جہاں گرد کی واپسی

مناسب ہو گا کہ آج کے کالم کا آغاز ہی اپنے پیارے قارئین سے معافی مانگنے سے کیا جائے۔ آج کے کالم کا عنوان تعلّی اور مبالغہ آرائی کی بہترین مثال ہے۔ کہاں یہ مسکین کالم نگار اور کہاں یونانی داستانوں کا ہیروOdysseyus جو ہومر ( Homer) سے منسوب ہے۔ 24کتابوں پر مشتمل طویل رزمیہ نظم Iliaid کا مرکزی کردار تھا۔ جناب محمد سلیم الرحمن کا بھلا ہو کہ اُنہوں نے کمال کاوش سے اس کا اُردو میں ترجمہ کیا اور اس کا عنوان رکھا ''جہاں گرد کی واپسی‘‘۔ یہ کتاب مکتبہ نیا ادارہ نے تقریباً ساٹھ سال پہلے شائع کی۔ اُس زمانہ کے حساب سے قیمت اتنی کم (اندازاً پانچ روپے) رکھی گئی جس قیمت میں (افراط زرِکے اس موسم میں) آپ اخبار بھی نہیں خرید سکتے۔ نصف صدی قبل جب یہ کالم نگار جلا وطنی پر مجبور ہو گیا تو اُس کے سامان میں نہ تصویر بتاں تھیں اور (مزید افسوس کا مقام ہے) نہ حسینوں کے خطوط بلکہ اُردو اورپنجابی کتابوں کا ایک چھوٹا سا ذخیرہ تھا (جو اب ترقی کرتے کرتے کافی بڑھ چکا ہے۔) اُس ذخیرہ میں یہ کتاب بھی شامل تھی، اور میں اُسے ہر سال پڑھ کر اپنا ایمان تازہ کرتا ہوں۔
میرا سفر سات فروری کی شام کو لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ سے شروع ہوا اور اگلی صبح آٹھ بجے کراچی ایئرپورٹ پر ختم ہوا۔ سارا سفر دُنیا بھرکے اچھے اچھے اخبارات پڑھتے گزرا۔ جب تھک گیا اور ارادہ کیاکہ سو جائوں تو جہاز کی خوش سلیقہ میزبان خاتون نے مجھے جگا کر زبردستی ناشتہ کرایا اور مجھے جہاز سے اُترنے کی تیاری کرنے کی ہدایت کی۔ ہوائی اڈہ سے سیدھا ہوٹل گیا اور وہ کام کاج شروع کر دیا جو اس سفر کا جواز تھا۔ قومی مجلس مشاورت کے سہ ماہی اجلاس میں شرکت کی جس میں یہ فیصلہ متفقہ طور پر کیا گیا کہ یہ طے شدہ امر ہے کہ قومی مسائل صرف قومی اتفاق رائے سے حل ہو سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتیں ذہنی طور پر اتنی بانجھ اور بنجرہیں کہ قومی مسائل کا حل تک نہیں سوچ سکتیں اور اگر سوچنے کا کٹھن مرحلہ طے کر بھی لیں تو اتفاق رائے کی برکت سے محروم رہتی ہیں۔ اس خلا کو صرف سول سوسائٹی کے دانشور‘ تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے‘ وُکلا‘ مساجد کے امام صاحبان‘ مندروں کے پروہت‘گرجا گھروں کے پادری صاحبان ۔ کسان۔ مزدُور اور سماجی تنظیموں کے ترجمان مل کر پُر کر سکتے ہیں۔ خوشی کی بات ہے کہ چھ ہزار میل کے فاصلہ سے ایک گمنام شخص کی دعوت پر پچاس لوگوں نے مجلس مشاورت میں شرکت کی‘ جن میں سندھ ہائی کورٹ کے ممتاز وُکلا‘ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے راہنما‘ تحریک پاسبان کی ساری قیادت‘ ڈاکٹر ابو بکر شیخ‘ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور ایک اُبھرتی ہوئی سیاسی جماعت (Social Justice Movement) کے قائد جناب ظہیر الحق شریک ہوئے۔ جناب آفتاب نبی اور ان کے ساتھیوں کی کمی شدت سے محسوس کی گئی کیونکہ گذشتہ اجلاس میں ساری حاضری اُن کے دوستوں پر مشتمل تھی۔ یہ ہوتا ہے کراچی جیسے شہر میں اتوار کو اجلاس کرنے کا شاخسانہ۔
میںاپنے میزبان جناب رحمت اللہ راجرصاحب کا شکرگزار ہوں کہ وہ اگلے دن صبح سویرے جاگے اور مجھے اپنی کار میں حیدرآباد لے گئے۔ میں نے زندگی میں پہلی بار کراچی سے حیدر آباد کا موٹروے پر سفر کیا اور راستہ میں جو کچھ دیکھا اُس پر کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ حیدر آباد کا مطلب ہے سندھ اور سندھ کا مطلب ہے شاہ عبدالطیف بھٹائی ؒ۔اُس مقدس سرزمین سے میری محبت کا جذبہ مجھے وہاں لے گیا۔ محبت کا جذبہ آپ کو اپنے محبوب کے پاس کشاں کشاںلے جاتا ہے اور (جذبہ زیادہ سچا اور کھرا ہو) تو آپ کا محبوب (دھاگے کے کچا ہونے کے باوجود) چل کر آپ کے پاس آجاتا ہے۔ سندھ تو میرے پاس آنے سے رہا ۔ اس لیے میں اس کی خدمت میں حاضر ہوا۔ بسم اللہ سندھ یونیورسٹی کے شعبہ قانون میں برطانوی قانون اور آئین کے تعارفی لیکچر سے ہوئی‘ جو ڈیڑھ دو سو کے قریب طلباء اور طالبات نے بڑی توجہ سے سنا اور لیکچر کے آخر میں طلباء نے ذہین سوال کئے اور صدر شعبہProf. Jhamat Jethanand نے مجھے خوبصورت اجرک کا تحفہ دیا،جو میں لندن کی ہر سماجی تقریب میں اوڑھنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ اس کے بعد میں حیدرآباد ڈسٹرکٹ بار گیا۔ تقریر کا عنوان تھا ''پاکستان کو کس طرح بچایا جا سکتاہے‘‘۔ دوپہر کا کھانا حیدر آباد جم خانہ کی تاریخی عمارت میں جبار صاحب کی دعوت پر کھایا اور مقامی کاروباری شخصیات سے ملاقات ہوئی۔ بعد دوپہر حیدر آباد پریس کلب گیا جہاں سب کارکن صحافی بڑی محبت اور اپنائیت سے ملے اور مفید تبادلۂ خیال ہوا۔ پی آئی اے کی ہڑتال کی وجہ سے پروازیں بند تھیں۔ لاہور کی پرواز کے لئے پہلے سے خرید اہواٹکٹ میری جیب میں دھرے کا دھرا رہ گیا اور میں چھ بجے شام حیدر آباد کے گرد آلود مگر دلفریب ریلوے اسٹیشن سے ایک تیز رفتار ٹرین پر سوار ہو کر لاہور کی طرف روانہ ہوا۔ سولہ گھنٹوں کے صبر آزما سفر کے بعد بخیرو عافیت (یہ کوئی معمولی کارنامہ نہ تھا) اگلے دن صبح لاہور کے اُس تاریخی ریلوے اسٹیشن پر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا جس سے میری بڑی خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔
لاہور میں قومی مجلس مشاورت کے نویں اجلاس میں شرکت وہاں قیام کی سب سے قابل ذکر بات ہے۔ اگلے دن میاں نعیم بشیر صاحب کی دعوت پر جہلم گیا۔ ڈسٹرکٹ بار میں تقریر اور مقامی پریس کلب کے (میرے اندازہ سے چار گنا زیادہ) اراکین سے تبادلہ ٔ خیال کے درمیانی وقفہ میںفائقہ بی بی کے ساتھ قلعہ رہتاس دیکھنے کا نہ بھولنے والا مسرت آمیز تجربہ ہوا۔ اگلے دن صبح سویرے جہلم سے گوجرانوالہ گیا۔ قبل دوپہر گوجرانوالہ میں اسلامیہ کالج میں ایم اے کے طلباء اور طالبات کو برطانوی آئین پر لیکچر دیا ۔ اس کے بعد ڈسٹرکٹ بار سے خطاب کیا۔ ڈسٹرکٹ باربعد دوپہر سیالکوٹ میں جناب عبداللہ سلیم اور غزالہ عدنان بھٹی کے 30 وکیل ساتھیوں اور مقامی پریس کلب کے 15 اراکین سے ملاقات نے بوڑھے دل کو اتنی خوشی اور اتنی تقویت دی کہ وہ کئی سالوں تک میرے حوصلہ (جو اکثر پست رہتا ہے) کو بلند کرنے کے لئے موثر ثابت ہوگی۔
میں لاہور میں اپنے نوجوان میزبان میاں خالد محمود کو دعائیں دیتا ہوا (جس نے تین دن تک میرے لئے صبح سے شام تک کار چلائی) دوبئی روانہ ہوا اور وہاں ایک دن رُک کر لندن واپس آگیا۔اگلی سطریں پڑھ کر میرے قارئین کے دل میں میرے لئے یقینا ہمدردی کے جذبات پیدا ہوں گے۔ دوبئی سے لندن کی پرواز کے دوران یہ کالم نگار مارچ کے آخری ہفتہ میں اپنے اگلے طوفانی دورہ کی منصوبہ بندی کرتا رہا۔ کس کس دن کہاں کہاں جانا ہوگا ؟اور کیا کچھ کرنا ہوگا؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اس نام نہاد اور خود ساختہ ''جہاں گرد‘‘ کی ایک اور وطن واپسی کا تذکرہ ماہ اپریل میں پڑھنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ بچپن میں پڑھاتھا کہ سفر وسیلۂ ظفر (یعنی کامیابی) ہے۔ اس کے باوجود کہ میرے لئے سفر زیادہ تر مالی نقصان کا باعث بنتے ہیں‘ میں اپنے آپ کو سزا دینے کے لئے باقاعدگی سے (انگریزی Verb کے مطابق) Suffer کرتا رہتا ہوں۔
میں اپنے آبائی وطن سے اپنے دُوسرے یعنی اختیار کردہ (Adopted) وطن واپس آیا تو خوش قسمتی سے اتوار کا دن تھا۔ جو اُونگھتے اور وقفہ وقفہ کے بعد بے آرامی کے کئی دنوں کی نیند پوری کرتے گذرا۔ جونہی آنکھ کھلتی تھی‘ میں گذشتہ ہفتہ کے اخبارات پڑھ لیتا تھا۔ دلچسپ خبریں تو بہت سی تھیں‘ میں آپ کو صرف دو سناتا ہوں۔ پہلی خبر: جنوبی یورپ کے ملک بلغاریہ سے آئی۔ یہ ملک یورپی یونین سے 673 ملین یورو (یعنی 570 ملین پائونڈ) کا قرض لے کر ایک موٹروے تعمیر کر رہا تھا جو جرمنی کو یونان سے ملا دے گی۔ (لگتا ہے اُس ملک کا وزیراعظم ہمارے شاہراہوں کے دلدادہ وزیراعظم کے نقش قدم پر چل رہا ہے)سڑک بنانے کا کام خوش اسلوبی سے آگے بڑھ رہا تھا کہ اچانک یہ انکشاف ہوا کہ موٹروے ایک ایسی برف پوش وادی میں سے گزرے گی‘ جو سنہرے پروں والے عقابوں کا نشیمن ہے۔ یہاں سڑک بنانے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ان عقابوں کا نشیمن تہہ و بالا ہو جائے گا۔ وہ بے چارے قصر سلطانی کے گنبد پر (اقبال کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے) پہلے بھی نہیں بیٹھتے تھے۔ اب اُن کا مسکن یعنی پہاڑوں کی چٹانیں بھی اُن سے چھین لی جائیں گی۔ وہ جائیں تو جائیں کہاں؟ اگر عقاب گانے کا فن جانتے تو طلعت محمود کے گائے ہوئے گیت کی آواز اس وادی سے ضرور بلند ہوتی۔ یہ خبر برسلز پہنچی تو یورپی یونین نے مزید رقم دینے سے ہاتھ روک لیا۔ یہ خبر عقابوں تک پہنچی تو اُنہوں نے سکھ کا سانس لیا۔ دُوسری اور آخری خبر ۔ مشرقی افریقہ کے ملک یوگنڈا (Uganda)کے صدر (Mussoveeni) کا 30 سال تک برسر اقتدار رہنے کے بعد بھی دل نہیں بھرا اور وہ چھٹی بار صدارتی انتخاب لڑنے (اور دھن دھونس دھاندلی سے کامیابی حاصل کرنے)کا پختہ ارادہ رکھتا ہے۔ ادھر جنوبی امریکہ کے ایک ملک Bolivia کے اشتراکی ذہن رکھنے والے صدر (Morales) دس سال کے بعد اقتدار سے سبکدوش ہونا چاہتے ہیں مگر وہ اتنے ہر دل عزیز اور عوام دوست ہیں کہ عوام اُنہیں تیسری بار اپنا صدر بنانے پر مصر ہیں۔ ہمارے ہاں قحط الرجال ہے۔ کتنا اچھا ہو کہ ہم بولیویا (Bolivia )کے لوگوں کی منت سماجت کر کے اُن سے اُن کا درویش صفت قائد صرف پانچ سالوں کے لئے اُدھار مانگ لیں تاکہ ہماری لاٹری بھی نکل آئے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں