ہمارے کسان کو سُستی کا طعنہ

دل آزار یہ طعنہ کس نے دیا؟ مسلم لیگ (ن) نے۔ کب دیا؟ گزشتہ انتخابات سے پہلے اپنے جاری کردہ منشور میں۔ کن الفاظ میں دیا؟ ؎ 
دہقان اگر نہ ہو تن آساں
ہر دانہ ہے ہزار دانہ
پہلے زخم لگانا اور پھر زخموں پر نمک چھڑکنے کی اس سے بہتر (اور زیادہ تکلیف دہ) مثال نہیں دی جا سکتی۔ میں کسان اتحاد کے راہنما جناب محمد انور اور ایک معاصر اخبار کے کالم نگار (ارشد وحید صاحب جو کسانوں کے راہنما کی طرح چوہدری بھی ہیں) کا مشکور اور احسان مند ہوں کہ ایک نے کسانوں کے حقوق کے لئے آواز اُٹھائی اوردُوسرے نے کسانوں کے مسائل پر اتنا اچھا مضمون لکھا۔ ہم پہلے چوہدری محمد انور صاحب کی بات کریں گے۔ جنہوں نے کسانوں کو منظم کیا (جو غالباً دُنیا کا سب سے مشکل کام تھا)۔ بڑے بڑے جلسے کئے۔ حاضرین کی تعداد کئی ہزاروں میں تھی خاص بات یہ ہے کہ لوگ خود آئے اور دُور دُور سے آئے۔( سرکاری سیاسی جلسوں کے سامعین کی طرح کرایہ پر نہ لائے گئے) یکے بعد دیگرے شدید گرمی کے باوجود بڑے شہروں میں دھرنے دیئے۔ اتنی گرمی کہ کئی لوگ بے ہوش ہوئے اور ایک شہید۔ موسم گرما میں پسینہ اور اپنی حالت زار پر آنسو بہانے والوں کو پارلیمنٹ کے سامنے احتجاجاً دُودھ بہانے کا راستہ دکھایا۔ (وُہی دودھ جس کو پنجاب کے دیہاتی بجا طور پر نور کہتے ہیں۔) لاہور کی مال روڈ پر اپنے پرُ امن مگر شدید غم و غصہ کا اظہار آلو اور ٹماٹروں کی سینکڑوں بوریاں پھینک کر ٹریفک بند کردی۔ یہ تو تھے کسان راہنما اور ان کے جانباز ساتھیوں کے کارنامے۔ اس صدی کے پہلے عشرہ میں ہمارے بہادر اور باضمیر وکلا نے اور دُوسرے عشرے میں کسانوں نے پاکستان کی تاریخ میں پرُ امن مگر موثر اور منظم احتجاج کی اک نئی تاریخ لکھی۔ وُکلا کی طرح کسانوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اب ہم ارشد وحید صاحب کی طرف چلتے ہیں ۔جنہوں نے ہمیں بتایا کہ ہمارے جیسے زرعی ملک میں صرف کپاس کی فصل کی پیداوار کم ہو جائے تو اقتصادی ترقی کا مقرر کردہ ہدف حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ رواں مالی سال میں زرعی شعبہ کی ترقی کا ہدف تین فی صد رکھا گیا مگر وہ ایک فی صد بھی نہ ہوا۔ خوشگوار حیرت کا مقام ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے شہری بابو بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ کل قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ 21 فی صد ہے اور یہ شعبہ نہ صرف ہماری آدھی سے زیادہ آبادی کو روز گار دیتا ہے بلکہ ہماری برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدنی کا 70 فیصد بھی ہمیں اپنی زمین اور اس پر کاشت کرنے والوں کی بدولت ملتا ہے۔ 
یہ سادہ لوح کالم نگار آج تک یہی سمجھتا چلا آیا ہے کہ ہمارے معاشی نظام کا نصف سے زیادہ حصہ (علم ابدان کی رُو سے نصف سے زیادہ حجم۔ نصف سے زیادہ پٹھے اور نصف سے زیادہ ہڈیاں) کا تعلق زراعت سے ہے۔ مسلم لیگ کے معاشی ماہرین کو نوبل انعام ملنا چاہئے کہ اُنہوں نے ریڑھ کی ہڈی دریافت کر لی۔ مگر میں سوچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ سالہا سال سے امریکہ سے جھک جُھک کرخیرات مانگ کر گزارہ کرنے والوں اور ملک چلانے والوں کی اپنی ریڑھ کی ہڈی تو اس وقت تک بہت ٹیڑھی ہو چکی ہوگی۔ ہمارے سامراجی ان داتا بے رحم تو ہیں۔ احمق ہر گز نہیں۔ وہ کیسے چاہیںگے کہ پاکستان معاشی طور پر خود کفیل بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر خوشحال ہو جائے۔
یہ کالم نگار 1952 ء میں اسلامیہ کالج گوجرانوالہ میں داخل ہوا۔ (یہ 64 سال پرانی بات ہے) تو مجھے بتایا اور سکھایا اورپڑھایا گیا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ اس کی زراعت بہتر ہوگی اور کسان خوشحال ہوگا تو پاکستان کی قومی دولت بڑھے گی اور غربت کم ہوگی۔ اس روزِ روشن کی طرح واضح سچائی کو سمجھنے کے لئے راکٹ سائنس کا ماہر ہونا ضروری نہیں۔ اب مڑ کر دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ آسمان پر چمکتے ہوئے سورج کی موجودگی تسلیم کر لینا تو شاید راکٹ سائنس سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بیرون ملک سے ڈیزل منگوا کر اپنے بجلی گھر چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ زمیں سے کوئلہ نکال کر توانائی کے بحران کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ اور اوس پڑوس سے بجلی درآمد کرنے کے منصوبے بناتے ہیں۔ ہمیں نہ اپنے دریا اور نہریں نظر آتی ہیں۔ جو سستے داموں پن بجلی پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں اور نہ چمکتا دمکتا اور (اِن دنوں) آگ برساتا سورج جو اتنی شمسی توانائی عطا کر سکتا ہے کہ ہم دُکھ کے جہنم سے نکل کرسُکھ کی جنت میں داخل ہوسکتے ہیں۔ ارشد وحید کے ساتھ ایک اور کالم نگار بھی میرے شکریہ کے مستحق ہیں اُن کا نام عمار جان ہے۔ وہ کیمبرج یونیورسٹی میں پی ۔ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے کس میدان میں تحقیق کر رہے ہیں۔ وہ تو ابھی یہ نہیں جانتا کہ میں ماہ ستمبر میں ایک کانفرنس میں شرکت کرنے وہاں جائوں گا۔ تواُنہیں ضرور ملوں گا اور یہی میرا پہلا سوال ہوگا۔ اس باخبر اور ذہین نوجوان نے وطن عزیز میں انگریزی اخبار پڑھنے والوں (جن کو پاکستان کی قومی زبان میں اخبار پڑھنا بھی بہت گراں گزرتا ہے) کی مفروضہ عوامی دوستی کے مشکوک جذبہ کو اپیل کرتے ہوئے انجمن مزارعین (اوکاڑہ) کی قابل تعریف بہادرانہ جدوجہد پر روشنی ڈالی ہے۔ پانامہ اور دوسرے مقامات میں قومی دولت کو چرا کر چھپانے کے جرم کی سنگینی اپنی جگہ مگر وہ ہماری زندگی موت کا مسئلہ نہیں۔ یہ اِسم صفت صرف ہماری زراعت کے لئے بجا طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ زراعت کا کیا حال ہے۔نہ پانی ہے اور نہ کھاد۔ نہ ٹیوب چلانے کے لئے توانائی اور نہ کیڑے مار دوائیاں۔ کپاس کی پیداوار میں ایک چوتھائی کمی ہوئی اور چاول کی پیداوار میں نصف۔ جلانے والی لکڑی پانچ سو روپے فی من اور گنا ایک سو دس روپے فی من۔اب بیج کی طرف آیئے۔ ساری دُنیا میں شور مچا ہوا ہے کہ Genetically Modified یعنی GM بیج نہ صرف فصلوں کے لئے نقصان دہ ہے بلکہ انہیں استعمال کرنے والے انسانوں کے لئے اور ماحول کے لئے بھی۔ ایک غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق پختون خوا کی حکومت نے ایک رُسوائے زمانہ بیج فراہم کرنے والی امریکی کمپنی سے بہت بڑا معاہدہ کر لیا ہے۔ خدا کرے یہ غلط ہو مگر ایک خبر بالکل سچی ہے۔ پاکستان میں کپاس کا GM بیج متعارف کرادیا گیا ہے۔ ماہرین سے پوچھے بغیر۔ یہ پانامہ لیکس سے بھی بڑا سیکنڈل ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں صرف اُس سیکنڈل پر توجہ دی جاتی ہے ۔ جس سے حکومت وقت کو بدنام کرنے (حالانکہ اُس کی پہلے بھی کوئی زیادہ اچھی شہرت نہیں ہوتی) کا سنہرا موقع ملے۔ وہ سیکنڈل جس سے ملک و قوم کو نقصان ہو صرف کراچی کو ایک نظر دیکھیں جہاں اغواء اور دوسرے سنگین جرائم کی وارداتوں میں اضافہ ہوا اور بے گناہ مشہور و معروف افراد کے قتل کی وارداتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جو حکیم سعید صاحب اور ہفت روزہ تکبیر کے مدیر صلاح الدین کی ہلاکت سے شروع ہو کر بے نظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو اور پھر خود بے نظیر کے قتل سے ہوتا ہوا امجد صابری کے قتل تک پہنچا۔) جوئے خون ہے کہ بہتی جا رہی ہے۔ اور رُکنے کا نام نہیں لیتی۔ یاد رکھئے کہ کراچی میں رینجرز جو چاہے کر لیں۔ وہ بڑی محدود‘ وقتی اور عارضی اور سطحی کامیابی حاصل کر سکیں گی۔اس سے زیادہ نہیں۔ ہر گز نہیں وہ کیا ہے۔ بقول اقبال: ؎
سبب کچھ اورہے جسے تو خود سمجھتا ہے
آج کا کالم کروڑوں کسانوں کو دیئے گئے طعنہ کے تذکرہ سے شروع ہوا تھا۔ سیالکوٹ کے ایک غریب کسان کا پڑپوتا ابھی آپ کو بہت کچھ بتانا چاہتا تھا کہ کالم کی تنگ دامنی آڑے آگئی ہے۔ دریائے ستلج ضلع قصور کے ایک مقام پر پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ اگر بے چارے کو پہلے پتہ ہوتا کہ پاکستان میں داخلہ کی اُسے یہ سزا ملے گی تو وہ یقینا اپنا رُخ موڑ لیتا۔ ہم نے ایک خوبصورت دریا کو گندے نالے میں تبدیل کر دیا ہے۔ صرف آلودہ نہیں بلکہ زہریلا بھی۔ ادھر حکمران یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ اگر ہمارا کسان اتنا کاہل نہ ہوتا تو ہماری زرعی پیداوار کئی گنا بڑھ جاتی ۔ اب یہ فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں کہ یہ ہنسنے کا مقام ہے یا رونے کا یا باری باری دونوں کا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں