اوڑھنی کو پرچم بنالینے والی خواتین

گزشتہ ڈیڑھ صدی کے دوران دُنیا بھر میں عورتوں نے کس کس طریقے اور کون کون سے جتن کر کے اپنی زنجیریں توڑیں اور برابری کا حق حاصل کرنے کے لئے بہادرانہ جدوجہد کی، اس موضوع پر ضخیم کتاب لکھی جا سکتی ہے، کالم کی محدود جگہ میں تو صرف چند باتیں ہی بیان کی جا سکتی ہیں۔ 
ہلیری کلنٹن امریکہ کے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی ہیں یا نہیں، اس کا پتا تو نومبر میں چلے گا مگر امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار ایک بڑی سیاسی پارٹی (ڈیمو کریٹک) نے ایک خاتون کو اپنا اُمیدوار نامزد کیا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے پہلے کسی خاتون نے صدارتی انتخاب میں حصہ نہیں لیا۔ آئیے ہم 166سال پیچھے جائیں۔
دو نومبر 1872ء کو امریکہ کے صدارتی انتخاب سے تین دن پہلے پولیس کے دو بڑے افسروں نے نیو یارک کی براڈ سٹریٹ کے مکان نمبر 48 کے دروازے پر صبح سویرے دستک دی۔ جس خاتون نے دروازہ کھولا وہ صدارتی اُمیدوار تھی۔ نام تھاVictoria Wood Hull ۔ اُسے امریکی اخبارات نے شیطانی کردار کا خطاب دیا۔ وہ امریکی خواتین کو ڈاک کے ذریعے اپنے لکھے ہوئے پمفلٹ بھیجا کرتی تھی جن میں وہ اُنہیں شادی کے رواجی بندھن کے ذریعے ساری عمر غلامی کی زنجیروں میں بندھے رہنے کے خلاف بغاوت کرنے پر اُکساتی تھی۔ وہ خواتین کو ہر قسم کی عدم مساوات، عدم برداشت، عدم تحفظ اور عدم آزادی کے خلاف جدوجہد پر ذہنی طور پر تیار کرنے کے لئے جو مواد لکھتی اور تقسیم کرتی تھی، سرکاری محکمۂِ استغاثہ نے اُسے نہ صرف موجب نقص امن بلکہ مخرب اخلاق اور فحش قرار دے کر مصنفہ کے خلاف پرچہ درج کر لیا اور پولیس نے صرف 72 گھنٹوں کے بعد ہونے والے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے والی پہلی خاتون کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا۔ اس خاتون نے یہ کمال بھی کر دکھایا کہ اپنے چھاپہ خانے میں کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کا لکھا ہوا ''اشتراکی منشور‘‘ بھی سر زمین امریکہ میں پہلی بار شائع کر دیا۔ اگر مجھے کبھی کتاب لکھنے کی فرصت ملی تو میں اس قابل صد احترام خاتون پر مفصل مضمون لکھوںگا۔ جب تک یہ کتاب شائع نہیں ہوتی میرے قارئین مندرجہ بالا چندسطور پر ہی قناعت کریں اور پنجابی محاورے کے مطابق تھوڑے کو زیادہ سمجھ کر ( خلاف ِعقل ہونے کے باوجود) وقتی طور پر مطمئن ہو جائیں اور یہ جان لیں کہ ظلم و ستم کی رات شروع کے دنوں میں اتنی لمبی لگتی ہے کہ دل گھبرا جاتا ہے اور لگتا ہے کہ یہ کبھی ختم نہ ہوگی۔ مگر تاریخ کا سبق یہ ہے کہ رات چاہے کتنی لمبی ہو وہ کٹ ہی جاتی ہے۔ سماجی ناہمواری کی دیوار چاہے کتنی اونچی ہو وہ برابری کے سورج کی روشنی کو ہمارا صحن روشن کرنے کے راستے میں حائل نہیں ہو سکتی۔
پاکستان، بھارت، تھائی لینڈ، آئرلینڈ، نیوزی لینڈ، برطانیہ اور جرمنی کے علاوہ کئی ممالک میں وزارت عظمیٰ کا عہدہ خواتین کے پاس رہ چکا ہے۔ ان دنوں برطانوی وزیراعظم بھی ایک خاتون ہیں۔ ٹوکیو اور روم جیسے دُنیا کے بڑے شہروں کی میئر خواتین ہیں۔ اٹلی میں اُسی طرح کی ایک نئی سیاسی جماعتFive Star Movement نے اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں جو تمام پرانی اور رواجی سیاسی جماعتوں کی مخالف ہے اور نظام کہنہ کو مسترد کرتی ہے۔ جس طرح یونان اور سپین میں اشتراکی ذہن رکھنے والے ایک بڑی اور سیاسی قوت بن کر اُبھرے ہیں اور پڑوسی ملک بھارت میں عام آدمی پارٹی، برطانیہ میں میرے ہمدم دیرینہJeremy Corbyn کی صورت میں جو لیبر پارٹی کے ایک بت شکن، عوام دوست اور انقلابی راہنما بن کر اُبھرے ہیں اور وہ بھی صرف ایک سال کے اندر اندر۔ موصوف سے میرا تعارف دس سال پہلے ہوا جب ہم دونوں کراچی میں ہونے والے ورلڈ سوشل فورم کے اجلاس میں شریک ہونے اکٹھے گئے۔ اٹلی میں Turim ایک اہم شہر ہے جسے وہی مقام حاصل ہے جو پاکستان میں ملتان کو۔ اس شہر کے لوگوں نے بھی حال ہی میں ایک خاتون Chiara Appendinoکو اپنا میئر منتخب کیا ہے۔ میں اٹلی جائوں تو صرف روم میں ہی دو تین مصروف دن گزار کر واپس لندن لوٹ آتا ہوں۔ ارادہ ہے کہ اب روم کی بجائے مذکورہ شہر جائوں اوراس خاتون میئر کو ملوں اور اُنہیں پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دوں۔ اس خاتون نے پہلا کام یہ کیا کہ گوشت (ہر قسم کے گوشت) کی فروخت کی حوصلہ شکنی کرنے کے لئے عملی اقدامات کیے اور سبزیوں کی فروخت کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے ہر ممکن قانونی ہدایات جاری کیں اور ان کے موثر نفاذ کے لئے اتنی موثر کارروائی کی کہ برطانوی اخبارات (جنہیں اس خاتون نے انقلابی نظریات ایک آنکھ نہیں بھاتے) بھی اس کی تعریف کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے برطانوی میڈیا نے اگست میں شروع ہونے والی برمنگھم کی گرائونڈ میں کھیلے جانے والی کرکٹ ٹیسٹ میچ میں سہیل خان کی شاندار بائولنگ اور اظہر علی کی اتنی ہی شاندار بیٹنگ پر داد و تحسین کے پھول برسائے؛ حالانکہ ان دونوں نے یہ کارنامے انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کے خلاف کھیلتے ہوئے سرانجام دیئے تھے۔ 
کلام اقبال کے ابتدائی دن تھے جب فرانسیسی سائنس دان خاتون Marie Curie کو دُنیا کی تاریخ میں ایسی پہلی شخصیت ہونے کا اعزاز حاصل ہوا جسے1911ء میں دُنیا کا سب سے بڑا انعام نوبل دوسری بار دیا گیا۔ اُنہوں نے ریڈیم اور Polonius دریافت کر کے سائنس کی کایا پلٹ دی۔ خواتین کا نوبل انعام حاصل کرنے کا ذکر چھڑ جائے تو مجھے ایک امریکی ادیبہ کا ذکر ضرور کرنا چاہئے۔ نام ہےPearl S.Buck ۔81 سال عمر پائی جس میں 85 کتابیں لکھیں۔ The Good Earth ان کی شاہکار تصنیف تصور کی جاتی ہے۔ اُنہیں 1938ء میں ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔
دورِ حاضر میں پاکستان کی سب سے ممتاز تاریخ دان اُسی طرح کی ایک خاتون عائشہ جلال ہیں جس طرح بھارت میں ایک خاتون Romilla Thapar۔1857ء میں لڑی جانے والی پہلی جنگ آزادی میں جھانسی کی رانی کو اور تقریباً ایک ہزار سال پہلے برطانوی تاریخ میں رومن قبضہ کے خلاف لڑنے والی فوج کی جرنیل خاتون Boudiccia کو بلند مقام حاصل ہے۔ وسط لندن میں ملکہ برطانیہ کے محل کے باہر اور ہائیڈر پارک کے سامنے اس بہادر خاتون کا مجسمہ نصب ہے۔ اُن کے ہاتھ میں اپنی جنگی رتھ کے شاہ زورگھوڑوں کی باگ ہے اور اُن کے منہ سے نکلے ہوئے یہ الفاظ پتھر پر کندہ ہیں: '' تاریخ نے مجھے جو ذمہ داری سونپی ہے وہ میں مرد سپہ سالاروں سے زیادہ بہادری سے پوری کروں گی چونکہ مجھے نہ موت سے ڈر لگتا ہے اور نہ شکست سے خوف آتا ہے‘‘۔
وہ مرد بڑے کم عقل ہوتے ہیں جو عورتوںکو صنف نازک کہتے یا سمجھتے ہیں۔ اس کالم نگار نے 60 سال سماجی علوم پڑھے اور پڑھائے تو پتا چلاکہ دُنیا میں صرف وہی سماج متوازن، مہذب اور متمدن بنا جہاں خواتین کو وہ بلند مقام دیا گیا جس کی وہ بجا طور پر مستحق ہیں۔ جس سماج میں بے وقوف لوگوں کی اس رائے کو پذیرائی حاصل ہوئی کہ عورتوں کی عقل اُن کی ایڑی میں ہوتی ہے وہ جاہل، پسماندہ، غیر متوازن، نیم یا مکمل وحشی اور مارکٹائی سے بھرپور بن گیا۔ اتفاقاً نہیں بلکہ منطقی اعتبار سے ہر سماج کی ترقی کا صرف ایک ہی پیمانہ ہے اور وہ ہے عورتوں کی سماجی عزت و ترقی۔
آج کا کالم ختم کرنے سے پہلے ایک غلطی کی اصلاح کرنا چاہتا ہوں اور آپ کو ایک دلچسپ خبر سنانا چاہتا ہوں۔ میں نے حال ہی میں شائع ہونے والے کالم میں لکھ دیا کہ کوئی بھی عوام دُشمن حکومت سپریم کورٹ کے عوام دوست فیصلہ کو پرکاہ جتنی اہمیت نہیں دیتی۔ یہ سوچ کر کہ میرے قارئین فارسی نہیں جانتے کیوں نہ اُن کی سہولت کے لئے اُس ترکیب کا اُردو ترجمہ کر دیا جائے۔ نیت تو یقیناً اچھی تھی مگر افسوس کہ ترجمہ غلط کر دیا۔ دورِ حاضر کے سب سے بڑے طبلہ نواز کا نام اُستاد اللہ رکھا (مرحوم) ہے۔ لندن میں مقیم ایوب اولیاء اُن کے داماد ہیں۔ (غالباً اب یہی اُن کی پہچان بن کر رہ گئی ہے۔) اُن کا آبائی تعلق گوجرانوالہ سے ہے جو ہمارے قابل صد فخر پہلوانوں کا شہر ہے اور خور و نوش کے اہتمام کے لئے دُنیا بھر میں مشہور ہے۔ ایوب اولیاء نہ صرف کلاسیکی موسیقی کے رُموز جانتے ہیں بلکہ علم و ادب سے اتنے قریب ہیں کہ اُنہوں نے بکمال مہربانی میری اصلاح کرتے ہوئے بتایا کہ پرکاہ گھاس کے تنکے کو کہتے ہیں، کوے کے پرکو نہیں۔ میں اس غلطی پر اپنے قارئین سے معافی کا طلبگار ہوں اور جناب ایوب اولیاء کا اس کالم کے توسط سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں