خزاں کا موسم

اپنی قائم کردہ روایت کے برعکس میں یہ کالم آج ملنے والے آمنہ غفار کے ای میل سے شروع کر رہا ہوں۔ملاحظہ فرمایئے: 
''میرا شمار آپ کے زیادہ پرانے قارئین میں نہیں ہوتا، مجھے حال ہی میں ایک سرکاری میڈیکل یونیورسٹی میں داخلہ ملا ہے۔ آپ نے 25 اکتوبر2016 ء کو شائع ہونے والے اپنے کالم میں گورے دوستوں کے سامنے شرمندگی کا ذکر کیا ہے، جس نے دو روز اضطراب میں مبتلا کئے رکھا۔ ذرا سی کوشش سے آپ کے ایک ہم وطن کو بھی مادر وطن کی لاج رکھنے کا چھوٹا سا موقع ملا۔ آپ کے پیش کردہ ماڈل کے خطوط پر ہمارے جڑواں شہروں کے چند عظیم مجاہدین کو قدرت نے ''تھالی‘‘ کے نام سے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی آندھیوں میں پل کا کام دے رکھا ہے۔
آپ کے بوڑھے دل کو مادر وطن کے حوالے سے جو پریشانیاں لاحق ہیں، ان میں سے بیشتر مجھے اور میرے کئی ہمعصروں کو بھی لاحق ہیں، ان میں سفیدفام احباب کے سامنے ایک ہم وطن کی خفت ہے۔ آپ انہیں خوراک کی کمی کے حوالے سے کام کرنے والے (پاکستانی، نہ کہ غیر ملکی) مجاہدین کے متعلق فخر سے بتا سکتے ہیں۔ خوراک کے علاوہ دوسرے شعبوں میں بھی اہل وطن کی خدمت کرنے والے ہمارا فخر ہیں۔ جگہ کی کمی اور خفیہ خدمت کرنے والوں کی وجہ سے نام نہیں لکھے۔ اپنے گورے دوستوں کے سامنے شرمندگی کی قطعاً ضرورت نہیں۔ جیسا کہ اظہار الحق صاحب نے فرمایا کہ وہ کون سا گھر ہے جہاں مشکلات نہیں۔ امجد ثاقب صاحب کہتے ہیں کہ جب تک کوئی ایک بھی غریب ہے، ہم سب غریب ہیں، تو وہ درست ہے۔ ہم وطنوں کی اذیت، اذیت ناک ہے، مگر وہی صد شکر کہ دل کو وطن اور ہم وطنوں کے لئے زخم لگے۔ برطانوی سامراج سے عظیم اسلاف نے آزادی لے لی اور محض سات دہائیوں بعد ایک ہم وطن کو شرمندہ ہوتے دیکھنا دل کو کانٹوں پر گھسیٹے جانے جیسا تھا ۔ ہر گز نہیں ہم نے ببول پر انگور کی بیل نہیںچڑھائی۔ دھرتی ماں کے مسائل لاینحل نہیں، جن تکالیف کا سامنا عظیم سلطنتوں کے باشندوں نے کیا، ہم بھی کر رہے ہیں۔ خود ان گوروں کے حالات بھی ہمیشہ ایک سے نہ تھے۔آپ کے اہل وطن آپ کی محبت ہی نہیں ان میں سے بہت سے آپ کا فخر بھی ہیں۔
اُمید ہے کہ اس لکھاری، (جس نے اس شاہراہ پر ابھی ڈگمگانا ہی شروع کیا ہے) کے بے ربط اور ناپختہ اسلوب کو فراخ دلی سے نظر انداز کرتے ہوئے محض اس میں چھپی گزارش پر غور کریں گے۔ مجھے کچھ عرصہ قبل نیو یارک ٹائمز میں وہاں کے نوجوانوں کی معاشرتی زندگی پر ایک عمدہ تحریر پڑھ کر دوسری (خصوصاً خوشحال) اقوام کی معاشرتی زندگی کے بارے میں پتہ چلا۔اگر مناسب سمجھیں تو کسی کالم میں اپنے دوسرے دیس کے نوجوانوں کی معاشرتی زندگی کے متعلق ضرور لکھئے گا۔اپنے ای میل کے آخر میں اچھی آمنہ نے سب سے عمدہ اور مطلوبہ دُعا مانگی ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ صرف میری حمایت کریں بلکہ مجھے اپنے نیک ارادوں میں کامیابی بھی دیں۔ 
جونہی تخت یا تختہ کے عنوان سے کالم شائع ہوا۔ نہ صرف آمنہ بلکہ شکاگو کے عامر فرازی صاحب‘ بریگیڈیئر (ر) حامد سعید اختر صاحب اور آصف جیلانی صاحب (جو غالباً ایک عرصہ چوٹی کے براڈ کاسٹر اور صحافی رہ چکے ہیں) نے بھی میرے محدود علم میں گراں قدر اضافہ کیا۔ جیلانی صاحب فرماتے ہیں کہ معافی مانگی جاتی ہے۔دی نہیں جاتی۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر مانگنے والے کو معافی مل جائے تو کیا یہ لکھنا درست نہ ہوگا کہ معافی دے دی گئی؟ دُوسرا نکتہ بڑا واضح ہے۔تختی کا لفظ تخت کی تانیث ہر گز نہیں۔ میری تیسری غلطی یہ پکڑی گئی کہ اصل لفظ دھرن ہے( جس سے دھرنا کا لفظ بنا)۔ دھڑن تختہ کے الفاظ بجا طور پر اُردو لغات میں نہیں۔ چونکہ (غلط العام ہیں۔) اب چلتے ہیں میرے دُوسرے دیس کی طرف۔ ان دنوں برطانیہ میں خزاں کی وجہ سے پت جھڑ کا موسم ہے۔ پاکستان میں جس تیز رفتاری سے درخت کاٹے جا رہے ہیں اُس کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ ہم اپنی سڑکوں سے سُوکھے ہوئے پتوں کے انبار اُٹھانے کی مشقت سے بچ جائیں گے۔ برطانیہ کے شمال میں ایک شہر ہے جس کا نام Durham ہے۔ یہاں کی یونیورسٹی نے عربی ادب اور اسلامیات پڑھانے میں یہ کمال حاصل کیا ہے کہ تمام عرب ممالک سے طلباء اور طالبات کی ایک بڑی تعداد یہاں ہر سال پڑھنے آتی ہے۔ شہرت کی دُوسری وجہ The Right Rev. David Jenkins تھے جو پانچ ستمبر کو 91 برس کی عمر میں فوت ہوئے۔ اُن کے مذہبی خیالات اتنے غیر رواجی تھے کہ وہ گوجرانوالہ میں ہوتے تو وہاں کے مسیحی بہت عرصہ قبل اُنہیں کافر قرار دے دیتے اور اُن کی تکہ بوٹی کر دی جاتی۔ اُنہوں نے اپنے مذہب کے بنیادی ستونوں کو ہلا ڈالا۔ مسیحی عقیدہ کی لفظاًLiteral تشریح کو مسترد کرتے ہوئے وہ الفاظ کے پیچھے چھپے ہوئے معانی (Spirit ) کو اجاگر کرتے تھے۔ گرجا گھر سے باہر نکل کر اُنہوں نے ہر عوام دوست تحریک کی بھرپور حمایت کی جس میں کان کنوں (Miners)کی تاریخی ہڑتال بھی شامل ہے۔ یورپ کی ترقی کی بہت سی وجوہات ہیں۔ جن میں سر فہرست مذہبی رواداری اور مخالف نظریات کو برداشت کرنے کی روایت ہے جس نے یوروپ کے سماجی ماحول کو بے حد خوشگوار بنا دیا ہے۔ مگر اس صدی میں برطانیہ میں مذہبی رواداری کا Rev. Jenkins سے بڑھ کر شاید ہی کسی اور نے اتنا سخت امتحان لیا ہو۔ برطانیہ کے چوٹی کے بارہ پادری ہمیشہ برطانوی پارلیمنٹ کے ایوان بالا House of Lords کے رُکن ہوتے ہیں۔ Rev. Jenkins نے ایک رُبع صدی پارلیمنٹ میں نسلی اقلیتوں کے حقوق کے لئے آواز اُٹھائی۔ وہ یورپ کی ہر اچھی یونیورسٹی میں اظہار خیال کے لئے بلائے گئے۔ وہ دُنیا سے رُخصت ہوئے تو برطانیہ کے ہر بڑے گرجا گھر (Cathedral) میں ماتمی گھنٹیاں بجائی گئیں۔ یورپ کے ہر اچھے اخبار میں تعزیتی مضامین شائع ہوئے۔ جن میں ایک بات ہر ایک نے لکھی کہ موت نے برطانوی عوام سے اُن کا بہترین دوست چھین لیا۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ صرف اس نظام کو دوام ملتا ہے‘ جو عوام دوست ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ویت نام میں ہوچی منہ کی کیمونسٹ پارٹی۔ چین میں مائوزے تنگ کی کمیونسٹ پارٹی‘ رُوس میں لینن کی کمیونسٹ پارٹی‘ فلسطین میں حماس اور ایران میں امام خمینی کی انقلابی تحریک کامیاب ہوئی۔ پاکستان کی سیاسی تحریک چلانے والوں کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ عوام دوستی کے معیار پر پورا اُترتے ہیں یا نہیں؟اب منہ کا ذائقہ اور آنکھوں کا درجہ حرارت بدلنے کے لئے مقابلتاً ایک غیر سنجیدہ موضوع کی طرف چلتے ہیں۔
Prielli کا سالانہ کیلنڈر دُنیا بھر کی ہر شریفانہ دیوار پرآویزاں نظر آتا ہے۔ وجہ ؟ بارہ مہینوں کے حساب سے بارہ نیم برہنہ خواتین کی تصاویر۔آپ جیسے بھلے مانس لوگ بالکل اندازہ نہیں لگا سکتے کہ ان خواتین کو اس ماڈلنگ کے لئے کتنے کروڑوں روپے دیئے جاتے ہیں۔ تصویر اُتروانے کی فیس وُصول کرنا تو آم کھانے کے مترادف ہے۔ یہ خواتین گٹھلیوں کے دام بھی وُصول کر لیتی ہیں اب آپ مجھ سے یہ پوچھیں گے کہ وہ کس طرح؟ جواب حاضر ہے۔ دُنیا کے امیر ترین لوگوں سے شادی کے روشن امکانات جو ان کی جسمانی کشش سے متاثر یا مرعُوب ہو کر انہیں اپنے سر پر رکھے ہوئے سنہری تاج میں بطو ر کلغی لگانا چاہتے ہیں۔ اب آپ جان گئے ہوں کہ غربت کے بھی چند فوائد ہیں۔ اس کالم نگار کی طرح آپ کئی فضول مشاغل اوربدعتوں سے بچ جاتے ہیں۔ مذکورہ کیلنڈر میں جلوہ گر ہونے والی ایک خاتون کا نام کرسٹینا(Christina) ہے۔ ایک ارب پتی سعودی شخص ڈاکٹر ولید جفالی( Jiffali) نے بڑے شوق سے اُسے اپنے حرم میں داخل کیا۔ خاتون نے پچاس برس کی دہلیز عبور کی تو شادی کا جواز ختم ہو گیا اور جھٹ نکاح کے بعد پٹ طلاق کی نوبت آگئی۔ برطانیہ کی ہائی کورٹ میں یہ فیصلہ کرنے کے لیے ایک بے حد مہنگا مقدمہ چلا کہ اس طلاق یافتہ خاتون کو اُس کے امیر شوہر کی دولت کا کتنا حصہ ملنا چاہئے؟ فاضل جج نے اس خاتون کو 75ملین پائونڈ (ایک ملین میں دس لاکھ) بطور نان نفقہ دینے کا حکم صادر فرمایا۔ (بشمول53 ملین پائونڈ نقد اور چالیس لاکھ پائونڈ کے زیورات) یہ برُی خبر سننے سے پہلے ہی طلاق یافتہ خاتون کے شوہر دُنیا سے چل بسے۔ اس بیوہ خاتون کے مستعد وکیلوں نے اپنی موکلہ کے مفاد کی حفاظت کرتے ہوئے شوہر کی جائیداد کا حصہ ہتھیانے کے لئے بروقت ضروری قانونی اقدامات اُٹھالئے۔ اس سابق ماڈل نے (جو اپنے آپ کو اب بھی حسین و جمیل منوانے پر مصر ہے) مقدمہ کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا کہ اُسے ہر سال صرف اپنے ملبوسات کی خریداری کے لئے دس لاکھ پائونڈوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ 
اب آپ ایک آخری بات اُس بہادر 61 سالہ خاتون کے بارے میں بھی پڑھ لیں جوMotorised Paraglider کے ساتھ عمودی لٹک کر ساڑھے چار ہزار کلومیٹر لمبی پرواز شروع کرنے والی ہیں تاکہ وہ بڑی بطخوں کے برطانیہ سے سائبریا برفانی میدانوں کی طرف سفر کی ویڈیو فلم بنا سکیں۔ بڑی بطخوں کے ہم رکاب ہو کر یہ انوکھی ان سنی اور ان دیکھی مہم ڈھائی ماہ میں مکمل ہوگی۔ یہ حقیقت اس خاتون کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتی کہ پندرہ برس میں ان خوبصورت پرندوں کی تعداد گھٹ کر نصف کیوں رہ گئی ہے؟ اسے کہتے ہیں ستاروں پر کمندیں ڈالنا۔شاعر مشرق اقبال ان کا یہ کارنامہ سُن لیتے تو وُہ ستاروں پر کمندیں ڈالنے کیلئے عمر کی شرط ختم کر دیتے اور اپنی محبت کا دائرہ جوانوں سے پڑھا کر بوڑھوں تک بھی وسیع کر دیتے اور غالباً عورتوں کے بارے میں اپنی اس متنازع رائے ‘پر کہ وہ محض زمرد کا گلو بند ہیں(یعنی صرف نمائشی ہیں) نظرثانی پر آمادہ ہو جاتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں