رفتید ولے نہ از دل ما

فارسی کے ایک قادر الکلام شاعر کا نام تھا عُرفی۔ اُن کا پورا شعر یہ ہے ؎
اے ہم نشینانِ محفلِ ما
رفتید ولے نہ از دلِ ما
یہ کالم نگارنئی نسل کا شکر گزار ہے کہ وہ اس گئے گزرے وقت میں جب لوگ (خصوصاً پنجابی) اپنی مادری زبان بولنے میں شرم اور ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں، قومی زبان (اُردو) میں آدھے اور کبھی آدھے سے زیادہ انگریزی کے الفاظ شامل کر کے ایک قابل رحم بلکہ قابل گریہ کھچڑی بنا دیتے ہیں اوردرست انگریزی بولنے کی صلاحیت سے محروم ہونے کے باوجود اس کو ناقابل فہم لہجہ میں بولنے پر اصرار کرتے ہیں؛ خدا کا شکر ہے کہ یہ (نئی نسل) اُردو لکھ پڑھ لیتی ہے۔ ٹیلی ویژن کی مقبولیت کے باوجود اُردو کے اخبارات روزانہ لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوتے ہیں۔ اُردو رسائل کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ گنوائی نہیں جا سکتی۔ اب اگر نئی نسل کو اُن کے بزرگوں نے بدترین نظام تعلیم کے تحت فارسی اور عربی کے فہم کی خوبی اور خوبصورتی سے آراستہ نہیں ہونے دیا تو اس میں نئی نسل کا کیا قصور؟ نئی نسل کو اپنے ذہنی سرمایہ، مقامی ثقافت اور پاکستان کی دھرتی سے جو گہری محبت ہے وہ اُن کی تمام خامیوں پر غالب آجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے اُس پر بجا طور پر فخر ہے۔ میری نسل نے اُن کے بال و پر توڑ دیئے تو وہ ستاروں پر کمند ڈالیں تو کیونکر؟ بقول شاعر مشرق و مغرب (اقبال) ع
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبت زاغ
میرا فرض ہے کہ میں نئی نسل کی سہولت کی خاطر عُرفی کے شعر کا اُردو ترجمہ بھی لکھ دوں جو یہ ہے: ''اے میرے ساتھ وقت گزارنے والے دوستو! آپ جا چکے ہیں مگر میرے دل میں آباد ہیں۔ آپ میرے دل سے کبھی دُور نہیں جا سکتے‘‘۔
یہ شعر پہلی بار ساٹھ سال پہلے مرے کالج سیالکوٹ میں دوران تعلیم دوپہر کے وقفہ میں موسم سرما کی دھوپ سینکتے ہوئے پڑھا
تھا۔ میں دھوپ میں سیر کرتے کرتے جناح اسلامیہ کالج کے پروفیسر اصغر سودائی (مرحوم) کو ملنے جا نکلا۔ اُن کے کمرے میں جس طالب علم سے تعارف ہوا اُس کا نام تھا محمد رفیع (بڑے ہوئے تومیاں کہلانے لگے۔) ساری عمر سیالکوٹ میں وکالت کی اور بار کے صدر بنے اور بڑا نام کمایا۔ مجھے 21 جنوری کو لاہور میں میرے دفتر سے ایک ای میل ملا جس کے آخر میں یہ لکھا تھا کہ آپ گیارہ فرو ری کو سیالکوٹ اپنے جس پُرانے دوست کے گھر جانا چاہتے ہیں وہ فوت ہو گئے ہیں۔ وفات پا جانے والے کا نام میاں محمد رفیع تھا۔ میں نے عُرفی کا یہ شعر رفیع کو ساٹھ برس پہلے سنایا تھا جو اسے سمجھ نہیں آیا تو میں نے اس کا اردو ترجمہ کر دیا۔ سننے والا یہ تصور کر سکتا تھا کہ میں اس کی وفات کی خبر سن کر وہی شعر پھر پڑھوںگا جو میں نے پہلے پہل اُسے سنایا تھا۔ لیکن اب وہ جہاں جا چکا ہے وہاں اشعار کے ترجمہ کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ جب تک یہ کالم نگار زندہ ہے اور اُس کے دل میں رفیع کی خوشگوار یاد تابندہ ہے، وہ میرے اتنا ہی قریب رہے گا جتنا پہلے تھا۔ اب میں جس زبان میں بھی شعر پڑھوں رفیع کی رُوح کو ترجمے کے بغیر سمجھ بھی آجائے گا اس کی صداقت پر یقین بھی۔ مٹی سے بنا ہوا (قرآن پاک کی زبان میں کھنکتی مٹی سے بنایا گیا) جسم مٹی میں مل جائے۔ بقول انجیل مقدس راکھ میں راکھ ہوکر انسانی زندگی جسم کی قید سے آزاد ہو کر رُوح کی بلند و برتر شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اُس رُوح کا پس ماندگان کے دلوں سے ایسا قریبی رشتہ قائم ہو جاتا ہے کہ بقول عُرفی ع
رفتید ولے نہ از دل ما
رفیع کی وفات کی خبر سے گزرے ہوئے سال میں دل پر لگے سارے زخم پھر ہرے ہو گئے۔ میرا بھائی افضل باجوہ، گورنمنٹ کالج لائل پورکے زمانے کے دوست آغا افضال اور سرور سعید انوری۔ یہ تو تھے سو فیصدی ذاتی صدمے۔ گزرے ہوئے سال میں تین اکتوبر کو ڈاکٹر جاوید اقبال اپنی پیاری رفیقہ حیات ناصرہ، اپنے بچوں اور اپنے لاکھوں مداحوں کو روتا چھوڑ کر ہم سے دُور چلے گئے۔ اُنہوں نے اپنی91 سالہ لمبی زندگی میں علامہ اقبال جیسی بڑی شخصیت کا بیٹا ہونے کا حق ادا کر دیا۔ اُنہوں نے کمال کی کتابیں لکھیں جن میں میرے پاس ان کی خود نوشت (اپنا گربیاں چاک) اور اپنے جلیل القدر والد محترم پر لکھی ہوئی کتاب (زندہ رُود) ہیں، جو میں بار بار پڑھنے کی خاطر اپنے سرہانے کے پاس پڑی ہوئی میز پر رکھ کر سوتا ہوں۔ لاہور ہائی کورٹ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ڈاکٹر صاحب اس کے چیف جسٹس رہے۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ 1957ء میں جب میں ایم اے او کالج کی سٹوڈنٹس یونین کا صدر تھا تو اُن کی یورپ سے پاکستان واپسی پر سب سے پہلے منقعدکی جانے والی تقریب میں اُن کا میزبان بنا۔ چوتھائی صدی گزر گئی تو دُوسری اور آخری ملاقات ہوئی ۔ دوسری ملاقات کا ثواب ایچیسن کالج میں میرے شاگرد ارشد سیٹھی کو جاتا ہے جس نے میرے ایک دوست (برطانوی پارلیمنٹ کے ممتاز رُکن) کے اعزاز میں پنجاب کلب میں استقبالیہ دیا تو وہاں جن لوگوں کو معزز مہمان سے ملنے کے لیئے بلایا گیا اُن میں ڈاکٹر صاحب سب سے ممتاز تھے۔ ظاہر ہے کہ وہ مجھے ہر گز نہ پہچانتے تھے، اس لئے میں نے کافی تگ و دو کر کے اپنا تعارف کرایا مگر مجھے اُن کے ذہن میں ایک دھندلی یاد کو اُجاگر کرنے میں زیادہ کامیابی نہ ہوئی۔ اہل لاہور لندن سے آنے والے معزز مہمان کو مل کر رسمی طور پر خوش ہوئے مگر مجھے ڈاکٹر صاحب سے مل کر دلی خوشی حاصل ہوئی۔ وہ ہمہ گیر اور روشن خیال شخصیت تھے۔ میں کیمبرج جائوں تو مجھے وہاں فلسفہ پڑھنے والے باپ بیٹے (علامہ اقبال اور جاوید اقبال) کی یاد آتی ہے۔ میں بطور بیرسٹر Grays Inn کا رُکن ہوں۔ اُس سے چند منٹ پیدل چلوں تو Lincoln's Inn جا پہنچتا ہوں۔ وہاں ایک بڑے درخت کے نیچے چوبی بنچ پر آنکھیں بند کر بیٹھوں تو مجھے وہاں لائبریری میں بیٹھے مطالعہ کرتے قائداعظم، علامہ اقبال اور ڈاکٹر جاوید اقبال نظر آتے ہیں۔ علامہ اقبال نے فلسفہ کے مضمون میں ڈاکٹریٹ جرمنی کی ایک یونیورسٹی اور ڈاکٹر جاوید اقبال نے کیمرج سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ محض ڈگریوں کی بات نہیں وہ تو ان گنت لوگوں نے حاصل کی اور کرتے رہیں گے۔ 
1935ء میں قائداعظم، علامہ اقبال سے ملنے لاہور اُن کے گھر تشریف لے گئے تو اُنہوں نے جاوید اقبال کی آٹوگراف کتاب پر دستخط کر کے پیار سے پوچھا کہ یہ لڑکا بڑا ہو کر کیا بنے گا تو والد محترم نے فرمایا کہ میرا بیٹا اس سوال کا جواب دینے کی بجائے آپ کا ارشاد سننا چاہتا ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ ہم نہیں جانتے کہ قائداعظم نے کیا کہا مگر ایک بات جانتے ہیں کہ جاوید اقبال بڑے ہو کر وُہی بنے جو قائداعظم چاہتے ہوںگے۔ میرا ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ایک معمولی سا ذاتی تعلق یوں بھی بنتا ہے کہ علامہ اقبال نے چوہدری محمد حسین (باجوہ) کو اپنے بچوں کا سرپرست اور تعلیم و تربیت کا ذمہ دار بنایا (یہ وُہی چوہدری محمد حسین ہیں جو عصر حاضرکے سب سے بڑے افسانہ نگار سعادت حسن منٹو پر فحاشی کے مقدمات بنانے اور چلانے کی وجہ سے مشہور ہوئے۔) بہرحال وہ میرے دُورکے رشتہ دار ہیں۔ اہل پنجاب کی طرح میں ہر دُور کے رشتہ دارکا (جو قابل ذکر ہوں) ضرور ذکرکرتا ہوں اور قریب کے رشتہ داروں (جو قابل ذکر نہ ہوں) بھُولے سے بھی ذکر نہیں کرتا۔
جب جناب جاوید اقبال صاحب کی عمر دس بارہ سال کی ہوگی (علامہ کی وفات پر وہ چودہ پندرہ سال کے تھے) تو اُنہوں نے اپنے والد سے فرمائش کی کہ وہ یورپ سے واپس آئیں تو اُن کے لئے بطور تحفہ ایک گراموفون لے آئیں۔ اب یہ ہمیں ناصرہ ہی بتائیں گی کہ اُن کے شوہر نامدار کی یہ فرمائش پوری ہوئی یا نہیں؟ مگر ایک بات ساری دُنیا جانتی ہے کہ علامہ نے اپنے بیٹے کے نام جو نظم لکھ بھیجی وہ لازوال اور شاہکار ہے۔ وُہی نظم جس کا پہلا شعر یہ ہے ؎
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
یہ تو تھا اُن چند لوگوں کا مختصر ذکر جو قضائے الٰہی سے ہم سے جدا ہو گئے مگر میں آخر میں قارئین سے اپنے ایک ایسے راہنما اور اَن دیکھے دوست کا تعارف کرانا چاہتا ہوں جن کا نام تھا حسن ناصر جن کو اشتراکی خیالات (صرف خیالات نہ کہ دہشت گردی کی واردات) کے سنگین جرم کے ارتکاب پر لاہور کے شاہی قلعہ میں تشدد کر کے شہید کر دیا گیا۔ میں امریکہ کی ٹیکساس یونیورسٹی میں پڑھانے والے ڈاکٹر کامران علی کا احسان مند ہوں کہ اُنہوں نے حال ہی میں حسن ناصرشہید پر بہت اچھی کتاب لکھی جو پاکستان میں آکسفورڈ یونیورسٹی اور برطانیہ میں I.B Taurus نے شائع کی۔ کتنا اچھا ہو کہ امینہ سیّد صاحبہ (OUP کی سربراہ) اس کا اُردو ترجمہ بھی شائع کر دیں تاکہ اُسے زیادہ لوگ پڑھ سکیں جن میں یہ کالم نگار بھی شامل ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں