ماں بولی وچ لکھو پڑھو تے ماں بولی وچ بولو

یہ مصرع نہ احمد راہی کا ہے اور نہ اُستاد دامن کا۔ آج ہمارے چوٹی کے (پنجابی) ادیب شفقت تنویر مرزا زندہ ہوتے تو وہ یہ مصرع ایک پرچم پر لکھ کر لاہور کی مال روڈپر یکم مئی کو ہونے والے مظاہرے میں حصہ لیتے اور صُغرائے صدف کے علاوہ اپنے دوسرے ہم خیالوںکو بھی اپنی رفاقت پر تیار کر لیتے۔ آج کے کالم کا عنوان جہلم کے ٹلّہ جوگیاں سے تعلق رکھنے والے ایک عوامی شاعر نصیر کولیؔ کی نظم سے لیا گیا ہے۔ نصیر نے ماں بولی کے بولنے کے حق میں چار بڑے ہی مضبوط دلائل جن دو اشعار میں دیئے ہیں وہ آپ پڑھ لیں گے تو غالباً آپ بھی اس کالم نگار کی طرح ان کے ہم خیال بن جائیںگے۔ وہ دو اشعار یہ ہیں: 
گنج شکرؒ نے لوکاں دے نال جیہڑی بولی بولی
نانک ھوراں اشلوکاں وچ اوہدی شکر گھولی
بلھے شاہؒ نے ایہدے وچ ای دسّی الف سچائی
وارث شاہؒ نے ایہدے راہیں عین دی شکل دکھائی
شدید حیرت اور گہرے افسوس کی بات ہے کہ دُنیا بھر میں زندہ قوموں کے افراد ماں بولی کو بولنے کا حق حاصل کرنے کے لئے جان کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے مگر ساری دُنیا میں صرف ہمارے حصے کے پنجاب (جو برطانوی راج کے پنجاب کا نصف حصہ بنتا ہے) میں رہنے والا متوسط طبقے کا شہری غلط سلط اُردو بولنے پر اصرار کرتا ہے اور بالائی طبقہ اُس سے زیادہ غلط سلط انگریزی۔ خدا بھلا کرے فاطمہ قمر اور اس کے قابل صد احترام ساتھیوں کا (بڑھاپے کی وجہ سے اُن کے نام بھول گیا تو قابل معافی ہوں) جنہوں نے عوامی جہدوجہد کر کے اُردو کو بطور قومی زبان تسلیم کروایا۔ پاکستان کے متفقہ طور پر منظور کئے جانے والے آئین کے مطابق 1973ء کے بعد یہ مرحلہ پندرہ برسوں کے اندر اندر یعنی 1988ء میں طے ہو جانا چاہئے تھا۔ پچھلے برس یعنی27 سال بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب جواد خواجہ صاحب کے تاریخی فیصلے نے فاطمہ کے سو فیصدی جائز مطالبہ کی توثیق کر دی۔ جب فاطمہ اور اُس کے بہادر اور بااُصول ساتھیوں نے اس تاریخی کامیابی کا جشن منانے کے لئے موچی دروازہ لاہور میں دُنیا بھر میں سب سے اچھے گلاب جامن بنانے والی دُکان کی طرف اپنا سفر شروع کیا ہوگا تواُنہیں راستے میں ہی اس تلخ حقیقت کا پتہ چل گیا ہوگا ع
ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگ گرِاں اور
یہ بھی ممکن ہے کہ عشق کے جو امتحان ابھی باقی پڑے ہیں، وہ پہلے امتحان سے بھی زیادہ سخت اور صبر آزما ہوں۔ اُردو کے بطور قومی زبان تسلیم کئے جانے کا مرحلہ طے پائے گا تو پھر اگلا مرحلہ آئے گا اور وہ ہوگا ماں بولی کا۔ اگر برطانیہ کے ایک حصہ Wales میں زیر تعلیم بچہ درجہ اوّل سے بیک وقت انگریزی اور اپنی مادری زبان Welsh پڑھتا ہے اور بخوبی پڑھ سکتا ہے۔ بلجیم، ہالینڈ اور سوئٹزر لینڈ میں ہر طالب علم اور ہر طالبہ چار زبانوں پر بآسانی عبور حاصل کر سکتی ہے۔ تو ہم اپنے سکولوں میں ماں بولی اور قومی زبان بیک وقت کیوں نہیں پڑھا سکتے؟ اس کالم کے پڑھنے والوں کی بڑی تعداد کو اس ستم ظریفی کا علم نہ ہوگا کہ پنجاب کی دانشگاہوں میں چینی، روسی، جرمن، فرانسیسی اور ہسپانوی زبانیں پڑھانے کی سہولت توموجود ہے مگر پنجاب میں ایک طالب علم یا ایک طالبہ بھی پشتو، بلوچی اور سندھی نہیں پڑھ سکتی۔ کیا اسے قوم بنانے کا عمل کہتے ہیں؟ دُوسرے الفاظ میں ع 
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
نہیں اور ہر گز نہیں۔ اگر ہم 1947ء سے لے کر 1970ء تک کے درمیانی پرآشوب دور میں (جس کا زیادہ حصہ مارشل لاء یعنی فوجی آمریت کے منحوس سایہ تلے گزرا) مغربی پاکستان کے ہر سکول میں اُردو اور بنگالی اور مشرقی پاکستان کے ہر سکول میں بنگالی اور اُردو پڑھائی جاتی تو قائداعظم کا بنایا ہوا پاکستان 1971ء میں ( اور وہ بھی ایک خوفناک خانہ جنگی اور بہت بڑے قتل عام کے بعد) دو حصوں میں تقسیم نہ ہوتا۔ پانچ ہزار سالہ لمبی انسانی تاریخ کا سبق سیدھا سادا ہے اور ہم چاہے کتنے بھی کند ذہن ہوں ہمیں یہ آسان ترین سبق سیکھنے میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہئے اور وہ سبق یہ ہے کہ گھر میں ملِ جل کر رہنا ہو تو ماں بولی بولنی چاہئے۔
جہاں تک ہمارے حکمرانوں اور درجہ 22 کے چوٹی کے بڑے افسران کا تعلق ہے، روایتی ابوجہل بھی ان کی گرد کو نہیں پہنچ سکتا۔ اُنہیں نہ ہمارے دریا نظر آتے ہیں، نہ جوہری ری ایکٹر اور نہ ہمارے آسمان پر آب و تاب سے چمکنے والا سورج۔ یہ اُن کی نظر کا حال ہے۔ اب اُن کے Twisted منہ کی طرف آئیے۔ وہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی کی بجائے اپنی قومی زبان (اُردو) استعمال کریں تو قدیم اُردو شعر کے مطابق اُن کا دہن بگڑے گا۔ آپ انہیں اپنی مادری زبان بولنے پر (بزور شمشیر) مجبور کر دیں تو وہ اس صدمے سے بے ہوش ہو جائیں گے۔ آپ غور فرمائیںکہ ہماری کشتی کے ملاح کون ہیں؟ اُن کا حدود اربعہ کیا ہے؟ اُن کے Made in England دل و دماغ پاکستان کے عوام سے اُس ہمدردی کا دسواں (اور شاید دسواں حصہ) بھی نہیں جو غیر ملکی انگریزوں کو تھی۔ گورے صاحب کے مقابلے میں کالا صاحب کہیں زیادہ عوام دُشمن، بے حس اور فرعون صفت ہے۔ یہ ہے ہمارا اصل المیہ۔ کاش!ہم اس حقیقت کو مان کر آگے بڑھیں تو ہم اندھیرے سے روشنی کی طرف جانے کا سفر شروع کر سکیں گے۔
پاکستان کے سب سے معیاری سہ ماہی سویرا کے شمارہ نمبر93 کے صفحہ نمبر 122 پر اُس جگہ کے ذکر پر آج کا کالم ختم کیا جاتا ہے جو نصیر کی پہچان تھا۔ جہلم میں ٹلّہ جوگیاں قدیم ہند کا خانقاہی مرکز تھا جہاں زائرین، درویش، سادھو اورطلبہ دُور اُفتادہ علاقوں (تبت، نیپال، سری لنکا، برما، مشرق وسطی، جنوبی اور شمالی ہند اور افغانستان) سے کئی صدیوں تک آتے رہے۔ یہ خانقاہوں کا وہ وسیع اور زندہ دھڑکتا مقناطیسی قطعہ مرتفع تھا جو جوگیوں کا آتش کدہ تھا۔ جہاں وہ خواہشات کو نذر آتش کرتے اور جوگ سنبھالتے۔ روایات کے مطابق یہاں قرون وسطیٰ کا سب سے بڑا سائنس دان البیرونی آیا اور افسانوی شہرت کا ہیرو رانجھا بھی۔
میں ایک بار پھر جہلم کے میاں نعیم بشیر صاحب اور فائزہ بی بی کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی وجہ سے میں نے دو ماہ قبل زندگی میں پہلی بار قلعہ رہتاس کو قریب سے اور ٹلّہ جوگیاں کو دُور سے دیکھا۔ ایک بار دیکھا تو دُوسری بار دیکھنے کی ہوس پیدا ہوئی۔ ٹلّہ جوگیاں کا ناصر نامی جوگی اور (ساڈے ہتھ اگنی داتا جیسے اچھے شعری مجموعہ کا مصنف) ہم سے دُور جا چکا ہے۔ مگر اُس کی آواز ہمارے کانوں میں گونجتی رہے گی ع 
ماں بولی وچ لکھو پڑھو تے ماں بولی وچ بولو
اور ہمیں کہتی رہے گی کہ اگر ہم نے خوشی اور خوشحالی سے بھرپور معاشرہ بنانا ہے تو ہمیں نہ صرف اُردو کو قومی اور سرکاری زبان بنانا ہوگا بلکہ ہر صوبے میں بچوں کو سکولوں میں اُن کی مادری اور دوسری علاقائی زبانیں پڑھانا ہوںگی۔ ایک دوسرے کا لحاظ کرنا ہوگا، برابری کا سلوک کرنا ہوگا، قانون کی حکمرانی قائم کرنا ہوگی، طاقت اور جبر کی بجائے اخوت اور بھائی چارہ، تشدد کی جگہ محبت نہ کہ وہ نقلی اور جعلی محبت جس کا زمزمہ صرف میرے ایم اے میں ہم جماعت اور بزرگ ترین صحافی جناب الطاف حسن قریشی کو 1971ء میں مشرقی پاکستان میں بہتا نظر آیا جبکہ دوسرے لوگوں کے خون کی ندیاں بہتی دکھائی دے رہی تھیں اور وہ خون کے آنسو رو رہے تھے جن میں یہ کالم نگار بھی شامل تھا اور اُسے ''غداری‘‘ کے ''جرم‘‘ میں فوجی عدالت نے وہ سزا سنائی کہ جس پر عمل درآمد ہوجاتا تو آج میری وفات کی برسی کو بھی 45 برس گزر چکے ہوتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں