل نام کبھی نہ پڑھا ہوگا۔کیوں نہ ہو، یہ کسی عام آدمی کا نہیں ایک بادشاہ کا نام تھا۔ 94 برس عمر پائی۔ تعزیت نامہ کے ساتھ جو تصویر چھپی اُس میں پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھا جو بوڑھا شخص نظر آتا ہے وہ سفید کُرتے اور نیلی لُنگی میں ملبوس ہے۔ ادھ کھلی آنکھیں اور اپنی سوچ میں گم سم۔ ماتھے پر تلک کا بڑا سُرخ نشان۔ خستہ حال در و دیوار۔ میز پر لوہے کا گلاس۔ عام سا ٹیبل فین اور پیدل چلنے میں مددگار چھڑی۔ تصویر دیکھنے والا یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ ہم جو کھنڈر دیکھ رہے ہیں وہ ایک زمانے میں شاندار عمارت تھی۔ اب نہ ہاتھ میں جنبش ہے اور نہ آنکھوں میں دم ، وہ ساغر و مینا کی فرمائش کرے تو کیونکر؟ پرانے وقتوں کی بات ہے، جب بینائی قابل رِشک تھی، مشرقی بھارت کے صوبہ اڑیسہ کے گھنے مرطوب جنگلوں میں شکار اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ جس چھوٹی سی ریاست (رقبہ صرف45 مربع میل) کا بادشاہ تھا اُس کا نام Tigiraتھا جو Cuttak نامی ضلع میں تھی۔ شکارکا ریکارڈ کیا تھا؟کل 13شیر اور 25 چیتے اُس کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ ان کی کھالوں سے اُس نے اپنی محل کی دیواروں کو آراستہ کیا۔ محل زیادہ بڑا نہ تھا مگر بیش قیمت قالینوں، سنگ مر مر کے ستونوں اور مخمل سے بنائے گئے تخت سے آراستہ تھا۔ ایک ہوا دارکمرہ اُس کا دارالمطالعہ تھا جہاں بیٹھ کر وہ اپنی شکار کے سنسنی خیز قصے لکھتا جو مختلف رسالوں میں شائع ہوتے اور بڑی دلچسپی سے پڑھے جاتے۔ اس نے ایک ایسے ہاتھی کا بھی شکارکیا جو اس کی رعایا کی فصلوں کو نقصان پہنچا رہا تھا۔ یہ بڑا مشکل فیصلہ تھا کیونکہ دُوسرے بادشاہوں کی طرح وہ صرف ہاتھی کو اپنی سواری کے لیے استعمال کرتا تھا۔ وہ اتنا اصول پسند بادشاہ تھا کہ اُس کی ریاست کے اندر بنائی گئی واحد جیل کی کوئی چار دیوار ی نہ تھی۔ سب سے سخت سزا یہ دی جاتی تھی کہ راجہ سزا یافتہ مجرم کے ساتھ ہم کلام ہونے سے انکار کر دیتا۔ 
بادشاہ تخت و تاج سے محروم ہو گیا مگر اس کی دیہاتی رعایا پھر بھی اُس کی خدمت میں حاضری دیتی اور آداب بجا لاتی۔ اس کے سابق محل کو اُس کی مرضی کے عین مطابق لڑکیوں کا سکول بنا دیا گیا۔ زندگی کے آخری برسوں میں وہ ایک پہاڑی کی چوٹی پر مٹی کی بنی ہوئی چھوٹی سے جھونپڑی میں رہا۔ بارش برستی تو چھت ٹپکتی۔ وہ اس اقامت گاہ میں اکیلا رہا جس کا فرنیچر لکڑی کی بنی ہوئی چارپائی اور پلاسٹک کی کرسیوں پر مشتمل تھا۔ میز پر بیٹری سے چلنے والا پنکھا، دیواروں پرکپڑے ٹانگنے کی ایک رسی جو جالوں سے اٹی ہوئی تھی۔ وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا۔۔۔۔ سونے کے تاروں سے کڑھائی شدہ مرصع شیروانیاں، جواہرات سے بنے ہار،کمر بند اور شاہانہ گھڑیاں سب خواب و خیال ہوگئیں۔ آئیے اب اُس کے کھانے کی طرف بھی ایک نظر ڈالیں۔ اُس کی سابق رعایا کے وفادار لوگ اُسے جو روکھی سوکھی خوراک پیش کرتے وہ صبر و شکر سے کھا لیتا۔ صبح کے وقت چائے اور چند بسکٹ، دوپہر کو دال چاول اور رات کو ایک روٹی۔۔۔۔اللہ اللہ خیر سلّا! موتیا اُتر آنے کی وجہ سے اُس کی آنکھوں میں بینائی اتنی کم ہو چکی تھی کہ وہ اپنے سامنے پڑی خوراک کو انگلیوں کے پوروں سے محسوس کرتا۔ 
اُس کی وفات کے ساتھ برطانوی راج کا آخری راجہ بھی دُنیا سے چلا گیا۔ اُڑیسہ میں ریاستوں کی تعداد 26 تھی جنہوں نے پہلے دن سے برطانوی حکمرانوں کے ساتھ تعاون کیا اور اس تعاون کی بدولت اپنے دونوں ہاتھ دولت کی بہتی گنگا میں خوب دھوئے۔ اس کے پاس مہنگی کاروں کی تعداد 26 تھی اور اُن کی دیکھ بھال کرنے والوں کی تعداد 37۔ وہ اپنے ایک پرانے دوست King of Puri کے ساتھ دھان کے کھیتوں کے درمیان اور ساحل سمندر کے کنارے ایک شاندار کار چلاتے کلکتہ جاتا رہتا جہاں وہ گریٹ ایسٹرن ہوٹل میں اپنا دربار لگاتا اور جی بھر کے عیش و عشرت کا بازار گرم کرتا۔ سکاچ وسکی پیتا اور بہترین رقاصائوں کا مجرا دیکھتا۔ ایک روایت کے مطابق بلانوشی اس راجہ کو اتنی مہنگی پڑی کہ اسے محل چھوڑ کر جھونپڑی میں رہنا پڑا۔ صرف یہی نہیں، ایک افتاد اور بھی آپڑی۔ راجہ کی رانی جس کا نام Rasmarijari تھا، عرصہ قبل ہی اس سے علیحدگی اختیار کر چکی تھی۔ یہی حال اُس کے چھ بچوں کا تھا جواپنے باپ سے اتنی دُور چلے گئے کہ رابطہ منقطع ہوگیا۔ 
اس راجہ کی شاہانہ لغزشیں اپنی جگہ مگر سچ یہ ہے کہ آپ کا کالم نگار اس راجہ کی جگہ ہوتا تو یقیناً انہی حرکات کا مرتکب ہوتا مگر برا ہو سیاسی حالات میں نامساعد تبدیلیوں کا جو ہمارے راجہ کے لیے بڑی نا سازگار ثابت ہوئیں۔ سب سے پہلے 1947ء میں ہندوستان کی آزادی، پھر ریاستوں کا خاتمہ اور ہندوستان میں ادغام۔ بھارتی حکومت نے اس راجہ کے لیے گیارہ ہزار دو سو روپے سرکاری وظیفہ مقرر کیا جوایک ماہ کے شاہانہ اخراجات ادا کرنے کے لیے بھی ناکافی تھا۔ 1975ء میں وزیراعظم مسز اندرا گاندھی نے اس حقیر رقم کی ادائیگی بھی بند کردی۔ اب راجہ جائے تو جائے کہاں؟ زمین سخت اور آسمان دُور! اپنی رعایا پر دان کی بارش کرنے والے راجہ کو آخر اسی رعایا کی طرف سے دی گئی رُوکھی سُوکھی خوراک پر گزارنا کرنا پڑا اور وہ بھی 1975ء سے 2015 ء تک ۔۔۔۔پورے 40 سال ۔ تُفو بر تُو اے چرخ گردُوں تُفو! یہ تھا وہ دُشنام آلود مصرع جو فردوسی نے ایران پر عربوں کی فتح پر اپنے شدید غم وغصہ کا اظہار کرتے ہوئے شاہ نامہ میں لکھا۔ 
میرے قارئین سوچتے ہوںگے کہ راجہ کے محل کا کیا بنا؟ اُس کا جواب بھی حاضر ہے۔ وہ تخت و تاج سے محرومی سے پندرہ برس پہلے ہی فروخت کیا جا چکا تھا۔ قیمت صرف 75 ہزار روپے پڑی۔ راجہ نے اپنا محل اس کم قیمت پر ایک تعلیمی ادارے کو دے دیا تاکہ طالبات کا سکول بنایا جا سکے۔ محل چُھوٹا تو راجہ اپنے پرانے اورگہرے دوستKing of Puri کے ساتھ رہنے لگا، پھر اپنے بھائی کے ساتھ جو King of Mandasa تھا مگر راجہ کو اپنی ننھی منی سلطنت Tigira کی یاد ہمیشہ ستاتی رہی جس کا خواب اس کے جد امجد نے 1264ء میں دیکھا تھا۔ تین چار وادیوں پر پھیلی اس ریاست کے باشندے جگن ناتھ دیوی دیوتائوں کے بتوں کو، حفاطت کی خاطر، صدیوں جنگلوں میں چھپاتے رہے۔ 1987ء میں راجہ نے اُسی جنگل میں اپنی کٹیا بنائی۔ لوگوں نے اُسے سیاست میں حصہ لینے اور الیکشن لڑنے کا مشورہ دیا جو اُس نے قبول نہ کیا۔ اُس کا موقف یہ تھا کہ ایک بادشاہ اپنی رعایا سے ماسوائے وفاداری کے کوئی چیز نہیں مانگ سکتا، اس لیے اُس کے لیے ووٹ مانگنا ناقابل قبول ہے اور رہے گا۔
راجہ کو گھر سے باہر جانا پڑتا تو وہ رکشا میں سفر کرتا جسے ایک مزدُورکھینچتا۔ کچے راستوں پر یہ سواری ڈگمگاتی ہوئی افتاں و خیزاں چلتی مگر سوار کبھی شکایت نہ کرتا۔ وہ جہاں سے بھی گزرتا لوگ جھک کر سلام کرتے اور نہایت ادب سے بات کرتے۔ مقامی زبان میں دادا کو آجا کہتے ہیں، اس لیے وہ دبی زبان میں کہتا کہ بھگوان کی شان دیکھیے کہ اس نے مجھے راجہ سے آجا بنا دیا۔ آخری وقت آیا تو سابق رعایا کے ہر گھرانے نے دس دس روپے ادا کر کے اس کی آخری رسومات کے اخراجات ادا کیے۔ اُس کی وصیت کے مطابق جسد خاکی کی راکھ اس جنگل میں بکھیر دی گئی جہاں وہ کبھی شیر کا شکار کرتا تھا۔ مقامی لوگوں کا عقیدہ ہے کہ وہاں آج بھی دیوی دیوتائوں کی مقدس روحیں پوشیدہ ہیں۔ ایک صحافی نے پوچھا کہ آپ نے زندگی کے آخری ماہ و سال میں (یعنی 40 سال) اتنی سختیاں کیسے برداشت کیں؟ جواباً مدھم سی آواز آئی: ''صبر و شکر اور قلبی خوشی کے ساتھ۔ اگر میں اتنا خوش و خرم نہ ہوتا تو نوے سال سے زیادہ عمر کس طرح پاتا‘‘؟ 
بقول شاعر مشرق و مغرب اقبال ؎ 
من کی دولت ہاتھ آجائے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھائوں ہے، آتاہے دھن جاتا ہے دھن
آج کا کالم اس کمال کے شعر پر ختم ہوا تو یاد آیا کہ یہ سال کا آخری کالم ہے۔ میں اپنا کالم چھاپنے اور پڑھنے والوں کے لیے دُعا مانگتا ہوں کہ نیا سال ان کے لیے اور ان کے اہل خانہ کے لیے اور ہمارے پیارے وطن کے لیے مبارک ثابت ہو ؎
ہر پل دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھائیں گے تو
شاید بھولی ہوئی رسم دُعا بھی یاد آجائے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں