راجد ھانی ہے‘ مگر باقی نہ راجا ہے نہ راج

رومن سلطنت کو ختم ہوئے بھی کئی صدیاں گزر گئیں مگر راجد ھانی باقی رہ گئی۔ رومن بادشاہs Caesarبھی تاریخ میں دھندلانشان بن کر رہ گئے۔ اقبال یورپ کی سیر کو نکلے تو بڑے ذوق شوق سے اٹلی پہنچے۔ جس کی راجد ھانی کا نام ہے روم۔ اٹلی کا دارالحکومت۔ جہاں میں اپنے ایک بیٹے (فیصل) کے ساتھ زندگی میں پہلی بار سات اپریل کی آدھی رات کو پہنچا۔ روم روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ 
دُنیا کے دُوسرے بڑے شہروں کی طرح اٹلی میں روم کو اتنی مرکزی حیثیت حاصل ہے کہ ایک محاورہ کے مطابق تمام سڑکیں روم کی طرف جاتی ہیں۔ اُسی طرح جیسے پنجاب میں ہر سڑک لاہور کی طرف جاتی ہے اور لاہور کی اپنی سڑکیں؟ وہ اُن وجوہات کی بنیاد پر جو محتاج بیان نہیں سارے صوبہ میں ممتاز مقام رکھتی ہیں۔ مغلیہ دور تھا تو لاہورمیں دُنیا کے سب خوبصورت باغ بنائے گئے۔ انگریز آئے تو اُنہوں نے شہر میں نئی سڑکیں بنائیں۔ لندن کی مرکزی شاہراہ (جو شاہی محل کو ٹریفالگر سکوائر سے ملاتی ہے) کے نام پر ٹھنڈی سڑک کا نام مال روڈ رکھاگیا۔ بہت سی سڑکوں کے نام انگریز حکمرانوں کی یاد کو زندہ رکھنے کیلئے رکھے گئے۔ یہی حال روم کا ہے۔ سینکڑوں سڑکوں۔ چوراہوں اور پارکوں کے نام رومن بادشاہوں کی یاد دلاتے ہیں مگر دُوسری جنگ عظیم کے دوران اور اُس سے ایک عشرہ پہلے اٹلی کے فسطائی حکمران مسولینی کے نام پر ایک گلی بھی نظر نہ آئی۔ مسولینی کی آمرانہ اور فسطائی حکومت اہل اٹلی کے لئے اُسی طرح کا ایک ڈرائونا خواب ہے۔ جیسے ہمارے لئے جنرل ایوب، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے تین سیاہ ترین دور۔ یہ وُہی ذات شریف ہیں کہ جب شاعر مشرق و مغرب اقبالؔ وسطی ہندوستان کی ایک ریاست بھوپال کے 22 اگست 1935 ء کو شاہی مہمان بنے تو اُنہوں نے مسولینی کے عنوان سے ایک کمال کی نظم لکھی۔ آج کے کالم کا عنوان اس نظم کے چوتھے شعر سے لیا گیا ہے۔ ساری نظم آپ وقت نکال کر خود پڑھ لیں۔ میں یہاں صرف دو آخری اشعار لکھنے پر اکتفا کرتا ہوں۔ جو ہمیں آج کے مشرق وُسطیٰ کی سیاسی ابتری‘ خانہ جنگی‘ ہر طرف تباہی اور دولت اسلامیہ (داعش)کے ظہور کی وجوہ اور سیاسی پس منظر سمجھنے میں مدد دیں گے ؎
تم نے لوٹے بے نوا و صحرا نشینوں کے خیام
تم نے لوٹی کشت دہقاں‘ تم نے لوٹے تخت و تاج
پردہ تہذیب میں غارت گری و آدم کشی
کل روا رکھی تھی تم نے میں روا رکھتا ہوں آج
آٹھ اپریل کی صبح کو ایک دفتری مصروفیت سے فارغ ہو کر میں اور فیصل صرف روم میں نہیں بلکہ دُنیا بھر میں سیاحوں کی محبوب ترین اماج گاہ کلوزیم کی طرف لپکے اور سارا دن اس کا چپہ چپہ چھانتے رہے۔ اس ڈیڑھ ہزار سال قبل Stadium میں ستر ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی تاکہ وہ وحشی اور خونخوار جانوروں کی باہمی لڑائیاں۔ ان جانوروں کی پیشہ ور ہتھیار بند اور جنگجو افراد سے رزم آرائی اور ان جنگجو افراد کی سزا یافتہ مجرموں سے لڑائی یا ایک عرصہ تک عیسائیت کا نیا مذہب قبول کرنے والے زیر عتاب لوگوں کو ہر قسم کی بربریت دل ہلا دینے والے مناظر سے لطف اندوز ہو سکیں۔ 
روم دُنیا کا وہ واحد شہر ہے‘ جس میں ایک نہیں بلکہ دو ریاستوں کے صدر مقامات ہیں۔ ایک ریاست کا نام ہے اٹلی اور دوسری کا ویٹی کن۔موخر الذکر ریاست روم کے وسط میں ہے اور دیوار چین سے بھی اُونچی چار دیواری سے گھری ہوئی ہے۔ ریاست اور اس کے صدر مقام کا رقبہ ایک دُوسرے کے برابر ہے اور وہ ہے صرف 108.7 ایکٹر۔ پوپ کا محل ایک ہزار کمروں پر مشتمل ہے۔مجھے اسے دیکھنے کے لئے کئی میل پیدل چلنا پڑا۔ اور ہزاروں سیڑھیوں کی چڑھائی کی کڑی آزمائش اس کے علاوہ گویا سونے پر سہاگہ‘ پوپ ویٹی کن کے حاکم مطلق ہیں۔ اُن کی سلطنت کی کل آبادی ایک ہزار افراد پر مشتمل ہے جو اُن کی سلطنت کے ایسے کارندے ہیں جو رہتے بھی پوپ کے محل کی نواحی عمارتوں میں ہیں۔ پوپ کا محل شہرہ آفاق مصوروں (مائیکل اینجلیو اور رافیل اور بہت سے دُوسروں) کی شاہکار تصویروں اور ہزاروں مرمریں مجسموں سے اٹا پڑا ہے۔ ان نوادرات کو اکٹھا کرنے میں دو ہزار سال لگ گئے اس لئے ہم جتنے بھی مرعوب ہولیں‘ کم ہوگا۔ ویٹیکن کی ریاست اپنے بے حد مختصر جغرافیہ کے باوجود ہر بڑی ریاست کی خصوصیات کی مالک ہے۔ اس کی اپنی کرنسی ہے۔ اپنے ڈاک کے ٹکٹ ہیں۔ اپنا پرچم ہے۔ اپنی پولیس اور فوج ہے اور اپنا سفارتی نظام ہے۔ پاکستان میں بھی اس کا اپنا سفیر ہے جو روایت کے مطابق تمام سفیروں کا نمبردار تسلیم کیا جاتا ہے۔ اٹلی کی حکومت ویٹیکن کی خود مختاری کو (1929 ء میں کئے جانے والے معاہدہ کے تحت) تسلیم کرتی ہے۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ ایک میان میں دو تلواریں ہیں اور ایک کچھار میں دو شیر رہتے ہیں مگر کیا مجال کہ ان دونوں کے درمیان دوستی میں کبھی چھوٹا سا بال بھی آیا ہو۔ 
اگلے دن ویٹیکن کا وہ حصہ دیکھنے چلا گیا جو پہلے دن نہ دیکھ سکا تھا۔دوپہر کو نیلے آسمان تلے ایک لاکھ زائرین کے ساتھ اجتماعی عبادت میں شریک ہونے کا جذبہ غالب آیا۔ دوپہر کے پونے بارہ بجے دُنیا کے عظیم ترین گرجا گھر کی ملحقہ عمارت کی پانچویں منزل کی پہلی کھڑکی کھلی اور اُس پر پوپ کا ذاتی پرچم آویزاں کر دیا گیا۔حد نظر تک پھیلے ہوئے زائرین نے خوشی سے تالیاں بجائیں اور با آواز بلند حمدیہ گیت گانے شروع کر دیئے۔ بڑے گھڑیال نے بارہ بج جانے کا اعلان بارہ دفعہ گھنٹی بجا کر کیا تو پوپ اس کھڑکی میں جلوہ گر ہوئے۔ زائرین کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو بہنے لگے۔ پوپ نے اپنی مختصر مگر بے حد قابل تعریف تقریر سے پہلے اور بعد میں دیر تک زائرین کی طرف ہاتھ ہلا ہلا کر اُنہیں خوش آمدید کہا۔پوپ نے اُن سیاسی عناصرکے خلاف سخت الفاظ استعمال کئے اور اُن پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اُن کا ذرہ بھر لحاظ نہ کیاجو دہشت گردی کی مذمت کی آڑمیں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور خوف کی فضاء پیدا کرنے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں۔ پوپ نے مذاہب کے درمیان دوستانہ رشتہ قائم کرنے کی ضرورت پر بار بار زور دیا۔ پوپ کی تقریر سن کر جسمانی تھکاوٹ کا احساس مٹ گیا۔ لندن واپسی کا سفر شروع کیا تو ایک قدم چلنا بھی مشکل ہو گیا۔بڑی مشکل سے (فیصل کا سہارا لے کر ) من من بھاری قدم ایک ایک انچ بڑھاتے ہوئے ٹیکسی تک پہنچ جانے میں کامیاب ہوا تو یوں لگا کہ K-2 کی چوٹی سر کر لی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ پوپ صرف بلند و بالا کھڑکی سے ہر اتوار کی دوپہر کو زائرین سے خطاب نہیں کرتے بلکہ ہر ہفتہ میں کئی بار زائرین کو شرف ملاقات بخشتے ہیں۔ اُن میں گھل مل جاتے ہیں۔ اور اُنہیں اپنی دُعائوں سے رُخصت کرتے ہیں۔ آپ کے کالم نگار کے اس تاریخی دورہ کا ماحصل کیا ہے؟ میں نے ویٹیکن کے ڈیڑھ دن کے دورہ سے یہ سبق سیکھا کہ مغربی ممالک میں صرف سیاسی نظام عوام دوست اور جمہوری نہیں بلکہ وہاں کا مذہبی نظام بھی جمہوری اور شراکتی اور عوام دوست ہے۔یہ ہے مغربی معاشروں کی بڑھتی ہوئی توانائی۔ چار سُو روشنی اور ہمہ گیر خوبصورتی کا راز۔ میری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا ایمان قائم رکھیں مگر (بقول اقبال) ؎
برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ
ہمارے پاس بھی مقدس تسبیح ہے مگر بدقسمتی سے ہم نے اس کے دانے خون آلود خاک میں بکھیر دیئے ہیں۔ اگر ہم مستقبل قریب میں اِن بکھرے ہوئے دانوں کو چُن چُن کر انہیں اپنی تسبیح میں دوبارہ نہ پروسکے تو پھر ہمارا بھی وُہی عبرتناک حشر ہو گا جو اقبال نے تباہ شدہ رومن سلطنت کے بارے میں لکھا تھا ؎ 
راجدھانی ہے‘ مگر باقی نہ راجا ہے نہ راج

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں