پریشاں ہوکہ میری خاک آخر دل نہ بن جائے!

بال جبریل میں اقبال کی چھٹی غزل کا پہلا مصرع آج کے کالم کا عنوان بنا تو کیونکر؟19مارچ کو لندن سے شائع ہونے والے دُنیا کے غالباً سب سے معتبر اور موقر ہفت روزہ اکانومسٹ کے صفحہ نمبر 52 پر شائع ہونے والے مضمون اورلاہور کے اندرون شہر مسجد وزیر خان کی دلفریب تصویرکی وجہ سے۔ میرے بوڑھے دل کو جو پریشانیاں مستقل لاحق رہتی ہیں اُن کی فہرست کافی لمبی ہے۔ ایک بڑی پریشانی کا نام ہے پاکستان کے آثار قدیمہ۔ یہ صرف پاکستان ہی نہیں، بنی نوع انسان کا مشترکہ تہذیبی سرمایہ ہیں۔ لاہور میںکسی قدیم مغل عمارت کی ایک اینٹ ٹوٹ کر گرتی ہے تو برطانیہ میں بہت سے انگریزوں کا دل غم و اندوہ سے کئی انچ نیچے ہو جاتا ہے۔۔۔ رنگ فق اور چہروں پر ہوائیاں۔ دوسری طرف آپ کا کالم نگار شرم کے مارے منہ چھپائے پھرتا ہے۔ عالمگیریت کی وجہ سے ساری دُنیا بڑا سا گائوں بن گئی ہے۔ جو لوگ میری طرح پینڈو نہیں یا جن کی جڑیںکسی گائوں میں پیوستہ نہیں وہ بھی اس حقیقت سے واقف ہیں ہیں کہ شہروں (خصوصاً بڑے شہروں) کے مقابلے میں گائوں میں رہنے والے ایک گھرانے کے افراد کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ ایک دُوسرے کے دُکھ سکھ میں اس حد تک شریک کہ اپنے پڑوسی کے بارے میں یہ بھی جانتے ہیںکہ اُس کے صحن میں جلنے والے چولہے پر کون سی سبزی پکائی جا رہی ہے! چولہے کے نیچے لکڑی جل رہی ہے یا اُپلے (جو سیالکوٹ کی تحصیل پسرور میرے آبائی گائوں تلونڈی عنایت خان کا ٹریڈ مارک ہیں۔) اُپلے جلانے کے عمل سے ری سائیکلنگ کی بہتر مثال اورکیا دی جا سکتی ہے؟ کاربن ڈائی آکسائیڈ نہ کوئی اور زہریلی گیس پیدا ہوتی ہے جو فضائی ماحول کو آلودہ بنانے کے سنگین جرم کا ارتکاب کر سکے۔ 
میں جمعہ 25 مارچ کو دوپہر کے وقت اپنے آبائی گائوں پہنچا تو ہر گھر کے چولہے میں اَپلے جل رہے تھے۔ آبائی گائوں جانے کا مقصد یہ منظر دیکھنا نہیں بلکہ اپنے بڑے بھائی (محمد اسلم باجوہ) کے ایصال ثواب کے لئے برادری کے افراد کے ساتھ مل کر دُعائے خیر مانگنا تھا۔ لاہور واپس آیا تو ہر طرف نئی سڑکیں اور میٹرو ریلوے لائنوںکا بچھتا ہوا جال دیکھ کر دل بہت گھبرایا۔ احباب نے مجھے تسلی دی کہ میں فکر نہ کروں، میٹرو ٹرین (میرا سر تو اُن کے رنگوں کی تفصیل سُن سُن کر چکرا گیا) چوبرجی کو گرائے بغیر اُس کے نیچے سے اس طرح گزرے گی کہ اس تاریخی اور قدیم عمارت کو کوئی گزند نہ پہنچے گا۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔ سوچتا ہوں، میرے جو انگریز دوست لاہور یاترا کر چکے ہیں، میں اُن کی منت سماجت کروں کہ وہ میاں شہباز شریف کو مشترکہ خط لکھیں کہ آپ لاہورکا چاہے کتناحلیہ بگاڑ دیں لیکن از رہ کرم قدیم مغلیہ عمارتوں کا لحاظ کریں چونکہ وہ ساری دُنیا میں بسنے والے لوگوں کا تہذیبی سرمایہ ہیں، انہیں ذرہ بھر نقصان بھی پہنچا تو وہ ناقابل تلافی ہوگا۔ ہم کہاں سے وہ باکمال ہنر مند لائیںگے جو مسجد وزیر خان جیسی خوبصورت عمارتیں معرض وجود میں لا سکتے ہیں۔ صرف وہی نہیں، شالا مار باغ، بادشاہی مسجد، قلعہ لاہور، مقبرہ جہانگیر اور ان جیسی درجنوں مغلیہ دورکی قابل فخرنشانیاں!
میںنے وسط فروری میں اپنا سفر کراچی سے شروع کیا جہاں سب سے اہم مصروفیات چار تھیں۔ اوّل، کراچی یونیورسٹی کے شعبہ قانون میں ایم اے کے طلبا اور طالبات کو برطانوی آئین پر لیکچر دینا اور اس شعبہ کے سربراہ اور معزز ترین میزبان جناب جسٹس (ر) دوست محمد صاحب سے بطور تحفہ اجرک وصول کرنا۔ دوم، شہید بھٹو یونیورسٹی برائے مطالعہ قانون کے وائس چانسلر جسٹس (ر) پروفیسر ڈاکٹر قاضی خالد علی (سابق وزیر تعلیم ) اور فاضل اساتذہ (خصوصاً صدر شعبہ ڈاکٹر رُخسار احمد) کے ساتھ تبادلۂ خیالات اور چائے پینا۔ سوم، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی مہم کے بارے منعقدہ اجلاس میں شرکت کرنا۔ چوتھی مصروفیت کو میں مصلحتاً صیغہ راز میں رکھ رہا ہوں۔ اپنے قارئین کو آموںکا موسم ختم ہونے سے پہلے ضرور بتائوں گا مگر یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس رازکا آم کھانے یا اُن کی گٹھلیاں گننے سے دُورکا بھی واسطہ نہیں۔ میرے قارئین پانچ ماہ انتظار کریں تو میں اُنہیں اپنی ایک بڑی خوشی میں شریک کروںگا۔
سرگودھا میں جوہرآبادکے وکیلوں سے غیر رسمی دوستانہ گفتگو اور جوہرآباد میں اپنے مرحوم بھائی جاوید اور والدہ مرحومہ کی قبروں پر فاتحہ پڑھ کر سرگودھا میں اپنے مرحوم بھائی اسلم باجوہ کے پسماندگان (ایک غم زدہ بیوی اور صدمے سے نڈھال بیٹی) سے مل کر اپنے بھائی کے اُس کمرے میںگیا جہاں انہوں نے زندگی کے آخری سال بڑی جسمانی تکلیف مگر بہادری سے گزارے۔ دل کہتا تھا کہ شاید جو کچھ سنا تھا وہ ایک ڈرائونا خواب تھا۔ اُن کے گھر جائوں گا تو پتا چلے گا کہ اُس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ میں اُن کے بیڈ روم میں کافی دیرکھڑا رہا۔ پُرنم آنکھوں کو یقین نہیںآتا تھا، اُن کا بستر خالی ہے اور ہمیشہ کے لئے خالی ہو چکا ہے۔ جانے والا جا چکا، اب اس دُنیا میں اُن سے دوبارہ ملاقات کبھی نہ ہوگی۔
اگلے دن جنوبی پنجاب کا رُخ کیا۔ ساہیوال میں رانا علی رضا کا مہمان بننا خطرات سے خالی نہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ میں نے میزبانوں کی بھرپور کوشش کو ناکام بنا دیا اور پینڈو ہونے کے باعث (جو منطقی اعتبار سے ہونا چاہئے تھا)کثرت خوراک سے بیمار نہ ہوا۔ اگلے دن میں نے وہ کارنامہ سرانجام دیا جو مجھ سے نصف عمر کے لوگوں کے لئے بھی قابل رشک ہوگا۔ دس بجے صبح سے دس بجے رات تک پانچ کام کئے اور وہ بھی پانچ مختلف شہروں میں۔۔۔۔ چیچہ وطنی، میاںچنوں اور خانیوال میں وکیلوں کی بڑی تعداد سے ملاقات۔ چیچہ وطنی میں وقاص صاحب کے بلائے ہوئے ذہین اور محب الوطن سیاسی کارکنوں سے گپ شپ اورپھر چیچہ وطنی کے جگمگاتے ہوئے میرج ہال میں اپنے ایک عزیز کرامت باجوہ کی دختر نیک اختر کی دعائوں کے ساتھ رُخصتی میری آخری مصروفیات تھیں۔ میں تو اگلے دن جہاز میں دو تین کمبل اوڑھے اور سات گھنٹے گہری نیند سو کر تر و تازہ لندن پہنچ گیا مگر رانا علی رضا، میاں خالد اور احمد صاحبان میری آمد و رفت کو آسان بنانے کے لئے دن رات سینکڑوں میل کار چلانے کے بعد اتنے تھک گئے ہوں گے کہ یہ سطور شائع ہونے تک اپنی کمر سیدھی کر رہے ہوںگے۔کتنا اچھا ہو کہ میں مئی کے آخر میں وطن عزیز آئوں تو اُن کوکانوںکان خبر نہ ہو۔ میں جب بھی کسی نئی بستی میں پہنچتا تھا تو یہ دیکھ کر تھکاوٹ ختم ہو جاتی تھی کہ لوگ میرا اخبار (دُنیا) توجہ سے پڑھ رہے ہیں۔ اس کالم کو پڑھنے والوں سے مل کر پہلی بار پتا چلا کہ اُن کی تعداد میرے دونوں ہاتھوںکی اُنگلیوں سے تھوڑی سی زیادہ ہے۔
قارئین کے ذکر سے یاد آیا کہ پروفیسر ڈاکٹر ناصر صاحب اور میرے دوسرے کرم فرمائوں نے ایک بار پھر یہ مہربانی کی اور میری تصحیح کرتے ہوئے اس نیم خواندہ کالم نگارکو بتایا کہ آواز دوست کی ترکیب عُرفی کی نہیں، مولانا روم کی ہے۔ عُرفی کے کچھ اشعار 65 سال پہلے پڑھے اور وہ اس طرح دل میں گھرکرگئے کہ اب میں ہر اچھے شعر اور شاعرانہ ترکیب کو آناً فاناً عرفی سے منسوب کردیتا ہوں۔ دُوسری وجہ نفسیاتی ہے۔ پچاس کے عشرہ میں لائل پور میں میرے ایک عزیز (اگرچہ عمر میں دُگنے بڑے) دوست کا نام ریاض عرفی تھا۔ اُنہوں نے اپنے بھائی اعجاز چشتی کے ساتھ مل کر مائی دی جھگی میں جامعہ چشتیہ کے نام سے تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی تھی۔ میں ان دنوں گورنمنٹ کالج میں بی اے کا طالب علم تھا اور فارغ اوقات میں پرائمری سکول کے بچوں کو ایک سایہ دار درخت کے نیچے الف آم، ب بکری پڑھاتا تھا، رضاکارانہ طور پر۔ اگر آج کے دور کے طلبا اور طالبات بھی خواندگی کی ملک گیر تحریک میں رضا کارانہ حصہ لیں تو ایک سال کے اندر ملک سے ناخواندگی ختم کی جا سکتی ہے۔ میں شمس العلماء مولانا محمد حسین آزاد کا لکھا ہوا جو اُردو قاعدہ پڑھاتا تھا، اُس کے آخر میں ایک بوڑھا شخص حقہ پیتا دیکھا جا سکتا تھا۔۔۔ذہنی سکون کا مجسمہ۔ بوڑھا تو یہ کالم نگار بھی ہو گیا ہے مگر وہ اتنا خوش نصیب نہیں کہ اُردو کے پہلے قاعدے والے بوڑھے کی طرح فراغت کے لمحات حقہ پی کر گزارے۔ غالب جیسے بڑے شاعر کی رعنائی خیال بھی ایک شخص کے تصور سے تھی۔ غور فرمایئے کہ کسی شخص کی ذات سے نہیں صرف اُس کے تصور سے۔ بڑھاپے میں بھرپور ذہنی سکون اور مکمل جسمانی آرام صرف خوش نصیب لوگوں کو ملتا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ غالب جیسا قناعت پسند اور اقبال جیسا درویش صفت حقہ نوشی کی نعمت سے محروم نہ رہا۔ یہ کالم نگار ان نابغہ روزگار شخصیات کی طرف دیکھے تو اُسے اپنی دستار سنبھالنی پڑتی ہے۔ وہ گرد و پیش کا جائزہ لیتا ہے تو اُسے تاج محل بنانے والے نہیں بلکہ گرانے والوں کا شتر بے مہار ہجوم نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سطور کو لکھنے والا یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے ع 
پریشاں ہو کہ میری خاک آخر دل نہ بن جائے
میرے دل کی پریشانی معمول سے زیادہ بڑھ جائے گی تو پھر امریکہ جانے کی بجائے (جہاں کا ویزا بھی مجھے درکار نہیں) میں ایک بار پھر لاہورکا رُخ کروں گا اور وہاں علی رضا کا مہمان بن کر ٹمپل روڈ پر چائے والے کے تھڑے پر ڈاکٹر شفقت صاحب کے ساتھ بیٹھ کر چائے پی لوںگا، اس اُمید پرکہ وہاں اپنے ذہین قارئین سے ملاقات کا بھی روشن امکان ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں