باتیں ایک سابق بادشاہ کی

آج جس بادشاہ کا ذکر ہوگا اُس نے وسط اکتوبر میں وفات پائی اور یہ کالم شائع ہوگا اَواخر نومبر میں۔ مگر یہ تذکرہ اس لئے باسی نہ ہوگا کہ بادشاہ (جو اب سلامت نہیں رہے) کا سوگ اُس کے ملک (تھائی لینڈ) میں ایک ہفتہ یا ایک ماہ نہیں بلکہ پورا ایک سال منایا جائے گا۔ بادشاہ اتنا غیرت مند اور محب وطن تھا کہ اُس کے معالجوں نے لاکھ زور دیا کہ وہ بہترین علاج کے لئے امریکہ کے John Hopking ہسپتال میں داخل ہو جائیں (جہاں امریکہ کے ہر بیمار صدر کا علاج ہوتا ہے۔ بشرطیکہ وہ بش کی طرح ذہنی مریض نہ ہو) مگر بادشا نہ مانا۔ بنکاک کے سب سے اچھے ہسپتال میں علاج کروانے پر آخری وقت تک بضد رہا اور اپنے کسی مشیر (جو اکثر غلط مشورہ دیتے ہیں) یا وزیر (جو اکثر باتدبیر نہیں ہوتے) کی نہ مانی۔ بادشاہ کا آخری وقت آیا تو ہسپتال کے باہر ہزاروں افراد نے دن رات دھرنا (اب تو یہ لفظ ہی ہنگامہ آرائی کے مترادف بن گیا ہے) دیا ۔بادشاہ کی رعایا کے اتنے افراد کئی ہفتہ ہسپتال کے باہر اپنے محبوب فرماں روا کی صحت یابی کے لئے دعائیں مانگتے رہے جتنے کئی ممالک کے بد نصیب بے زبان اور اور ستائے ہوئے لوگ اپنے بے حد غیر مقبول حکمرانوں کی جلد از جلد وفات کی دعا مانگتے ہیں تاکہ اُن کی جان چھوٹے۔ وہ بے چارے یہ نہیں جانتے کہ برُے حکمران کا جانشین اُس سے بھی زیادہ برا ہوسکتا ہے۔ (اور اکثر ہوتا ہے)۔ دُور کیوں جایئے۔ خود ہمارے ملک میں جنرل ایوب (جسے میں عیوب لکھتا ہوں) خاں کو پاکستانی عوام نے کافی بے عزت کر کے اقتدار کی مسند سے اُتارا۔ وہ جاتے جاتے اپنی جگہ (خود اپنے بنائے ہوئے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے) جنرل یحییٰ خان کو اقتدار کی گدی پر بٹھا گیا۔ لوگوں نے اُس کے کمالات دیکھے تو اُنہیں عیوب خان کی خوبیاں یاد آنے لگیں اور وہ کہنے لگے کہ آنے والے سے جانے والا ہی بدرجہا بہتر تھا۔اب آگے چلتے ہیں۔ قائدعوام ہونے کے باوجود بھٹو صاحب نے انتخابی دھندلی کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔ وہ عوامی مقبولیت سے محروم ہوئے تو سارے خرگوش اپنے اپنے بلوں سے باہر نکل آئے اور شیر بن کر دھاڑنے لگے۔ زبردست احتجاجی تحریک چلی۔ اتنی زبردست کہ بی بی سی کے نشریہ کے مطابق ماسوائے گھڑیوں کے پاکستان میں اور کوئی چیز حرکت پذیر نہ تھی۔ اُن کی جگہ جنرل ضیاء الحق نے لی۔ اُن کا دس سالہ عہد اقتدار اس طرح ختم ہوا کہ اُن کے قریبی ساتھیوں نے اُن کا ہوائی جہاز فضا سے زمین پر اس طرح گرا کر پاش پاش کر دیا کہ دیکھنے والوں کو حادثہ کا گمان گزرے۔ اُس نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر پاکستان کو افغان جنگ کی آگ میں اس طرح جھونک دیاکہ اتنے سال گزر جانے کے باوجود ہم اُس میں بدستور جل رہے ہیں۔ پھر ہمیں بھٹو صاحب کے قابل تعریف کارنامے یاد آنے لگے۔ سپریم کورٹ کا سزائے موت برقرار رکھنے کا فیصلہ عدالتی قتل تصور ہونے لگا۔ہمیں دلائی کیمپ سے لے کر بلوچستان میں فوج کشی اور خانہ جنگی تک سب کچھ بھول گیا۔ اُن کی نیکیاں یاد آئیں تو پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا سہرا اُن کے سر باندھا گیا وغیرہ وغیرہ۔ اجازت دیجئے کہ میں یہاں ایک عامیانہ فلمی گیت کا ایک بول لکھوں (چونکہ میں اسے لکھنے کی غیرشائستہ خواہش پر قابو نہیں پاسکتا) ع
تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد
تھائی لینڈ کے بادشاہ نے 86 سال کی عمر پائی جس میں تخت نشینی کا عرصہ 70 سال تھا۔ وہ اپنے ملک کے آئینی سربراہ تھے جنہوں نے اپنے نظام حکومت کو بددیانت جرنیلوں اور بے اُصول سیاست دانوں سے تقریباً تین چوتھائی صدی تک ہر ممکن طریقے سے بچانے کی جدوجہد جاری رکھی۔ تھائی لینڈ میں بادشاہت کو اتنا خدائی اور رُوحانی درجہ دیا جاتا ہے (حسابی اعتبار سے پور انہیں تو آدھا) کہ Lese Majeste آئین کے تحت شاہی خاندان کے افراد کے کردار پر شخصی تنقید نہیں کی جا سکتی۔ 1973 ء کی بات ہے جب مرحوم بادشاہ نے دو فوجی آمروں General Thanom Kitti Kachokn اور General Praphas Chraru Sathien (جو شخص یہ دو نام درست بول کر دکھا سکے گا وہ مجھ سے دو پائونڈ نقد انعام پائے گا) کی حکومت کا تختہ اُلٹنے میں عوامی تحریک کا ساتھ دیا۔ 1992 ء میں بادشاہ پس پردہ رہ کر ڈوریاں ہلانے کی بجائے منظر عام پر آیا اور اُس نے ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کر کے ایک فوجی جرنیل اور ایک بڑے سیاست دان کے درمیان زبردستی صلح کروائی۔ یہ تو تھا بادشاہ کا قابل صد تعریف سیاسی کردار۔ مگر بادشاہ نے خیراتی کاموں میں بھی جو نمایاں کردار ادا کیا وُہی اُس کی مقبولیت اور ہر دل عزیزی کو چار چاند لگانے کا ذمہ دار تھا۔
جون1946 ء میں (آج سے 70 سال پہلے) تھائی لینڈ کا مرحوم بادشاہ (نام Bhomibol تھا) بڑے غیر دوستانہ ماحول میں تخت پر بیٹھا۔ اُس کے بڑے بھائی (King Ananada) کو پرُ اسرار طور پر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ شک و شبہات نے پانی کو اتنا گدلا کر دیا تھا کہ چھوٹے بھائی پر اپنے بڑے بھائی کے قتل کی سازش میں شامل ہونے کی افواہ بھی گردش کرنے لگی۔ لارڈ مائونٹ بیٹن کے مشورہ پر برطانیہ کے اُس وقت کے بادشاہ (جارج ششم) نے تھائی لینڈ کے نئے بادشاہ کو اپنی سرکاری رہائش گاہ (Buckinghan Palace ) میں مہمان بننے کی دعوت منسوخ کر دی ۔
70 سال گزر گئے تو بادشاہ کی وفات پر دُنیا بھر میں برطانوی پرچم (یونین جیک) سرنگوں کر دیئے گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ کتنے زخم (چاہے وہ کتنے گہرے ہوں) بھر جاتے ہیں۔ یہ اس کی چھوٹی سی مثال ہے۔ وفات پا جانے والا بادشاہPrince Mohidol Songkhla کے 77 بچوں میں سب سے کم ایک تھا۔ (کل بیویوں کی تعداد 92 تھی)۔ مرحوم بادشاہ کا باپ اپنے زمانے میں باغی سمجھا جاتا تھا۔ جس نے عمر کا زیادہ عرصہ بیرون ملک گزارا۔ اُس نے مغربی لندن کے مشہور پبلک سکول Harrow (جہاں جواہر لال نہرو نے بھی سکول کی تعلیم مکمل کی ) جرمنی کی کئی فوجی درسگاہوں اور آخر میں امریکہ کی شہرئہ آفاق یونیورسٹی Harward کے میڈیکل سکول میں تعلیم پائی اور شادی غریب گھرانہ کی ایک خاتون (جو پیشہ کے اعتبار سے نرس تھی)سے کی۔ بادشاہ امریکہ میں پیدا ہوا (جہاں اُس کے والدین ایک عرصہ سے مقیم تھے)۔ مگر وہ اُس بچے کی پیدائش پر تھائی لینڈ منتقل ہو گئے۔ یہ تبدیلی بادشاہ کے والد کو ہر گز راس نہ آئی۔ چونکہ وہ صرف دو برس بعد جہان فانی سے کوچ کر گیا۔ Anandaنے ولی عہد کا عہدہ سنبھال لیا تاکہ وہ اپنے چچاKing Prajadhhipir کی زندگی کے بعد اُس کا تاج و تخت سنبھالے۔ 1932ء میں رُونما ہونے والے Coup نے مطلق العنان بادشاہت کا خاتمہ کر کے آئینی بادشاہت کی داغ بیل ڈالی تو برخاست کر دیا جانے والا بادشاہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ سوئٹزرلینڈ میں جھیل کے کنارے آباد خوبصورت شہر Lausanne ہجرت کر کے چلا گیا اور وہاں گمنامی کی زندگی اختیار کر کے آرام و آسائش سے رہنے لگا۔ دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو برطانیہ کی رائل ایئر فورس کی ایک خصوصی پرواز نے شاہی خاندان کو حفاظت سے تھائی لینڈ پہنچا دیا۔ 
وہاں صرف چھ ماہ گزرے تھے کہ شاہی خاندان پھر شدید بحران کے بھنور میں پھنس گیا اور وہ یوں بلکہ بادشاہ (Ananda) کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ ولی عہد (جس نے یہ ذمہ داری صرف ایک دن پہلے سنبھالی تھی) کو ساری جنگ عظیم کے دوران قتل کے جرم میں ملوث ہونے کے الزام میں زیر حراست رکھا گیا۔ یہ تھے وہ ہنگامی حالات جس میں Bhomibolنامی 18 سالہ شہزادے کوبااثر درباریوں نے اتفاق رائے سے تخت پر بٹھا دیا۔ 
تھائی لینڈ میں بادشاہت کا ادارہ اتنی مصیبتوں میں گھرا ہوا تھا کہ بادشاہ تاجپوشی سے صرف دو ماہ بعد سوئیٹرزلینڈ واپس چلا گیا تاکہ وہ قانون اور پولیٹیکل سائنس کی تعلیم حاصل کرنے کے بہانے اپنی جان کی حفاظت کر سکے۔ 1950 ء میں اپنے دیس واپس جانے تک بادشاہ نے چار کام کئے۔ Saxophone نامی (شہنائی کی قسم کا ) آلہ موسیقی بجانا سیکھا۔ تیز کار چلانے کا مشغلہ اختیار کیا (جس کے حادثہ میں ایک آنکھ جاتی رہی)۔ کیمرہ سے تصویر اُتارنے کے رُموز سیکھے اور پیرس میں تھائی لینڈ کے سفیر کی خوبصورت بیٹیSirikit سے شادی رچائی۔ 1950 ء سے لے کر 2016ء تک (پورے 66 سال) بادشاہ کو اُس سیاسی خار زار میں چلنا پڑا۔ جس پر اُن فوجی آمروں کا صرف غلبہ نہیں بلکہ قبضہ تھا۔ ان جرنیلوں نے تین ذرائع سے اربوں ڈالر کمائے۔ طوائفوں کی سرپرستی اور منشیات کو تجارت اور امریکی حکومت کی فیاضی جو اس کے ملک کو اشتراکی سیلاب کے آگے ایک بند سمجھتی تھی۔ تھائی لینڈ کے وفات پاجانے والے بادشاہ کے قریب ترین دوستوں میں بلجیم کا بادشاہ (Baudouin) شامل تھا۔ جو اسے ہمیشہ اچھے مشورے دیتا رہا۔ دونوں دوست ایک دُوسرے کو باقاعدگی سے طویل خط لکھتے رہتے تھے۔ 1971 ء میں لاکھوں طلباء اُس انقلابی تحریک کا ہر اول دستہ تھے جو فوجی آمریت کے خلاف ایک ایسا طوفان بن کر اُبھری جس کو فوجیوں کی اندھا دھند فائرنگ سے درجنوں ہلاکتیں بھی ختم نہ کر سکی۔ بادشاہ نے اپنے ذاتی ریڈیو اسٹیشن سے نشریات کر کے رائے عامہ کو اتنا متاثر کیا کہ فوجی آمروں اور اُن کے ساتھیوں کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ آٹھ سال قبل بادشاہ نے شاہی آداب کو بالائے طاق رکھ ہوئے آمریت کے خلاف لڑتے ہوئے جان دینے والے مظاہرین کی آخری رسومات میں حصہ لیا۔ مرنے والے بادشاہ کی زندگی ہر قسم کے سیکنڈل سے پاک تھی۔ مگر افسوس کہ اُس کا جانشین اس معیار پر ہر گز پورا نہیں اُترتا۔ 2017 ء میں اُس ملک کے لوگوں نے ولی عہد بہادر کی گھریلو زندگی کے بارے میں بڑی وحشتناک ویڈیو فلم دیکھی۔ ہونے والی ملکہ قریبا بے لباس نظر آرہی تھی۔اور اپنے اُس Foo Foo نامی پالتو کتے کے ساتھ مل کر بڑے مزے سے آئس کریم کھا رہی تھی۔ جس کو اُس کے زن مرید شوہر نے ایئر چیف مارشل کے عہدے پر فائز کیا ہوا تھا۔ کیا ہر قوم کو وہ راہنما ملتے ہیں جس کے وہ حق دار ہوتی ہے یا راہنما اپنی قوم کا کردار متعین کرتے ہیں؟ یقینا میری اپنی رائے ہے۔ مگر میں اُس کا اظہار کرنے کی بجائے فیصلہ اپنے قارئین پر چھوڑتا ہوں۔ ہمارا ملک معرض وجود میں آیا۔ تو جناب قائداعظم سربراہ مملکت تھے۔ ڈھلوان پر پھسلنے کا جو عمل ملک غلام محمد ،سکندر مرزا،فضل الٰہی چوہدری سے شروع ہوا۔ وہ جنرل ضیاء الحق اورجنرل پرویز مشرف سے ہوتا ہوا آخر جناب ممنون حسین تک جا پہنچا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں