ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس اُمت سے ہے

1936ء میں (مہینہ اور دن نامعلوم) یہ بیان ابلیس نے اپنی جوابی تقریر میں جاری کیا اور اقبال نے اپنے شعری مجموعہ ارمغان حجاز میں اسے ایک کمال کی طویل نظم کا حصہ بنایا۔ حجاز کا لفظ آپ کی توجہ کا مستحق ہے۔ یہ ہے اُس پاک سر زمین کا اصل نام جسے دورِ حاضر میں وہاں کا حکمران گھرانہ سعودی عرب کہتا ہے۔
اس جملہ معترضہ کے بعد ہم ابلیس کے مذکورہ بالا بیان کی طرف واپس چلتے ہیں۔ ابلیس کی مختصر افتتاحی تقریر (جو صرف چھ اشعار پر مشتمل تھی) کے بعد اُس نے اپنی مجلس شوریٰ کے پانچوں ارکان کو اظہار خیال کی دعوت دی۔ دوسرا اور چوتھا مشیر اتنے کم گو تھے کہ اپنی بات صرف ایک شعر یا دو اشعار میں کہہ کر ختم کر دی۔ وہ آپ پڑھ لیں ع
تو (یعنی ابلیس) جہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے باخبر
پہلے اور تیسرے مشیر نے دو دو باریاں لیں۔ پانچویں مشیر نے سب سے لمبی تقریر کی (جسے اقبال نے کمال ہنر سے منظوم کیا) اور ابلیس نے اس مشاورتی اجلاس کو تین طویل نظموں کی صورت میں سمیٹا۔ آج کے کالم کا عنوان ابلیس سے منسوب پہلی نظم کے ساتویں شعر کا پہلا مصرع ہے۔ ابلیس کی معاملہ فہمی قابل تعریف ہے کہ اُس نے مسلمانوں کے لئے خاکستر کا مناسب ترین لفظ استعمال کیا۔آپ پوچھیں گے کہ خاک یا راکھ کے ڈھیر سے ڈرنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ اس کا بہترین جواب خود ابلیس کے منہ سے سُن لیں۔ اُسے اس خاکستر میں شرار ِآرزُو کی جھلکی نظر آئی۔ آرزُو کون سی ہو سکتی ہے؟ اس آرزُو کا محل وقوع کا تو آپ کو پتا چل گیا۔ حدود اربعہ کا تعین میرے قارئین خود کر لیں۔
یکم مئی کو دُنیا بھر میں مزدُوروں کا عالمی دن منایا گیا۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں جلوس نکالے گئے۔ جناب عمران خان نے یکم مئی کو لاہور کے مال روڈ پر ایک بڑے جلسہ سے خطاب کیا۔ احتساب اور 
حکمرانوں کی دیانت داری کے موضوع پر لمبی تقریر کی جس میں انہوں نے ہر بات کہی مگر یکم مئی کی اہمیت کے بارے میں ایک لفظ نہ کہا۔ ابلیس نے اس تقریر کو دھڑکتے دل سے سنا ہوگا کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ پاکستان کے متوسط طبقہ کا ایک مقبول عام رہنما محنت کشوں، کسانوں، مزدُوروں اور نچلے متوسط طبقہ کی حمایت میں کوئی مثبت بیان نہ دے دے، ان سے یکجہتی کا اظہار نہ کرے۔ سماجی اور معاشی انصاف (جو قانون کی حکمرانی اور ہر قسم کی کرپشن کے خاتمہ کے ساتھ ایک مضبوط معاشرہ اور مستحکم ریاست کے چار ستونوں میں سے دو ہیں) کی بنیادی اور زندگی بخش اہمیت پر اپنی نوزائیدہ فصاحت کے دریا نہ بہا دے۔ یکم مئی کا سورج غروب ہوا تو ابلیس خوشی خوشی اپنے بستر پر دراز ہوا ہوگا اور سکھ کی نیند سویا ہوگا کہ ماسوائے ملتان کے پاکستان کے کسی شہر میں ایک بھی وکیل، ایک بھی دانشور اور ایک بھی سفید پوش ''بابو‘‘ مزدُوروں کے مظاہرہ میں شریک نہ ہوا۔ یہ منظر دیکھ کر میرے بوڑھے دل کو کتنا دُکھ پہنچا ہوگا، آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ میں نے سوچا کہ اپنا غم غلط کرنے کے لئے مطالعہ اور موسیقی کا سہارا لوں۔ اپنے ایک محترم دوست (اورکیمبرج یونیورسٹی میں ایک ہونہار مورخ کے والد محترم اور سابقہ وفاقی سیکرٹری) جناب جیون خان کی دلچسپ خاکوں پر مشتمل کتاب ''نرالے لوگ‘‘ پڑھنے میں اپنا وقت گزارا۔ رات کے بارہ بجے تو پاکستان ٹیلی ویژن کے لوک ورثہ پروگرام میں اقبال کے نواسے آزاد اقبال (سعودی عرب میں بطور قانونی مشیر کام کرنے میں عمر گزار دی مگر بے حد و حساب محنت اور ذوق و شوق سے ریاض کر کے کلاسیکی موسیقی سیکھ لی) کے گائے ہوئے گانوں نے سماں باندھ دیا۔ میاں کی ملہار، راگ درباری اور دل موہ لینے والی کافی کی آواز آئی۔ یہاں تک تو کام ٹھیک تھا یعنی محض قابل صد ستائش! پروگرام جب ریکارڈ ہوا تو ڈاکٹر جاوید اقبال زندہ تھے جو اپنی اہلیہ (ناصرہ) اور بہن (منیرہ)کے ساتھ بیٹھے جان محفل لگ رہے تھے۔ آزاد نے اپنی گائیکی کے آخر میں جو گایا وہ کلام اقبال تھا، نہایت عمدہ موسیقی کے ساتھ۔ یہ وہ نظم تھی جس میں اقبال اپنے رب سے دلِ مسلم کو زندہ تمنا (دوبارہ لکھتا ہوں زندہ تمنا) دیئے جانے کی دعا مانگتے ہیں۔ ایک ایسی زندہ تمنا جو دلوں کو گرما دے اور رُوح کو تڑپا دے۔ اقبال نے صرف 
اس پر اکتفا نہیں کی، اپنے رب سے یہ دُعا بھی مانگی کہ اُس نے اقبال کو جو کچھ دکھایا ہے وہ اوروں کو بھی دکھلا دے۔ اقبال کا ایک لائق فائق پوتا (ولید) عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہے۔ کیا یہ ولید کا فرض نہیں (نہ صرف فرض منصبی بلکہ جدی پشتی فریضہ بھی) کہ وہ عمران خان کو سمجھاتے کہ وہ ایک گھسی پٹی بات کو بار بار دہرانے کی بجائے اپنے لاکھوں ساتھیوںکے مرُدہ دلوں میں زندہ تمنا پیدا کرنے کے لئے پہلا قدم اُٹھائے اور بسم اللہ اپنے آپ سے کرے چونکہ بقول اقبال ؎
ہے صداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے
اس کالم نگار نے اپنے قیمتی وقت میں سے کئی گھنٹے اور اپنی محدود آمدنی سے ڈیڑھ سو پائونڈ نکال کر لاہور کے ہزاروں وکیلوں سے درد مندانہ اپیل کی کہ وہ یکم مئی کے مظاہروں میں حصہ لیں۔ ایک بھی نہ گیا۔ پاکستان کے ہر بڑے سیاسی اور مذہبی رہنما کو انفرادی خط لکھا اور درخواست کی کہ وہ یکم مئی کے مظاہروں میں حصہ لے تاکہ قانون کی حکمرانی اور سلطانی جمہور کی خاطر لڑی جانے والی جنگ کو کسانوں، مزدُوروں کی طبقاتی جدوجہد کے ساتھ جوڑا جا سکے مگر بے سود۔۔۔ نقار خانہ میں طوطی کی آواز! ایک بھی رہنما ایسا نہ تھا جس نے میری درخواست کو ردی کی ٹوکری میں نہ پھینکا ہو۔ اس کالم نگار پر جو گزری سو گزری، وہ صبر کرلے گا مگر تاریخ ایسے عوامی رہنمائوں کو معاف نہ کرے گی، جلد یا بدیر اُن کو ایک دن یہ سزا ملے گی کہ خود انسانی تاریخ کی ردّی کی ٹوکری میں جا گریں گے۔ جوسیاسی رہنما صرف اور صرف اقتدار کی جنگ لڑنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اُنہیں وسیع تر عوامی مفاد کی کوئی خبر نہیں وہ ابلیس کے پانچوں مشیروں کی پیش گوئی غلط ثابت نہیں کر سکتے، وہ اس ''شوق تماشا‘‘ اور ''ذوقِ تقاضا‘‘ سے محروم ہیں جس نے محمد علی جناح کو قائداعظم بنا دیا۔ چھ ہزار میل کے فاصلہ سے مجھے یہ جو دل شکن کا منظرنظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ ان گنت کولہو کے بیل اپنے اپنے دائرہ میں دن رات چل رہے ہیں، اُنہیں یہ غلط فہمی ہے کہ ہم روز اتنے میل چلتے ہیں تو ضرور آگے بڑھ رہے ہوں گے، مگرحقیقت یہ ہے کہ چلنے کی رفتار تیز اور تیز تر مگر سفرآہستہ آہستہ بالکل بلکہ صفر! کاش کہ پاکستان کے تمام عوام دُوست اور نظام کہنہ(Status Quo) نے مخالف رہنما امریکی صدارتی اُمیدوارBernie Sanders کے نقش قدم پر چلنا سیکھ لیں۔ ایسا کرنا اُن کے بس سے باہر ہو تو اُس کی ایک ہی خوبی اپنا لیں اور وہ ہے حق گوئی اور بے باکی (یہودی ہونے کے باوجوداسرائیل کا مخالف۔) ابلیس نے اپنے پانچوں مشیروں کے دلوں میں اُٹھتے ہوئے خدشات دُور کرنے کے لئے انہیں یہ کہہ کر تسلی دی کہ آپ لوگ بالکل فکر نہ کریں چونکہ ع 
ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دین
مذکورہ بالا امریکی سیاست دان (جو Senate کے رُکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی ٹکٹ کے امیدوار ہیں) وہ اپنے آپ کو سوشلسٹ کہنے کے باوجود لاکھوں امریکیوں کی آنکھ کا تارا ہیں۔ حال ہی میں روم گئے تو انہوں نے پوپ سے مل کر اُن کے اس موقف کی برملا حمایت کی کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام جو اب بین الاقوامی اجارہ داریوں کی بیساکھیوں اور وال سٹریٹ کے سٹہ بازوں کے سہارے چل رہا ہے، بنی نوع انسان کا بدترین دُشمن ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ وہ مبارک وقت کب آئے گا جب پاکستان کی عوام دوست ہونے کا دعویٰ کرنے والی تمام سیاسی جماعتیں فکر و عمل کا انقلابی مرحلہ طے کرتے ہوئے بیک زبان کہیں گی ع 
بادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمین
مزدُوروں کے مظاہروں میں متوسط طبقہ کے تعلیم یافتہ اور خوشحال افراد کی مکمل غیر حاضری دیکھتا ہوں تو میرا دھیان اقبال کے فرضی ابلیس کی طرف جاتا ہے۔ بقول اقبال ''بے چارے اشتراکی کوچہ گروں اور پریشاں روزگاروں سے بے فکر ہوکر مگر دیارِ مغرب میں عروجِ آدم خاکی سے سہم کر اپنے مشیروں کو یہ کہہ کر تسلی دیتا ہے ع
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس اُمت سے ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں