پر مجھے گفتگو عوام سے ہے

میرے قارئین میں سے جو لوگ اُردو ادب سے تھوڑی بہت شناسائی رکھتے ہیں، وہ بھی یہ جان کر حیران ہوں گے (جب تک کراچی سے آئے ہوئے مہمان راحت سعید نے میرے علم میں یہ اضافہ نہ کیا، میں بھی لاعلم تھا) کہ آج کے کالم کا عنوان اُنیسویں صدی کے ایک غیر روایتی شاعر میر تقی میرؔ کے ایک شعر کا دُوسرا مصرع ہے۔ ان کا پورا شعر یہ ہے ؎ 
شعر میرے ہیں گو خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
ہماری کلاسیکی شاعری کو دیکھیں تو یہ نتیجہ اخذ کرنے میں زیادہ دشواری نہیں ہوتی کہ گل و بلبل اور حسن و عشق اور فراق و وصال کے قصے منظوم کرنے والوں کا عوام سے کیا تعلق؟ اگر انیسویں صدی میں اُردو کی کوئی لغت شائع ہوتی تو بعید از قیاس نہیں کہ اس میں عوام کا لفظ بھی سرے سے موجود نہ ہوتا۔ یہ تو وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ ساری اُردو شاعری میں عوام کا لفظ کہیں استعمال ہوا ہے یا نہیں، مگر یہ بات تو یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اُردو شاعری میں عوام کا لفظ پہلے پہل میر تقی میرؔ نے استعمال کیا اور خوب کیا۔ صرف لفظ کی بات ایک طرف رکھیے گا، میر صاحب فرماتے ہیں کہ میں تو مخاطب ہی عوام سے ہوں۔ وہ عوام جو ناخواندہ تھے۔ ادبی ذوق نہیں رکھتے تھے۔ میر صاحب کے شعر سُن سکتے تھے نہ پڑھ سکتے تھے۔ جنہیں اشرافیہ جاہل اور اُجڈ کہتی ہے، وہ اشرافیہ سے ہزاروں میل دُور ہیں تو پسند و ناپسندکا مرحلہ کیسے آتا؟ میر صاحب کے اشعار اشرافیہ کے اُن لوگوں کو پسند آتے تھے جو جمالیاتی اور ادبی ذوق بہرحال رکھتے تھے ( شاید ضرورت سے بھی زیادہ) مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہ تھا کہ میر صاحب عوام سے کٹی ہوئی بلکہ عوام سے نفرت کرنے والی اور اس سے ایک قدم اور آگے بڑھ کر عوام دُشمن اشرافیہ سے مخاطب ہو جاتے۔ نظیر اکبر آبادی کے بعد ڈیڑھ صدی گزر گئی تو زمانے نے کروٹ لی۔ اُردو میں حبیب جالب، پنجابی میں اُستاد دامن، سندھی میں شیخ ایاز، پشتو میں اجمل خٹک اور بلوچی میں گل خان نصیر عوام سے براہ راست مخاطب ہوئے۔آئیے آپ میرے ساتھ مل کر ان سب پر عقیدت کے پھول نچھاورکریں۔
پنجاب میں اُردو متوسط طبقہ کی زبان ہے اور اشرافیہ کی ثقافت کا ایک نمایاں حصہ ہے۔ حکمران طبقہ (جو اہل زبان نہیں) ٹوٹی پھوٹی اُردو بولتا ہے، جس میں آدھے یا آدھے سے زیادہ الفاظ انگریزی کے ہوتے ہیں اور اگر میرے جیسے مسکین لوگوں پر رُعب ڈالنا مقصود ہو تو پھر وہ انگریزی بولی جاتی ہے جو نہ انگریزوں کو سمجھ آتی ہے اور نہ اُن کے ملک میں میری طرح نصف صدی سے رہنے والوںکو۔ زبان صرف بولنے کا ذریعہ نہیں بلکہ سوچنے کا سانچہ بھی ڈھالتی ہے۔ غالباً پہلے لکھ چکا ہوں اس لئے تکرارکی معافی چاہتا ہوں کہ انقلاب روس سے پہلے وہاں کا حکمران طبقہ فرانسیسی زبان بولتا تھا۔ رُوسی زبان وہاں کے اُجڈ کسانوں کی زبان تصور کی جاتی تھی۔ انقلاب آیا تو رُوسی زبان کو پہلی بار سرکاری اور قومی زبان ہونے کا درجہ ملا۔ پاکستان میں جب تک عوامی انقلاب نہیں آتا تب تک اُردو سرکاری زبان نہ بنے گی اور نہ سکولوں میں مادری زبان پڑھائی جائے گی۔ آپ نے دیکھ لیا کہ جب حکمران طبقہ کے کسی فرد کو آئین کی پروا نہیں تو سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جناب جواد خواجہ صاحب کے تاریخی فیصلے کو وُہی اہمیت دی جائے گی جو ایک محاورے کے مطابق پرِکاہ (کوّے کے پرَ) کو دی جاتی ہے۔
آج تک دنیا میں جتنے بھی انقلاب آئے ہیں، اُن میں ایک قدر مشترک نمایاں نظر آتی ہے۔ ہر انقلاب اُس وقت کی اشرافیہ کے خلاف آیا اور ہر انقلاب کی حمایت ستم زدہ اور زیر عتاب عوام نے کی۔ حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسٰیؑ سے لے کر آخری نبی حضور پاکﷺ تک، آپ صرف اس زاویہ سے دیکھیں کہ کس طبقہ نے حمایت کی اور کس نے مخالفت؟ تو آپ کو ہمیشہ ایک ہی جواب ملے گا، اشرافیہ نے مخالفت اور عوام نے حمایت کی۔ انقلاب فرانس تو ذرا پُرانی پُرانی (اُٹھارویں صدی) کی بات ہے جس نے ایک نئے عوامی دَور کے سیلاب کے آگے باندھے ہوئے صدیوں پُرانے اور بڑے مستحکم بند توڑ ڈالے۔ بیسویں صدی میں انقلاب رُوس سے لے کر انقلاب ایران تک کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ رائج الوقت نظام Status Quo کی حمایت صرف برسر اقتدار اور مراعات یافتہ طبقہ کرتا ہے اور صرف وہ طبقہ اس نظام کو درہم برہم کرتا ہے جسے وہ نظام قابل قبول نہ ہو، جو اُن کے حقوق اور مفادات کو پامال کرتا ہو، جس میں ان کی جان و مال یا عزت محفوظ نہ ہو۔ جو راندۂ درگاہ ہو اور جو اُفتادگان خاک کی زندہ مثال ہو وہی طبقہ (بقول فیض) ہر اولی الامر کو صدا دیتا ہے کہ وہ اپنی فرد عمل سنبھالے۔ چونکہ ایک دن جلد یا بدیر دھرتی دھڑ دھڑ کانپنے لگتی ہے۔ اُس دن تاج اُچھالے جاتے ہیں اور تخت نشین زمین پر گرائے جاتے ہیں۔
اس کالم نگار نے زندگی کے 64 سال علم سیاسیات پڑھنے اور پڑھانے پر صرف کر دیے۔ اُس کا حاصل مطالعہ کیا ہے؟ اگر ہم اپنے پیارے ملک میں مساوات اور قانون کی حکمرانی اور انصاف پر مبنی نظام رائج کریں، سُلطانی جمہور کا اُصول عملی طور پر ہر سطح پر تسلیم کریں، ہر قسم کی اُونچ نیچ کا خاتمہ کر دیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ تمام مراعات طبقہ کی اجارہ داری ختم ہو جائے اور عوام کو تمام بنیادی حقوق سے فیض یاب کر دیا جائے؛ روز گار، تعلیم، علاج اور زندگی کی تمام بنیادی سہولیات ہر شہری کو ان تک ایک جیسی رسائی ہو، اُمور حکومت میں اُن کی بھرپور نمائندگی ہو، رعایا اور عوام شہری کے درمیان دیوار چین گرا دی جائے اور عوام کو صحیح معنوں میں ان کے ملک کا مالک بنا دیا جائے تو آزاد ملک کے آزاد شہری اپنے حصہ کا پورا ٹیکس دیں گے، قانون شکنی نہیں کریں گے۔ قانون کی حکمرانی کا دل و جان سے احترام کریں گے۔ اپنے محلہ کی خود صفائی کریں گے اور حفاظت بھی۔ غلام ملکوں میں لوگوں کی حفاظت پولیس اور فوج کرتی ہے، آزاد ملکوں میں عوام اپنی حفاظت خود کرتے ہیں۔ وطن عزیز میں حکومت کی (ماضی و حال کی ہر حکومت) ناکامی سے ایک طرف (War Lords) قانون شکن عناصر اور ڈاکوئوں کے سرپرست وڈیرے اُبھرے اور دُوسری طرف کچی بستیوں (Slums) میں جرائم پیشہ گروہوں اور جتھوں (Gagng) کی پیدائش و پرورش ہوئی۔ ان کی ہر روز، ہر ہفتہ، ہر ماہ اور ہر سال بڑھتی ہوئی وارداتوں (قتل، اغوا اور بھتہ) کا علاج نہ پولیس کر سکتی ہے اور نہ رینجرز اور نہ بڑی سے بڑی فوج۔ آپ رعایا کو شہری بنا دیں تو وہ اپنا بنایا ہوا قانون توڑنے والوں سے خود نبٹ لیںگے۔کراچی ہو یا کوئی اور شہر، نظم و نسق وہاں کے رہنے والوں کو دے دیں تو دیکھتے ہی دیکھتے ہم موجودہ جہنم سے نکل آئیں گے اور ہماری سرزمین پر بھی وہ برکتیں نازل ہوں گی جو اُن دنوں صرف یورپ کے لئے مخصوص ہیں اور کسی بھی اسلامی ملک کے نصیب میں نہیں۔ سوچنے کا مقام ہے کہ یورپی ممالک میں (مذہب سے دُوری کے باوجود) خوشی اور خوشحالی کا دور دورہ کیوں ہے؟ یہ کالم نگار اس بنیادی سوال کا جواب تمام سیاسی اور مذہبی رہنمائوں سے مانگتا ہے۔ اقبالؔ نے حد درجہ انکساری اور کسر نفسی سے کام لیتے ہوا لکھاتھا ع
وہ اک مرد تن آساں تھا، تن آسانوں کے کام آیا
دراصل یہ ہماری تن آسانی پر ایک لطیف طنز تھی۔ اقبال اپنی قوم سے مخاطب ہوئے تو مروتاً اپنے آپ کو بھی نہ بخشا۔ میرے لئے یہ خوشی کا مقام ہے کہ آپ جیسے لوگ یہ سُطور پڑھتے ہیں اور پسند کرتے ہیں۔ اپنے قارئین سے یہ ذہنی رشتہ میرا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ بات وہیں پر ختم کی جاتی ہے جہاں سے شروع ہوئی تھی کہ حکومت وہ چلے گی جو عوام کی ہو ۔ نظام وہ بابرکت ہوگا جس سے عوام بہرہ ور ہوں۔ گفتگو وہی مفید اور کار آمد ہوگی جو عوام سے ہو۔ زبان خلق ہی نقارہ خدا ہوتی ہے۔ ہم جب تک نقارۂ خدا نہ سنیں گے اور نوشتہ دیوار نہ پڑھیں گے ہماری حالت روز بروز بہتر ہونے کی بجائے بد سے بدتر ہوتی جائے گی۔ کوئی چالاکی، کوئی شعبدہ بازی، کوئی ساحری، کسی طاقت کا استعمال، کوئی جبر، کوئی تشدد، کوئی نادر شاہی فرمان، کوئی بدعنوانی، کوئی رشوت ستانی، کوئی سامراجی حربہ نہ اندھیرے کو روشنی میں بدل سکتا ہے اور نہ ہتھیلی پر سرسوں جما سکتا ہے۔ نہ صرف یہ سب کچھ آج بُری طرح ناکام ہے بلکہ آنے والے کل میں اس سے بھی زیادہ ناکام ہوگا۔ یہ قانون قدرت ہے، یہ پتھر پر لکیر ہے، یہی ازل سے تقدیر کے قاضی کا فتویٰ ہے کہ وہ حکمران جو عوام دُشمن ہوں عوام پرحکومت کرنے کا اخلاقی جواز نہیں رکھتے۔ جو لوگ اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوں، جمہوری قدروں سے بے بہرہ اور ناآشنا ہوں، عوام سے لاتعلق ہوں بلکہ دل ہی دل میں دُعا مانگیں کہ انہیں مجبوراً عوام سے گفتگو کرنے کا عذاب نہ سہنا پڑے وہ ہمارے دُکھوں کا مداوا کس طرح کر سکتے ہیں؟ وہ خود بھی ذلیل و خوار ہوں گے اور ہمیں بھی کرکے رہیں گے۔ جس طرح عراق اور شام کے حکمرانوں (صرف فرد واحد نہیں بلکہ سارے حکمران طبقہ) نے کیا۔ میں جن عوام سے مخاطب ہوں صرف وہ اپنی قسمت خود بدل سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں میرؔ صاحب کا یہ مصرع بار بار میرے ذہن میں گونجتا رہے گا ع
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں