کہ آتی ہے اُردو زباں آتے آتے

اُستاد ذوق (جو بچوں کے نہیں بلکہ شاعروں کے اُستاد تھے) کے لکھے ہوئے شعر کا دُوسرا مصرع آج کے کالم کاعنوان ہے۔ سلیس زبان میں اُس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صبر کریں۔ مشق جاری رکھیں اور دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے رکھیں۔ خدا کے فضل و کرم سے ایک نہ ایک مبارک دن اُردو زبان آپ کو آہی جائے گی۔ جلد یا بدیر مگر زیادہ امکان دیر لگنے کا ہے۔ آپ کا کالم نگار ایک عرصہ سے اپنے آپ کو مذکورہ بالا مصرع سنا سنا کر اپنی ڈھارس بندھاتا آیا ہے۔ تین چوتھائی صدی (پورے 75 سال سے) اُردو لکھ پڑھ اور بول رہا ہے مگر آپ سے کیا پردہ۔ اُسے اُردوابھی تک نہیں آئی۔ لگتا ہے کہ کبھی نہ آئے گی۔ اس حوصلہ شکن اعتراف کے باوجود اُسے جو ٹوٹی پھوٹی اُردو آتی ہے۔ وہ اُس سے کام چلا رہا ہے۔ کسی اہل زبان سے ملاقات ہوتی ہے (جو لندن میں بھی اکثر ہو جاتی ہے) تو وہ اُردو بولنے سے بجا طور پر گھبراتا ہے۔ کوئی بھی پنجابی (اور وہ بھی پینڈو) لاکھ جتن کر کے لکھنؤ کا مصنوعی لب ولہجہ اپنائے۔ ک اور ق بولے گا تو رنگے ہاتھوں پکڑا جائے گا۔ ساری محنت شاقہ رائیگاں جائے گی۔ مندرجہ بالا سطور لکھنے کا خدانخواستہ یہ مقصدہر گز نہیں کہ میں اپنے قارئین کو (جو اہل زبان نہیں یعنی اُردو اُن کی مادری زبان نہیں) اُردو بولنے سے روک رہا ہوں یا اُن کا حوصلہ (جسے انگریزی میں Morale کہتے ہیں) پست کرنا چاہتا ہوں۔ اگر بالکل درست اور نستعلیق لہجہ میں بولنے کی خوبی سے مادر زاد محرومی کو نظر انداز کر دیا جائے تو اُردو ادب کی تخلیق کے معاملہ میں پنجابیوں، پٹھانوں، بلوچوں اور سندھیوں کا ریکارڈ محض قابل تعریف نہیں بلکہ قابل فخر ہے۔ پانی پت کے الطاف حسین حالیؔ سے لے کر سیالکوٹ کے اقبال اور فیض تک۔ جالندھر کے ساحر اور حبیب جالب سے لے کر ساہیوال کے مجید امجد اور منیر نیازی تک۔ سون سکیسر کے احمد ندیم قاسمی سے لے کر پختون خوا کے احمد فراز تک۔ سارے نام لکھوں (جو میں بے تکان لکھ سکتا ہوں) تو اس اخبار کا ایک پورا صفحہ بھر جائے گا۔
میں پاکستان میں اپنی ایک دوست خاتون اور اُردو کو سرکاری زبان بنانے (1973 ء کے آئین کے مطابق یہ کام 1988 ء میں ہو جانا چاہئے تھا )کی تحریک کی سرگرم قائد فاطمہ قمر کا مشکور ہوں کہ اُنہوں نے مجھے فون کر نے کی زحمت اُٹھائی اورمیری توجہ تین دل خوش کر دینے والی خبروں کی طرف دلائی۔ پہلی خبر صدر مملکت کے بارے میں ہے۔ جناب ممنون حسین نہ صرف ماسکو بلکہ جس بھی دُوسرے دارالحکومت گئے۔ (یہ ماضی قریب میں کئے جانے والے دوروں کا ذکر ہے) وہاں سرکاری تقریبات میں انگریزی کی بجائے (جو ہمارا پرُانا وتیرہ تھا) اُردو میں تقریر کی اور اس طرح میزبانوں کی نظر میں اپنے وطن کی عزت بڑھائی۔ ترک رہنمائوں کے اعزاز میں دی جانے والی تقریبات میں بھی ہمارے کسی بھی صدر مملکت نے پہلی بار اُردو میں تقریر کی۔ دُوسری اچھی خبر کوئٹہ سے آئی ہے (جہاں سے آنے والی خبریں کبھی اچھی نہیں ہوتیں) بلوچستان کے چیف سیکرٹری سیف اللہ چٹھہ صاحب (کوئی عجب نہیں کہ میری اور اُن کی نا نی ایک دُوسرے کی قریبی رشتہ دار ہوں) نے اپنے عہدہ جلیلہ کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے یہ فرمان جاری کیا ہے کہ سرکاری محکموں کے سربراہ اُن سے اور ایک دُوسرے سے اُردو میں خط و کتابت کیا کریں۔ تیسری خبر کا تعلق جناب وزیراعظم سے ہے۔ مگر بدقسمتی سے فون لائن میں خرابی کی وجہ سے میں فاطمہ کے کے تعریفی جملے نہ اچھی طرح سے سُن سکا اور نہ سمجھ سکا۔ مگر اُن کا مفہوم یہ تھا کہ میاں نواز شریف صاحب کا رویہّ بھی قابل ستائش ہے چونکہ وہ بھی اپنی جگہ فاطمہ اور اُن کے بہادر ساتھیوں کی تحریک کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ اس کار خیر میں اُن کے وزیر اطلاعات (کسی بھی مہذب ملک میں اس قسم کا عہدہ نہیں ہوتا) جناب پرویز رشید بھی (جب اُنہیں اپنی اولین اُفتاں و خیزاں حکومت کے سیاسی مخالفین اور بدخواہوں پر گولہ باری کرنے سے فرصت ملے) پیش پیش ہیں۔ میں اپنے قارئین سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ لمحہ بھر کے لئے رُک کر سوچیں کہ ہمارے مسائل میں گھری ہوئی حکومت پہلے توانائی کا بحران کم کرے یا اُردو کو سرکاری زبان بنائے۔ عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب والا معاملہ ہے۔ 1988 ء کے سنگ میل کو گزرے 28 سال گزر چکے ہیں۔ اگر ہمیں مزید 28 سال بھی انتظار کرنا پڑا تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو پسند فرماتے ہیں۔ اگر ہم پیدائشی ناشکرے ہونے کی وجہ سے صبر کے ساتھ شکر نہیں کر سکتے تو ہم یقینا عذاب میں مبتلا کرائے جانے کے مستحق ہیں اور وہ عذاب اتنا بڑا ہوگا کہ ہم گزرے ہوئے 70 سالوں کو اپنا سنہرا دور سمجھنے لگیں گے۔
یہ نہیں ہو سکتا کہ فاطمہ مجھے فون کرے تو ریٹائرڈ چیف جسٹس جج جناب جواد خواجہ کی تعریفوں کے نئے پل نہ باندھے اور مجھے بھی اُن پر اپنی عقیدت کے مزید پھول برسانے کی ترغیب نہ دے۔ مگر مجھے یہ خوشگوار فریضہ سرانجام دینے میں فاطمہ کی پرُ جوش ہدایات کی ہر گز ضرورت نہیں۔ جب جناب جواد خواجہ کرسی عدالت پر متمکن تھے تو اُنہوں نے نہ صرف فاطمہ کی درد بھری فریاد سنی بلکہ اسے قبولیت بخشی اور اُردو کو جلد از جلد سرکاری زبان بنانے کے حق میں اپنا فیصلہ اُردو میں سنایا۔ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہوگی۔ آپ چاہیں تومجھے اجازت نہ دیں مگر میں یہ کہوں گاکہ جناب جواد خواجہ کا کام اپنا عدالتی فیصلہ سنانے کے بعد ختم نہیں ہوا بلکہ شروع ہوا ہے۔ ریٹائرڈ ہونے کے بعد وہ منقار زیر پر یعنی بالکل خاموش ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اُن کی آواز میں کتنا وزن ہے۔ وہ اس وزن کو اُردو کو سرکاری زبان بنوانے کی تحریک کے پلڑے میں کیوں نہیں ڈالتے؟ اب ہم ان جیسا دوسرا روشن دماغ، عوام دوست اور صوفی منش شخص کہاں سے لائیں؟ کیا ان کی ذہنی دیانتداری اور کلمہ حق کہنے کی خوبی اُن کے اعلیٰ ترین عدالتی عہدہ سے مشروط تھی؟غالباً موصوف میرے قارئین میں شامل نہیں۔ میں فاطمہ کے ذمہ یہ کام لگاتا ہوں کہ وہ میرے کالم کی فوٹو جج صاحب تک پہنچائیں اور یہ پیغام بھی کہ میں ایک سابق چیف جسٹس سے نہیں بلکہ ایک پرانے شناسا کے ضمیر سے مخاطب ہوں۔غالب کے دل میں یہ خلش تھی کہ ناخن کا قرض ابھی تک نہیں اُترا۔ کیا جج صاحب اپنا سارا قرض اُتارچکے؟ اُن کی خاموشی اور گوشہ نشینی اُن کے اس بہادر انہ کردار کے آگے ایک بڑا سوالیہ نشان لگاتی ہے۔ جو اُنہوں نے بطور چیف جسٹس ادا کیا اور پاکستان کی تاریخ میں اپنی جگہ بنائی۔ تاریخ کا پہیہ رُک تو نہیں گیا۔ تاریخی عمل ہمہ وقت جاری و ساری ہے۔ جج صاحب کو یہ حقیقت بتانا بھی غالباً بے ادبی کے مترادف ہے مگر اُن جیسے لوگ بھی آنکھیں (میر تقی میر کی زبان میں مژگاں) نہ کھولیں اور زبان بند رکھیں تو بچے کھچے شہر کو بھی سیلاب بہا کر لے جائے گا۔ 
میرے پیارے قارئین جانتے ہیں کہ میں اُردو تقریر و تحریر میں انگریزی کے الفاظ استعمال کرنے کے سخت مخالف ہوں۔ زبان میں ملاوٹ اُتنی ہی قابل مذمت ہے 
جتنی کہ خوراک میں ملاوٹ اور آلائشوں کی آمیزش۔ بڑی مجبوری کے عالم میں انگریزی زبان کا ایک مستند اور سکہ بند محاورہ نقل کرتا ہوں۔ جسٹس (ر) جواد خواجہ اور اُن کے قبیلہ کے دُوسرے معزز افراد (جنکی تعداد ہماری بدقسمتی سے زیادہ نہیں) کو مخاطب کر کے لکھتا ہوں It is time to stand up and be counted طبل جنگ بج چکا۔ صف آرائی ہو چکی۔ اگر مرحوم احمد فرازنے عوام دُشمن قوتوں کی طرف سے بھیجے گئے اعلان جنگ کی نقل وصول کرلی تھی (جس نے اُن سے اُن کی شاہکار نظم ''محاصرہ‘‘ لکھوائی) تو وہ جسٹس (ر)جواد خواجہ کی دہلیز پر بھی ضرور پہنچ چکی ہوگی۔ آج سے نہیں ایک عرصہ سے۔ 12 مئی کو کراچی میں قتل عام، 14 جون کو ماڈل ٹائون لاہورمیں قتل عام۔ مرتضیٰ بھٹو ایک وزیراعظم کے بیٹے اور حاضر سروس وزیراعظم کے بھائی) اپنے گھر کے دروازے پر قتل اور اپنے بھائی کے قتل سے چشم پوشی کرنے والی بہن(سابق وزیراعظم) کا دن دہاڑے قتل، سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں بے گناہ سیاسی کارکنوں کی گمشدگی، درجنوں بہادر اور جان سے گزر جانے والے صحافیوں کی شہادت، آئین کی چار سو اُڑتی ہوئی دھجیاں ، قانون کی حکمرانی کی ہمہ گیر پامالی، ریمنڈ ڈیوس جیسے امریکی جاسوس (اور اپنی نگرانی کرنے والے پاکستانی افسر کے قاتل) کی رہائی، امریکہ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی (ایک جھوٹا مقدمہ چلانے کے بعد) 86 برس کی قید اور ناقابل تصور اور ناقابل بیان تشدد، ڈاکٹر شکیل آفریدی (ایک اور امریکی جاسوس) کی امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کی صورت میں متوقع نہیں بلکہ یقینا رہائی۔ یہ تو صرف چند مثالیں ہیں۔ میں انہیں لکھنے پر اکتفا کرتا ہوں۔ مقصد صرف اپنے موقف کی وضاحت کرنا تھا۔ آپ اُنہیں دیگ کاایک روایتی چاول سمجھ کر چکھیں اور باقی چاولوں کی کیفیت کا بخوبی اندازہ لگالیں۔ اگر اتنا آسان کام اس کالم کو پڑھنے والا ہر شخص کر سکتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ جسٹس (ر) جواد خواجہ کے بس سے باہر ہو۔ اس کالم نگار کو یہ توقع جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری سے بھی تھی۔ افسوس کہ اُنہوں نے میری ایک نہ مانی اور ایک نام نہاد اور کاغذی سیاسی جماعت بنانے کی فاش غلطی کر کے رہے۔ کتنا اچھا ہو کہ وہ اپنی غلطی کو مان کر جسٹس (ر) جواد خواجہ، جسٹس (ر) خلیل رمدے، جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد ، جسٹس (ر) منظور ملک اور اس طرح کے دُوسرے قابلِ احترام ریٹائرڈ جج صاحبان کے ساتھ مل کر ایک ایسا پلیٹ فارم بنائیں جو سیاست کے گرد وغبارسے اٹے پڑے میدان سے بالا تر ہو کر ہمارے قومی ضمیر کی آوز بن جائے۔ آپ جانتے ہیں کہ زبان خلق نقارئہ خدا ہوتی ہے، مگر ہمارے پاس خلق تو ہے اور کروڑوں میں ہے۔ مگر زبان ایک بھی نہیں، وُہ زبان اس کٹھن وقت میں ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے جو نہ شور مچائے نہ واویلا کرے بلکہ پہلے تولے، پھر بولے،عقل کی زبان۔ تحمل کی زبان۔ تدبّر کی زبان، توازن کی زبان، شخصی نہیں بلکہ اجتماعی زبان، وہ بابرکت زبان جو تسبیح کے ٹوٹے ہوئے دانوں کو ایک لڑی میں پرو کر بیک زبان کر دے۔ وُہی زبان خلق نقارہ خدا کہلائے جانے کی مستحق ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں