فیض صاحب یہ سوال لاہور میں (جہاں وہ رہتے تھے) یا سیالکوٹ (جہاں کے وہ رہنے والے تھے) کے کسی بھی وکیل سے کرتے تو اُنہیں غالباً یہ جواب ملتا: ''فیض صاحب! آپ کس چکر میں پڑے ہوئے ہیں؟ آپ اپنی جان خواہ مخواہ کیوں ہلکان کرتے پھرتے ہیں؟ کیا میں آپ کو نظر نہیں آتا؟ آپ مجھے خدمت کا موقع دیں اور اپنے اس دیرینہ خادم کو اپنا وکیل بنا لیں۔ رہا منصف کی تلاش کا مسئلہ تو وہ بھی آپ میرے توسط سے (انگریزی محاورہ کے مطابق Good Offices کے ذریعہ) بخوبی حل کر سکتے ہیں۔ کہنے کو تو میں وکیل ہوں‘ اور کمرہء عدالت میں جج کی بڑی کرسی پر بیٹھا ہوا منصف کہلاتا ہے‘ مگر جس طرح (بقول غالب) 'قید حیات، بند و غم اصل میں دونوں ایک ہیں‘۔ اِن دنوں (دن بھی وہ جب فیض صاحب اُدھیڑ عمر میں داخل ہو چکے تھے۔ اُدھیڑ عمر کا مطلب ہے وہ عمر جب اُدھڑنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے) جو نئی تبدییاں رُونما ہوئی ہیں‘ اُنہوں نے وکیل اور منصف کے درمیان خلیج کو پُر کر دیا ہے۔ اِن دونوں کے درمیان انگریز کی کھینچی ہوئی لکیر مدہم ہوتے ہوئے مٹ چکی ہے۔ فی الحال وہ دونوں اصل میں ایک ہیں۔ آپ میرے جیسے جہاں دیدہ اور زمانہ ساز اور دُنیا دار وکیل کے ذریعہ منصف سے تمام نازک معاملات گھر بیٹھے طے کر سکتے ہیں۔ آزمائش شرط ہے۔‘‘
برصغیر ہند و پاک کا کوئی بھی صوبہ‘ کوئی بھی شہر اور کسی شہر میں کوئی بھی عدالت ہو‘ آپ کو اس عدالت کے احاطہ میں گھاس پھوس کے چھپروں تلے بیٹھے یا اپنے نئے شاندار دفاتر میں کالا کوٹ پہنے ایسے لوگ ضرور ملیں گے‘ جو وکیل ہونے کا دعویٰ کریں گے مگر اُن کی پریکٹس کا دار و مدار نچلی سطح کے جج صاحبان سے تعلقات پر ہے یا پھر وہ ٹائوٹ جو پولیس افسروں کے ساتھ مل کر اس قسم کی ساز باز کر سکتے ہیں کہ ان کے موکل پر آنچ نہ آئے۔ ہماری خوش قسمتی سے ایسے ننگ وِطن اور ننگ اِنصاف لوگوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ ہے۔ یہ دراصل وہ گورکن ہیں جو اپنے ہاتھوں سے ہر روز انصاف کی قبر کھودتے ہیں اور نظامِ انصاف کی میّت ہر روز ان کے کندھوں پر سوار ہو کر قبرستان تک کا سفر طے کرتی ہے۔ یہ ہے وہ تلخ سچائی جس کا نہ اعلیٰ عدلیہ ذکر کرتی ہے اور نہ کوئی بار ایسوسی ایشن۔ جو جانتے ہیں وہ بولتے نہیں‘ اور جو بولنا چاہتے ہیں اُن کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوتی ہے۔ نقار خانہ میں طوطی کی آواز کوئی سنے تو کیونکر؟ بقول فیض: ع
کسی کو بہر سماعت نہ وقت تھا‘ نہ دماغ
اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے وہ بھی آپ فیض کے الفاظ میں پڑھیے: ؎
نہ مدعی نہ شہادت، حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
آپ کو یاد ہو گا کہ میرے پچھلے کالم کا موضوع 'بھارت کا نظام اِنصاف‘ تھا‘ مگر بات اُدھوری رہ گئی۔ وجہ یہ نہیں کہ کالم نگار داستان کہتے کہتے سو گیا تھا بلکہ اُس موضوع کے ساتھ ایک کالم کی محدود جگہ میں انصاف کرنا ممکن نہ تھا۔ آئیے اب وہی پرُانا تذکرہ مکمل کرتے ہیں۔
بھارت میں وفاقی حکومت اپنے بجٹ کا صرف 0.2 فیصد قانون اور انصاف کے محکمے پر صرف کرتی ہے۔ آپ بھارت میں کسی بھی ضلع کچہری میں جائیں‘ تو ہر عدالت کے باہر سائلوں کی لمبی قطار ( Queue) دیکھیں گے۔ اس قطار میں جو لوگ گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں‘ اُنہیں ہرگز یقین نہیں ہوتا کہ آج اُن کے مقدمہ کی سماعت ہو گی۔ ہر روز ہر جج کے سامنے درجنوں مقدمات پیش کئے جاتے ہیں۔ اُس کے لئے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ سب کی سماعت کر سکے؛ چنانچہ وہ سماعت ملتوی کر دیتا ہے‘ اور فریقین کو رسمی پیشی کی تاریخ دے دی جاتی ہے۔ روزنامہ گارڈین نے (جس نے اپنی 6 مئی کی اشاعت کا ایک پورا صفحہ بھارت کے نظام انصاف کا گھنائونا چہرہ دکھانے کے لئے وقف کیا) ہائی کورٹ کے ایک سابق جج صاحب کا جو انٹرویو شائع کیا‘ وہ پاکستان کے کسی بھی ہائی کورٹ کے کوئی بھی جج صاحب دے سکتے تھے۔ روزانہ تیس سے چالیس مقدمات کی سماعت جبکہ جج کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ کسی کا ایک فائل کا بھی ہر صفحہ غور سے پڑھ سکے۔
مقدمات کو لٹکانے کے لئے وُکلا ہر قسم کا تاخیری حربہ استعمال کرنا اپنا پیشہ ورانہ فرض سمجھتے ہیں‘ جھوٹ موٹ کی بیماری کے بہانہ سے لے کر کسی قانونی موشگافی کا سہارا لینے تک۔ بھارت میں سوچ بچار کا ایک ادارہ ہے‘ جس کا نام ہے Daksh (ہندی میں اس کا ضرور کوئی اچھا سامعنی ہو گا) اس کے سربراہ کا نام ہے Harish Narasappa ۔ اُس کے سوچے سمجھے اندازے کے مطابق مقدمات کی سماعت کے معرض التوا میں ڈالنے اور نئی تاریخ دینے کی کارروائی سے بھارت کو ہر سال اربوں روپوں کا نقصان ہوتا ہے‘ مگر بھارت میں کسی بھی وکیل یا جج کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ مضطرب یا پریشان ہوں اُن کے دُشمن۔
Dushyant Dave بھارتی سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ہیں۔ آپ اُن کی عوام دوستی کی تعریف کرنے میں یقینا آپ میرا ساتھ دیں گے کہ اُن کی نظر میں بھارت میں 700 ملین (70 کروڑ یعنی پاکستان کی کل آبادی سے تین گنا سے بھی زیادہ) لوگ خط افلاس کے نیچے زندہ رہتے ہیں‘ سکہ بند غریب اور مفلوک الحال۔ اُن کا وجود بھارتی جمہوریت کی نشوونما کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ عدالتی انصاف ملے تو سماجی اور معاشی انصاف کی باری آئے۔
بھارت میں ایک تحقیقی ادارہ Vidhi Centre for Legal Policy بڑا اچھا کام کر رہا ہے۔ نظامِ انصاف کی گوناگوں خامیوں کے بارے میں عوامی شعور کی سطح بلند کرنے کے لئے جو عملی جدوجہد یہ کر رہا ہے‘ ہمیں پاکستان میں اُس کا چھوٹا سا عکس بھی نظر نہیں آتا۔ بھارتی عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات دو تہائی فوجداری نوعیت کے ہوتے ہیں۔ دیوانی جھگڑوں کی اکثریت عدالت کے باہر ہی ثالثی یا پنچایت یا باہمی سمجھوتہ کے ذریعے ختم ہو جاتی ہے۔ گارڈین کے اس مضمون میں یہ ذکر نہیں ملتا کہ جھگڑے طے کرنے کے لئے متبادل طریقہ (جو غیر مقدماتی ہے) یعنی Alternative Dispute Resolution پاکستان میں شروع کیا گیا ہے‘ آیا بھارت میں بھی یہ تجربہ کیا جا رہا ہے یا نہیں؟ آپ پڑھ کر خوش ہو جائیں کہ برطانیہ اور یورپ میں ADR کا تجربہ کامیاب ثابت ہوا ہے۔
پاکستان کی طرح بھارت میں بھی انصاف نہ جلدی ملتا ہے اور نہ اتنا سستا ہے کہ عام آدمی کی پہنچ کے اندر ہو‘ یہ سائل کی دہلیز سے اتنا دُور دراز ہوتا ہے کہ سراب کی طرح اپنے پیچھے بھاگنے والے کو فریب دیتا رہتا ہے مگر کبھی ہاتھ نہیں آتا۔ نظام انصاف کی سست روی اور کرپشن اور اس کے غیر فعال ہونے کی وجہ سے نوجوانوں نے اپنی مدد آپ کے تحت چوکسی کمیٹیاں (Vigilance Committees) بنائی ہیں‘ جو عدالتوں سے بری ہو جانے والے مجرموں کو خود کڑی سزا دیتی ہیں۔ انصاف کے متلاشی عدالتوں میں سالہا سال دھکے کھانے کی بجائے پولیس یا جج یا دونوں کو رشوت دے کر اپنا اُلو سیدھا کرنے کو پسند کرتے ہیں۔ گارڈین کے رپورٹر نے وہ عدالتیں بھی دیکھیں جہاں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کوئی روشنی نہ تھی‘ اور عدالتی کام نیم تاریکی میں کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ بھارتی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ سیاست دان (چاہے اُن کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو) اور سرکاری افسران عدلیہ کو انتظامیہ کے اثر و رسوخ سے آزاد کرانے اور اسے جدید خطوط پر اُستوار کرنے اور فعال بنانے میں بالکل کوئی دلچسپی نہیں رکھتے‘ کیونکہ نظامِ انصاف کی بہتری سے عوام پر مافیا کے قبضہ کو برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
بھارت میں سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو جلد از جلد ضروری سزا دینے میں تاخیر کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ جرائم کی سنگینی کے ساتھ ساتھ جرم کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ ہم اس سوال سے آنکھیں نہیں چرا سکتے کہ برطانوی راج کے زمانہ میں لاء اینڈ آرڈر کی حالت کیوں بہتر تھی اور 1947ء کے بعد ہر عشرہ میں یہ بدتر کیوں ہوئی ہے۔ غالب نے عمر کو گھوڑے سے تشبیہہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ کہاں رُکے گا چونکہ نہ باگ پر ہاتھ ہے اور نہ رُکاب میں پائوں ہے‘ مگر ہم جانتے ہیں کہ عمر کا گھوڑا تو ایک نہ ایک دن موت کے گڑھے میں جاگرے گا۔ نظامِ انصاف کی گاڑی اُفتاں و خیزاں چلتی ہوئی ایک دن اتنی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر ریزہ ریزہ ہو جائے گی کہ ہم ایک دُوسرے سے پوچھتے پھریں گے‘ آپ بتائیں کہ ہم کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں؟ اور ہمیں کوئی جواب نہیں ملے گا۔