سوا نیزے پر سُورج

وطن عزیز میں وسط اپریل سے وسط اکتوبر تک پورے چھ ماہ شدت کی گرمی اور اس پر لوڈ شیڈنگ ! وہ کروڑوں لوگ جو اپنے گھروں میں ایئرکنڈیشنر لگوا سکتے ہیں نہ بجلی محفوظ کرنے والے برقی آلات، گرمی کے اس عالم میں بلبلا اُٹھتے ہیں۔ چھ ہزار میل کے فاصلہ پر اور مری جیسے ہل اسٹیشن کے موسم میں رہنے کے باوجود مجھے اہلِ وطن کی حالت زار کا اندازہ کر کے پسینہ آجاتا ہے۔ ترکی کے برعکس ہمارے ملک میں صرف مرد حضرات جمعہ کی نماز پڑھنے مسجد جاتے ہیں تو امام صاحب اُنہیں قیامت کی ایک ابتدائی نشانی یہ بتاتے ہیں کہ سورج زمین کے قریب آتا آتا سوا نیزے کے فاصلے پر آجائے گا تو سب کچھ آناً فاناً جل بھن کر راکھ ہو جائے گا۔ اگر امام صاحب جدید علم فلکیات سے تھوڑے بہت واقف ہوتے تو اس مبالغہ آرائی کا سہارا لینے کی بجائے صرف یہ کہنے پر اکتفا کرتے کہ سورج اپنے موجودہ محل ِوقوع سے زمین سے صرف سوا نیزہ اور قریب آجائے گا تو روئے زمین پر ہر ذی رُوح کے خاتمے کا مُطلوبہ مقصد بخوبی حاصل ہو جائے گا۔ 
کتنی ستم ظریفی ہے کہ میرے آبائی وطن میں آسمان سے برستی آگ اہل وطن کے لئے اتنی بڑی زحمت بن جاتی ہے اور سارے یورپ میں (ماسوائے جنوبی یورپ کے ممالک مثلاً سپین،اٹلی اور یونان) وُہی دھوپ زحمت کی بجائے باعث راحت ہو جاتی ہے۔ اس ماہ کے شروع میں جرمنی کے شہر فرینکفرٹ سے جرمن قومیت مل جانے کے بعد، اُردو ادب کے دلدادہ بن جانے والے اور ادبی سرگرمیوں کے سرپرست شفیق مراد صاحب لندن میں ہونے والے مشاعروں اور اپنے رشتہ داروں کے بچوں کی شادیوں کی تقاریب میں حصہ لینے آئے تو میں جنوب مشرقی لندن سے ڈیڑھ دو گھنٹے کار پر سفر کر کے اُنہیں جنوب مغربی لندن کے رہائشی علاقے میں ملنے گیا جس کا نام Malden ہے۔ 
اس لمبے سفر کے راستے میں بہت سے پارکوں کے قریب سے گزرا۔ Malden میں جماعت احمدیہ کی اتنی بڑی عبادت گاہ ہے کہ اُس میں پندرہ ہزار نمازی سما سکتے ہیں۔ میں نے وہ پہلی بار دیکھی اور وہ بھی باہر سے۔ پاکستان کے تمام شہروںکے پارکوںکو جمع کیا جائے تب بھی لندن کے پارکوں کی تعداد سے کم ہوگی۔ لندن کے زیادہ تر پارکوںکا اوسط رقبہ لاہور کے باغ جناح کے برابر ہے۔ خوشگوار دھوپ اور چھٹی کے دن کی وجہ سے ہر پارک مردوں، عورتوں اور بچوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ سب لوگ غسل آفتابی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ آپ جانتے ہیںکہ برطانیہ ایک جزیرہ ہے اور اس کی سب سرحدیں ساحلی علاقوں سے ملی ہیں۔ شفیق مراد سے ملنے کی مراد بر آنے کا امکان نہ ہوتا تو لاکھوں برطانوی باشندوں کی طرح میں بھی ساحل سمندرکا رُخ کرتا۔ 
1963ء کی ایک بھولی بسری بات یاد آئی۔ اُن دنوں میں پاکستان کے سب سے بڑے اخبارکا ایک بڑا افسر تھا۔ مجھے امریکی قونصل جنرل نے کسی سرکاری تقریب میں شرکت کے لئے اُس دن کی دعوت دی جو میری شادی خانہ آبادی کی پہلی سالگرہ تھی۔ میں نے میزبان خاتون کو فون کر کے معذرت چاہی کہ میں 26 جولائی کا دن اپنی بیوی کے ساتھ گزاروںگا اور نہ آسکوںگا۔ میرا عمر بھر کا مشاہدہ ہے کہ خوش شکل خواتین خوش اخلاق بھی ہوتی ہیں (اس فارمولے کا اُلٹ لکھنا آداب اور شائستگی کی خلاف ورزی ہوگی۔) میری میزبان خاتون نے کہا کہ یہ تو سونے پر سہاگہ والی بات ہوئی، اپنی نئی نویلی دُلہن کو ضرور ساتھ لائو۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ سفارتی تقریب میں لاہور کے بہت سے اہم لوگ مدعو تھے۔ لائل پورکے خالصہ کالج میں پڑھانا چھوڑ کر لاہور آنے والا ''پینڈو‘‘ ان سے متعارف تھا نہ ہونا چاہتا تھا۔ وجہ؟ میں ایک بڑے کمرے کے ایک کونے میں چھپی ہوئی اور قدرے سہمی ہوئی خاتون سے (جو میری بیوی تھی) ہم کلام تھا۔ یہ دیکھ کر میزبان خاتون ہماری طرف لپکی اور مسکراتے ہوئے بڑے دوستانہ انداز میں مشورہ دیا کہ ان تقاریب میں شریک ہونے کا بنیادی مقصد اُن لوگوں سے میل ملاقات ہوتا ہے جن سے آپ زندگی کی مصروفیات کی وجہ سے (ملنے کی خواہش کے باوجود) نہیں مل پاتے۔ آج آپ اُن سے مل لیں۔ میں نے میزبان کو جواب دیا کہ آپ یقین جانیے کہ میں بالکل آپ کی بتائی ہوئی وجہ کے مطابق اپنی بیوی سے ہم کلام ہوں۔ آج کی ساری شام اُن کے ساتھ گزاروں گا کیونکہ مجھے اُن سے ملے ہوئے اور آرام سے باتیں کئے ہوئے کافی عرصہ گزر چکا ہے۔ وہ کالج میں پڑھاتی ہیں اور میں ایک اخبار چلاتا ہوں۔ وہ ابھی محوِ خواب ہوتی ہیں جب میں دفتر کا رُخ کرتا ہوں اور رات گئے گھر واپس جاتا ہوں تو وہ سو رہی ہوتی ہیں۔ اُن دنوں ہم دونوں اتنے غریب تھے کہ گھر میں ایک ایئرکنڈیشنر بھی لگوانے کا سوچ نہیں سکتے تھے۔ مگر اتنے خوش نصیب تھے کہ موسم گرما میں رات کو گھر کی چھت پر سوتے تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ میری بیوی چندے آفتاب ہرگز نہ تھی ورنہ یہ خوبی موسم کی تپش میں مزید اضافے کا باعث بنتی؛ صرف چندے ماہتاب تھی، یہی وجہ ہے کہ میں چھت پر کبھی اُنہیں دیکھتا اورکبھی آسمان پر چمکنے والے چاند کو۔ جو راتیں چاندنی نہ ہوتیں اُن میں اُفق تا اُفق لاکھوں روشن ستارے جھلملاتے۔ رات کے پچھلے پہر ٹھنڈی ہوا چلتی۔ ایک تھکے ماندے شخص کی نیند اور گہری ہوتی جاتی، مگر دن کی روشنی جگا دیتی اور میں اُس دفترکا رُخ کرتا جہاں میں اپنے دفتری فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اپنا دن اپنے ہم جماعت محمد ادریس (انسانی حقوق کمیشن کے موجودہ سربراہ) آئی اے رحمان، شفقت تنویر مرزا، حمید اختر، عبداللہ ملک، ایلس فیض، منو بھائی، حمید جہلمی اور تیسرے حمید یعنی حمید شیخ کے لاہور پر لکھے ہوئے کالموں کو پڑھ کر اور انور مسعود کے عظیم والد محترم انور صاحب (عرف ننھا) کے بنائے ہوئے کارٹون اور ایف ڈی چوہدری کی کھینچی ہوئی تصاویر کو دیکھ کر گزارتا۔ 
آیئے اب سورج کی طرف واپس چلتے ہیں۔ لاہور کے لئے سوا نیزے پر آجانے والا سورج مجھے یوں یاد آیا کہ 55 سال پہلے لاہور کے پاک ٹی ہائوس میں اپنے وقت کے ایک بہت بڑے شاعر شہزاد احمد نے مجھے اپنی ایک نہایت عمدہ غزل سنائی تھی جس میں سورج کے سوا نیزے پر آجانے کا ذکر آتا ہے اور کمال خوبصورتی سے آتا ہے۔ میرے قارئین میں بڑے بڑے عالم فاضل شامل ہیں،کتنا اچھا ہوکہ وہ یہ غزل ڈھونڈ نکالیں اور مجھے ای میل کر دیں اور میری دعائیں لیں۔
سورج صرف میرے لئے ہی نہیں ان دنوں میرے اپنائے ہوئے (Adopted) وطن میں رہنے والوں کے اعصاب پر بھی سوار ہے۔ سورج پر ایک ایسی جامع کتاب شائع ہوئی ہے جس نے دھوم مچا رکھی ہے۔ نام ہے 15 Million Degrees: A Journey to the Centre of the Sun آپ یقیناً جانتے ہوں گے کہ سورج ہماری زمین پر زندگی کا خالق اور زندگی کے ہر مظہر کا منبع اور ماخذ ہے۔ قبل مسیح دور میں مشرق وسطیٰ اور مصر میں اس کی پرستش کی جاتی تھی۔ سورج کی روشنی کا جو حصہ ہمارے کرۂ ارض کو روشن کرتا ہے وہ اس کی ساری تابناکی کا صرف دو ارب واں (2 Billionth) حصہ ہے۔ سورج زمین سے ایک لاکھ تینتیس ہزارگنا بڑا ہے۔ ٹھوس، مائع، گیس کے بعد مادہ کی چوتھی شکل کو پلازما کہتے ہیں۔ سورج کی گرمی ایٹم کو پگھلا کر پلازما میں تبدیل کر دیتی ہے جو الیکٹرون اور پروٹون کا مجموعہ ہوتی ہے۔ سورج کے قلب کے درجہ حرارت کا تصور کرنا ہی ہماری بساط سے باہر ہے چونکہ وہ ڈیڑھ کروڑ سینٹی گریڈ ہے۔ تین سو صفحوں کی کتاب بہت سی سنسنی معلومات پر مبنی ہے۔ آپ صرف اتنا جان لیں کہ سورج کئی گیسوں کا مجموعہ ہے جن میں دو بڑی کا نام ہائیڈروجن اور Helium ہے۔ ہمیں نظر آنے والا سورج ایک نظام شمسی کا مرکز ہے۔ سورج کے گرد گھومنے والے سیاروںکی ساخت اور رفتار اپنی اپنی ہے۔ سب سے اہم نو سیارے ہیں۔ سب سے قریب Mercury اور سب سے دُور پلوٹو، ہماری زمین کا نمبر تیسرا ہے۔ مئی کے شروع میں خبر آئی تھی کہ ایک چھوٹی سی قیامت متوقع ہے چونکہ مرکری اپنے محور سے ہٹ کر سورج کے اتنا قریب چلے جائے گا کہ جل کر راکھ ہو جائے گا۔ اچھا ہوا کہ خبر غلط ثابت ہوئی۔ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ مرکری پرانی گزرگاہ سے بھٹکا تو ضرور مگر پھر بھی سورج سے چالیس لاکھ میل کے محفوظ حصہ پر رہا۔ ایسا کیوں ہوا؟ سائنس دان سر جوڑکر بیٹھے ہیں اور جلد یا بدیر اس معمہ کو ضرور حل کریںگے۔ اس موضوع پر جب بھی نئی کتاب شائع ہوئی میں اپنے قارئین کو ضرور خبر دوںگا۔ مسلمانوں نے صدیوں پہلے رصدگاہیں بنائیں اورعلم فلکیات پرکتابیں لکھیں۔ اہل یورپ نے ان سے بھرپور استفادہ کیا اور نئی دریافتوں کا سہرا اپنے سر باندھا۔ غالباً مشہور اطالوی سائنس دان گلیلیو بھی اُن میں سے ایک تھا۔ اس نے پہلی دُور بین بنائی اور ہزاروں سال پرانے نظریہ کی تردید کرتے ہوئے یہ تہلکہ مچا دینے والا انکشاف کیا کہ سورج زمین کے گرد نہیں بلکہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ وہ اپنے پیش رَو کوپر نیکس کے اُن نظریات کا پیروکار تھا جو قدیم نظریات کی نفی کرتے ہوئے جدید تحقیق اور سائنسی طریقہ پر مبنی تھے۔ اُن دنوں کلیسا صرف مذہب نہیں بلکہ علم و فضل کا بھی ٹھیکیدار اور اجارہ دار تھا۔ اہل کلیسا گلیلیو کے نظریات سے اتنے ناراض ہوئے کہ انہیں مجبور کیا کہ وہ اپنے ملحدانہ اور کافرانہ نظریات سے دستبردار ہو جائے ورنہ سزائے موت دیئے جانے کے لئے تیار ہو ۔ مغرب میں اہل کلیسا اور اہل علم کی لڑائی کا آغاز سورج کے مقام کے تعین سے ہوا۔ اس جنگ میں کلیسا کی شکست ہوئی اور علم جیت گیا۔ مسلمانوں کے دین کی بنیاد ہی علم و عقل اور فہم و شعور پر ہے۔ ہمیں مان لینا چاہئے کہ آج ہم ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں ایک طرف علم ہے، عقل ہے، پُرامن بقائے دوام ہے، امن و انصاف ہے، مساوات ہے، مذہبی رواداری ہے، سیکولر ریاست ہے، قانون کی حکمرانی ہے اور دُوسری جانب جہالت، اندھیرا، تعصبات، توہمات، تقدیر پرستی، قدامت پسندی، انسانی حقوق کی پامالی، بے اُصولی، استحصال، لوٹ مار اور پاناما میں چھپائے ہوئے اثاثے ہیں۔ بد قسمتی سے اگر ہم پہلے کی بجائے دوسرے راستے پر چل نکلے تو سورج سوا نیزے پر آجائے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں