گراں خواب چینی سنبھلنے لگے

شاعر مشرق و مغرب(اقبال )کی ایک کمال کی نظم کا نام ہے ''ساقی نامہ‘‘۔ اُس کا ایک شعر ہے ؎
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے اُبلنے لگے
اس شعر کا پہلا مصرع ہی آج کے کالم کا عنوان ہے۔25 اپریل 1993ء ‘ یہ اس لئے یاد گار دن ہے کہ میں اور میری بیوی نے دیوار چین پر قدم رکھا۔ اس کا ذکر انہی کالموں میں کیا جا چکا ہے۔ اگر آپ میری طرح بادام کھاتے رہتے ہیں تو آپ کا حافظہ اتنا اچھا ہوگا کہ آپ کو ایک نامکمل سفر نامہ کی چند سطور یاد آجائیں گی‘ چاہے دھندلی دھندلی۔ کرسمس کی تعطیلات کے دوران سیر کرتا کرتا کتابوں کی ایک دُکان پر پہنچا‘ اس پختہ ارادہ کے ساتھ کہ چاہے کتاب کتنی ہی اچھی لگے‘ خریدنے کی خواہش پر قابو پائوں گا۔وجوہ دو ہیں۔ نئی کتاب پڑھنے کا وقت نہیں ملتا اور گھر میں نئی کتاب رکھنے کی جگہ نہیں ملتی۔ نصف صدی میں بہت سا کاٹھ کباڑ اکٹھا کیا۔ بتوں کی تصویریں اور حسینوں کے خطوط۔ ایک دو نہیں (وہ تو غالباً ہر ایک کے پاس ہوتے ہیں) بلکہ ان کا ایک ایسا زبردست مجموعہ کہ جو بھی دیکھے یا سُنے‘رشک سے جل بھن کر کباب ہو جائے مگر اس کے لئے آپ کو غالب کے گھر جانا پڑے گا۔ ادھر اُن کے چالیسویں کی رسم مکمل ہوئی‘ اُدھر اُن کے گھر سے یہ سامان باافراط نکلا۔ 
آپ کے کالم نگارکی عمر بھر کی کمائی چند ہزار کتابیں ہیں جنہوں نے اُس کے جنوب مشرقی لندن (وسطی لندن جانے آنے کے لئے دریائے ٹیمز کے نیچے سرنگ میں سفر کرنا پڑتا ہے) کے سب سے پُرانے مکان کے دو کمروں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ مزید کتابیں رکھنے کی گنجائش ہو نہ ہو بوڑھی آنکھوں میں تو دم ہے۔ کتابوں کی دُکانوں میں پہروں کھڑا ورق گردانی کرتا رہتا ہوں۔ رحم دل اور علم دوست دُکاندار (زیادہ تر عمر رسیدہ خواتین) مجھے بیٹھنے کے لئے دہکتی ہوئی آگ کے آتش دان کے پاس کرسی دے دیتی ہیں اور میری غربت پر رحم کھاتے ہوئے مجھے یہ ہر گز یاد نہیں دلاتیں کہ میں نے جس جگہ ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں وہ کتابوں کی دُکان ہے‘ لائبریری نہیں۔ اس خطرہ کے پیش نظر کہ اگر میں چھٹی کے دن گھر سے زیادہ دیر غائب رہا تو مجھے واپسی پر ایک خاتون کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میں کتاب وُہیں چھوڑچھاڑ کر گھر کی طرف بھاگتا ہوں اور راستے میں دُعا مانگتا جاتا ہوں کہ خدا کرے میری رفیقہ حیات پہلے سے بھی زیادہ بڑا مکان خریدنے پر آمادہ ہو جائے تاکہ وہاں میری کتابوں کا محض دو کی بجائے تین چار کمروں پر قبضہ ہو جائے۔
شاہراہ ریشم کو صدیوں تک عالمی تجارت کے مرکزی اعصابی نظام کا درجہ حاصل رہا۔ سولہویں صدی سے مغربی یورپ کی بالا دستی کا دور شروع ہوا تو انسانی تاریخ کے مطالعہ کا زاویہ بدل گیا۔ اب مغرب نے اپنے آپ کو دُنیا کا مرکز بنا لیا اور دُوسروں سے منوا لیا۔ اب انسانی تاریخ یوں لکھی جانے لگی: یونان کے بعد انسانی تہذیب کا چراغ روم میں روشن ہوا‘وہاںسے عیسائیت پھیلی‘پھر تحریک اصلاح کلیسا۔ اگلا قدم نشأۃ ثانیہ۔ اُس کے بعد جدید عقلیت Enlightenment۔ جس سے صنعتی انقلاب اور سیاسی جمہوریت کے چشمے پھوٹے۔ ساری انسانی تاریخ ان آٹھ مراحل پرمحیط ہے۔ ساون کے اندھوں کے نقطۂ نظر کے مطابق انسانی تاریخ میں (ماسوائے یورپ کے) چار سُو اندھیرا اور جہالت کا دور دورہ رہا۔ چین‘ ہندوستان اور مشرق وُسطیٰ کی تہذیبوں کا تذکرہ تو کجا حوالہ بھی غائب۔ اسے کہتے ہیں عقلی جارحیت اور تہذیبی سامراجیت‘ زیادہ سخت الفاظ استعمال کروں تو علمی غنڈہ گردی اور ذہنی دہشت گردی جیسے القابات بجا طور پر استعمال کر سکتا ہوں۔
محکوموں سے ان کی مادری زبان بولنے کا حق چھین کر اُنہیں حاکموں کی زبان (انگریزی‘ فرانسیسی‘ سپینی یا پرتگیزی) بولنے پر مجبور کرنا بھی اس زمرہ میں آتا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ یہ ہنسنے کا مقا م ہے یا رونے کا کہ ہمیں انگریزوں سے سیاسی آزادی حاصل کئے 68سال ہو گئے مگر ہم ہیں کہ ابھی تک طوق غلامی اپنے گلے کے باہر لٹکائے پھرتے ہیں اور گلے کے اندرونی حصہ سے اپنی مادری یا قومی (اُردو) زبان کے الفاظ کی بجائے غلط سلط انگریزی الفاظ نکالتے ہیں۔ بھلا ہو فاطمہ قمر اور اُن کے بہت سے باہمت ساتھیوں کا اور بااُصول اور باضمیر چیف جسٹس جناب جواد خواجہ کا جنہوں نے ہمیں یاد دلایا کہ ہمارے 1973 ء کے آئین میں (جس کو ہم روز و شب پامال کرنے کے فن کے ماہر بن گئے ہیں) لکھا گیا تھا کہ 15 سال بعد (یعنی 1988ء میں) ہماری سرکاری زبان اُردو ہو گی یہ اتنا ہی بڑا مذاق ہے کہ ہم آئین میں لکھیں کہ آج سے پرندے اُڑیں گے اور مچھلیاں تیریں گی۔ ایک آزاد قوم کے افراد کو یہ حق دینا (اور وہ بھی آئین سازی کے 15 سال بعد اور آزادی ملنے کے 26 سال بعد بننے والے آئین کے مطابق) کہ وہ اپنی قومی زبان کو اپنا سرکاری کام کرنے کے لئے استعمال کر سکیں گے۔ اگر یہ تکلیف دہ سچ نہ ہوتا تو بیربل اور ملادو پیازدہ کے شہرہ آفاق لطائف کے مجموعہ میں شامل کئے جانے کا مستحق تھا۔
ہم ڈھونڈنے نکلے تھے شاہراہ ریشم کو راستہ بھول کر کہیں اور جا نکلے۔ خدا اس نہایت اچھی کتاب کے فاضل مصنف کا بھلا کرے کہ اُس نے عقلی دیانت کا مظٰاہرہ کرتے ہوئے ایک بڑے سچ پر پڑا ہوا پردہ اُٹھا دیا۔ اہل یونان کے تہذیبی کمالات سے انکار نہیں مگر صرف ان کا ذکر کرنا آدھا سچ بیان کرنا ہوگا۔ قبل مسیح دور میں مشرق وُسطیٰ‘ چین اور مصر (جہاں فرعون کے خاندان نے چار ہزار سال مسلسل حکومت کی) میں انسانی تہذیب و تمدن ہر لحاظ سے یونان سے بھی زیادہ پھل پھول رہی تھی۔ رومی سلطنت نے مشرق سے بہت خوشہ چینی کی۔ شاہراہ ریشم جو اٹلی کے ایک ساحلی شہر وینس سے شروع ہو کر چار ہزار میل دُور جا کر چین کے شہر Chan Ganj (جو اُسی Xian کا پُرانا نام تھا جہاں اس کالم نگار کااپنی بیوی کے ساتھ جانے کا قصہ پچھلے کالم میں بیان کیا جاچکا ہے۔)میں ختم ہوتی تھی۔ اہل روم نے اس شاہراہ کو تجارت‘ حصولِ دولت اور اکتساب علم کے لئے استعمال کیا۔ جب رومی بادشاہ Augustus (جس کے نام پر کیلنڈرکے ایک مہینہ کا نام اگست رکھا گیا) نے مصر فتح کر لیا تو یوں سمجھئے کہ روم کی لاٹری نکل آئی۔رومی مورخStrabo کا کہنا ہے کہ 120 بڑے بحری جہازہر سال بحیرہ احمر سے ہندوستان کی طرف تجارتی مال لے کر جاتے اور آتے تھے۔ مشرق سے گرم مصالحوں‘ ادرک اور ریشم کے علاوہ عطریات اور سونے کے زیورات کی مصر کے ذریعہ روم میں ریل پیل شروع ہو گئی۔ شاہراہ ریشم کو پرانے زمانے میں وُہی مرکزی حیثیت حاصل تھی جو ان دنوں Internet کی ہے‘ معلومات کے تبادلے کے اعتبار سے۔ اس شاہراہ کی بدولت اسلام نے مغرب کا اور دو مذاہب عیسائیت اور بدھ مت نے مشرق کا سفر طے کیا۔ 
عالمگیریت (Globalisation)کا لفظ معرض وجود میں آنے سے ایک ہزار سال پہلے شاہراہ ریشم اس کی عملی تعبیر بن گئی۔ اُردن کی ایک گمنام بستی Jersmi میں پچھلے دنوں کھدائی کی گئی تو کچھ برتن برآمد ہوئے جن پر ایک طرف لاطینی زبان میں انجیل مقدس کی آیات اور دُوسری طرف قرآن پاک کی مقدس آیات چمک دارحروف میں پڑھی جا سکتی ہیں۔ مذکورہ بالا کتاب پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ قرون وِسطیٰ میں مسلمان جدت پسند اور روشن دماغ جبکہ عیسائی علماء بنیاد پرست اور قدامت پسند تھے۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ہمارا اتنا برُا حال نہ تھا کہ شاعر مشرق و مغرب (اقبال) کو یہ نوحہ لکھنا پڑا ؎
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لاَ اِلٰہ اِلَّااللّٰہ
شاہراہ ریشم کا مطلب صرف برکتوں کا نزول نہ تھا۔ چودہویںصدی میں طاعون کا مرض اس شاہراہ پر مسافروں کے ذریعہ مشرق سے مغرب پہنچا اور لاکھوں افراد کی ہلاکت کا باعث بنا۔ (باقی صفحہ13پر)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں