تم نے لُوٹے تخت و تاج

لگتاہے کہ کلام اقبال سے اپنے کالم کا عنوان مُستعار لینا میرا معمول بنتا جا رہا ہے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ دیار غیر میں رہنے والے ایک نیم خواندہ ''پینڈو‘‘ کی سیدھی سادی باتیں، دُکھ سُکھ کی باتیں، کھری باتیں، بے ساختہ باتیں، دل کے نہاں خانوں میں جنم لینے والی اور بوڑھی آنکھوں سے آنسو بن کر بہنے والی باتیں، دن میں دیکھے جانے والے خوابوں کی باتیںکالم نگار کے اُس وطن عزیز کے ذہین لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اچھی لگتی ہیں، جہاں سے وہ نصف صدی قبل جلا وطن ہونے پر مجبور ہوگیا تھا۔ مگر میں آپ کو اپنا ہم راز اور ہمدم سمجھ کر یہ سچ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ ان پچاس سالوں میں سوتے جاگتے کوئی لمحہ ایسا نہ ہوگا جب اس کالم نگار کے دل و دماغ سے اُس کے کروڑوں ہموطنوں پر ٹوٹنے والی ہزاروں مصیبتیں، لاکھوں آفتیں اور ان گنت تکلیفیں (فارسی میں مصائب) اوجھل ہو گئی ہوں۔ بقول غالب ؎ 
گو میں رہا رہین ستم ہائے روز گار
لیکن تیرے خیال سے غافل نہیں رہا
ضرب کلیم میں اقبال کے ایک نظم کے چھٹے شعر کے دوسرے مصرع کا آخری حصہ آج کے کالم کا عنوان بنا۔ وسطی ہندوستان کی ایک چھوٹی سی ریاست (بھوپال) کے فرمانروا (جو نواب کہلاتے تھے) اقبال کے مداحوں میں شامل تھے۔ اُنہیں نہ صرف کئی بار اقبال کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا بلکہ اقبال کی مالی مشکلات ( بے دلی اور عدم توجہ سے کی جانے والی وکالت اس صورت حال کا ذمہ دار تھی) کے ازالہ کے لئے ایک معقول رقم بطور ماہانہ وظیفہ دینے کا اعزاز بھی شامل تھا۔ اقبال جس شاہی مہمان خانہ میں ٹھہرائے جاتے اُس کا نام شیش محل تھا۔ شیشے سے بنے ہوئے گھر میں رہتے ہوئے یورپ پر اتنی شدت اور تسلسل سے سنگلاخ پتھروں کی بارش کرنا صرف اقبال جیسی بڑی شخصیت کے بس کی بات تھی۔ اُن کے سوا کسی بھی مائی کے لال کو اپنی جماعت کی آستینوں میں چھپے ہوئے بت نظر نہ آئے۔ حکم اذاں ملا تو صرف اقبال کو۔ 22 اگست 1935ء کی رات کو بھوپال کے رہنے والے چین کی نیند سو گئے مگر شیش محل میں ٹھہرا ہوا مہمان جاگ رہا تھا۔ آدھی رات ہوئی تو قلم اُٹھایا، سات اشعار پر مشتمل ایک نظم لکھی جس کا عنوان تھا ''مسولینی ‘‘۔ اُس فسطائی آمر مطلق نے اپنے مشرقی و مغربی حریفوں کو مخاطب کر کے جو کچھ کہا، چند لمحوں میں اُسے منظوم کر دیا۔ اقبال ساری شام مسولینی کی آوازسنتے رہے اور پھر ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا۔ اس نظم کے آخری دو شعر لکھنے پر اکتفا کرتا ہوں ؎
تم نے لوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے قیام
تم نے لوٹی کشت دہقاں، تم نے لوٹے تخت و تاج
پردۂ تہذیب میں غارت گری آدم کشی
کل روا رکھی تھی تم نے میں روا رکھتا ہوں آج
اقبال کے دور میں ایبے سینیا (آج کے ایتھوپیا) پر اٹلی کا جارحانہ قبضہ ہوا تو اقبال نے لکھا ع
ہے کتنی زہر ناک ایبے سینیا کی لاش
80 سال گزر جانے کے بعد آج کے شام کی وُہی حالت ہے جو اقبال کے عہد میں ایتھوپیا کی تھی مگر وجہ وہی ہے جو پہلے تھی ع
ہر گرگ کو ہے برّۂ معصوم کی تلاش
تقریباً سو سال پہلے چشم فلک نے وُہ بُرا دن دیکھا جب دُنیا کے نقشہ سے آخری مسلمان سلطنت (جس کا نام عثمانیہ تھا) کا نام و نشان بھی مٹا دیا گیا۔ آپ ستم ظریفی ملاحظہ فرمایئے گا کہ یہ کام غیروں نہیں بلکہ اپنوں نے کیا۔ خلافت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔ مذکورہ سلطنت بہت عرصہ پہلے مرچکی تھی، مگر اُس کی وفات اور تدفین میں کئی سالوں کا وقفہ آگیا جو اکثر ہوتا ہے۔ یہ مقولہ میرا نہیں بلکہ انگریزی زبان کے بڑے سب سے ادیب ولیم شیکسپیئر کا ہے۔ اُس نے اپنے ایک ڈرامہ میں (جس کا نام مجھے یاد نہیں آرہا) ایک کردار کا تعارف کراتے ہوئے لکھا کہ موصوف کو مرے ہوئے تو عرصہ گزر چکا مگر وہ دفن کئی سالوں بعد کئے گئے۔ سلطنت عثمانیہ کی وفات کی سب سے پرانی وجہ یہ لگتی تھی کہ وہ اندر سے گل سڑ چکی تھی۔کھوکھلی ہو چکی تھی۔ قدامت پسندی اور ماضی پرستی کا نیم مرُدہ نمونہ بن چکی تھی۔ بقول اقبال طرز کہن پر اُڑنا اور آئین نو سے ڈرنا اس کا شیوہ بن چکا تھا۔ یہاں تک کہ چھاپہ خانہ کی مشین (Printing Press) لگانا بھی جرم قرار دے دیا گیا۔ یورپ سترہویں اور انیسویں صدی کے درمیانی عرصہ میں اندھیرے سے نکل کر روشنی کے دور میں داخل ہو چکا تھا۔ جہالت اور توہمات کی بجائے عقل و شعور، مطلق العنانی کے مرحلہ کو عبور کرکے سلطانی جمہورکی طرف چل پڑا تھا، مگر سلطنت عثمانیہ کا کیا حال تھا؟ زمین اپنی جگہ سے ہل جائے مگر کیا مجال کہ گل محمد ایک انچ بھی سرک جائے۔ اسلام جیسا عوام دوست، ہردم سرسبز و شاداب اور انقلابی مذہب اس کے ہاتھ کی تلوار بننے کی بجائے ہتھکڑی اور پائوںکی زنجیر بن گیا۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ کی بنیادی وجہ وہی تھی جو زمانہ قدیم میں ڈائینوسور(Dinosaur)کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کی تھی۔ عثمانیہ سلطنت کے خاتمہ میں برطانوی جاسوس لارنس نے جو کردار ادا کیا اُس کا ذکر مستقبل قریب میں کسی اورکالم میں کیا جائے گا۔ آج یہ کالم نگار اپنے قارئین کو 9 مئی 1916ء کی طرف واپس لے جانا چاہتا ہے۔ پوری ایک صدی اور پانچ ہفتے پرانی بات ہے جب سلطنت عثمانیہ کی بوسیدہ مگر شاندار عمارت مغربی طاقتوں کی شرمناک سازش سے مسمارکر دی گئی تو سوال اُٹھا کہ ملبہ کو کس طرح تقسیم کیا جائے؟ پنجابی محاورہ کے مطابق چوروں کے گز بھی لاٹھی جتنے لمبے ہوتے ہیں۔ چوروں کے ٹولہ کی سربراہی برطانیہ اور فرانس کے پاس تھی۔ 9 مئی 1916ء کو ان دونوں کے وزرائے خارجہ کا لندن میں اجلاس ہوا۔ مغرب وسطیٰ کے کورے نقشہ پر ایک لکیر کھینچی گئی جو شام اور عراق کی سرحد بن گئی۔ اس لکیر کے آخر میں جو چھوٹا سا خم تھا، اس نے لکیرکو ذرا ٹیڑھا کر دیا (میں نے یہ الفاظ لکھے تو مجھے عصمت چغتائی کا لکھا ہوا شاہکار ناول ٹیڑھی لکیر یاد آیا جس نے زمانہ طالب علمی میں میرے ذہن پر گہرا اثر ڈالا۔) مشرقی وسطیٰ کی ریت پر کھینچی گئی بلا جواز، مصنوعی اور Arbitrary (غالباً اس کا بہترین ترجمہ من مانی ہوگا) لکیر کے ٹیڑھے پن میں آگے چل کر (1946ئ) میں اسرائیل کا پودا اُنہی منحوس ہاتھوں سے لگایا گیا جن کے بارے میں اقبال نے ایک بار لکھا اور میں دو بار دُہرا چکا ہوں ع 
دمشق ہاتھ سے جن کے ہوا ہے ویرانہ
صحرائوں میں کھینچی ہوئی لکیروں کو جس سفارتی معاہدہ نے جنم دیا اُس کا نام ہے Syke--Picit Pact ۔ برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بلفور نے ایک ریٹائرڈ فوجی کرنل اور ماہر نقشہ نویس Sir Mark Sykes سے پوچھا کہ ہم فرانس کے ساتھ کس قسم کا معاہدہ کریں؟ جواب ملا کہ میں ACRE نامی شہر کے A سے لے کر Kirkuk نامی شہر کے K تک لکیر کھینچنا چاہتا ہوں۔ لکیر کھینچ دی گئی اور کروڑوں عربوں کی قسمت کا اُس طرح فیصلہ ہوگیا جیسے اگست 1947ء میں برصغیر ہند و پاک کو نام نہاد آزادی دیے جانے کے چند روز بعد برطانوی بے ایمان اور بدنیت ثالث ریڈ کلف کے ہاتھوں ہوا۔
جنوری1915ء میں Sykes نے بحریہ کے وزیر ولسن چرچل کو خط لکھا اور دلائل پیش کر کے یہ تجویز دی کہ برطانیہ اور فرانس کو ملا کر (جیسے 1956ء میں ان دونوں ممالک نے مل کر نہر سویز پر قبضہ کیا تھا) قسطنطنیہ (آج کے استنبول) پر جلد از جلد قبضہ کرلیں تاکہ سلطنت عثمانیہ کی شہ رگ کو کاٹ کر پہلے جنوبی یورپ اور پھر وسطی یورپ پر تسلط قائم کیا جا سکے۔ اس بد بخت کے مشورہ پر عمل نے اتحادی فوجوں کے ایک لاکھ سپاہیوں کی جان لے لی۔Gallipoli پر برطانوی افواج کے اُتر جانے کے بعد آٹھ ماہ تک خون ریز جنگ جاری رہی مگر وہ استنبول پر قبضہ نہ کر سکا۔ 2014 ء میں اسلامی خلافت (ISIS ) نے عراق اور شام کے درمیان سرحدی چوکیوں کو بارود سے اُڑا دیا۔ یہ اعلان جاری کیا کہ آج ہم نے نے Sykes- Picot معاہدہ کی دھجیاں اُڑا دی ہیں۔ آج سامراجی ملک (برطانیہ، فرانس، اٹلی اور جرمنی) وہ فصل کاٹ رہے ہیں جو انہوں نے سو سال پہلے بوئی تھی۔ آج مغربی ممالک جن قوتوں کو دہشت گرد کہتی ہیں وہ اُن کی اپنی پیداوار ہیں۔ اب مشرق وسطیٰ صرف بموں کے دھماکوں کی نہیں بلکہ مذکورہ بالا نظم کے چھٹے شعر کے دوسرے مصرع کی باز گشت بھی سنائی دیتی ہے۔ ع
لُوٹی تم نے کشت دہقاں ،تُم نے لوٹے تخت و تاج

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں