ٹک رَہو تھائیں او یار

مندرجہ بالا الفاظ نیلی بار کے ایک ایسے پرانے گیت سے لئے گئے ہیں جسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ جب فیض صاحب نے ''مرے دل مرے مسافر‘‘کے نام سے اپنا آخری مجموعہ شائع کیا تو پنجابی میں لکھے ہوئے نغمہ کو اس میں استعمال کیا (ان کی دوسری پنجابی نظم ایک ترانہ ہے جو اس نسخہ میں ایک نمبر پہلے ہے اور وہ پنجابی کسان کے لئے ہے۔) پہلے مصرع میں وطن کی ٹھنڈی چھائوں کا ذکر ہے اور دُوسرے مصرع میں فیض صاحب اس کالم نگار جیسے خوشحال مگر ناخوش تارکین وطن کو مخاطب کر کے یہ دوستانہ مشورہ دیتے ہیں کہ ہم اپنے وطن کی ٹھنڈی چھائوں کو چھوڑ کر اورکہیں باہر نہ جائیں۔ فیض صاحب کو نیلی بار کے پرانے گیت کے یہ بول اتنے اچھے لگے کہ اُنہوں نے اسے اپنی نظم میں چار بار دُہرایا۔ فیض صاحب نے دلیل یہ دی: 
روزی دیوے گا سائیں
کانگ اُڈاون ماواں بھیناں
تَرلے پاون لکھ ہزاراں
خیر مناون سنگی ساتھی
چرخے اولے رووَن مٹیاراں
ہاڑاں کردیاں سُنجیاں رائیں
فیض صاحب بھولے بادشاہ تھے۔ خود خوابوں کی دُنیا میں رہتے تھے اور اپنے لاکھوں مداحوں کو بھی اُس سرخ سویرے کا خواب دکھاتے رہے۔۔۔۔ جب خلق خدا راج کرے گی، تاج اُچھالے جائیں گے اور تخت ہلائے جائیں گے۔ مختصر یہ کہ بڑا بھونچال آئے گا اور یہ نظام کہنہ زیر و زبر ہو جائے گا اور عوامی انقلاب آئے گا۔ اگر ہم اس خواب کو ایک طرف رکھتے ہوئے آگے بڑھیں اورآپ اُن کے مندرجہ بالا اشعار کا ناقدانہ جائزہ لیں تو آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ اب وہ دن گئے جب سائیں روزی دیتا تھا۔ اب مائیں اور بہنیںکوّے کو اُڑانے کے بجائے ولایت سے آنے والے منی آرڈرکا شدت سے انتظار کرتی ہیں۔ اب وہ اپنے بیٹے اور بھائی کے آگے ہاتھ جوڑتی ہیں کہ وہ گھر سے باہر نکلے، پردیس جائے اور وہاں زیادہ سے زیادہ رقم کمائے اور اسے باقاعدگی سے گھر بھیجے تاکہ گھر والوں کے مالی حالات خوب سے خوب تر ہوتے جائیں اور وہ اپنے شریکوں (یعنی حاسدوں جو پنجاب میں رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے لئے موزوں ترین اسم صفت ہے) کے سینوں پر مزید مونگ دل سکیں۔ اب مٹیاراں چرخے کی اوٹ میں چوری چھپے نہیں روتیں اور نہ سنسان راستوں کو دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرتی ہیں۔ اب وہ منی آرڈر ملنے پر خوشی سے ہنستی ہیں، بار بار ہنستی ہیں، بلند آواز سے ہنستی ہیں۔ اب زمانہ بدل چکا ہے، چرخہ رہا نہ اُس کی اوٹ میں رونے والی لڑکیاں۔ گائوں کو جانے والے راستوں پر پردیس سے بھیجی ہوئی رقم سے خریدی ہوئی کاریں اور موٹر سائیکل دوڑتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ اب پنجاب میں شاید ہی کوئی جانتا ہو کہ نیلی بار کہاں ہے اور صندل بار کسے کہتے ہیں؟ پنجاب کے دو دریائوں کی درمیانی زمین کو انگریزی دور میں لکھے ہوئے جغرافیہ کی کتاب میں بار لکھا جاتا تھا۔ وہاں کے لوگ بھی یہی لفظ استعمال کرتے تھے۔ اب کسی بار کا رنگ نیلا نہیں رہا اور نہ ہی کسی بار سے صندل کی خوشبو آتی ہے۔ ہم نے درخت ہی کاٹ ڈالے تو ان کی چھائوں (اور وہ بھی ٹھنڈی چھائوں) میں بیٹھنے کا امکان بھی جاتا رہا۔ اب تارکین وطن واپس چلے جائیں تو ٹھنڈی چھائوں کی بجائے بھاپ جیسی گرم لُو اُن کا گرم جوشی سے استقبال کرے گی۔ فیض صاحب کا حکم سر آنکھوں پر کہ ہم اپنی مہاراں موڑ لیں چونکہ ؎
آپ اپنے دہڑے دی ریس نہ کائی
اپنی جھوک دیاں ستے خیراں
ویہڑا ہو یا اپنی جھوک۔ واپس جا کر پتا چلتا ہے کہ تارکین وطن نے پردیس میں دن رات محنت کر کے جو گھر بنایا تھا اُس کے قریبی رشتہ داروں نے صرف صحن (ویڑے) پر نہیں بلکہ سارے گھر پر قبضہ کر لیا ہے۔ شکستہ دل تارکِ وطن پھر اپنی مہاراں (یعنی باگوں) کا رُخ موڑ کر پردیس لوٹ جاتا ہے اور وہاں (نور جہاں کے گائے ہوئے کمال کے نغمہ کے بولوں کے مطابق) اپنی حسرتوں پر آنسو بہاتے بہاتے دائمی نیند سو جاتا ہے۔ 
ولایت میں نصف صدی سماجی علوم پر کتابیں پڑھنے اور پڑھانے کے بعد مجھ پر یہ راز کھلا کہ پاکستان میں تبدیلی سیاسی یا مذہبی جماعتوں کے ہنگاموں، جلسے جلوسوں، دھرنوں اور تحریکوں سے نہیں بلکہ مساجد سے چلائی جانے والی سماجی تحریک سے آئے گی۔ کب آئے گی؟ کیسے آئے گی؟ جب مساجد کے امام صاحبان اور نمازیوںکی رضا کار عوامی فوج اس تحریک کی قیادت کرے گی، اپنے اپنے محلے کی صفائی کرے گی، وہاں سے کوڑا کرکٹ اپنے ہاتھوں سے اُٹھائے گے، اپنے محلے کی (ٹھیکری پہرہ کے طرز پر) چوکیداری خود کرے گی۔ یہ لوگ وہاں پھولدار پودے اور ٹھنڈی چھائوں دینے والے درخت لگائیںگے۔ اپنے ماحول کو سرسبز بنائیں گے۔ امداد باہمی کے اُصولوں پر ایک دُوسرے کی رضا کارانہ مدد کریں گے۔ رعایا کو شہریوں میں تبدیل کریں گے۔ اپنی سرزمین کو پاک بنانے کا مرحلہ تو بعد میں آئے گا۔ پہلے اسے صاف شفاف اور سرسبز و شاداب تو بنائیے۔ پھر ایمان کے دُوسرے (اور زیادہ آسان) حصے کی باری آئے گی۔ 
مجھے فخر ہے کہ میں اقبال کو اپنا پیر و مرشد سمجھتا ہوں مگر اقبال کی لکھی ہوئی ان کی اپنی نظم کے عنوان کے مطابق میں ''باغی مرید‘‘ ہوں۔ اقبال نے حد درجہ پریشان حال مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے آدھی سچائی پر مبنی تصدیق کرتی ہوئے لکھا ؎ 
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
میں اقبال سے معافی مانگتے ہوئے بڑے ادب سے لکھ رہا ہوں کہ یہ تو کوئی قابل تعریف یا قابل رشک معاشرہ نہ ہوا، جہاں مسجد کے اندر تو محمود و ایاز ایک صف میں کھڑے ہوں مگر مسجد کے باہر ایاز (جو محمود کا غلام تھا) سارا وقت اپنے آقا کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا رہے۔ یقیناً اقبال یہی چاہتے ہوں گے کہ مسجد کے باہر بھی بندہ اور بندہ نواز کی تفریق اور تقسیم باقی نہ رہے۔ یہی مساوات اسلامی معاشرے کی رُوح ہے۔ اقبال سے بہتر اس سچائی کو اور کون جانتا ہوگا۔ میں نے اقبال کے مندرجہ بالا شعر پر جو موّدبانہ تنقید کی اُس کی منطق بھی کلام اقبال کے مطالعہ سے اخذ کی گئی ہے۔
آزاد قوموں میں رضا کارانہ خدمت کا پودا خود رَو ہوتا ہے۔ وہ زمین سے خود بخود اُگتا ہے۔ Mushroom (اُردو ترجمہ ہے صحاروغ) کی طرح۔کوئی بیرونی طاقت اُسے اُوپر سے زمین میں نصب نہیں کرسکتی۔ حال میں اس کی سب سے روشن تین مثالیں ہمارے سامنے آئی ہیں۔ ایک راولپنڈی میں، جہاں ایک باہمت شخص اپنی ملازمت کے بعد شام کو بچوں کو برس ہا برس سے مفت پڑھا رہا ہے۔ اور دوسری دو مثالیں کراچی میں عالمگیر صاحب کی قیادت میں نوجوانوں نے ہمت کر کے ہزاروں کُھلے مین ہول (جو بچوں کے لئے موت کا کنواں تھے) ڈھکنوں سے ڈھانپ دیئے اور ایک خوشحال گھرانہ کی باضمیر اور بہادر بچی نے فلائی اوور کے نیچے غریبوں کے بچوں کے لئے مفت سکول قائم کیا ہے۔ اس طرح ہمارے ہر ضلع، ہر شہر، ہر صوبہ اور ہر صوبہ کے ہر شہر میں روشنی کے کئی مینار ہیں۔۔۔۔ عوامی خدمت، رضا کارانہ خدمت، خدا کی بستی میں دُکھی، بے بس ، بے آواز بندوں کی خدمت۔ یہ ہے اصل عبادت۔ یورپ میں رہنے والوں کی اکثریت اب کسی عبادت گاہ میں نہیں جاتی مگر اُس نے عوامی خدمت کی عبادت کو اس طرح اپنا لیا ہے کہ اُن کی کایا پلٹ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی تمام رحمتوں کی بارش ہوتی رہتی ہے۔ میں ہر ماہ رمضان میں اپنے قارئین کو یہ یاد دلاتا ہوں کہ اس مقدس مہینہ کے احترام میں ''کفار‘‘ خود ہی اشیاء خور و نوش کی قیمتیں گھٹا دیتے ہیں اور اپنی پارسائی کے بلند بانگ دعویٰ بھی بلند نہیں کرتے۔ ایک ہم ہیں کہ نہ اپنے دامن کو دیکھتے ہیں اور نہ بندِ قبا کو مگر ہر وقت اپنی پاکیٔ داماں کے بے بنیاد حقیقت کو بڑھاتے رہتے ہیں۔ کوئی دن نہیں گزرتا جب ہم پر کوئی نیا قہر نازل نہیں ہوتا۔ ہم بڑی ڈھٹائی سے اس کا سہرا اپنے دُشمنوں (خصوصاً یہود و ہنود) کی سازشوں کے سر باندھ دیتے ہیں۔ چند لاکھ افراد تارکین وطن بن کر بھاگ گئے۔ فیض صاحب کے رومانوی مشورے اپنی جگہ مگر کیا یہ سچ نہیں کہ اگر ہمارے کروڑوں لوگوں کو بیرون ملک جانے کے لئے ویزے مل جائیں تو وہ سب کے سب یہاں سے جلد از جلد مفرور ہو جائیں گے۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ وہ نہ ملنے والے ویزوں کے خواب دیکھنے کی بجائے اپنے وطن کو وطن عزیز بنا لیں۔ اپنے اپنے ہاتھوں سے اندھیروں کو روشنی میں تبدیل کر دیں تاکہ وہ مبارک وقت آئے کہ ویزا مل رہا ہواور کوئی ملک سے باہر شخص نہ جائے اور بقول فیض یہی کہے ع
ٹک رہو تھائیں او یار

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں