علموں بس کریں اویار!

غالباً دُنیا کے ہر ایک ملک میں شاعری لکھی‘ پڑھی یا سنی جاتی ہے۔ اسی طرح دُنیا کا شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جس میں صوفیا اور تارک الدنیا درویش نہ ہوں ۔ مگر یہ فقید المثال اعزاز دُنیا بھر میں صرف سرزمین پنجاب کو حاصل ہے کہ اس کے صوفیا اتنے اعلیٰ درجہ کے شاعرہیں۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ آج بھی ہمارے ہاں صوفی موجود ہیں مگر گمنام ہیں اور اپنے روحانی مراتب کو ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ شعراء کی تعداد ماشاء اللہ سینکڑوں میں نہیں ہزاروں میں ہوگی مگر ان میں ایک بھی ایسا نہیں جس کا تصوف سے دُور کا بھی تعلق واسطہ ہو۔ آج کا کالم لکھنے کی تین چار وجوہ ہیں۔ ایک تو وہ ہے جس کی وجہ سے حضرت بلھے شاہ یہ لکھنے پر مجبور ہو گئے کہ علموں بس کریں اویار۔ دُوسری دو وجوہ علامہ اقبال نے لکھیں اوّل: عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان۔ اپنی خودی پہچان‘ او غافل افغان! جو عالم فاضل اپنے دین ایمان کو فروخت کرنا شروع کر دے‘ اُس سے بڑھ کر علم و فضل کی مٹی اور کون پلید کر سکتا ہے۔ دوسری وجہ اقبال کے اس شعر میں درج کی گئی ہے۔ ؎
کیا ہے تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا
صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ
مطلب یہ ہے کہ کتابوں کے مطالعہ نے پڑھنے والے کی اتنی مت مار دی کہ وہ کرم کتابی (کتابوں کا کیڑا) ہوا کے جھونکوں میں پھولوں کی خوشبو محسوس کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو گیا۔ 
آپ گدھے پر اینٹوں کی بجائے کتابوں کا انبار لاد دیں وہ بے چارہ انہیں بھی بلا حیل و حجت جی کڑا کر کے اُٹھا کر چل پڑے گا مگر اُس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کتابوں کے اندر لکھی ہوئی حکیمانہ باتوں کو بھی سمجھ لے گا اور آپ کو سمجھا سکے گا۔ پاکستان میں وُکلا کی تعداد ایک لاکھ کے قریب تو ہوگی مگر وہ نظام انصاف میں اصلاح کے لئے ایک لفظ زبان سے ادا نہیں کرتے۔ تعلیمی درسگاہوں میں معاشیات کے اساتذہ کی تعداد بھی ہزاروں میں ہوگی۔ وہ ہمارے گلے سڑے معاشی نظام میں بہتری کے لئے ایک بھی تجویز پیش نہیں کرتے۔ ماسوائے چھ ماہرین معاشیات کے۔ جن کے اسمائے گرامی ہیں ڈاکٹر اکمل حسین‘ ڈاکٹر شاہد کاردار‘ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی‘ ڈاکٹر محمد یعقوب‘ سکندر حمید لودھی اور محمد احمد سبزواری ۔ ان میں سے دو تہائی اساتذہ نہیں‘ وہ اخبارات میں بصیرت افروز مضامین لکھ کر ہمارے لئے روشنی کے مینار ہونے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ 
پینڈو ہونے کے ناتے مجھے ایک لطیفہ یاد آیا جو میرے موقف کی بہترین وضاحت کرتا ہے۔ ایک دیہاتی نے اپنی ساری زمین فروخت کر کے اپنے چار بیٹوں کو قانون کی تعلیم دلائی۔ ایک دن گائوں میں جھگڑا ہو گیا جس میں معمول سے زیادہ تشدد استعمال ہونے کا خطرہ پیدا ہوا۔ یہی دیہاتی اُس جھگڑے کا مرکزی کردار تھا۔ دُشمنوں نے اس کے گھر پر ہلّا بولا تو اُس نے اپنے بیٹوں کو آواز دی کہ جلدی سے اپنی اپنی بندوق پکڑو اور جوابی فائرنگ شروع کر دو تاکہ دُشمن بھاگ جائے یا جان سے ہاتھ دھو بیٹھے (بھاگنے کے قابل بھی نہ رہے)۔ خطرہ میں گھرے باپ نے ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا تو چاروں بیٹوں نے ایک دُوسرے کو مشورہ دیا کہ اگر ہم نے جوابی کارروائی کی تو ہم چاروں ضابطہ فوجداری کی کسی نہ کسی دفعہ کی خلاف ورزی کریں گے اس لئے بہتر یہ ہوگا کہ ہم مشتعل نہ ہوں اور گھر سے باہر نہ نکلیں اور نقضِ امن کے مرتکب نہ ہوں۔ جب باپ نے یہ صورت حال دیکھی تو اُس نے آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر دُعا مانگی کہ یا خدا تو میرے چاروں وکیل بیٹے لے لے اور مجھے ایک ایسا اَن پڑھ بہادر بیٹا دے دے جو میرے دُشمنوں پر لاٹھی لے کر ٹوٹ پڑے اور اگر اُس کے پاس بندوق ہو تو میرے دُشمنوں پر گولیوں کی بارش کر دے۔ 
میں بھی مختلف سیاق و سباق میں یہی دُعا مانگتا ہوں۔ آج وطن عزیز پر دُشمنوں کی یلغار ہے۔ دُشمن بیرونی نہیں بلکہ اندرونی ہے۔ اوروہ ہے موجودہ نظام (Status Quo)جو ہمارے ہاتھ کی ہتھکڑی اور ہمارے پائوں کی بیڑی بن کر ہمیں اپاہج بنانے کا ذمہ دار ہے۔ قانون دان تعداد میں ایک لاکھ ہونے کے باوجود قانون کی حکمرانی کے لئے نہ ایک لفظ بولتے ہیں اور نہ اپنی چھوٹی انگلی ہلاتے ہیں۔ یہی حال معاشیات کے ہزاروں اساتذہ کا ہے۔ اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے؟ بقول اقبال اگر حضرت موسیٰ کے پاس وہ عصا ہی نہ ہو جس کا وہ عملی استعمال کر کے فرعون کا مقابلہ کر سکیں تو ان کی کلیمی (اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا اعزاز) کار بے بنیاد (بے معنی اور بے اثر اورزیادہ سخت لفظ استعمال کیا جائے تو فضول ہے۔) یہ نیم خواندہ کالم نگار پاکستان کے ہزاروں دانشوروں سے مخاطب ہو کر پوچھتا ہے کہ کہاں ہے آپ کا عصا؟ کہاں ہے آپ کا کلیمی کا دعویٰ؟ نہ کلیمی نہ عصا‘ نہ علم نہ عمل‘ نہ ذوق و شوق‘ نہ ذہن کی موجوں میں اضطراب‘ نہ حرکت و انقلاب‘ نہ وہ افکار تازہ جس سے جہان نو جنم لے سکیں۔ ذہن مفلوج ہیں اور بازو شل۔ اگر انسانی اقدار سے عشق کی آگ بجھ جائے تو اندھیرا چھا جاتا ہے۔ پھر آدمی بظاہر تو زندہ ہوتا ہے مگر اقبال کی نظر میں راکھ کا ڈھیر۔ یہ ہے مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک 56 مسلم ممالک (جن میں مسلمان رہتے ہیں اور ان پر اسلامی ہونے کی تہمت لگائی جاتی ہے) کا منظر نامہ۔ اقبال کو مسلمان نوجوانوں کی تن آسانی لہو رُلاتی رہی۔ اُنہوں نے مسلمان نوجوان سے پوچھا کہ آپ نے کبھی تدبر کیا؟ مطلب یہ ہے کہ کبھی اپنے گریبان میں جھانکا؟ کبھی سوچا کہ وہ کون سا گردوں تھا جس کا تو ایک ٹوٹا ہوا تارا ہے۔ کبھی علم کے وہ موتی یاد آئے جنہیں یورپ کے کتب خانوں میں دیکھیں تو دل ہوتا ہے سی پارا۔ یہ ہے وہ صدمہ جو یہ کالم نگار یورپ میں نصف صدی کے قیام میں مسلسل اُٹھا رہا ہے اور مڑ کر عالم اسلام کی طرف دیکھتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ چھپن اسلامی ممالک‘ اسلام پر بھی عالمی معیار کی اچھی کتاب لکھنے کی توفیق نہیں رکھتے۔ وہ بھی Karen Armstrong لکھتی ہیں اور ان جیسے دُوسرے مستشرقین ۔ برطانوی یونیورسٹی کیمبرج کے پروفیسر آرنلڈ اقبال کے اُستاد تھے ۔ انہوں نے اقبال کے فکر کو کتنی جلا بخشی وہ آپ آرنلڈ کی یاد میں اقبال کی لکھی ہوئی نظم میں خود پڑھ لیں۔ مشرق بعید میں چین‘ جاپان‘ کوریا جیسے ممالک نے تعلیم کے فروغ سے ترقی کی۔انہوں نے ایک ایسا سیکولر نظام قائم کیا جس کی بنیاد مذہبی عقائد پر نہیں بلکہ انصاف‘ مساوات‘ انسان دوستی اور قانون کی حکمرانی پر رکھی گئی۔ ہمیں مندرجہ بالا اُصولوں کو اپنانا ہوگا ورنہ ہمارے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جائیں گے۔علم کیمیا اور طبیعات کی طرح سماجیات بھی سائنس ہے اور اس کے اپنے اٹل اُصول ہیں۔ آپ کو ان اُصولوں کا اس طرح احترام کرنا پڑے گا جس طرح کشش ثقل کا۔ اللہ تعالیٰ نے جو قوانین بنا دیئے ہیں آپ اُس کی خشوع وخضوع سے عبادت کر کے ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے کا لائسنس (اجازت نامہ) حاصل نہیں کر سکتے۔
29 فروری (یہ دن صرف چار سال کے بعد آتا ہے) کو یہ سطور لکھی جاری تھیں کہ شمالی افریقہ کے سب سے بڑے ملک الجزائر کے حسین آیت احمد کی 89 کی عمر میں وفات کی خبر آئی۔ سارے ملک میں اُن کا سوگ سرکاری اور غیر سرکاری طور پر منایا جائے گا۔ اُن کا نام فرانسیسی زبان میں یوں لکھا جاتا ہے۔ Hocine AiiT Ahmed ۔ 1962 ء میں الجزائر نے فرانس کے خلاف زبردست گوریلا جنگ لڑ کر آزادی حاصل کی۔ مرحوم جنگ آزادیِ کے اُسی محاذِ آزادی ( F.L.N) کے صف اوّل کے راہنما تھے۔ اُنہیں 1948 ء میں گوریلا حریت پسندوں کی پہلی جنگی کارروائی کی قیادت کرنے کا اعزاز حاصل تھا۔ اس تحریک کی قیادت جن نو راہنمائوں کے ہاتھ میں تھی (جن میں احمد بن باللہ بھی شامل تھے) وہ اب اُن میں زندہ رہ جانے والوں میں آخری تھے۔ برطانوی اخبار گارڈین نے اُن کی شہاب ِثاقب جیسی زندگی پر بہت اچھا تعزیتی مضمون شائع کیا۔ افسوس کہ کالم کی محدود جگہ اُس کا ترجمہ کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ الجزائر آزاد تو ہو گیا مگر وہاںعوام کی بجائے فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ مرحوم نے اپنے نام کی لاج رکھ لی۔ رسم حسین ؓ کو اپنایا۔ جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہا اور اس جرم میں 23 سال جلا وطنی کی سزا بخوشی کاٹی۔ وہ عرب نسل کے نہیں تھے بلکہ الجزائر کے پہاڑوں میں آباد بَربَر قبیلہ کی آنکھ کا تارا تھے۔ راسخ العقیدہ مسلمان ہونے کے باوجود وہ مذہبی پیشوائیت کے سخت مخالف تھے۔ اس لئے اُنہیں فوج اور دائیں بازو کے مذہبی حلقوں کی مشترکہ دُشمنی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کالم نگار نے 1960 ء میں پنجاب یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے الجزائر کی جنگ آزادی پر تحقیقی مضمون لکھا۔ خارجی ممتحن کا نام مرغوب صدیقی تھا۔ وہ شعبہ صحافت کا سربراہ تھا۔ انہوں نے میرا بڑی محنت سے لکھا ہوا مقالہ پڑھے بغیر اُٹھا کر غصہ سے دُور پھینکا اور بلند آوازمیںکہا کہ بندروں کی فوج اپنے حاکموں (فرانسیسی سامراج)سے آزاد ہو کر جنگل راج قائم کرنا چاہتی ہے اور تم اُن کی حمایت کرتے ہو۔ اس طرح کے اور بہت سے دل شکن واقعات نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں 1967 ء میں وطن عزیز سے ہجرت کر جائوں۔ وُہی پاک سرزمین کہ 1947 ء میں جو لاکھوں افراد مشرقی پنجاب سے پیدل چل کر وہاں زندہ سلامت پہنچ جاتے تھے تو سجدہ ریز ہو کر اس کی مٹی کو چُومتے تھے۔ اب آپ اندازہ لگالیں کہ اسے چھوڑتے ہوئے میرے دل پر کیا گزری ہوگی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں