تخت یا تختہ

آج کے کالم کے عنوان کے حوالے سے یہ سطور پڑھنے سے پہلے آپ میری دو غلطیوں کی معافی دے دیں۔ ایک گزشتہ کالم میں اُردوکے آہستہ آہستہ آنے کا مصرع میں نے داغ دہلوی کی بجائے اُستاد ذوق سے منسوب کر دیا۔ شکاگو سے لے کر لاہور تک قارئین میری غلطی کی اصلاح کے لئے دوڑ پڑے۔ ان کا شکریہ۔ مگر زیادہ لاٹھی چارج دُوسری اور زیادہ بڑی غلطی کے ارتکاب پرکیا گیا۔ پنجابی ادیبوںکی فہرست گنواتے ہوئے میں نے بے دھیانی سے ساحر لدھیانوی کا آبائی وطن جالندھر لکھ دیا۔ میں جالندھر سے تعلق رکھنے والوں اور اُن کے ادبی کارناموں سے بخوبی واقف ہوں۔ حفیظ جالندھری کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ صرف یہی نہیں، میں نے ہوشیار پور میں ہوش سنبھالنے والے حبیب جالب کو بھی جالندھری بنا دیا۔ آئندہ مجھے زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔
آج کے کالم کے عنوان کا عام فہم الفاظ میں یہ مطلب ہے کہ یا توآپ کو تخت ملے گا (یعنی آپ شاہی تخت پر بیٹھیں گے) اور اگر آپ اس کوشش میں ناکام رہے تو تختہ کی صورت میں آپ کا جہان فانی سے اپنے وقت سے کافی پہلے کوچ کر جانا یقینی ہے۔ چونکہ جو شخص بھی تخت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے وہ ناکام ہو جانے والے لوگوںکو اپنی پہلی فرصت میں موت کے گھاٹ اُتار دیتا ہے۔ اگر تاریخ پر ایک اُچٹتی نظر ڈالی جائے تو وفات پا جانے والے بادشاہ کے صرف ایک بیٹے کے حصے میں تخت آتا ہے اور باقی بیٹوںکے حصے میں تختہ۔ ہماری بول چال میں ایک ترکیب دھڑن تختہ کی استعمال کی جاتی ہے۔ میں نے مطالعہ کے لئے آکسفرڈ اُردو انگریزی لغت کی طرف رُجوع کیا۔ صفحہ نمبر341 پر ساتویں نمبر پر تختہ کا لفظ نظر آیا، جس سے نکلنے والے بارہ الفاظ اور اُن کے معانی لکھے ہوئے ہیں، مگر دھڑن تختہ کہیں نہ ملا۔ اب میں اپنے قارئین سے مدد مانگتا ہوں۔ وہ سنی سنائی بات نہ کریں، مستند حوالہ دے کر میرے ناقص علم میں اضافہ فرمائیں کہ مذکورہ ترکیب کا درست مطلب کیا ہے؟ اور اسے کس سیاق و سباق میں استعمال کیا جا سکتا ہے؟
آپ میرے ساتھ اتفاق کریںگے کہ تخت کا مونث تختی ہے۔ یہ دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک قسم تو وہ تھی جس پر زمانہ قبل مسیح میں (مجھے تو اپنا بچپن واقعی اتنا قدیم لگتا ہے) بچے پرائمری سکول میں زیر تعلیم سرکنڈے کے قلم اورکالی روشنائی سے لکھا کرتے تھے۔ اب زمانہ ترقی کر چکا ہے۔ لکھنے والی تختی متروک ہوکر عجائب گھرکی زینتبن چکی ہے۔ مجھے ہمیشہ اعزاز حاصل رہا کہ نہ صرف اپنی کلاس بلکہ سارے سکول میں میری بدخطی فقید المثال ہوتی تھی۔ اتنی خراب کہ نہ لکھنے والا پڑھ سکتا تھا اور نہ اس کو پڑھانے والا اُستاد۔ اس ناقابل اصلاح خامی سے قطع نظر میرے لئے اپنی تختی کو گاچنی مٹی سے ملنا اور پھر ہوا میں گھما گھما کر سُکھانا (یہ ورزش آگے چل کر کرکٹ میں گیند پکڑنے میں بہت کام آئی) بڑی خوشگوار جسمانی ورزش ہوتی تھی۔ لکھائی کے معاملے میں میری بدقسمتی تین چوتھائی صدی سے میرے ساتھ اس حد تک جڑی ہوئی ہے کہ میرے قارئین اندازہ نہیں کر سکتے کہ میری بے حد شکستہ تحریر کو قابل مطالعہ بنا کر اس کالم میں شائع کرنا قطرے کوگُہر بنانے کے عمل سے کم جاں گسل اور صبر طلب نہیں۔کئی برسوں سے یہ کٹھن کام لاہور میں میرے دیرینہ کرم فرما عروج احمد صاحب سرانجام دیتے ہیں اور میری دُعائیں لیتے ہیں۔ مجھے مان لینا چاہیے کہ میں یہ لکھ چکا تھاکہ میری تحریرکو پڑھنا اور پھر ان گنت غلطیوں کی اصلاح کے بعد اُسے قابل اشاعت بنا دینا جان جوکھوں کا کام ہے، بھلا ہو میری آکسفرڈ اُردو لغات کا جس کے صفحہ 409 پر اس ترکیب کے لکھے ہوئے معانی نے میری راہنمائی کی اور مجھے مجبورکر دیا کہ میں یہ الفاظ کاٹ دُوں چونکہ ان کا مطلب ہے 'بہت خطرناک کام کرنا‘ اور 'اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنا‘۔ یہ الفاظ تو میں نے کاٹ دیے مگر بعد میں خیال آیا کہ رہنے دیتا تو عروج صاحب کی ہفتہ وار مشقت کی اذیت بیان کرنے میں آسانی ہو جاتی۔ یہ تو تھا ایک آنجہانی تختی کا ذکر جو پہلے طالب علموں کے بستہ کا جزو لاینفک ہوتی تھی اور اب خستہ حال طاق نسیاں کی زینت بن کر ہمارے ذہن سے محو ہوچکی ہے۔ دُوسری قسم کی وہ تختی ہے جو وطن عزیز میں مکانوں اور دفتروںکے دروازوںکے باہر لگائی جاتی ہے، مکینوںکا نام، عہدہ (کبھی کبھار دفتر یا مکان کے باہر رہنے والے کے نام کی تختی ہرگز نہیں لگائی جاتی۔ مکان بڑا اور پرانا ہو تو پھر صرف مکان کا نام لکھا جاتا ہے۔ مثلاً میرے گھرکا نامOak Field ہے۔) برطانیہ کے ہر گھر کے باہر صرف اُس کا نمبر لکھا جاتا ہے۔گلی یا سڑک کی دائیں جانب جُفت 
(Even) اور بائیں ہاتھ طاق (Odd) کے نشان۔ اس سے زیادہ مناسب نہیں۔ 
اب ہم ''تختہ‘‘ کی طرف چلتے ہیں، مگر اُس کا تذکرہ ہرگز خوشگوار نہیں۔ تختہ پہلے ہی خون آلود، تخت کے ناکام اُمیدوارکے خون سے رنگا ہوا۔ صد افسوس کہ زبان خنجر خاموش رہتی ہے اور ستم بالائے ستم کہ قاتل کی آستینوں پر لگا ہوا لہو بھی نہیں پکارتا۔ میں بقول فیض صاحب خاک نشینوں کے رزق خاک ہو جانے والے خون کا ذکر نہیں کر رہا ہوں کہ جب وہ زندہ تھے تب بھی اُفتادگان خاک تھے، نہ تین میں نہ تیرہ میں، کسی باغ کی مولی نہ تھے، آخری وقت میں توگاجروںکی طرح کاٹ دیے گئے۔ میں یہاں تک پہنچا تو میرے کانوں میں ناہید اخترکی مدھر بھری آواز آئی۔ اُس نے یہ درد ناک صورت حال (مر جائیں ہم توکیا) بڑی خوبصورتی سے گاکر ہمیں سنایا اور خوب داد پائی۔
زیادہ تر اخبار صبح سویرے پڑھے جاتے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ میرے قارئین اُن لوگوں کا عبرتناک حال پڑھ کر شروع کریں اور سارا دن بدمزہ رہیں جن کے حصے میں تختہ آیا۔ مگر یہ بات یاد رکھیں کہ جن خواتین و حضرات نے تہیہ کر رکھا تھا کہ اُن کا ایک ہی نصب العین ہے کہ تخت یا تختہ اور وہ اس شوق فضول میں جاںگنوا بیٹھے تو وہ اس افسوس ناک انجام کے خود ذمہ دار تھے۔ بلا شبہ وہ ہماری ہمدردی کے مستحق ہیں مگر رحم کے نہیں۔ آپ کرکٹ کھیلنے میدان میں اُتریںگے تو سنچری بنانے یا صفر پر آئوٹ ہونے کا خطرہ مُول لیتے ہیں۔ سنچری کا مطلب ہے عزت افزائی اور صفر پر آئوٹ ہونا صرف رسوائی نہیں بلکہ جگ ہنسائی کا موجب بننا ہے۔ اگر آپ کو (بقول غالب) جان و دل عزیز ہے تو پھر آپ اُس کی (یعنی سنگ دل محبوب کی) گلی میں کیوں جاتے ہیں؟ فیض صاحب کا یہ مشورہ مان کر اپنے گھر آرام سے لحاف اوڑھ کر (اگرموسم اجازت دے) بیٹھیں ع
وہ دُشمن جاں ہے تو بُھلا کیوں نہیں دیتے
اگر آپ تختہ کے توسط سے موت کے فرشتے سے جلد ملاقات نہیں کرنا چاہتے تو پھر تخت کے حصول کا خیال اپنے اُس پاگل دل سے نکال دیں جو بگڑے ہوئے بچے کی طرح کھیلنے کو چاند مانگتا ہے۔ اگر جنگ و جدال اور قتال کے بغیر تخت مل جائے (جس طرح ہماری تاریخ میں پہلے غلام اسحاق اور رفیق تارڑ صاحبان اور اب جناب ممنون حسین کو مل گیا) تو سبحان اللہ! خدا کا شکر ادا کریں۔ ایسے بے ضرر لوگ جب تخت سے نیچے اُترتے ہیں تو نوبت تختہ کی کبھی نہیں آتی۔ وہ لاکھوں دُوسرے ریٹائرڈ پنشن یافتہ افراد میں شامل ہو جاتے ہیں اورگوشہ گمنامی میں سارا وقت عبادت کر کے گزارتے ہیں۔ دُنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں تو اورکیا چاہیے؟
آج میں نے اپنے قارئین کے صبر و تحمل کا کافی کڑا امتحان لیا۔ وہ تلملا رہے ہوںگے کہ آج میں نے تخت اور تختہ کا ذکر کیوں چھیڑا؟ اس کا جواز (سلیس زبان میں تُک) کیا ہے؟ جواب حاضر ہے۔ پچھلے سال لندن کے شمال میں سو میل دُور شہرLeicester کے ایک کار پارک کی کھدائی ہوئی تو تخت سے تختہ کا سفرکرنے والے انگلستان کے ایک قدیم بادشاہ (رچرڈ سوئم) کا ڈھانچہ مل گیا جسے بڑے احترام، تزک و احتشام اور شاہی دھوم دھام سے اُس شہر میں دفن کیا گیا تو اُس کی سوئی ہوئی قسمت جاگ اُٹھی۔ لاکھوں سیاحوں نے اُس غیر معروف شہرکا رُخ کیا اور نہ صرف اس کی رونق بلکہ اس کے دُکانداروں اور ہوٹلوںکی آمدنی بڑھائی۔ یہ خبر سُن کر باقی چھوٹے شہروں نے بھی اپنے اپنے کارپارکوں کی بڑی دلجمعی سے کھدائی کی مگر بادشاہ توکیا ایک مُردہ چوہا بھی برآمد نہ ہوا۔ جب سب تھک ہار کر بیٹھ گئے تو لندن سے 30 میل مغرب کی جانب ریڈنگ(Reading) نامی شہر میں جب ایک مضافاتی بستی بنانے کے لئے معمول کی کھدائی کا کام شروع ہوا تو وہاں سے رچرڈ سوئم سے بھی پرانے بادشاہ (جان اوّل) کا ڈھانچہ برآمد ہوا مگر اتنی خستہ حالت میںکہ اُسے سرکاری اعزازکے ساتھ دفن کرنے کی وہ رسم پوری نہ کی جا سکی جس کی وجہ سے Leicester کی لاٹری نکلی تھی۔ 14 اکتوبر1066ء کی صبح کو یورپ کے ایک جنگجو قبیلہ Norman نے انگلستان پر حملہ کیا تو انگلستان کا بادشاہ ہیرلڈ دُشمن سے لڑتا لڑتا مارا گیا۔ میدان جنگ میں شکست کھا جانے والے مگر آخری دم تک لڑنے والے بہادر بادشاہ کا ایک نہایت شاندار مجسمہ نصب کیا گیا ہے۔ ہر سال ہزاروں لوگ اُس پر پھول رکھ کر اپنی عقیدت ظاہرکرتے ہیں۔ بہادرانہ موت نے ہیرلڈکو ایسے بلند و بالا تخت پر بٹھا دیا جہاں سے وہ کبھی نیچے نہ اُترے گا۔ یہی سانحۂ کربلا کا سبق ہے۔ کبھی جیتنے والے کو تختہ ملتا ہے اور ہارنے والے کو تخت۔ آخری فیصلہ تاریخ کرتی ہے۔ قبل مسیح لکھے جانے والے دُخانی ڈراموں میں شکست یافتہ کردارکو ہی ہیرو بنایا گیا۔ فیض احمد فیض، حسرت موہانی، بھگت سنگھ، سبھاش چندر بوس اور حسن ناصرکو تاریخ نے تخت پر بٹھایا اور اُن کو شکست دینے والوں کو تختہ پر لٹا دیا۔ تاریخ انصاف کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہے، طاقت کی بنیاد پر نہیں۔ اب آپ فیصلہ کریںکہ آپ کس کے ساتھ ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں