آیئے! مل کر حُقّہ نوشی کریں

لفظاً نہیں مگر محاورتاً‘ آپ میں سے جو لوگ حقہ نوشی کرتے ہیں‘ وہ تومیری یہ دعوت پڑھ کر کھل اُٹھے ہوں گے کہ آج اُن کے دل کی مُراد پوری ہوئی۔ وہ یہ پڑھ کر یقینا مایوس ہوں گے کہ آج کے کالم کے عنوان میں حقہ نوشی کے الفاظ کا استعمال مجلس میں بیٹھ کرگپ شپ کے معنی میں کیا گیا ہے۔ ایک زمانہ میں (جب ہم نے زیادہ مادی ترقی نہ کی تھی) پنجاب کے ہر گائوں میں ایک مرکزی مقام ہوتا تھا جسے دیرہ (ڈیرہ) کہا جاتا تھا۔ وجہ تسمیہ یہ تھی کہ لوگ دائرہ کی شکل میں زمین پر آرام سے (اپنی کمر اور اپنے گھٹنوں کو اپنے کندھے پر دھری ہوئی چادر سے باندھ کر) بیٹھ جاتے تھے۔ درمیان میں حقہ ہوتا اورچلم کے اُوپر دہکتے ہوئے کوئلے۔ ہر شخص حقہ کے چند کش لگا کر حقہ اپنے ساتھ والے شخص کی طرف کھسکا دیتا تھا۔ جس زمانہ میں گائوں میں اکا دُکا شخص کے پاس بیٹری سے چلنے والا ریڈیو (اتنا بے ہنگم ریڈیو کہ ایک بڑی میز پر بمشکل سماتا تھا) ہوتا تھا تو وہ بھی اس مجلس کی زینت بنتا تھا۔ نظام دین کا دیہاتی پروگرام نشر ہوتا تھا تو سارے پنجاب میں کام کاج رُک جاتا تھا۔ ہر شخص اس نشریہ کو بے حد دلچسپی سے سنتا تھا اور محظوظ ہوتا تھا اور بہت کچھ سیکھتا تھا۔ وہ دور دُوسری جنگ عظیم دوم سے شروع ہو کر 24 سال بعد 1964 ء میں ختم ہوا جب پاکستان ٹیلی ویژن کی نشریات کا دُور شروع ہوا۔ ٹیلی ویژن آیا تو ہماری مجلسی زندگی بدل گئی۔ نہ گائوں کا دیرہ رہا اور نہ اس کے وسط میں جلنے والا حُقہ۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک نسل کی زندگی کے اندر کایا پلٹ گئی۔ انفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ اجتماعی زندگی کے شب و روز معمولات‘ عادات‘ سماجی روّیے‘ مذہبی رُجحانات‘ خوشیاں‘ دُکھ‘ اُمیدیں اور خوف‘ سب کچھ بدل گیا۔ صرف ایک مثال دینے پر اکتفا کروں گا۔ آج سے سو برس پہلے ہم ماں کو بے بے یا بے بے جی کہتے تھے۔پھر وہ بے جی اور اُس کے بعد ماں جی بنیں۔ آگے چل کر اماں جی کہلانے لگیں۔ آپ جانتے ہیں کہ اب شہروں کے امیر طبقہ میں اُسے ممی کہتے ہیں۔ باپ کا حشر بھی اتنا ہی عبرتناک ہوا۔ قیام پاکستان کے لگ بھگ دیہات میں باپ کو چاچاکہا جاتا تھا۔ پنجابی میں ''پیو‘‘۔ پشتو ۔ سندھی اور بلوچی میں بھی لازماً اس سے ملتے جلتے سادہ الفاظ ہوں گے۔ ترقی ہوئی تو باپ ابا یا ابا جی کہلانے لگا۔ جب ماں جی اماں اور سرکاری کاغذوں میں والدہ بنیں۔ تو باپ بھی ترقی کر کے والد صاحب کیوں نہ بنتا؟ سنی سنائی نہیں بلکہ اپنے کانوں سے سنی ایک بات لکھتا ہوں کہ جب 1947 ء کے بعد خوشحالی آئی تو گھرانوں میں ماں کو ممی کہا جانے لگا۔ تووالد صاحب یعنی سابقہ باپ کو ڈیڈی بن جانے میں بھی اُتنا ہی کم وقت لگا۔ ع
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
ایک انگریزی محاورہ کے مطابق ہم سے یہ فاش غلطی سرزد ہوئی کہ ہم نے جس ٹب میں اپنے بچہ کو غسل دیا تو غسل کے خاتمہ پر ٹب کے گدلے پانی کے ساتھ ساتھ بچہ کو بھی دُور پھینک دیا۔ اگر آپ اپنی کم عقلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بچہ کے ساتھ یہ سلوک روا رکھیں گے تو پھر ہم ہمیشہ کے لئے اس بچہ سے محروم ہو جائیں گے۔ آپ ہزار پچھتائیں‘ لاکھوں بار کف افسوس ملیں‘ آپ دُور پھینکے گئے بچہ کو اُٹھا کر دوبارہ ٹب میں نہیں لٹا سکتے۔ آپ نے اپنے بچے کو خود یتیم بنادیا‘ آپ نے اپنی جڑیں خود کاٹ دیں۔ اب آپ پر رحمت کا سایہ ہو تو کیوں کر؟آپ کو یہ سزا ملے گی کہ آپ اپنی ماں بولی کا کے ساتھ ساتھ اپنی قومی زبان (اُردو) کو آسانی سے اور روانی سے بولنے کی خوبی سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ آپ اندھے‘ گونگے اور بہرے ہو جائیں گے۔ یہ ہے بیس کروڑ پاکستانیوں کا المیہ‘ عظیم المیہ!
حقہ نوشی کی محفل میں سنجیدہ اور خواب آور باتیں نہیں کی جاتیں بلکہ محض گپ شپ اورادھر اُدھر کی باتیں۔ چھوٹے چھوٹے معصوم اور بے ضررسیکنڈلوں کے تبادلہ کی صورت میں۔ یورپ اس لحاظ سے بڑا خوش نصیب ہے کہ یہاں ہر محلہ کا اپنا دیرہ (یا ڈیرہ )مے خانہ (جسے انگریز پیار سے PUB کہتے ہیں) کی صورت میں ہوتا ہے۔ جہاں اہل محلہ ایک دُوسرے کو مل کر گپیں ہانکتے ہیں۔ یہاں ہر شام اُس بستی کے رہنے والے اکٹھے ہو کر اپنے اپنے خرچ پر جو سے بنی ہوئی سستی اور وہسکی سے عشر عشیر کم نشہ آور الکوحل شراب پیتے ہیں۔ اُسے بیئرBeer کہتے ہیں۔ مے نوشی حلفاً کہتے ہیں کہ پاکستان میں بنائی جانے والی Murrtt Beer برطانوی مشروب سے بدرجہابہتر ہوتی ہے۔برطانیہ میں بیئراُسی فیاضی سے پی جاتی ہے جیسے پنجاب میں لسی اور گئے گزرے زمانہ میں ستوّئوں کا شربت۔ میں پچھلے سال گرمیوں میں اپنے آبائی گائوں (ضلع سیالکوٹ اور تحصیل پسرور میں تلونڈی عنایت خان) گیا تو اظہر باجوہ (ایڈووکیٹ) کے گھر اُن کے علیل والد محترم کی بیمار پرُسی کے لئے گیا تو اہل خانہ نے مجھے ستوّ پلائے۔ یہ نہ بھولنے والا خوشگوار تجربہ نصف صدی کے بعد ہوا۔ میں ان گرمیوں میں اُنہیں ملنے (اور ستودوبارہ پینے کے لالچ میں) پھر اُن کے گھرگیا مگر نہ وہ ملے اور نہ میرا پسندیدہ مشروب۔ میں نے فارسی کا ایک محاورہ یاد کر کے اپنی ڈھارس بندھائی۔ ہر روز عید نہیں ہوتی‘ کہ کھانے کو حلوہ ملے۔ اس محاورہ نے اہل ایران کی قلعی کھول دی۔ وہ حلوہ خوری کے اتنے دلدادہ ہیں کہ اسے کھا کر عید مناتے ہیں۔ اب میں پاکستان جائوں تو کئی عزیزوں کے گھر اس ڈر سے نہیں جاتاکہ وہ مجھے رواجاً دُنیا کا بدترین (اور یقینا مضر صحت) کولا ٹائپ کا مشروب (اور وہ بھی نیم گرم) بزور شمشیر پلائیں گے اور ستم بالائے ستم میرے اُوپر یہ ظلم ڈھانے کے بعد دل ہی دل میں اپنے آپ کو شاباش دیں گے کہ اُنہوں نے سات سمندر پار سے آنے والے مہمان کی وہ شاندار مہمان داری کی کہ اُس کی سات پُشتیں بھی یاد رکھیں گے۔ انجیل مقدس میں اس قسم کے میزبانوں کے بارے میں لکھا ہوا ہے کہ یاخدا ایسے لوگ معافی کے حق دار ہیں جو یہ بھی نہیں جانتے کہ اُن سے کون سا معیوب فعل سرزد ہو رہا ہے۔ آپ اسے انگریزی کے ایک محاورہ (غالباً وہ بھی انجیل مقدس کی ایک اور آیت ہے) کے ساتھ پڑھیں تو میرا موقف واضح ہو جائے گا۔ The way to Hell is Paved with Good Intentions (جہنم کو جانے والا راستہ نیک نیتی سے گُوندھی ہوئی اینٹوں سے بنایا جاتا ہے)۔
میں نہیں جانتا کہ میری طرح آپ نے کبھی اُردو کے محاوروں کی صحت اور درستگی پر غور کیا ہے یا نہیں؟ مثال کے طور پر شُترکینہ۔ نہ معلوم کس اُونٹ نے کس شخص کے ساتھ اپنا پرُانا حساب چکایا کہ وہ دُنیا بھر کے اُونٹوں کی بدنامی کا باعث بنا۔ بے رُخی اور بے لحاظی کی مثال دینی ہو تو ہم طوطا چشم کہتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت سے اُتنا ہی دُور ہے جتنی اُونٹ کی کینہ پروری۔طوطے کے دفاع میں آپ کو ایک اچھی خبر سنائی جائے گی۔ گذرے ہوئے مہینہ میں برطانوی اخباروں کے صفحہ اوّل پر نہ وزیراعظم کی تقریر تھی اور نہ ملکہ معظمہ کی بلکہ ایک خوبصورت‘ نیلے پروں اور سرخ چونچ والے ہندوستانی نسل کے طوطے کی تصویر تھی۔ 
دھوبی بے چارہ خود بھی نہ گھر کا رہتا ہے اور نہ گھاٹ کا۔ میں پاکستان کی مغرب زدہ اشرافیہ کی مثال دُوں گا‘ جو ناریل کی طرح ہے‘ باہر سے گندمی یا بھورے رنگ یا سانولی مگر اندر سے سفید۔ یعنی مغرب زدہ۔ مادری یا قومی زبان کی بجائے انگریزی بولنے اور انگریزی میں سوچنے والے۔ اُن کی حالت تو دھوبی کے کتے سے بھی زیادہ قابل رحم اور تشویش ناک ہے۔ بدقسمتی سے وُہی ہمارے ملک کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ وہ برسر اقتدار رہے تو ہماری شناخت مسخ کر دیں گے۔ وہ ہم سے ہمارے شاندار ماضی کی یاد چھین لیں گے۔ وہ ہمارے دلوں میں خوشی اور بہار اور روشنی کے آنے والے دنوں کی اُمید کے چراغ بجھا دیں گے۔ وہ پہلے ہمارے کارواں کا بھاری نقصان کریں گے (جس طرح عراق میں ہوا اور شام میں ہو رہا ہے) اور پھر ہمارے احساس زیاں کو بھی ختم کر دیں گے۔ پاناما ‘ جنیوا اور زیورخ میں قوم کے اربوں پائونڈ چرانے اور چھپانے کے جرم کی سنگینی اپنی جگہ۔ 12 مئی کو کراچی میں اور 14 جون کو سانحہ ماڈل ٹائون میں دو عورتوں سمیت چودہ بے گناہوں کے قتل عام اور جعلی پولیس مقابلوں اور ہزاروں بے گناہ سیاسی کارکنوں کی گمشدگی پر جتنے بھی آنسو بہائے جائیں کم ہوں گے مگر آپ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ یہ ایک عوام دُشمن نظام ہے جو ساری برائیوں کی جڑ ہے اور ظلم کا منبع ہے۔ آج آپ نے میرے ساتھ مل کر حقہ نوشی کرنے کے لئے وقت نکالا تو میری فریاد بھی سُنیں۔ صرف چہرے نہیں بلکہ نظام بھی بدلیں۔ مغلیہ دُور ختم ہو گیا مگر اُن کا نظام ختم نہیں ہوا۔ انگریز چلا گیا مگر اُس کا نظام نہیں گیا۔ یاد رکھیں کہ ایک آزاد اور خود مختار پاکستان اور ایک غلامانہ اور عوام دُشمن نظام ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ کوئی ہاتھی کی دُم چھوتا ہے تو اسے رسی سمجھتا ہے کوئی اس کے پائوں پکڑتاہے تو ستون سمجھتا ہے مگر بذات خود ہاتھی کسی کو نظر نہیں آتا۔ 70 سال گزر گئے اور ہاتھی ابھی تک نظر نہیں آیا۔ جن لوگوں کو نظر آتا ہے اُنہوں نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لئے ہیں یا کانوں میں روئی ٹھونس لی ہے یا زبان پر تالے لگا دیئے ہیں۔ اس چشم پوشی کی سزا ساری قوم اور اس کے بیس کروڑافراد سے ہر فرد کو ملے گی (اور غالباً ملنا شروع ہو گئی ہے) وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سزا بڑھتی جائے گی۔ وسط اکتوبر2016 ء میں پانی ہمارے سروں کے اُوپر سے نہیں گزرا۔ بقول شاہ دین ہمایوں: ؎ 
اُٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی 
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں