تاریخ سے سبق نہ سیکھنے کی سزا

اجازت دیجئے کہ آج کا کالم انگریزی کے مشہور محاورہ (وُہی آج کے کالم کا عنوان ہے) کے ترجمہ سے شروع کیا جائے۔ ''جو لوگ اور جو قومیں تاریخ سے سبق نہیں سیکھتیں اُنہیں تاریخ کو دُہرانے (یعنی پرُانی سزا دوبارہ دیئے جانے) کا عمل بُھگتنا پڑتا ہے۔‘‘ عصر حاضر میں امریکہ نے ویت نام سے‘ رُوس نے افغانستان اور ہم نے مشرقی پاکستان سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
ماسوائے میری ایک مثالی بہو کے جرمن نسل کے جس شخص کا نام زبان پر آئے تو اُس کی ادائیگی کے لئے زبان سو سو بل کھاتی ہے۔ دانتوں کو پیسنا پڑتا ہے اور حلق سے غر اّنے کی آواز نکالنی پڑتی ہے۔ غالب کا معاملہ بالکل اُلٹ تھا یقینا اُن کے محبوب کا جرمنی سے کوئی لسانی یا نسلی تعلق نہ ہوگا ورنہ غالب کبھی یہ نہ لکھتے کہ جونہی میرے محبوب کو بلانے یا اُس کا سارانام لینے کی نوبت آتی ہے تو یوں لگتا ہے کہ ؎
زبان پہ میرے خدایا یہ کس کا نام آیا
میرے نطق نے بوسے مری زبان کے لیے
اب دل کڑا کرکے ایک جرمن نام پڑھئے گا اور پھر بتایئے کہ میں نے اُوپر جو کچھ لکھا وہ سچ ہے یا نہیں؟ نام ہے Jurgen Toden Hofer آپ اگر یہ نام بول کر دکھادیں (اور وہ بھی درست تلفظ کے ساتھ تو آپ سکہ رائج الوقت سے بھری ہوئی موٹی ایک تھیلی (جو میری مالی حالت کی وجہ سے زیادہ بڑی نہ ہو گی) بطور انعام دی جائے گی۔ مذکورہ بالا نام ایک معروف جرمن مصنف کا ہے۔ وہ پارلیمنٹ کے رُکن رہ چکے ہیں اور گزشتہ سال اُنہوں نے IS (یعنی اسلامی ریاست ) کی فوج کے ساتھ دس دن گزارے‘ قیدی بن کر نہیں بلکہ بطور معزز مہمان۔ اُنہوں نے (آج سے ایک ماہ قبل) 27 نومبر کو برطانیہ کے ایک بڑے اخبار (گارڈین) میں مضمون لکھا جس کا عنوان پڑھ کر ہی آپ کو نفس مضمون کا پتہ لگ جائے گا۔
''میں داعش کی سپاہ کو جانتا ہوں۔ مغربی ممالک کی فضائیہ اُن پر خصوصاًرقہ نامی بستی پر جو بمباری کرے گی وہ اُن کے لئے باعث خوشی ہوگی۔ وہ اُس مبارک دن کا خواب دیکھتے ہیں جب امریکی اور یورپی افواج اُن پرزمینی حملہ کریں گی اور وہ اُن سے (محاورتاً اور لفظاً) دو دو ہاتھ کر سکے گی‘‘۔ فاضل مضمون نگارکے اس چشم کشا مضمون کا خلاصہ اور ترجمہ یہ ہے:
''پیرس میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد اہل فرانس کا وُہی احمقانہ ردعمل تھا (کھلی آنکھوں کے ساتھ چلتے چلتے ایک گہرے گڑھے میں جا گرنا) جو 9/11 کے بعد امریکی حکومت کا تھا۔ امریکہ نے ردعمل کے طور پر اُنہی بموں کو موسلادھار گرانے کی روش اختیار کی جن کی وجہ سے شروع میں دہشت گردی نے جنم لیا۔ وجہ یہ ہے کہ بمباری سے بڑی تعداد میں بے گناہ مرتے ہیں جو دہشت گردوں کی صفوں میں مزید رضاکاروں کا اضافہ کرنے کا موجب بنتے ہیں۔ 2001ء میں ہندو کش کے پہاڑوں میں چھپے دہشت گردوں کی تعداد چند سو تھی۔ عراق پر مغربی اور امریکی طیاروں کی اندھا دھند بمباری دس لاکھ بے گناہ لوگوں کے قتل عام کی ذمہ دار ہے۔ نتیجہ؟ چند سو دہشت گردوں کی تعداد ایک لاکھ تک جا پہنچی۔ آئی ایس آئی ایس (دولت اسلامیہ عراق و شام یعنی داعش) نے عراق پر حملہ کے چھ ماہ بعد جنم لیا۔ امریکی صدر جارج بُش کے سر پر ان کی ولدیت کا سہرا باندھا جا سکتا ہے۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ چودہ سال دہشت گردوں کے خلاف لڑی جانے والی جنگ سے (جو نتائج کے اعتبار سے مفید ہونے کی بجائے نقصان دہ Counter Productive ثابت ہوئی) کسی نے ایک چھوٹا سا سبق بھی نہیں سیکھا۔ شام کے شہر رقہ کی کل آبادی دو لاکھ ہے۔ وہ فرانسیسی‘ امریکی‘ اُردنی‘ رُوسی اور خود شامی فضائیہ کی بمباری کی سب سے پسندیدہ جگہ ہے (اب اس فہرست میں برطانیہ بھی شامل ہو گیا ہے) ایک وقت تھا جب اس شہر میں داعش کے فوجیوں کی کل تعداد 20 ہزار تھی۔ بمباری شروع ہوئی تو اُن کی اکثریت بھاگ کر عراقی شہر موصل یا شام کے ایک قصبہ دیرالزیر چلی گئی اور اب وہاں پناہ گزین ہے اور پیچھے بمشکل ایک ہزار فوجی چھوڑ گئے۔ اب عرب دُنیا میں ٹیلی ویژن دیکھنے والوں کو کون سے مناظر نظر آتے ہیں؟ بمباری سے مر جانے والی عورتوں اور اُن کے بچوں کی
لاشوں کے انباروں کے۔ ہزاروں فٹ کی بلندی سے کی جانے والی بمباری آسٹریلیا کے مقامی باشندوں کے اُس قدیم ہتھیار کی طرح ہے جسے Boom Rang کہتے ہیں۔ یہ ہتھیار استعمال کے بعد اُسی شخص کے پاس لوٹ کر واپس آ جاتا ہے جس نے اُسے شکار کرنے کی غرض سے استعمال کیا ہوتا ہے۔ مغربی ممالک کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی (فاضل مصنف شاید یہ نہیں جانتے کہ مشرقی ممالک کے حکمرانوں کو بھی سمجھ نہیں آتی) کہ شہروں میں رہنے والے دہشت گردوں (جنہیں سیاسی لغت میں Urban Guerrilla کہتے ہیں) کو توپوں اور فضائیہ کی بمباری سے شکست نہیں دی جا سکتی۔ موصل کی مثال لیجئے۔ شہر کی آبادی پندرہ لاکھ ہے اور داعش کی فوج صرف پندرہ ہزار ہتھیار بندوں پر مشتمل ہے‘ جنہیں ہلاک کرنے کے لئے موصل کی ساری آبادی (یعنی سارے پندرہ لاکھ لوگوں) کو ہلاک کرنا پڑے گا۔ مغربی ممالک کی افواج کو زندگی عزیز ہے اور داعش کی فوج کو موت (جسے وہ شہادت سمجھتے ہیں)۔ مغربی ممالک چاہے ہزار جتن کر لیں وہ داعش کو میدان جنگ میں شکست نہیں دے سکتے۔ داعش کے ساتھ مقابلہ صرف سیاسی حکمت عملی سے کیا جا سکتا ہے‘ اور وہ صرف اس صورت میں ممکن ہے۔ اول: خلیجی ریاستیں‘ عراق اور شام میں دہشت گردوں کو ہتھیاروں کی سپلائی روک دیں۔ دوم: مغربی ممالک ترکی کو دولتِ اسلامیہ کے ساتھ اپنی لمبی سرحد کو ناقابل عبور بنا دینے میں ہر ممکن مدد دیں۔ سوم: داعش کی قوت کا اصل راز یہ ہے کہ وہ عراق اور شام میں زیر عتاب سنی آبادی کی نسل کشی کے خلاف موثر ڈھال بن گئی ہے۔ جونہی عراق اور شام میں سنی آبادی کو سیاسی بندوبست میں جائز مقام مل گیا‘ داعش کو ملنے والی آکسیجن ختم ہو جائے گی۔ مغربی ممالک کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک اس کے ہم پلہ‘ حلیف اور امن عالم کے قیام میں برابر کے شراکت دار ہیں۔ اس وقت تک مشرق وسطیٰ کو ایسا پٹرول سٹیشن سمجھا گیا جو ویرانہ میں ہے‘ مسلح ڈاکو جب چاہیں اسے بلا روک ٹوک لوٹ لیں اور بار بار لوٹتے رہیں۔ اب ایسا نہ ہو سکے گا۔‘‘
ہم آج کا کالم اس دور کے ایک افسانوی کردار‘ بے مثال بہادری‘ پامردی‘ ہمت اور حوصلہ کے پیکر کے ذکر پر ختم کریں گے جس کا نام شاکر عامر ہے۔ یہ مجاہد پیدا ہوا تو ماں باپ نے نام رکھتے ہوئے یہ ہرگز نہ سوچا ہو گا کہ یہ بچہ بڑا ہو کر صبر و شکر کی نئی اور روشن تاریخ رقم کرے گا۔ چار بچوں کا باپ 48 سالہ عامر کیوبا کے رسوائے زمانہ عقوبت خانہ میں مقدمہ چلائے بغیر ناکردہ گناہ کے ارتکاب کے شبہ میں ساڑھے تیرہ سال کی قید کے بعد برطانیہ اپنے گھر واپس آیا ہے (یا بھیجا گیا ہے)۔ امریکی حکومت نے 2007 ء میں عامر کی رہائی کے لئے حکم نامہ جاری کیا مگر اس کی تکمیل میں آٹھ سال لگ گئے۔ اُس کی رہائی کے لئے برطانیہ میں نہ صرف ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سالہا سال ناقابل بیان جدوجہد کی بلکہ انگریز (مرد و زن) اداکاروں نے بطور احتجاج روزے رکھے۔ عامر کے برطانوی وکیل کلائیو سٹفورڈ نے تیرہ سال کوئی فیس لئے بغیر اپنے موکل کی رہائی کے لئے جان لڑا دی۔ میں نے اپنے قارئین کی طرف سے اُنہیں پھولوں کا ایک بڑا گلدستہ بھیجا ہے تاکہ اُن کا شکریہ ادا کر سکوں‘ اگرچہ اس تحفہ پر میرے حساب سے کافی بڑی رقم خرچ ہوئی مگر پھر بھی سوچتا ہوں۔
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
کتنا اچھا ہو کہ پاکستان میں نہ صرف جناب انصار برنی بلکہ عوام دوست جماعتیں اور عوامی حقوق کے تمام بڑے علمبردار عامر شاکر کو پاکستان آنے کی دعوت دیں تاکہ وہ ہمارے ملک میں رہنے والے بے خبر لوگوں اور مغربی پروپیگنڈا سے متاثر ہونے والوں کو بتا سکیں کہ اقبال نے مغربی ممالک کے بارے میں یہ کیوں کہا تھاع
چہرہ روشن اندرون چنگیز سے تاریک تر
اجازت دیجئے کہ یہ کالم نگار (جو علم نجوم بالکل نہیں جانتا) وثوق کے ساتھ یہ پیشین گوئی کر سکے کہ امریکہ اور مغربی ممالک سے مالی امداد لینے والی انسانی حقوق کی تنظیمیں عامر شاکر کو کبھی اپنا مہمان نہ بنائیں گی۔ آخر وہ میرے اچھے مشورہ کو مان کر اپنے رزق پر لات کیوں ماریں؟ وہ بے ضمیر تو ہیں‘ بے وقوف ہرگز نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں