بھارت یاترا (2)

شروع کرتے ہیں اس کالم کے عنوان میں یاترا کے لفظ سے۔ میں نے یہ لفظ بھارت کے اندر کئے جانے والے فضائی سفر کے درمیان سنا تو پتہ چلاکہ میں اور میری بیوی یاتری (Tourist) یعنی سیاح ہیں۔ شمالی بھارت کا سفر مکمل کر کے میں نے مشرقی بھارت کا سفر دہلی کے ہوائی اڈے سے 20 ستمبر کو شروع کیا۔ دہلی شہر میں کتابیں خریدنے کا وقت نہ ملا تھا۔ یہ کمی دہلی ایئر پورٹ پر برطانوی کتب فروش W.H Smith کی مقامی شاخ نے پوری کر دی۔ مغربی بنگال کی سیاسی لغُت میں یہ تین نام سب سے بڑے ہیں۔ سبھاش چندر بوس (جو نیتا جی کے لقب سے مشہور ہیں۔) رابندر ناتھ ٹیگور (ادب کا نوبل انعام پانے والے واحد ہندوستانی) اور جیوتی باسو (کیمونسٹ راہنما جو بنگال کے تیس برس وزیراعلیٰ رہے)۔ خوش قسمتی سے مجھے ان تینوں پر اچھی اور دلچسپ کتابیں مل گئیں۔ ساری ایئر پورٹ راحت فتح علی خان کے گائے ہوئے ایک مقبول فلمی نغمہ اور لوک فنکار عارف لوہار کی گائی ہوئی جُگنی کی جانی پہچانی آوازوں سے گونج رہی تھی۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ایئر پورٹ والوں نے پاکستانی فنکاروں کے گائے ہوئے گیت صرف ایک پاکستانی یاتری کو خوش کرنے کے لئے سنانے کا اہتمام کیا ہو۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دونوں ہمسایہ ملکوں کے باہمی تعلقات اُسی قسم کے ہیں جو مستقلاً لڑنے جھگڑنے والے میاں بیوی کے ہوتے ہیں۔ ناراضگی‘ گلے شکوے‘ رنجشیں ایک طرف اور ثقافتی یگانگت‘ عوامی مکالمہ اور (بقول غالب) قطع تعلق نہ کرنے کا مصمم ارادہ چاہے ماسوائے عداوت کے اور کچھ باقی نہ رہے۔ میں نے رات کلکتہ کے مضافات میں (ایئر پورٹ سے متصل ) ہوٹل میں گزاری اور پوہ پھٹنے سے قبل میرا جہاز اس منزل کی طرف اڑا‘ جسے میں بچپن سے کالا پانی کے ڈرا دینے والے نام سے جانتا تھا۔ انگریز کے بنائے ہوئے ضابطٔہ فوجداری میں کالا پانی کی سزا پائے جانے کو بہ عبور دریائے شور لکھا گیا۔ یہ تھے جزائر انڈیمان 
(جو بحیرہ بنگال کے وسط میں ہیں) میں بنائی گئی جیل میں عمر قید (اور وہ بھی قید بامشقت) کی دی جانے والے سزا کا مقصد۔کالا پانی کی سزا اُن ہندوستانیوں کو عبرت کے لئے دی جاتی تھی ۔ جنہوں نے نے 1857 ء میں پہلی جنگ آزادی لڑی اوربدقسمتی‘ بدانتظامی‘ بے ترتیبی‘ نظم وضبط کے فقدان‘ یک جان اور دو قالب ہونے کی بجائے چوں چوں کا مربہ بن جانے کی مہلک خامی کی بہتات سے ہار گئے۔ سینکڑوں جانفروشوں کو پابجولاں(ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنا کر ) اس وحشت ناک جزیرہ میں تقریباً75 سال تک لے جانے کا سلسلہ جاری رکھا گیا اور وہاں اُن سے وہ مشقت آمیز جبری محنت کرائی گئی جو بیلوں جیسے کٹھن طاقتور جانوروں کے لئے بھی بہت مشکل اور کٹھن ہوتی۔ یہ کالم نگار اپنا ہوائی ٹکٹ خرید کر وہاں برضا رغبت گیا دو دن کیسے گزرے؟ذہنی طور پر شدید اضطراب میں اور جسمانی طور پر بڑے سکھ چین سے ۔ اس دورہ کا واحد مقصد مذکورہ بالا جیل کو اندر سے دیکھنا اور اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات اکٹھی کرنا تھا۔میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ بھارتی حکمرانوں کی تنگ نظری اور تعصب تقسیم ہند کا باعث بنی۔ اُس کا مظاہرہ قدم قدم پر نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر اس جیل کے اندر جن مجاہدین کی تصویریں اور تعارفی خاکے آویزاں کئے گئے ہیں اور جیل کے باہر ان کے مجسمے نصب کئے گئے ہیں۔ اُن میں سے ایک بھی مسلمان نہیںتھا۔ اس کے باوجود کہ اُن کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔ انڈیمان کی اس جیل کو ہماری تاریخ میں وہی مقام حاصل ہے جو انقلاب فرانس (1789 ء) میں پیرس کی جیلBastille کو۔ انڈیمان میں شام ہوئی تو جیل میں میری طرح کے پانچ سو سیاحوں کو آواز اور روشنی (Light and Sound) کے امتزاج سے ایک شو دکھایا گیا جو اس جیل میں قید بامشقت اور پھانسی کی سزا پانے والوں پر گزرنے والی اور رُلا دینے والی داستان کا بیانیہ تھا۔ قابل ذکر بات یہ تھی کہ جب بھی سینکڑوں قیدی اپنے اُوپر کئے جانے والے مظالم کے خلاف احتجاج اور بھوک ہڑتال کرتے تھے وہ آزادی کے نہیں بلکہ انقلاب زندہ باد کے نعرے لگاتے تھے۔ میں نے نہ صرف انڈیمان کے بلکہ اس کے ملحقہ جزیروں کی اور اُن پر پھیلے ہوئے پہاڑوں اور گھنے جنگلات کی سیر کی۔ میں جہاں بھی گیا۔میں نے دُور اُفق سے آتی ہوئی اذانوں کی ایمان افروز آوازیں سنیں۔ انڈیمان جانے والے ہر غیر ملکی سیاح کو داخلہ کے لئے خصوصی اجازت نامہ لینا پڑتا ہے۔ وہ ایئر پورٹPort Blair پر میں نے بھی لیا۔ جو نہی سیکورٹی حکام اور آباد کاروں کو پتہ چلتا تھا کہ برٹش پاسپورٹ رکھنے والا یہ یاتری دراصل پاکستانی ہے تو اُن کا چہرہ خوشی اور حیرت سے کھل اُٹھتا تھا اور وہ یہ جملہ دُہراتے تھے کہ اُنہیں اس سے پہلے کسی پاکستان کو ملنے کا موقع نہیں ملا۔
آج جو لوگ برصغیر ہندو پاک کے تین پڑوسی ممالک میں برسر اقتدار ہیں وہ چاہیں بھی تو یہ تصور نہیں کر سکتے کہ اگر اتنے زیادہ بہادر لوگ اتنی تعداد میں اتنے سال اتنی بڑی قربانی نہ دیتے تو آج اُن کی تخت نشینی ممکن نہ تھی۔ اگر انڈیمان میں جان کی قربانی دینے والے شہدا کی رُوحیں برصغیر ہندو پاک پر قابض مافیا کی سفاکی بے رحمی ‘ نہ ختم ہونے والی لوٹ مار‘ خود غرضی‘ عوام دُشمنی اور سامراجی طاقتوں کی غلامی دیکھ سکیں تو غالبا ًاُنہیں اپنی قید میں دیئے جانے والے ناقابل بیان عذابوں سے بڑھ کر دُکھ اور تکلیف اور رنج ہوگا۔
میں انڈیمان سے واپسی پر کلکتہ تین دن رُکا۔ حسب معمول مقامی یونیورسٹی میں قانون اور تاریخ کے اساتذہ اور ہائی کورٹ میں وُکلا سے باہمی دلچسپی کے اُمور پر گفتگوہوئی۔ میں نے حتی المقدور پاک بھارت دوستی کو انسانی سطح پر ہر جگہ بڑھایا۔ میرا فرض ہے کہ یہ بیان کروں کہ بنگال میں پاکستان کے لئے ہندوستان کے ہر حصہ سے زیادہ جذبہ سگالی پایا جاتا ہے اور میں جن سے بھی ملا۔ اس خواہش کا برملا اظہارکیا گیا کہ کتنا اچھا ہو کہ کشمیر کا تنازع جلدازجلد حل کر کے برصغیر میں پائیدار امن قائم کیا جائے۔
میرا کلکتہ جانے کا بڑا مقصد سبھاش چندر بوس (نیتا جی) کے گھر میں بنائے جانے والی نمائش گاہ کو دیکھنا تھا۔ اُسے میں نے جی بھر کر دیکھا اور اپنے محدود علم میں گراں قدر اضافہ کیا۔ نیتا جی کانگرس کے صدر بنے تو وہ قائداعظم سے بھی ملے۔ (میں اس ملاقات کی تصویر حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہا۔) نیتا جی آزادی کے ساتھ ساتھ انقلاب کا نام لیتے تھے اور اس طرح لیتے تھے کہ مہاتما گاندھی کے ناپسندیدہ افراد میں سر فہرست بن گئے۔ مہاتما گاندھی نے نیتا جی کے لئے کانگریس کا دُوسری بار صدر بن کر کام کرنا اتنا مشکل کر دیاکہ اُن کے لئے مستعفی ہونے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہا۔ میں تاریخ کا ادنیٰ طالب علم ہونے کے باوجود یہ لکھے بغیر نہیںرہ سکتا۔ کہ اگر کانگرس کی قیادت نیتا جی‘سروجنی نائیڈو اور راج گوپال اچاریہ جیسے راہنمائوں کے ہاتھ میں ہوتی تو غالباً نہ ہندوستان تقسیم ہوتا ۔ تقسیم ہند کے الفاظ تو اس لحاظ سے بے معنی ہیں کہ ماسوائے پنجاب اور بنگال کے ہندوستان کا کوئی بھی اور صوبہ ریڈ کلف کی تیز دھارچُھری کا شکار نہ بنا۔ وہ چھری جو لاکھوں بے گناہوں کے قتل عام اور انسانی تاریخ میں سب سے بڑی انسانی ہجرت کا باعث بنی۔ 1857 ء میں جنگ آزادی (جسے انگریز مورخین غدر لکھتے ہیں) کی ناکامی کے بعد اسد اللہ خان غالب پر یہ مصیبت ٹوٹی کہ اُن کی پنشن بند ہو گئی۔ وہ قرض کی مے پیتے مگر جانتے تھے کہ اُن کی فاقہ کشی جلد یا بدیر ضرور رنگ لائے گی۔ اس زمانہ میں برطانوی راج کا دارالحکومت کلکتہ میں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ غالب کو مجبوراً کلکتہ آنا اور رہنا اور اپنی پنشن کی بحالی کے لئے دوڑ بھاگ کرنا پڑی۔ اس وقت کا کلکتہ یقینا اتنا خوبصورت ہوگا کہ جب بھی غالب کے کسی ہم نشین نے اُن سے اس شہر کا ذکرکیا تو اُنہیں یوں لگا کہ کسی نے اُن کے سینے پر تیر چلا دیا ہو۔ اُن کی کلکتہ سے وابستہ حسین یادیں ہائے ہائے کی آوازوں میں ڈھل جاتیں۔ 
اس کالم نگار نے غالب سے 156 سال بعد کلکتہ دیکھا۔ غالب یہاں تین سال اور میں صرف تین دن رہا مگرکتنا اچھا ہوتا کہ میںموجودہ کلکتہ دیکھنے کا صدمہ نہ اُٹھاتا اور نہ غالب کے سینے پر چلنے والے تیروں سے بالکل مختلف (بلکہ متضاد ) تیروں کی زد میں آتا۔ میرے قارئین کے لئے بہت مشکل ہوگاکہ وُہ آج کے کلکتہ کی غربت‘ انسانی زندگی کی بے قدری‘ چاروں طرف پھیلے ہوئے افلاس‘ گندگی‘ بے نظمی‘بے ترتیبی‘چال بے ڈھنگی اوراُمید کے کسی ایک بھی چراغ کی روشنی سے محرومی(Hopelessness) کا اندازہ کر سکیں۔ لاکھوں ریڑھیوں۔ خوانچہ فروشوں اور کھوکھوں(جو پنجابی زبان کا لفظ ہے) کا بہت بڑا Slum (قارئین مجھے اس کا اُردو ترجمہ بتائیں اور شکریہ قبول فرمائیں)۔ یقینا آپ یہ پڑھ کر ہر گز حیران نہ ہوں گے کہ غربت و افلاس کے اس سمندر میں خوشحالی کے چند چمکتے دمکتے جزیرے بھی ہیں۔ جن میں سے ایک کا نام ہے کلکتہ کلب۔ برطانوی راج کی ڈیڑھ سو سال یاد گار۔ کراچی کے سندھ کلب اور لاہور کے پنجاب کلب کے قبیلہ سے تعلق رکھنے والا۔ داخلہ فیس ایک لاکھ روپے اور سالانہ چندہ پچاس ہزار روپے۔ کالم نگار کی کلکتہ میں آخری شام اسی کلب میں اپنے متمول میزبان (Mr. Ganguly) کے ساتھ گزری۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ کھیل پہلے ختم ہوا یا پیسے پہلے ہضم ہوا مگر یورپ میں رہنے والا ایک بوڑھا شخص حادثہ اور بیماری کا شکار ہوئے بغیر اپنے گھونسلہ میں خیر خیریت سے لوٹا تو اُس نے اپنے رب کا شکر ادا کیا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں