مری نگاہ کمالِ ہُنرکو کیا دیکھے

اقبال کی ضرب کلیم کے چوتھے حصہ (ادبیات، فنون لطیفہ) کی پانچویں نظم کا عنوان ہے''پیرس کی مسجد‘‘ جو میں نے اتوار 24 اپریل کی یخ بستہ دوپہرکو دیکھی۔ اقبال نے اِس مسجد کے کمالِ ہنر کی تعریف کرنا تو کجا اسے دیکھنا بھی گوارا نہ کیا چونکہ (دُوسرا مصرع توجیہ پیش کرتا ہے) اِن کی نظر میں ع
کہ حق سے یہ حرمِ مغربی ہے بیگانہ
اقبال کی نظم صرف تین اشعار پر مشتمل ہے۔ دُوسرا شعر پہلے سے زیادہ چونکا دینے والا جبکہ تیسرا اور آخری شعر حد درجہ سنسنی خیز ہے ۔ اقبال نے مسجد کو حرم تسلیم کرنے سے انکار کرنے کی یہ وجہ بتائی کہ فرنگی کرشمہ بازوں نے تنِ حرم میں رُوحِ بُت خانہ چھپا دی ہے۔ آپ کے کالم نگار کی سادہ لوحی، کم نگاہی اور سطحی پن قابل رحم ہے کہ وہ پیرس کی مسجد کے کمالِ ہنر سے متاثر ہوا اور اس کا اتنا معترف کہ عش عش کر اُٹھا۔ اُدھر اقبال تھے جنہیں حرم میں چھپی ہوئی رُوح بت خانہ بھی نظر آگئی جو غالباً اور کسی کو نظر نہیں آئی۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم جیسے عظیم محقق اور بلند پایہ عالم کو بھی نہیں، جنہوں نے اسلام پر درجنوں بے مثال کتابیں لکھیں اور ساری عمر پیرس میں گزار دی۔ تیسرے اور آخری شعر میں تو اقبال نے مسجد کے کمالِ ہُنر کا لحاظاً اور مروتاً رسمی اعتراف کرنے کے برعکس اسے''بت خانہ ‘‘ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا۔ وجہ یہ بتائی کہ دمشق (یعنی مشرق وسطیٰ) کو ویران کرنے والے غارت گروں نے اسے تعمیر کیا ہے۔ سلیس زبان میں اسے یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ اگر عالم اسلام کے گڑھ (مشرق وسطیٰ) کو تباہ و برباد کر دینے والی قوموں نے پیرس میں ایک شاندار مسجد تعمیر کر دی (جو ہر لحاظ سے کمال ہنر کا بہترین اظہار ہے) تو دراصل مسجد میں رُوح بت خانہ اس افراط سے چھپا دی گئی ہے کہ اقبال اس حرم کو بُت کدہ سمجھنے اور بیان کرنے میں حق بجانب ہوںگے۔
میرا دفتری کام سوموار 25 اپریل کو تھا اور وہ بھی بمشکل ایک گھنٹے کا۔ میری طرح کے برطانوی وکیل کا دفتری کام ایک بڑے مقدمہ میں پیرس کے ایک وکیل کی معاونت کرنے کے علاوہ اور کیا ہو سکتا تھا؟ اُردو محاورہ کے مطابق بلّی کی قسمت کا ستارہ چمکے تو وہ چھینکا جو اُس کی دسترس سے محفوظ بلندی پر تھا اور ایک عرصہ سے اُس کی حریفانہ نظروں کا مرکز تھا، ٹوٹ کر نیچے آگرے گا۔ یہی حال میرا ہوا۔ میں بھلا لندن میں اپنا کام کاج چھوڑ کر پیرس کی سیر کو جاتا تو کیونکر؟ میری خوش قسمتی کہ ایک چھوٹے سے کام نے جواز پیدا کر دیا۔ پیرس کی سیر کرنے اور خصوصاً اس کی خوبصورت مسجد کی زیارت کرنے کا شوق وہاں ایک دن پہلے یعنی اتوار کے دن لے گیا۔ خلاف توقع اور خلاف معمول اپریل کے تیسرے ہفتہ میں (جب یورپ میں سرکاری طور پر موسم بہار ہوتا ہے) اتنے غیر خوشگوار موسم کی ہرگز توقع نہ تھی۔ نہ صرف برفباری (جو مجھے اچھی لگتی ہے) بلکہ تیز برفانی ہوائیں (جو مجھے بالکل اچھی نہیں لگتیں) چل رہی تھیں۔ ارادہ تھا کہ مذکورہ مسجد کے کمال ہنر کو اچھی طرح دیکھنے کا دیرینہ خواب پورا کرنے کے بعد پیرس کے قابل دید مقامات (جو ایک سے بڑھ کر ایک ہیں) انصاف کروں مگر سخت سردی نے میرا منصوبہ (محاورہ کے مطابق) خاک میں اور عملاً گرتی ہوئی برف میں ملا دیا۔ ایک اچھے جرنیل کی طرح میں نے پسپائی کی حکمت عملی اپنائی اور اپنے ہوٹل میں پناہ لی۔ اگلے دن ٹرین (جس کا نام ہےEurostar ) میں ڈھائی گھنٹے کا سفر کر کے (جس میں رودبار انگلستان کے نیچے 25 میل کی لمبی سرنگ بھی شامل ہے) واپس لندن پہنچا۔ اہل خانہ نے آتش دان میں آگ جلا کر عمر رسیدہ جسم کو مطلوبہ حرارت پہنچائی اور کلام اقبال نے کالم نگارکے تلاطم خیز ذہن کو۔ ساری عمر اقبال کے مطالعہ میں گزری، مگر ہمت کر کے مجھے یہ سچائی مان لینی چاہیے کہ میں نے''ضرب کلیم‘‘ میں پیرس کی مسجد پر اقبال کی لکھی ہوئی نظم پیرس سے واپسی پر پہلی بار پڑھی۔ کتنا اچھا ہوتا کہ پیرس جانے سے پہلے اسے پڑھ لیتا تو بلا کی سردی میں کمال ہنر سے بنائی ہوئی مسجد اور اقبال کی نظر میں ''بت کدہ‘‘ دیکھنے کی نہ بھولنے والی زحمت سے بچ جاتا۔ 
اگلے دن لندن واپسی کے لئے پیرس کے ایک بڑے ریلوے سٹیشن (Gare Du Nord ) پہنچا تو پتا چلا کہ میں (جو بقول منیر نیازی ہرکام میں دیر کر دیتا ہوں) سٹیشن پر وقت سے ایک گھنٹہ پہلے پہنچ گیا ہوں۔ بہادرانہ فیصلہ کیا کہ خراب موسم کے باوجود ریلوے سٹیشن کے مضافات میں پیدل سیر کی جائے۔ ابھی چند قدم ہی گیا تھا کہ ایک قدیم طرز کے بے حد شاندار گرجا گھر پر نظر پڑی۔ یقیناً وہ ایک تاریخی عمارت لگتی تھی۔ گرجا گھر کے اندر جا کر سردی سے پناہ لینے کا امکان بھی نظر آیا۔ آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام۔ گرجا گھر کو اندر سے دیکھا تو وہ میرے اندازے سے کئی درجہ بڑھ کر عظیم الشان، متاثر کن، پُر شکوہ اور رُوحانی کیفیت پیدا کرنے والا تھا۔ عمارت ڈیڑھ دو ہزار سال پُرانی تھی۔ سوچتا ہوں کہ اسے اقبال دیکھتے تو کچھ عجب نہیں کہ اس بت کدہ کو حرم قرار دے دیتے، چونکہ اُن کی صوفیانہ نظر میں عمارت کی نہیں بلکہ معماروںکوکلیدی اہمیت حاصل ہے ۔ گرجا گھر کے ایک حصہ میں موم بتیوں کی ایک لمبی قطار روشن تھی۔ قریب گیا تو یہ پڑھا کہ گرجا گھر کو دو یورو (قریباً ڈیڑھ پائونڈ) کا عطیہ دے کر آپ ایک بڑی موم بتی حاصل کر کے اُسے روشن کر سکتے ہیں اور دُعا مانگ سکتے ہیں۔ آپ کے کالم نگار نے ان ہدایات پر عمل کیا۔ پاکستان کی سلامتی اور پاکستان میں رہنے والوں کی خوشی اور خوشحالی کے لئے دُعا مانگی۔ مشرق وُسطیٰ میں انسانی تاریخ گرجا گھر سے شروع ہوئی اور تقریباً آج سے تقریباً ڈیڑھ ہزار سال قبل مسجد پر ختم ہوئی۔ میرا پیرس کا 24 گھنٹوں کا قیام مسجد سے شروع ہوا اور گرجا گھر میں (دل ہی دل میں) عبادت کرنے پر ختم ہوا۔ 
سفر کہیں سے بھی شروع ہو اور کسی بھی جگہ ختم ہو، اہمیت مقامات کی نہیں بلکہ اُس عمل کی ہے جو کارل مارکس کی زبان میں جدلیاتی (Dialectic) ہونا چاہئے۔ خوب سے خوب تر کی تلاش۔ لیلیٰ کی ہم نشینی کے باوجود محمل میں بیٹھنے سے انکار۔ راہ نووردی کے شوق کی تازگی اور تابندگی ہی زاد راہ ہے۔ بقول اقبال اندھیری رات میں چیتے کی آنکھ کو چراغ بنا لینے والوں کو ہی زندگی کا سُراغ ملتا ہے۔ بھنورکی آنکھ اُس لہرکی بدنصیبی پر روتی ہے جو دریا سے اُٹھتی ہے، مگر ساحل سے ٹکرائے بغیر پھر دریا کا حصہ بن جاتی ہے۔ اقبال کو ہمارے بحر کی موجوں میں اضطراب نظر نہ آیا تو اُنہوں نے ہماری طوفان سے آشنائی کی دُعا مانگی۔ اُنہوں نے ہماری بے حس و بے حرکت، ساکت و جامد، عوام دُشمن اور قدامت پرست اجتہاد کی بجائے تقلید کرنے والی عقل و خرد کی بجائے توہمات اور تعصبات کے زیر اثر زندگی کو دیکھا تو اُن کی چشم بصیرت سے آنسو اس طرح بہہ نکلے کہ اُن کی وفات تک نہ تھمے۔ اُنہوں نے ہماری دُعائوں کی پست درجہ اور عامیانہ فہرست دیکھی تو پکار اُٹھے ؎
تیری دُعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
میری دُعا ہے تیری آرزو بدل جائے
میرے طرح کے رواجی لوگ ہزار سال بھی زندہ رہیں، مشرق و مغرب کے علم و حکمت اور فلسفہ کا مطالعہ کرتے رہیں، وہ پھر بھی اقبال کی حکیمانہ اور اجتہادانہ نظر سے محروم رہیں گے۔ وہ نظر جو تہہ محرابِ مسجد سو جانے والوں اور فرنگی بت کدوں میں کھو جانے والوں پر ایک ہی رُباعی پر میں اس طرح لاٹھی چارج کرتی ہے جیسے پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹ رہی ہو۔ قطرہ میں دجلہ اور جز میں کل دیکھنے والی حکیمانہ نظر جو شاعر کو ''حق سے بیگانہ‘‘ (اور مسلمانوں کی جانی دُشمن) اقوام مغرب کی مسجد کی شکل میں بنائے ہوئے حرم کے قریب نہ جانے دے اور اپنے شدید تحفظات کا تین اشعار کی تازیانہ صفت نظم کے پہلے شعر کے مصرع میں یوں کرے ع
میری نگاہ کمالِ ہُنرکو کیا دیکھے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں