دو خار زار اور تین آبلہ پا

اس کالم نگار نے آٹھویں جماعت تک اُردو پڑھی۔ اُردو ادب بڑے ہوکر پڑھا اور ابھی تک پڑھ رہا ہوں۔ مانگے تانگے کے الفاظ اور ترکیبوں سے کام چلاتا ہوں۔ جو چند اشعار یاد ہیں اُنہیں کالم میں باربار اور بے دریغ لکھتا ہوں۔ آج کے کالم کا عنوان ہی دیکھیں۔ بقول غالبؔ: کانٹوں کی زبان پیاس سے سُوکھ جائے تو دُعا مانگتے ہیں کہ کوئی آبلہ پا ہی اُدھر آنکلے تاکہ کانٹے اپنی پیاس چھالوں سے نکلنے والے پانی سے بجھا سکیں۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، خدا کی بستی میں ایسے دیوانہ صفت آبلہ پا لوگوں سے تاریخ بھری پڑی ہے جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ اُنہیں بھولے سے بھی کسی ایسی جگہ قدم نہیں رکھنا چاہئے جہاں پائوں زخمی ہونے اور چھالوں سے پانی بہنے کا تھوڑا سا بھی خطرہ ہو، وہ جان بوجھ کر خار زار کا رُخ کرتے ہیں۔ ان کا جو بھی حشر ہو، وہ کانٹوں کی پیاس بجھا کر اپنا شوق شہادت پورا کرتے ہیں۔ اس قبیل کے لوگ آتش نمرود میں بھی بے خطر کود پڑنے کا ناقابل رشک ریکارڈ رکھتے ہیں۔ وہ اس کالم نگار کی طرح رواجی لوگ نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ ازل سے عقل محوِ تماشائے لبِ بام ہے اور ابد تک رہے گی۔ میرے قارئین میں سے جن لوگوں نے ( قبل مسیح دورکے) یونانی ڈرامے پڑھے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ان ڈراموں کا مرکزی کردار تصادم اور رزم آرائی میں شکست کھاتا ہے۔ ناکام رہنے کے باوجود بھی وہ ہیرو ہے چونکہ اُس کا ذوق وشوق اتنا کمال کا ہوتا ہے کہ آخر تک حوصلہ بلند رکھتا ہے۔ 
اس طویل تمہید کی ضرورت یوں پیش آئی کہ میں گزشتہ اتواراپنی پرانی ڈگر پر سیر کرنے گیا تو کتابوں کی دُکان کی مقناطیسی کشش کی تاب نہ لاتے ہوئے اُس کے اندر چلا گیا اور دیر تک نئی کتابوں کو سونگھتا رہا۔ وہاں ایک ایسی کتاب دیکھی جس نے میرے پائوں پکڑ لئے۔ اس کے سحر میں اتنا گرفتار ہوا کہ دُوسری کتابوں کی طرف دھیان گیا نہ گھڑی کی طرف۔کتاب کا عنوان تھا ''کانٹوںکا شہر‘‘۔ جس آبلہ پا نے لکھی اُس کا نام ہے Ben Rainleaice ۔کانٹوں کے شہر کا نام داداب (Dadaab) ہے۔ مشرقی افریقہ میں یہ کینیا اور صومالیہ کی سرحد پر واقع ہے۔ یہ 1992ء میں معرض وجود میں آیا۔ خانہ جنگی کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے نوے ہزار پناہ گزینوں نے اسے آباد کیا۔ اب وہاں کی آبادی بڑھتے بڑھتے ساڑھے تین لاکھ تک جا پہنچی ہے۔ یہ دُنیا بھر میں پناہ گزینوں کا سب سے بڑا کیمپ ہے۔ یہاں صومالیہ، سوڈان اور ایتھوپیا سے جان بچا کر بھاگنے والوں نے بڑی تعداد میں بچوں کو جنم دیا۔ جن بچوں نے اس مہاجر کیمپ میں آنکھ کھولی، بعید نہیں کہ ایک دن اُن کی آنکھ اسی کیمپ کی حدود میں ہی ہمیشہ کے لئے بند ہوجائے۔کتاب کا مصنف انسانی حقوق کے ایک ادارے کے ملازم کی حیثیت سے وہاں اپنے فرائض منصبی ادا کرنے گیا۔ یہ چھ سال پرُانی بات ہے۔ وہاں کافی عرصہ رہا اور اب بھی بار بار وہاں جا کرکیمپ کے باسیوں کے ساتھ رہتا ہے۔۔۔۔ خار زار سے اپنی آبلہ پائی کا رشتہ استوار رکھنے کے لئے۔
صومالیہ کی خانہ جنگی سے جان بچا کر بھاگنے والے یہ سب لوگ مسلمان ہیں۔ وہ ہتھیاروں کا استعمال جانتے ہیں، سیاسی شعور بھی رکھتے ہیں اور یہی عناصر مل کر اُن کی بدبختی کا باعث بنے۔ کینیا کی حکومت اور اُس کی سرپرست مغربی حکومتیں ان مہاجر ین کو دہشت گرد یا دہشت گردوں کا ہمدرد سمجھتی ہیں اس لئے انہیں انتہائی شک و شبے بلکہ خوف کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ زمین سخت ہے اور آسمان دُور! وہ جائیں تو جائیں کہاں؟ 
بے بس، بے کس، لاچار، بے یارو مددگار لوگوں کا کوئی والی وارث نہیں۔ اُن کی حالت پاکستان میں وزیرستان سے مفرور یا حفاظتی تدبیر کے پیش نظر نکالے جانے والوں سے کئی گنا زیادہ خراب ہے۔ ہمارے سرکاری ترجمان اور باشعور اخبارات اُنہیں IDP یعنی(Internally Displaced Persons) کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں قبائلی علاقوں کے کئی لاکھ افراد ( بشمول پردہ دار خواتین اور شیر خوار بچے) عرصہ سے جیل نما کیمپوں میں مقید ہیں۔ وہ خوش قسمت لوگ جو ان کیمپوں سے باہر ہیں، ان کی حالت زار سے بے تعلق اور بے حسِ ہیں۔ جب کتنے ہی اور عذاب ٹوٹ پڑیں تو پہلی مصیبتوں کو کون یاد رکھے گا؟ 
آئیے اب ہم واپس داداب چلیں جہاں پناہ گزینوں کو کم خوراک اتنی کم ملتی ہے کہ گھرانے کا سربراہ فاقے کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ دُنیا کے اس سب سے بڑے مہاجر کیمپ سے صرف چند میل کے فاصلے پرایک عرب ملک میں ہزاروں ارب پتی رہتے ہیں مگر اُن کے کان میں پرجوں تک نہیں رینگتی۔ وہ اک نگاہِ غلط انداز سے بھی بحیرۂ احمر کے اُس پار نہیں دیکھتے، جہاں اُمت مسلمہ کے لاکھوں افراد عذابوں سے بھری ایسی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ خدا بھلا کرے بھارت کے ایک (غیر مسلم) مخیر شخص کا جس نے راجستھان میں ایک انوکھا اور عملی تربیت دینے والا تعلیمی ادارہ قائم کیا ہے اور اس کا نام رکھا ہے Bare Foot College ۔ اس ادارے کے لوگ تعلیم و تربیت دینے کے لئے پیدل چل کر دیہات میں جاتے ہیں۔ دیہاتیوں کے ساتھ رہتے ہیں، اُنہیں فنون سکھانے اور ہنر مند بنانے کا کام بلامعاوضہ کرتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں صدقہ جاریہ۔ 
یہ تو تھا پہلے خار زار کا تذکرہ جس کو بیان کرنے کا مقصد انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنا (بلکہ کانٹے چبھونا) تھا۔ میرے قارئین یہ سطور پڑھ کر ہنسیں گے کہ ہم تو وہ بے حس اور سنگ دل لوگ ہیں جو تھر کے قحط کو بھی خاطر میں نہیں لاتے، یہ مہاجر کیمپ کس باغ کی مُولی ہے؟ ہم یہ جانتے ہیںکہ ہماری دیہاتی آبادی کا نصف بے زمین ہے اور ان کروڑوں لوگوں کا پیشہ کاشتکاری ہے۔ وہ ایک انچ زمین کے بھی مالک نہیں جس پر وہ ہل چلا کر اُس کی پیداوار اپنے گھر لا سکیں۔ یہ انتہائی تلخ حقیقت بھی ہماری آنکھیںکھولنے میں ناکام رہی۔ 
ایف سی کالج لاہورکے پروفیسر ڈاکٹر اکمل حسین اور امریکہ میں Keene State College کے لیکچرر جناب دانش خان زرعی اصلاحات کے لئے لاکھ مغز ماری کریں، ہم اُن کی تحریریںکیوں پڑھیں؟ اور اگر دل پر جبر کر کے پڑھ بھی لیں توکفارکی دانش گاہوں میں پڑھے ہوئے دانشوروں کی بات پلے باندھیں یا مولانا مودودی (مرحوم) کی کتاب ''مسئلہ ملکیت زمین‘‘ میں لکھے ہوئے فتوے کو مانیں جس میں جاگیرداری کو عین اسلامی اورہر قسم کی زرعی اصلاحات کو اسلامی اُصولوں کے منافی قرار دیا گیا ہے۔ 
آیئے ہم آگے بڑھتے ہیں۔ دوسرا خار زار مشرقی افریقہ کے مقابلہ میں ہمارے بہت قریب ہے اور اُس کا نام ہے ہندوستان۔ جس میں دو آبلہ پا پیدا ہوئے اور نہ صرف اپنے چھالوں سے بہتے پانی بلکہ اپنے جسم سے بہتے خون سے ہماری تاریخ پر وہ نقوش مرتب کئے جو کبھی مٹ نہیں سکتے۔ سفید فام غلاموں کی تجارت کے حوالے سے قوموں بالخصوص انگریزوں کے حصے میں بڑی بدنامی آئی اور بجا طور پر آئی مگر آپ نے سنا ہوگا کہ بد اچھا بد نام برُا۔ بد کون تھا؟ جزیرہ عرب میں رہنے والے عرب بحری تاجر۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں حضرت بلالؓ کا نام ایک روشن ستارے کی طرح جگمگاتا ہے۔کیا آپ نے کبھی سوچا کہ جب وہ مقامی شخص نہ تھے تو مکہ میں رہائش پذیر کیوں تھے؟ وہ یقیناً افریقہ میں پیدا ہوئے اور وہاں سے بطور غلام سرزمین عرب لائے گئے اور وہاں اُس شخص کے غلام بنے جس نے بولی میں اُن کی زیادہ قیمت لگائی۔ غالباً وہ حبش (آج کے ایتھوپیا) کے رہنے والے تھے چونکہ ان کا پورا نام بلال حبشی تھا۔ اسلام کی مبارک روشنی پھیلی تو کئی بت منہ کے بل گرے،کئی زنجیریں ٹوٹیں جن میں حضرت بلالؓ کی غلامی کا خاتمہ بھی تھا۔ سولہویں صدی میں مسلمان عرب تاجروں نے افریقہ سے ایک کم عمر نوجوان کو اغوا کر کے ہندوستان میں بطور غلام فروخت کر دیا۔ وہ جن گھروں میں پلا پڑھا، اُنہوں نے اسے مشرف بہ اسلام کر لیا۔ یہ حبشی نوجوان کئی خوبیوں کا مالک تھا۔ کئی زبانیں جانتا تھا۔ آبپاشی کی انجینئرنگ سے لے کر حسن انتظام کے رُموز سے واقفیت اورحساب کتاب کی تیاری میں مہارت رکھتا تھا۔ وُہ دکن کی ریاستوں میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ سونے پر سہاگہ والا معاملہ یوں ہوا کہ اُس نے فن سپہ گری بھی اتنا اچھا سیکھا کہ جرنیل کے عہدہ تک جا پہنچا۔ وہ جس حکمران کا غلام تھا اُس کی وفات پر خود تخت نشین ہو گیا۔ اُس کی فوج پچاس ہزار گھڑسواروں پر مشتمل تھی جو اکبر اور جہانگیر کے دور میں جنوبی ہندوستان میں مغلوںکی کشور کشائی کے خلاف ناقابل تسخیر دیوار بن گئی۔ اس آبلہ پا کا نام ملک امبر تھا۔ اس افسانوی کردار کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے آپ کو میری وہ کتاب خرید کر پڑھنا ہوگی جو ابھی میرے دل و دماغ کے نہاں خانوں میں زیر ترتیب ہے۔
تیسری آبلہ پا ایک خاتون ہیں جن کا سو فیصد تعلق سرزمین ہندوستان سے تھا۔ نام تھا لکشمی بائی۔ 1828ء میں پیدا ہوئیں اور جھانسی کی رانی کے نام سے مشہور ہو کر ہندوستان پر قابض گورا فوج سے لڑتے ہوئے 1858ء میں اپنی جان کی قربانی دی۔ وہ ہماری پہلی جنگ آزدای کے ہیرو تھیں، سب سے بڑی ہیرو۔ کالم کی محدود جگہ اجازت نہیں دیتی کہ اُن کے کمالات بتائوں۔ چالاک فلم سازوں کی طرح میں نے آپ کو فلم کا Trailer دکھایا ہے۔ پوری فلم دیکھنے کے لئے آپ کو زیادہ دام خرچ کرنے پڑیں گے اور چند سال انتظار بھی کرنا ہوگا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں