دو چراغ اور بجھے اور بڑھی تاریکی

دو فروری کو ہمارے سب سے بڑے ادیب جناب انتظار حسین نے لاہور میں وفات پائی تو برطانیہ میں بھی صف ماتم بچھی۔ اس سے دو ہفتے بعد لندن میں لارڈ ایرک ایوبری(Loard Eric Avebury) جہانِ فانی سے رُخصت ہوئے تو صف ماتم کشمیر میں بچھائی گئی چونکہ وہ سر زمین کشمیر کی آزادی کے لئے کی جانے والی عالمی جدوجہد کے راہنمائوں میں سرفہرست تھے۔ اُنہوں نے اس کالم نگار کو یہ اعزاز بخشا کہ اس کی دعوت پر اور اُس کے مہمان بن کر چار بار پاکستان اور آزاد کشمیر گئے تاکہ اپنے ہم خیال لوگوں اور کشمیری عوام کو خود مل سکیں۔ ہر دورے کے بعد یہ کالم نگار لندن واپسی پر اپنے کام کاج میں مصروف ہو جاتا تھا، اچانک آدھی رات کوفون کی گھنٹی بجتی اور دُوسری طرف سے وہ مدہم، مہذب اور میٹھی آواز آتی جو برطانوی اشرافیہ نے صدیوں کی اچھی تعلیم و تربیت کی بدولت سیکھ لی ہے؛ فون کرنے والا پوچھتا کہ آپ سو تو نہیں گئے؟ کیا میں آپ کے آرام میں مخل ہوا ہوں؟ کیا آپ کی تھوڑے دنوں میں زیادہ سفر اور بے شمار مصروفیت کی وجہ سے پیدا ہونے والی تھکاوٹ دُور ہوئی یا نہیں؟ اورآخر میں سب سے اہم سوال۔۔۔۔کیا آپ اہل کشمیر کی جدوجہد آزادی سے غافل تو نہیں ہو گئے؟ کیا آپ کو یاد ہے کہ منزل دُور ہے اور راہ کٹھن؟ اُن کی مستقل مزاجی، آہنی عزم اور سچی لگن دیکھ کر اقبال کے ایک شعر کی جسمانی تفسیر نظر آتی تھی ؎
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
ہو معرکہ حق و باطل تو فولاد ہے مومن 
میں پورے چالیس سال ان کی قربت، ان کے اعتماد، ان کی شفقت اور برادرانہ رشتے سے بھی گہری دوستی کی نعمت سے مالا مال رہا۔ میں جب بھی پاکستان کے نجی دوروں سے واپس آتا تو لارڈ ایوبری فون کر کے پوچھتے کہ سفر کیسا رہا؟ میں نے پاکستان جا کر آزادی کشمیر کے لئے کیا عملی اور ٹھوس کام کیا؟ میں اس بار چودہ فروری کو واپس آیا تو اپنے آپ کو آئیں بائیں شائیں قسم کا جواب دینے کے لئے ذہنی تیاری کر رہا تھا کہ میرے بچوں نے مجھے یہ بری خبر سنائی کہ میرے سر سے میرے بڑے بھائی کا مبارک سایہ ہمیشہ کے لئے اُٹھ گیا ہے۔ وہ سالہا سال سے خون کی ایک مہلک بیماری سے بڑی بہادری کے ساتھ لڑ رہے تھے۔ 
وفات سے چھ ہفتے پہلے تک وہ روزانہ برطانوی پارلیمنٹ کے ہائوس آف لارڈز کے آٹھ گھنٹے طویل اجلاس میں شریک ہوکر حق کی آواز بلند کرتے تھے۔ یہ آواز اہل کشمیر کی آزادی، اہل فلسطین کی آزادی، بحرین کی زیر عتاب شیعہ آبادی کے علاوہ عراق اور افغانستان پر برطانوی حکومت کی جارحیت کی پر زور مذمت کے لئے ہوتی تھی۔ یہ آواز انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے لئے، برطانیہ میں تارکین وطن کے خلاف بنائے جانے والے غیر منصفانہ قوانین کی بھرپور مخالفت کے لئے بھی ہوتی تھی۔ اب وہ آواز ہائوس آف لارڈز کے ایوان میں نہیں صرف ان کے چھوٹے بھائی کے کانوں میں گونجا کرے گی اور میں یہ مدھرآواز سن کر زیر لب وُہی کہوں گا جو دو ہفتے قبل میرے کالم کا عنوان تھا ع رفتید ولے نہ از دل ما
(میں نے گزشتہ کالم میں جو شعر عرفی سے منسوب کیا تھا وہ شہنشاہ اکبرکے نور تن فیضی کا ہے۔ یہ اصلاح اورینٹل کالج کے پروفیسر ڈاکٹر ناصر صاحب نے کی) 
میرے یہ بڑے بھائی مجھ سے صرف آٹھ سال بڑے تھے مگر خوبیوں کے اعتبار سے ہزاروں گنا بڑے۔ ان کی وفات پر برطانیہ کے روزنامہ گارڈین نے اپنی پندرہ فروری کی اشاعت میں اُن کا نوحہ لکھا، اُن کے شاندار کارنامے گنوائے، ہدیۂ عقیدت پیش کیا، تعریف و توصیف کے پھول برسائے مگر سچائی یہ ہے کہ ع حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
جس طرح موسیقی، رنگوں اور خوشبوئوں کوالفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح بڑے آدمی کی زندگی کے چند گوشوں پر روشنی تو ڈالی جا سکتی ہے مگر اس کی شخصیت کا جادو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ لفظوں میں لکھا جا سکتا ہے نہ بتایا جا سکتا ہے۔ سوانح حیات لکھنے کی کاوش چاہے کتنی کامیاب ہو، فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیے جائیں، علی گڑھ کے پروفیسر رشید احمد صدیقی کی''گنج ہائے گراں مایہ‘‘ کے معیار تک جا پہنچے، شبلی نعمانی، ابوالکلام آزاد اورمختار مسعود کی نثر کی ہم پلہ ہو، منطقی اعتبار سے دُوسرے درجے سے آگے نہیں جا سکتی۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں بڑے لوگوں کے پاس بیٹھنے، ان کی باتیں سننے اور اُن کی شخصیت سے نکلنے والی روشنی کا اپنے دل پر پڑنے والا عکس دیکھنے (یا محسوس کرنے) کا تجربہ ہوا۔ 
میرے ممدوح آنجہانی ایرک ایوبری بدھ مت کے پیرو کار تھے۔ والد عیسائی اور دادا مسلمان تھے۔ یہ کالم نگار لندن کے جس جنوب مشرقی علاقہ میں رہتا ہے، اُس کے قریب ایک قصبہ کا نام Orpington ہے۔ درختوں میں گھری ہوئی پُر سکون بستی۔ پجاس برس قبل وہاں ایک سیاسی زلزلہ آیا جس کی باز گشت اب بھی سنائی دیتی ہے۔ اُس بستی میں ٹوری پارٹی کے رُکن پارلیمنٹ نے پندرہ ہزار ووٹوں کی بھاری اکثریت سے انتخاب میں کامیابی حاصل کی تھی مگر وہ ایرک سے 7800 ووٹوں سے ہار گیا۔ چند برس بعد ایرک کے کزن نے وفات پائی تو Avebury گھرانہ میں سب سے بڑی عمر کے مرد ہونے کی وجہ سے ہائوس آف لارڈ کی رُکنیت ورثہ میں ملی۔ وہ رُبع صدی برطانوی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی انسانی حقوق کی کمیٹی کے صدر رہے اور Amnesty International کے بانی اراکین میں شامل تھے۔ اُنہوں نے اپنی سیاسی زندگی بطور مقامی کونسلر شروع کی اور عوام کی اتنی خدمت کی کہ عام انتخابات میں تاریخی کامیابی ملی۔ اُنہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ ایک برطانوی بادشاہ نے ان کے پردادا کو ہائوس آف لارڈز کا موروثی رُکن بنایا تھا، اس اعتبار سے ایرک کو چوتھا ایوبری لارڈ کہا جاتا تھا۔ اُن کے دادا شہرہ آفاق برطانوی سائنس دان چارلس ڈارون کے پڑوسی اور بہترین دوست تھے۔ ڈارون کے نظریۂ ارتقا پر مذہبی حلقوں کی طرف سے ہر قسم کا لاٹھی چارج اور پتھرائو کیا گیا تو تیسرے لارڈ ایوبری ان کے لئے ڈھال بن کر کھڑے ہو گئے۔۔۔۔آزادی فکر اور آزادی اظہار کے حق کی حفاظت اور حمایت کے لئے۔ دُوسری جنگ عظیم نے ایرک کی تعلیم میں اس لحاظ سے بڑا خلل ڈالا کہ اُنہیں جرمنی کی خوفناک بمباری سے محفوظ کرنے کے لئے لاکھوں برطانوی بچوں کے ساتھ کینیڈا بھیج دیا گیا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی سے ڈگری لینے کے بعد وہ فوج میں بھرتی ہوئے، کمیشن لے کر سیکنڈ لیفٹیننٹ بنے اور اسی عہدے سے ریٹائر ہوکر سب سے مہنگی کار بنانے والی کمپنی رولز رائس میں بطور انجینئر ملازم ہوئے جس کے ایک زمانے میں اُن کے والد ڈائریکٹر تھے۔ وہ آزادی کشمیر کے اتنے جانے پہچانے علمبردار تھے کہ جب اُنہوںنے سرینگر جا کر حریت پسندوں سے ملنے کا منصوبہ بنایا تو بھارتی حکومت نے اُنہیں ویزا دینے سے انکار کر دیا۔ اسرائیلی حکومت بھی اُنہیں ویزا نہ دینے کی پالیسی پر سختی سے کاربند رہی۔ لندن میں آئے دن مظاہرے ہوتے رہتے ہیں،کشمیریوں کا مظاہرہ ہو یا فلسطینیوں کا، میں نے اپنے بڑے بھائی کو ہمیشہ اُس کی قیادت کرتے دیکھا، بڑھاپا آڑے آتا نہ ہی ناسازیٔ طبع۔ وہ سائیکل چلا کر ہائوس آف لارڈز جایا کرتے تھے۔ بدقسمتی سے ایک دن اتنے بڑے حادثے کاشکار ہوئے کہ پیٹ میں ایک انتڑی شدید زخمی ہوگئی مگر یہ حادثہ بھی اُنہیں ہائوس آف لارڈز کے اجلاس میں اپنی باری پر تقریر کرنے سے نہ روک سکا۔ لیڈی ایوبری نے اپنے شوہر کو دوبارہ سائیکل چلانے کی اجازت نہ دی۔ صد افسوس کہ ایک وفا شعار بیوی بھی اپنے پیارے شوہر کی رگوں میں بہنے والے خون کو کینسر کے مہلک حملہ سے محفوظ رکھنے میں ناکام رہی۔ اہل کشمیر سے اُن کا بہترین دوست، ایک غمگسار سے اس کا بڑا بھائی، لیڈی ایوبری سے ان کا رفیق حیات اور پانچ بچوں سے ان کا باپ ہمیشہ کے لئے جدا ہوگیا۔ 
اب میں لاہور جائوں گا تو لکشمی چوک کے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر، میرے ساتھ کشمیری چائے پینے والے ساتھی کی صرف یاد میرے ساتھ ہوگی۔ میں جب بھی لارڈ ایوبری کو پاکستان چلنے کی دعوت دیتا وہ ہمیشہ اپنی مصروفیت کا بہانہ بناتے تو میں جواباً لکشمی چوک کے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر کشمیری چائے پینے کی پیشکش کو بطور تُرپ کا پتا استعمال کرتا۔ میرا چلایا ہوا تیر عین نشانے پر بیٹھتا اور میرا ہم دم، میرا دوست رخت سفر باندھ لیتا۔ ایک دفعہ ہم دونوں کراچی گئے تو مزار قائد اعظم پر پھولوں کا نذرانہ پیش کرنے کا پروگرام بنایا۔ ہمیں پاک بحریہ کے چاق و چوبند دستہ نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ہم نے مزار کی طرف قدم بڑھائے تو فوجی بینڈ نے اپنی روایتی دُھن بجائی۔ پاک بحریہ کا دستہ تو اس دھن پر مارچ کرنے کا عادی تھا، میرے ہم قدم ایرک نے (اپنی فوجی تربیت کی وجہ سے) ان کا اس مہارت سے ساتھ دیا کہ پاک بحریہ کے افسر حیران رہ گئے۔ اچھا ہوا کہ لیڈی ایوبری نے فیصلہ کیا کہ رسم تدفین میں صرف قریبی رشتہ دار شریک ہوںگے، لہٰذا میں ایک بڑے ذہنی صدمہ سے بچ گیا۔ لارڈ ایوبری اپنے والدین کے قدموں میں بارہ فروری کو سپرد خاک کردیے گئے۔ میں اپنے مغموم دل کی یہ کہہ کر ڈھارس بندھاتاہوں کہ جانے والا جا چکا ہے مگر (فیضی کے شعرکے مطابق) وہ میرے دل میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں